الأربعاء، يناير 30، 2013

دنیا مسلمان ہور ہی ہے


 ثناء اللہ صادق تیمی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی 
سرخی دیکھ کر تعجب کا پیدا ہو جانا بہت فطری ہے ۔جہاں ایک طرف پوری دنیا اسلام کو بدنام کرنے کی انتھک کوشش کر رہی ہو ،قدم قدم پر اسلام کی راہ میں روڑ ے اٹکا ئے جارہے ہوں ، اسلام کے نام لیواؤں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے سارے جتن کیے جارہے ہوں ،اسلام اور مسلمانوں سے جڑی ہوئی ہر ایک چیز بے وقعت یا خطرناک سمجھی جارہی ہو اور اللہ کے آخری دین کے نمائندے بظاہر ہر سطح پر پسپائی اختیار کر رہے ہوں ۔وہاں دوسری طرف کسی شخص کا یہ کہنا کہ دنیا مسلمان ہو رہی ہے دیوانے کا بر یا شیخ چلی کا خواب ہی نظر آتا ہے ۔لیکن یہ اتنا غیر متعلق بھی نہیں ہے ۔
یہاں یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ دنیا کے مسلمان ہو نے کا مطلب یہاں پر یہ نہیں ہے کہ لوگ دین اسلام قبول کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں ۔ہر چند کہ یہ ایک بہت بڑی سچائی بھی ہے اور بڑی تیزی سے خاص طور سے پڑھے لکھے لوگ اسلام کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور اللہ کا کلمہ بلند ہو رہا ہے ۔کفر و شرک کی غلاظتیں لوگوں پر ظاہر ہورہی ہیں ، خدا بیزار نظام حیات کا کھوکھلاپن سامنے آرہاہے اور امن و سکو ن اور مسائل حیات کا واقعی حل ڈھونڈنے والے اللہ کے دین کوقبول کرنے پر مجبور ہورہے ہیں ۔اور اہالیان کفر وشرک اور شیطنت کے خیمے میں ہلچل مچی ہوئی ہے کہ آنے والے وقت میں خود یوروپ کے اندر اسلام کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ ہو جائیگی ۔ہندوستان کے تناظر میں دیکھیے تو آر۔ایس ۔ ایس اور اس جیسی ہندو انتہا پسندتنظیموں کو بھی یہ ڈر ستاتاہے کہ آنے والے وقت میں مسلمان ہندوستان کی اکثریت میں آجائیگا۔ہاں ہندوستان کی یہ انتہاپسند تنظیمیں اس کا سبب مسلمانوں کی کثرت تولید اور انجاب کو بتلاتی ہیں ۔جو بلا شبہ ایک لغو بات ہے ۔ یہاں پر یہ کہنے کا مطلب کہ دنیا مسلمان ہو رہی ہے یہ ہے کہ دنیا چار و ناچار اسلام کی سچائیوں کو تسلیم کررہی ہے ۔وہ زبان سے بھلے قبول نہ کرے لیکن تسلیم کررہی ہے کہ اسلام ہی میں نجات ہے ۔اس دعوے کو کئی سطحوں پر دلائل و براہین سے ثابت کیا جاسکتاہے ۔
پچھلے دنوں دہلی میں گینگ ریپ(اجتماعی عصمت دری ) کا ایک واقعہ پیش آیا ۔اس پر مختلف قسم کی آراء سامنے آئیں ۔ لیکن جو رائے سب سے مضبوط تھی وہ یہ تھی کہ خواتین پردے کا التزام کریں اور زانی کو سعودی عرب کی طرح پھانسی کی سزادی جائے بلکہ یہ بات بھی کہی گئی کہ نصاب تعلیم میں اخلاقیات کو باضابطہ طور پر داخل کیا جا ئے ۔تبھی جاکر اس مسئلے کا حل نکل سکتا ہے ۔یہاں یہ بتلانے کی ضرورت نہیں کہ اسلام کا اس سلسلے میں موقف کیا ہے ؟بلکہ بہت سے مفکرین اور سماجی خدمت گاروں نے تو باضابطہ طور سے اس معاملے میں اسلامی شریعت کےنفاذ کا مطالبہ تک کیا۔خواتین کی بہبودی سے جڑی خواتین کے ہمراہ بہت سے سوامی حضرات کا ماننا یہی ہے کہ اس معاملے میں اسلام ہی بہتر اپائے (حل) پیش کرتا ہے ۔
THE HINDU میں چھپی رپورٹ کے مطابق دلی ہائی کورٹ کے ججوں کا ماننا ہے کہ زنا بالجبر سمیت اور دوسری سماجی اور اخلاقی برائیوں کی بنیادی وجہ شراب نوشی ہے ۔اس لیے قانون کو اس سلسلے میں بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔اسلام کا مانناہے کہ شراب نوشی برائیوں کی ماں ہے ۔ہندوستانی سنیماکے مشہور ادا کار عامر خان کے ٹی وی پروگرام SATYA MEV JAYATE'سچ ہی کی جیت ہوگی ' کو بڑا شہرہ ملا اورظاہر ہے کہ ایک فلم اسٹار کا کچھ اس قسم کےپروگرام کا پیش کرنا اپنے آپ میں ایک قابل ذکر واقعہ ہے ہی۔اس کے اندر جہاں بہت سی سماجی برائیوں سے پردہ اٹھایا گیا اور ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی وہیں شراب کی تباہ کاریوں کی تفصیلات بھی بتلائی گئیں اور ایک دن کا پورا پروگرا م اسی موضوع پر رکھا گیا ۔فلم جگت کی ایک دوسری مشہور شخصیت جاوید اختر بھی اس پروگرام میں شریک تھے ۔ انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ زندگی کی ہر بڑی غلطی ان سے شراب کی حالت میں سرزد ہوئی۔ا سلام شراب کو ام الخبائث کہتاہے ۔ اور سمجھا جاسکتاہے کہ آج دنیا بہ شکل دگر ہی سہی یہ تسلیم کر رہی ہے ۔
ابھی تین چار سالوں قبل دنیا ایک بڑے مالی بحران سے دوچار ہوئی ۔ امریکی معیشت کی کمر ٹوٹ سی گئی ۔ عالمی سطح پر بے روزگاری کے سنگین مسائل نے جنم لینا شروع کردیا ۔ معیشت کی دنیا کے بڑے بڑے دماغ پھسڈی ثابت ہوگئے۔اب اس کے اسباب کا پتہ لگایا جانے لگا تو بنیادی طورسے دو باتیں ابھر کر سامنے آئیں ۔ ایک تو یہ کہ سودی نظام کی وجہ سے یہ سارے مسائل پیدا ہوئے اور دوسرے یہ کہ مال کے احتکار و ادخار اور صرف چند افراد کے پاس سرمایے کے جمع ہو جانے کے سبب یہ خطرناک منظر سامنے آیا ۔اسلام نے سود کو حرام قراردیا اور مال صرف مالداروں کے پاس نہ رہ جائے اس کے لیے زکوۃ کا نظام دیا ۔ اور یہ معلوم ہے کہ جب بیت المال کا مکمل نظام خلیفہ خامس عمر بن عبد العزیز کے زمانےمیں نافذ کیا گیا تو خوشحالی کا یہ حال تھا کہ کوئی بھی آدمی زکوۃ لینے کی پوزیشن میں نہیں تھا ۔ معیشت کی اس صورت حال کے فورا بعد اسلامی بینکنگ اور اسلامی نظام اقتصاد کی معنویت پر چرچا بڑھنے لگا اور دیکھتے دیکھتے امریکہ اور یورپ میں کئی ایک اسلامی بینک کھل گئے ۔
غم دیا جو بتوں نے تو خدا یاد آیا
چین کو ایک انسان ایک بچے کی پالیسی والے ملک کے طور بڑی شہرت حاصل ہے اور ایک زمانے تک آبادی کنٹرول کرنے کے معاملے میں اس کی مثال دی جاتی رہی ہے ۔آج کی صورت حال یہ ہے کہ وہاں اس پالیسی پر نظر ثانی کا مطالبہ بڑھتا جارہا ہے ۔ وہاں نوجوا نوں کی بجائے معیشت کا دارومدار بوڑھوں پر ہے اور یہ ا س کے لیے کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔ تبدیلی کے آثار بہت واضح ہیں ۔اور یہ طے ہے کہ یہ تبدیلی آکر رہے گی جس کی شروعات ہو بھی چکی ہے ۔ تازہ رپورٹوں کے مطابق اگر کسی کی پہلی اولاد بچی ہے تو وہ دوسری اولاد پیدا کرنے کا مجاز ہوگا۔
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا 
خاص طور سے یورپ اور امریکہ کے اندر لوگوں نے مادیت سے بیزاری کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے ۔اب وہ تھک چکے ہیں ۔ وہ سکون کی تلاش میں کبھی تصوف تو کبھی اور دوسری روحانی قدروں کی طرف مائل ہونے لگے ہیں ۔اور یہ اس بات کا اشاریہ ضرور ہے کہ وہ اپنی شکست کے معترف ہیں ۔ایسے لوگوں کا اصل اسلام تک پہنچ جانا کافی فطری ہے اور ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب وہ وہاں ضرور پہنچ جائینگے ۔ یورپی خواتین کے اندر حجاب کی طرف بڑھتا ہوا رجحان اور عصمت و عفت کے احساس میں آئی تیزی سے اس بات کا اندازہ لگانا قطعا مشکل نہیں کہ عملا ان خواتین نے اسلام کی حقانیت کو قبول کرلیا ہے ہر چند کہ وہ باضابطہ اس کا اعلان واعتراف نہ کررہی ہوں ۔
THE HINDU کے OPEN PAGE پر نوکری پیشہ خواتین سے متعلق کچھ مہینوں پہلے جس قسم کی ڈیبیٹ چلی اور جس طرح WORKING WOMEN کی اچھی خاصی تعداد نے خواتین کے خاتون خانہ ہونے کو اس کا اچھا اور قابل فخر نصیب قراردیا وہ کس طرف اشارہ کر رہا ہے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ۔
ان تمام حقائق کو سامنے رکھا جائے تو کیا یہ کہنا غلط ہے دنیا مسلمان ہورہی ہے ۔ اے کاش وہ دنیا جو مجبورا اس نعمت کو قبول کررہی ہے اپنی چاہت سے بھی قبول کر لیتی تو دین و دنیا کی ساری بھلائی اس کا مقدر ہو جاتی ۔ یہ انسان فطری تقاضوں کے مطابق تو ایسے بھی اللہ کے قوانین کا پابند ہے پھر وہ کیوں نہ اختیاری طور پر اس کو اپنا تاہے کہ سرخرو ہو جائے ۔ ساتھ ہی علماے اسلام کو کیا اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ اللہ نے اتنے سارے مواقع فراہم کردیے ہیں پھربھی وہ اپنی دعوتی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کا سامان نہیں کرتے ۔





ليست هناك تعليقات: