رحمت اللہ کلیم اللہ امواوی
- عالمی سطح پر اپنی الگ شناخت رکھنے والا ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جو کہ28ریاستوں کا مجموعہ ہے آبادی کے اعتبار سے دنیا بھر میں دوسرا مقام رکھنے والایہ ملک روز افزوں تیزی کے ساتھ ترقی کے مراحل طے کرتا جارہا ہے چونکہ یہاں انتشار میں بھی اتحاد کی آواز نکلتی ہے ،یہاں مختلف زبانوں کے بولنے والے ایک ساتھ رہتے ہیں اور مختلف مذاہب کے ماننے والے بھی اپنے مذہبی اصول پر پوری آزادی کے ساتھ گامزن رہنے کا حق رکھتے ہیں ۔فی الوقت مسلمانون کی تعداد اس ملک میں23 کڑور سے زائد ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ اس سرزمین پر مسلمانوں نے 800 سالوںتک حکومت بھی کی ہے اور ہندوستان کی زمین کو گل گلزار بنایا ہے ،اس چمن کی اپنے خون جگر سے آبیاری بھی کی ،اس کیلئے سر بھی کٹائے اور اس کی خاطر اپنے جان ومال کو بھی قربان کر دیا ۔وہ ایک ایسا زمانہ تھا جب مسلمان ہر میدان میں قیادت کر رہے تھے اور ترقی کے بام عروج پر پہونچ چکے تھے ،ہندوستان کی سرزمین پر ہندوں کو حسین و عمدہ تہذیب و ثقافت سے آشنا کرا رہے تھے ان کو طرز ہائے زندگی کا خوشنما اصول بتا رہے تھے ،زندگی گزارنے کا ڈھب سکھا رہے تھے ،مسلمانوں کا ہر طرف بول بالاتھا ،ہر کسی پر مسلمانوں کا اخلاقی رعب ودبدبہ تھا لیکن زمانے نے ایک ایسی کروٹ لی کہ مسلمانوں کی شام ہونے لگی اوربہت جلد انگریزوں کا آفتاب طلوع ہوا،ہندوستان پر فرنگیوں کا قبضہ ہوگیا اور ہندوستانیوں کے اوپر ظلم و جبر کیا جانے لگا ۔لیکن باغیرت ہندوستانیوں کو غلامانہ زندگی ہر گز پسند نہ تھی جن میں زیادہ تر مسلمان تھے ،ان حضرات کے دلوں میں آزادی کی چنگاڑی پھوٹ رہی تھی مگر یہ چنگاڑی بہت جلد شعلہ میں نہی بدل سکی ،لیکن جب انگریزوں کا ظلم و جبر حد سے تجاوز کر گیا تو یکا یک آزادی کیلئے دلوں میں اٹھ رہی چنگاڑی شعلہ فشاں ہوئی اورایک آن میں انگریز حکومت کو خاکستر کر دیا اور ہندوستان پھر سے آزاد ہو گیا ۔تاریخ شاہد ہے کہ اس جنگ آزادی میں مسلمان بھی برابر کے شریک رہے اور اپنا لہو بہا کر اس سرزمین کو آزادی کا تحفہ دیا ۔آزادی کے فوراً بعد ایک عظیم سانحہ ہند وپاک کے بٹوارے کا رونما ہوا ،مولانا ابو الکلام آزاد دلی کی جامعہ مسجد سے مسلمانوں کو ہندوستا ن چھوڑنے سے روکتے رہے چونکہ وہ جانتے تھے کہ اتحاد کی قوت کیا ہوتی ہے اور اگر ہم ہند و پاک دو ملکوں مین منتشر ہوجائینگے تو پھر ہماری طاقت کمزور ہو جائیگی اور محکوم بن جائینگے ،لیکن ابولکلام آزاد کی بات کا بہت کم اعتبار کیا گیا اور مسٹر جناح کی قیادت میںمسلمانوں کی اکثریت پاکستان ہجرت کر گئی اور بہت کم تعداد ہندوستان میں باقی رہ گئے ۔آزادی کو اب65 سال ہوگئے ہیں لیکن اس مدت میں ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ کیا کچھ ہوا اور کیا سب کیا گیا ان تمام چیزوں کو پڑھنے اور سننے کے بعد رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ،جمہوریت کے نام پر اقلیت جان کر مسلمانوں کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا اس جمہوریت شرما اٹھی اور مسلمانوں کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا اس سے انسانیت گھبڑا اٹھی ۔الغرض مسلمانوں کو ہر محاذ پر کمزور کرنے کی کو شش کی گئی ،اقلیت کہ کہ کرکے ہمت و طاقت چھین لی گئی اور کمزورجان کر مذہبی آزادی تلف کر لی گئی اور ساتھ ہی ساتھ ناقابل سمجھ کر سیاسی میدان میں حاشیہ نشیں بنا دیا اور فی الحال مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ بھی سب کے سامنے ظاہر وباہر ہے ۔
- سیاسی حالات:فی الحال ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کی جو شراکت ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے اور مسلم سیاسی قائدین کی اتنی تعداد ہے کہ انہیں با آسانی انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے ۔آزادی کے بعد سے اب تک صرف ایک ہی مسلم قائد ابوالکلام کی شکل میں پیدا ہوا جو پارلیمنٹ میں ببانگ دہل اپنی بات اور اپنی زبان بولتے تھے اور امت مسلمہ کے مسائل کو اٹھایا کرتے تھے تاکہ مسلمانوں کو بھی اس ملک میں کسی طرح کی پڑیشانیاں نہ اٹھانی پڑے ۔ان کے بعد سے اب تک کوئی قائد اور سیاسی لیڈر تاریخ میں نظر نہیں آتا جنہوںنے مسلمانوں کے درد کو سمجھا ہو اور ایوان بالا وایوان زیریں میں ان کے مسائل اٹھائے ہوں اور مسلمانوں کے ظلم پر آنسو ں بہاتے ہوئے ان کے دکھ درد اور غم بانٹنے کی کوشش کی ہو ،بلکہ ہر کسی نے صرف اور صرف اپنی اور اپنے پارٹی کے مفاد کی بات کرتا رہا ہے ،مسلمانوں کا نمائندہ ہوکر بھی انکے مسائل کو حکومت کے سامنے پیش کرنے کی کوشش نہی کرتے ،لیکن جب الیکشن کا وقت ہوتا ہے تو اپنے بھائیوں سے ایسے ایسے وعدے کرتا ہے گویا وہ کل جیتنے کے بعد ان کی زندگی میں چار چاند لگا دینگے اور بے چارے سیدھے سادھے مسلمان ان کے بہلاوے میں آکر انہیں اپنا نمائندہ چن لیتے ہیں اس کے بعد یہی لوگ اپنے عوام سے کیے ہوے وعدوں کو بدن پے لگے ہوئے غبار کی طرح جھار دیتے ہیں یہ رویہ جہاں غیر مسلم لیڈروں کا ہے وہیں مسلم نمائندوں کابھی۔ایک دوسری کمزوری مسلمانوں کی سیاسی میدان میں یہ رہی کہ اب تک ہندوستان کی سرزمین پر مسلمانوں کی کوئی معتبر پارٹی ابھر کر سامنے نہیں آئی،البتہ دو چند مسلم لیڈران ہندوستانی وزارت میں دیکھنے کو ملتے ہیں جو ایسی پارٹی سے ہیں جن کے منشور میں مسلمانوں کی کمر توڑے رکھنا بھی شامل ہے۔
- سماجی حالات: یہ بات حقیقت بر مبنی ہے کہ کل تک مسلم سماج ومعاشرے کی پہچان ہماری خوبیوں اور اچھائیوں کے ذریعے ہوا کرتی تھی ،ہمارا سماج و معاشرہ ہر قسم کے خرافات سے مبرا تھا ،صبح ہوتے وقت گھروں سے تلاوت کلام اللہ کی بھینی بھینی صدائیں بازگشت کرتی تھیں ،صفائی ستھرائی کو نصف ایمان جان کر اس کا پورا خیا ل کیا جاتا تھا ،شرم و حیا ءکا یہ عالم تھا کہ معاشرہ اس پر ناز کناں تھا ،لوگ باہمی ہمدردی کو فروغ دیا کرتے تھے ،اسلامی اصول پر ہمارا سماج و معاشرہ گامزن تھا ،لوگ ایک دوسرے کے ہمدرد و بہی خواہ تھے ،اتحاد و اتفاق کا ایسا حسین منظر دیکھنے کو ملتا کہ اب نظریں ترس رہی ہیں لیکن مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ سماج کی خوبیاں بھی مرور کر گئیں ،اور آج مسلم سماج و معاشرے کی جو حالت اور جو علامت ہے اس دیکھ کر آدمی تشویش میں پر جاتا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا وہی مسلمانوں کا سماج ہے جو کل تھا ؟جہاں کل نصف ایمان کا درجہ جان کر صفائی و ستھرائی کا پورا اہتمام کیا جاتاتھاآج وہیں مسلم معاشرے میں گندگیوں کا ہونا اس قوم کی علامت بن گئی ہے ،جہاں لوگ کل خود دارو خود مختار ہوا کرتے تھے اور محنت ومشقت سے باعزت حلال روٹی کما کر کھاتے تھے آج مسلم معاشرے سے ہر روز صبح صبح فقیروں کا جتھا نکلتا ہے اور کاسئہ گدائی لیے جگہ جگہ بھیک مانگتا پھرتا ہے ،جہاں کل مسلم معاشرے میں پردے کا پورا اہتما م کیا جاتا تھا آج اس کے برعکس عریانیت و فحاشیت عروج پر ہے ، بے پردگی اور بے حیائی کا بول بالا ہے ،خواتین کے سر سے آنچل اور دوشیزاﺅں کے بدن سے لباس ہٹتا جارہا ہے ،لوگوں نے اپنے غیرت وحمیت کا سودا مغربی تہذیب سے کرلیا ہے اور عزت وعفت کو مغربی ایجادات سے بیچ دیا ہے جس کی وجہ سے زناکاری،کوٹ میرج اور غلط تعلقات پروان چڑھ رہے ہیں ،معاشرے میں نئی نسلوں کو محفوظ رکھنا محال ہوگیا ہے ،اس کے ساتھ ہی جہاں کل مسلم علاقوںسے صبح صبح تلاوت کلام پاک کی آواز نکلتی تھی آج اسکے بر عکس موسیقی کے ذریعے انکی صبح ہوتی ہے ،جہاں کل تک اسلامی جلسہ گاہوںاور درسگاہوں میںبیٹھ کر اسلامی خطبات سنا کرتے تھے آج سینما ہال میں بیٹھ کر مسلم نوجوان شہوانیت بھڑکانے والی ویڈیو اور خواہشات کو بر انگیختہ کرنے والے گانوں کو سنا کرتے ہیں ،اسلامی تقاریر و تلاوت قرآن کی جگہ فحش گانے سنے جارہے ہیں ،جلسہ وتقریری پروگراموں کی جگہ ناچ گانے کاپروگرام منعقد کیا جارہا ہے ۔اس کے علاوہ مسلم سماج میں چوری ڈکیتی ،لوٹ گھسوٹ اور مار پیٹ سر عام ہورہا ہے ،اسلامیات اور اسلامی تعلیمات کا دور دور تک سائبہ نظر نہیں آتا ،اور ایک بہت بڑی حقیقت یہ بھی ہے کہ مغرب نے مسلمانوں کو اسلامیات سے دور کرنے کا خواب دیکھا تھا جس آج وہ شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھ رہا ہے ،اگر دو لفظوں مین مسلم سماج و معاشرے کی تعریف کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دور مسلم سماج کے اندر جہالت کا دور ہے جس کو ہم ترقی کانام دے کر خوش فہمی کے شکار ہیں ۔
- اخلاقی حالات: موجودہ دور میں مسلمانوں کے اخلاق کا اگر تجزیہ کرنے جائیں گے تو آپ یقینا انگشت بدنداں ہوجائیں گے اور یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ کیا یہ وہی محسن انسانیت کے پیروکار ہیں جن کا اخلاق رہتی دنیا کے لیے مشعل ہے ؟اور کیا یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کو اخلاق حسنہ کا درس دیا تھا ؟ یقیناً آپ تشویش میں پر جائیں گے اور آپ کو گمان بھی نہیں ہوگا کہ مسلمان اخلاقی اعتبار سے اتنے گرجائیں گے۔
- موجودہ دو ر میں مسلمانوں کی جو اخلاقی حالت ہے واقعتا ناگفتہ بہ ہے ،ان کے یہاں ادب و احترام نام کی کوئی چیز ہی نہی ہے ،ایک دوسرے کے حقوق تلف کرنے میںلوگ کامیابی سمجھ رہے ہیں ،والدین کو ایک عام فرد کا مرتبہ دیتے ہیں ،باہمی مارپیٹ ،قتل و خونریزی اور مادیت کی خاطر رشتے ناطے کو پامال کرنا ایک عام فعل بن گیا ہوا ہے،چھوٹے بڑے سبھوں کے ساتھ بے ادبی اور بد تمیزی میں کوئی قباحت نہیں،پڑوسی کا کوئی خیال نہیں ،کمزوروں پر ظلم کرنا ان کا شیوہ بن گیا ہے اورہر برا فعل ان کے اخلاقیات میں شامل ہے جبکہ اسلام نے ان تمام چیزوں کے بارے میںسب سے عمدہ تعلیمات پیش کیا ہے لیکن یہ سب صرف اب کتابوں تک محدودہے ،زندگی میں نفاذ ایک قصہ پارینہ بن گیا ہے ۔
- تعلیمی حالات: ہندوستان کی سرزمین پر تیئس کڑور سے زائد مسلمانوں کی آبادی ہے اس کے باوجود مسلمانوں کی تعلیمی حالت کافی خراب ہے اور تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ جس مذہب کا آغاز ہی حصول تعلیم کی تلقین سے ہو اور جس مذہب کے اندر تعلیم حاصل کرنا مذہبی اور قانونی حق ہو اس دین کے ماننے والوں کے اندر تعلیمی میدان سے نا کے برابر رغبت پائی جاتی ہے ۔لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اس ملک میں فی الحال مسلمانوں کے اندر تعلیمی بیدار ی پیدا ہوئی ہے جبکہ آج سے دس سال قبل مسلمانوں کی تعلیمی حالت بہت ہی کمزور تھی ،مسلمان اپنے بچوں اور بچیوں کو اسکول و مدرسہ بھیجنے سے کتراتے تھے چونکہ ان کا یہ ماننا تھا کہ آج لڑکا پڑھ لکھ کر کل اتنا ہی کمائے گا جتنا کہ ایک شہروں میں کام کرنے والا آدمی کماتا ہے لہذا لوگ اپنے بچوں کو اسکول و مدرسے کی جگہ باہر شہروں میں کام کرنے بھیجا کرتے تھے جس کی وجہ سے جہالت عام ہوتی جارہی تھی البتہ ابھی گذشتہ دس سالوں سے مسلمانوںمیں تعلیمی بیداری پیدا ہوئی ہے اور یہ شعور پیدا ہوا ہے کہ بچوںاور بچیوں کو تعلیم حاصل کرانا ہی دونوں کی کامیابی ہے جس کی وجہ کر مسلمان تعلیم کے تئیں بیدار مغزی کے عالم میں ہیں اور اس تیزی کے ساتھ مسلمان ترقی کرنے لگے ہیں کہ دشمنان مسلمان کی نیندیںاڑ گئی ہیں اور اس رجحان کو دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پھر سے بہت جلد ہندوستان میں مسلمانوں کا آفتاب طلوع ہوجائیگا ۔لیکن حکومت ہند کو مسلمانوں کی ترقی ایک آنکھ بھی نہیں بھا رہی ہے لہذا تعلیمی میدان میں قدم رنجاں تاریخ رقم کرنے والے مسلم نوجوانوں کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلسل بے جا گرفتار کیا جانے لگا ہے اور جیل میں رکھ کر حصول تعلیم کی عمر ختم ہوجانے کے بعد باعزت بڑی کیا جارہا ہے ۔در اصل ہند وستان کو ہندوواد بنانے والوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ مسلم نوجوان جب تعلیم یافتہ ہوجائیں گے تو ہر محاذپر وہی ہونگے اور ہماری کمر توڑنے میں ذرا برابر بھی کوتاہی نہیں کریں گے لہذ اس پہلے کے وہ ہماری کمر توڑے اسی کے کمر کو پہلے ہی کمزور کر دی جاے تاکہ نہ رہے بانس نہ باجے بانسری۔ایک دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ موجودہ حکومت امریکہ و اسرائیل کے اشارے کا محتاج ہے اور اسرائیل و امریکہ شروع ہی سے مسلمانوںکا کھلا دشمن رہا ہے اور وہ کسی دورمیں مسلمانوںکوترقی کرتے دیکھ کر خاموش نہیں بیٹھ سکتااور یہ انہیں کے اشارے کا نتیجہ ہے کہ تعلیمی میدان میں نمایا ںکامیابی حاصل کرنے والے مسلم نوجوانوں کو غلط الزام میں پھاند کر جیل کے سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جارہا ہے اس کیلئے اے ٹی ایس ،پولس کی جماعت اوربہت سی خفیہ ایجنسیاں بھی سرگرم عمل ہیںاور ملک کے ہر ریاست میں اس کا جال پھیلا ہوا ہے ،مسلم نوجوانوں کو خائف کرنے اور تعلیم سے دور کرنے کی سازش کو کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہونچانے میں اس طرح کی تنظیمیں جٹی ہوئی ہیں ،اس کے خلاف ہندوستان و بیرون ہند بھی احتجاج کیا گیا ،آواز اٹھائی گئی ،غیر معینہ بھوک ہڑتال کا گیا اسکے باوجودہندوستانی حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوااور امید بھی نہیںہے ،جوکہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہورہے ظلم سے حکومت کہیں نہ کہیں اتفاق رکھتی ہے اور شاید یہی سوچ رہی ہے کہ مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں آگے نہ آنے دیاجائے۔
- عمومی حالات: ہندوستان کی سرزمین پر مسلمانوںکا شاندار ماضی رہا ہے لیکن آزادی کے بعدسے مسلمانوں کیلئے یہ زمین تنگ ہوتی گئی اور موقع بہ موقع مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا گیا،بڑے بڑے فسادات برپا کرکے مسلمانوںکو بے گھر کر دیا گیا ،ان کے لہو سے ہولیاں کھیلی گئیں ،مسلم ماﺅں کے بڑھاپے کے سہارے اور نور نظر کوقتل کردیا گیا ۔نئی نویلی دلہن کا سہاگ اجاڑ دیا ،بے شمار معصوم بچوں اور بچیوں کو یتیم کردیا گیا اس کے علاوہ ہماری بہنوںکے ساتھ انسانیت سوز جنسی کھیل کھیلا گیا جس کی زندہ جاوید مثال مرادآبادکا فساد،گجرات کا دلدوزسانحہ ،حیدر آبادکا کرب ناک واقعہ،آسام کا حیرت انگیز فتنہ ہے جہاں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا ،مساجد ومدارس کو منہدم کردیا گیا ،اسلامی کتابوں اور اسلامی مقامات پر بینڈ لگا دیاگیا ،ساتھ ہی ساتھ مذہبی آزادی بھی سلب کر لی گئی اور مسلمانوں کی اس طرح کمر توڑ دی گئی کہ اٹھنا محال ہوگیا ۔اتنا کچھ ہونے کے باوجود اب تک دشمنان مسلمان کا پیٹ نہیں بھرا ہے اور ہر مسلمان کو ناکارہ اور نست ونابود کرنے کی تیاری میں جٹا ہوا ہے اور پورے ہندوستان کو ہندو واد بنانے کی تیاری ہورہی ہے جس کے لیے بڑی بڑی جماعتیں سرگرم عمل ہیں،جگہ جگہ فرقہ وارانہ فسادات کیے جارہے ہیں اور مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ تورے جارہے ہیںاور مسلمان دنیاوی رعنائیوں میں مست ومگن ہیں ،انتشار کے شکار ہیں اور اپنے ہونے والے کل کی بربادی کیلئے آج سوچ بھی نہیں رہے ہیں۔ضرورت ہے کہ ہم پہلے پہل اپنی اصلاح کریں ،دین سے اپنے آپ کو جوڑیں،اپنی زندگی میںمکمل اسلامی تعلیمات کو نافذ کریں،دعوة الی اللہ کو اپنا نصب العین بناتے ہوئے اتحاد واتفاق کے ساتھایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیںاوردشمنان اسلام کا دندان شکن جواب دینے کیلئے کمر بستہ ہوجائیں اگر ہم ایسا کرلیتے ہیں تو پھر وہ دن دور نہیںجب ہندوستان میں پھر سے ہمار اآفتاب نکل آئیگا اور جب دینی غیرت و مذہبی حمیت سے سرشار ہوکر نکلیں گے تو پوری دنیا میں صرف ہمارا ہی بول بالا ہوگا ۔اللہ ہمیں نیک ارادے کے ساتھ اپنی اصلاح کرنے کی توفیق دے اور صحیح فہم وادراک سے نوازے:آمین
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق