الجمعة، يناير 11، 2013

کیا ہے دہشت گردی کا معیار؟


رحمت کلیم امواوی


اجمل قصاب کو پھانسی دیے جانے کا واقعہ ابھی پرانا نہیں ہوا ہے وہ نیا ہی ہے ہم اس پر ہندوستانی عدلیہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور مبارک باد دیتے ہیں کہ معصوموں کی جان لینے کے پاداش میں ہماری عدالت نے بھی اس سے جینے کا حق چھین لیا جو کہ بر حق ہے،اس پیمانے پر ہر کوئی یہاں تک بآسانی پہونچ جاتا ہے کہ قتل و غارت گری کے ملزمین سولی جیسی سزا کے مستحق ہیں ۔لیکن ایک وسوسہ جو میرے ذہن میںاس پیمانے اور قانون کو لیکر پیدا ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے کہ آخر یہ سزا جو قتل وخونریزی جیسا جرم کرنے والوں کیلئے مقرر کی گئی ہے کیا صرف انہیں لوگوں کیلئے ہے جو غیر ملکی ہیں ،یعنی دوسرے ملک سے آکر اس ملک میں دہشت بپا کرتے ہیں ان لوگوں کیلئے یہ سزا مختص ہے کہ انہیںسولی پرچڑھا دیا جائے ؟میرے حساب سے جمہوری ملک میں ایک ہی جرم پر ایک کیلئے الگ اور دوسرے کیلئے الگ سزا نہیں ہوگی۔پھر ایک دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب جمہوری ملک میں ایسا قانون نہیں ہوسکتا تو پھر گجرات میں نہ دیکھی جانے والی قتل و غارت گری کرنے والوںکو یہ سزا کیوں نہیں دی جا رہی ہے،مرادآباد کے ملزمین کیوں آزاد ہیں،بابری مسجد شہید کرنے کے جرم میں چالیس لوگوں کا نام بحیثیت مجرم لبراہن کمیشن کی رپورٹ میں درج ہے جس میں اڈوانی،اوما بھارتی،مرلی وجئے،اشوک سنگل جیسے لو گ بھی شامل ہیں لیکن حکومت و عدالت کی نظر میں صرف یہ لوگ معصوم ہی نہیں محبوب بھی ہیں اور انہیںزنداںمیں دھکیلنے کی بجائے وزارت کی کرسی پر بیٹھایا جاتا ہے، مسلمانوں کی معروف عبادت گاہ بابری مسجد کی شہادت بھی ریاستی حکومت کے زیر اثر نہیں بلکہ مرکزی حکومت کے اشارے پر ہوئی ،نرسمہا راو اپنے بنگلے سے سارا نظارہ دیکھتے رہے لیکن دفاعی قدم اٹھانے کی زحمت نہ کی جس کی وجہ سے یہ جگ ظاہر ہوگیا کہ ان کا بھی ہاتھ مسجد کے انہدام میں تھا،گجرات میں نریندر مودی ہندوں کو کھل کر پیاس بجھانے کااشارہ کرکے انسانیت سوز کھیل دیکھ رہے تھے لیکن مسلمانوں پر ترس نہیں کھایا ،لاتعداد مسلمان ہمیشہ کیلئے موت کی گود میں سو گئے ،لیکن ہندوستانی عدلیہ انہیں مجرم ثابت کرنے سے قاصر رہی ،اب یہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ آخر اس ملک میں دہشت گردی کا معیار کیاہے؟کیونکہ جب ایک مسلمان اپنے بیتے ہوئے درد کو الفاظ کا جامہ پہنا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور اپنے ساتھ ہو رہی نا انصافی کو آواز دیتا ہے تو اسے مشتعل اور منافرت پھیلانے والا فرد ثابت کرکے گرفتارکر لیا جاتا ہے اور وہیںدوسری طرف مسلمانوں کو کھلے لفظوں میں گالی دیتا ہے اور پاکستان جانے کی دہائی دے کر مسلمانوں کی قربانیوں کو ٹھیس پہونچاتا ہے تو اسے کچھ نہیں کہا جاتا، جب ایک مسلمان اپنی مذہبی آزادی کا پورا استعمال کرتے ہوئے دعوتی سفر پر نکلتا ہے تو اسے طالبان کا ایجنٹ بتا کر دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور وہیں ببانگ دہل آسام میں فساد کرنے والے حکومت کی نظر میں محبوب گردانے جاتے ہیں،اب ہر کوئی یہاں آکر پھنس جاتا ہے کہ آخر اس ملک میں دہشت گردی کا معیار ہے کیا؟کس بنیاد پر کس کو دہشت گرد کہا جاسکتا ہے یہ ایک معمہ ہے جو سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ۔لیکن پھر بھی ایک محاورہ ہے جو شاید یہ بتانے میں معاون ہورہا ہے کہ اس ملک میں دہشت گردی کا معیار کیا ہے ،محاورہ آپ بھی جانتے ہیں کہ ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘ہمیں کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کوئی مستقل رائج الوقت سبھوں کیلئے ایسا معیار نہیں ہے جس پر اگر آپ پورا اترتے ہیں تو آپ دہشت گرد،اگر کوئی دوسرا اس پر پورا اترتا ہے تو پھر وہ دہشت گرد۔بلکہ یہاں مسلمانوں کے علاوہ کسی دوسرے کیلئے دہشت گردی کا لفظ جرم ہے ہی نہیں ،اگر کوئی دہشت گرد ہے تو وہ مسلمان ہے اور اگر کوئی دہشت گردی پھیلاتا ہے تو مسلمان ہے۔بلکہ ایک سیاسی رہنما کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر مسلمان دہشت گرد نہیں ہے لیکن ہر دہشت گرد مسلمان ہے۔اب سوچنے سمجھنے کی بات یہی رہ جاتی ہے کہ ہم خود سے اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ پھر ہم ہی لاٹھی اور بھینس کے مالک ہوجائیں تبھی یہ نعرہ ختم ہوگا کہ ہر مسلمان دہشت گرد نہیں لیکن ہردہشت گر دمسلمان ہے۔اور اس کیلئے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مذہبی دائرے میں رہ کر تعلیمی،سیاسی،سماجی،اخلاقی سطح پر خود کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کریں ،پھر کوئی ہمیں اقتدار سے روکنے والا نہیں ہوگا ،چونکہ قیادت و سیادت ہماری خمیر کا عنصر ہے، اب فیصلہ آپ پر ہے کہ آپ اپنے آپ کو اب اس قابل بنا رہے ہیں یا یونہی مردہ دل زندہ رہنے پر اکتفا کریں گے!
  لا پھر ایک بار وہی بادہ و جام ائے ساقی

   ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام ائے ساقی





ليست هناك تعليقات: