رحمت کلیم امواوی
حساس ذہنیت کے
حامل افراد اس باریک بیں حقیقت سے با لکلیہ آشنا ہونگے کہ گذشتہ دنوں راجستھان کی راجدھانی
جئے پور میں کانگریس نے اپنی پوری ٹیم کے ساتھ دو روزہ چنتن شیور کے نام سے جو پروگرام
منعقدکیا گیا تھا اس کا کیا مقصد تھا۔پروگرام کے دوران جہاں راہل گاندھی کی تاجپوشی
کا حسین منظر دیکھنے کو ملا وہیں وزیر داخلہ ،کانگریس کے قد آور ،دور اندیش نیتا مسٹر
ششیل کمارشنڈے کی زبان سے ایک ناقابل فراموش حقیقت کو الفاظ کا جامہ پہنا کر مسلمانوں
کے دلوں کو جیتنے کا عجیب و غریب کارنامہ بھی سننے کو ملا ۔جب مرکزی وزیر داخلہ شنڈے
نے اپنی زبان سے ببانگ دہل یہ کہا کہ ”آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد کے تربیتی کیمپوں
میں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے اور پھر ملک کے طول وعرض میں دہشت گردانہ کارنامہ
انجام دیا جاتا ہے،اور پھر ایک مخصوص طبقہ کے اشارے پر مسلم نوجوانوں کو پھنسایا جاتا
ہے“ان کا یہ بیان کیا آیا کہ پورے ملک میں جیسے طوفان آگیا ہو ،بی جے پی الگ چراغ پا
ہے اور آر ایس ایس کے خرمن میں الگ دھواں ،وشو ہندو پریشد میں کھلبلی الگ ہے اور دوسری
فسطائی طاقتوں نے الگ آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے ،وہ مرکزی حکومت پر دہشت گردوں کی پشت
پناہی کا الزام لگاتے ہوئے وزیر داخلہ کی معزولی کا مطالبہ کر رہے ہیں تو کوئی شنڈے
جی کو معافی مانگنے کیلئے آواز لگا رہا ہے،الغرض ایک عجیب وغریب خلفشار پیدا ہو چکا
ہے،فسطائی طاقتیں آپے سے باہر آچکی ہیں ،اور حقیقی دہشت گردوں کے ہوش ٹھکانے لگ گئے
ہیں۔لیکن کیا آپ نے کبھی یہ غور کیا کہ ششیل کمار نے ایسا بیان کیوں دیا ؟کیا وہ اس
سے پہلے نہیں جانتے تھے کہ آر ایس ایس ،وشو ہندو پریشد،بجرنگ دل دہشت گرد تنظیموں کے
نام ہیں؟کیا یہ حقیقت اب تک ان کے سامنے نہیں کھلی تھی کہ دہشت گردی کو مسلمانوں سے
جوڑاجانا دراصل مظلوم کو ظالم کہا جاناہے؟کیا وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ واقعتا
مسلمان دہشت گرد اور مدارس اسلامیہ دہشت گردی کے اڈے ہیں ؟کیا وہ اب تک اس بات کو قبول
کرتے تھے کہ ’ہر مسلمان دہشت گرد نہیں لیکن ہر دہشت گرد مسلمان ہیں‘؟؟؟نہیں ایسا نہیں
ہے بلکہ شنڈے جی کا یہ تجاہل عارفانہ تھا جو کہ ضرورت کے پیش نظر اقبال کرنا تھا اور
آج اس کی ضرورت کانگریس کو آن پڑی ہے کہ وہ اپنے پایہ ثبات میں آئے تذلذل کو استحکا
م بخشنے کیلئے کوئی مظبوط ہتھیار اپنائے۔آپ بخوبی جانتے ہیں کہ 2014بہت قریب ہے،اور
پارلیمانی انتخاب کا بگل بھی بج چکاہے،ہر پارٹی اپنی بساط بھر 2014کے انتخاب کیلئے
کمر کس رہی ہے ،اور ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں مسلمانوں کو اب تک ووٹ بینک کے طور
پر استعمال کیا جاتا رہا ہے،اور آج ملک عزیز میں مسلمانوں کے نزدیک دونوں بڑی پارٹیوں
(کانگریس ،بی جے پی)کی شبیہ خراب ہو چکی ہے،لیکن پیمانے میں فرق ہے۔کانگریس کا چہرہ مسلمانوں کے نزدیک کسی اور اعتبار سے خراب
ہے اور بی جے پی کا کسی اور اعتبار سے۔آپ جانتے ہیں کہ مسلمان آج کانگریس سے صرف اس
بنیاد پر نالاں ہیں کہ اس نے مہنگائی اور بے روزگاری کو آسمان تک پہونچا دی ہے ،مسلمانوں
کیلئے جب ریزرویشن کی بات ہوتی ہے تو کانگریس چپی سادھ لیتی ہے،مسلم نوجوانوں کو مسلسل
دہشت گردی کے الزام میں پھاند کر جیل رسید کرتی رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ان چیزوں کو لیکر
مسلمان یہ سوچنے لگے ہیں کہ کانگریس کے پاس مسلمانوں کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے لیکن
لینے کیلئے ہے اور وہ ہے ہمارا ووٹ جس کے سہارے وہ ملک عزیز کے اقتدار پر قابض ہوتی
رہی ہیں ۔آپ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہونگے کہ چنتن شیور میں سونیا گاندھی نے چنتا
جتاتے ہوئے اپنے خطاب میں اس طرح گویا ہوئیں تھیںکہ ہمارا روایتی ووٹ کھسک رہاہے،جس
پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔واضح رہے کہ سونیا گاندھی کے نزدیک روایتی
ووٹ سے مراد مسلمان ،دلتوںاور پسماندہ طبقات کا ووٹ ہے۔ اب ظاہر ہے مسلمانوں کا ووٹ
محفوظ رکھنے کیلئے کچھ نہ کچھ تو انہیں کرنا ہی ہوگا،ششیل کمارشنڈے نے اس مسئلے پر
پہلا قدم اٹھایا اور بی جے پی اور آرایس ایس پر ایسے وار کیا کہ مسلمانوں کے خیمے میں
کانگریس کی مدح سرائی شروع ہوگئی،پسماندہ طبقات کے اندر تحفظ و انصاف کا احساس جاگ
اٹھا ،اور ان کے منہ سے خوشی کے کانگریسی لڈو پھوٹنے لگے،اور پھر سے کانگریس کا کلمہ
پڑھنا شروع کردیا ،جو کہ شنڈے جی کے خطا ب کا مقصود تھا۔اب ہم یہ جان لیں کہ مسلمانون
کے نظر میں بی جے پی کس قدر خراب ہے اور اس کے کیا کیا کارنامے ہیں ۔ہندوستان جیسے
جمہوری ملک میں خالص ہندوتواد کا کوئی اگر علم بلند کرنے والا ہے تو وہ بی جے پی جیسی
پارٹی ہے،جنہوں نے مسلسل مسلمانوں کو ہندوستان سے پاکستان بھگانے کی ناپاک و ناکام
کوشش کی ہے،اور جس نے ہٹلر ثانی مسٹر مودی کو ہندوستان کا وزیر اعظم بنانے کا سپنا
سزا رکھا ہے، اس ملک سے مسلمانوں کو ملک بدر کرنے اور اس جمہوری ملک کو خالص ہندو استھان
بنانے کی سعی میں جٹی ہوئی ہے جو کہ کبھی ہونے والا نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں
نے اگر کسی کو ہندوستان میںاپنا کھلا دشمن مانا ہے تو وہ بی جے پی ہی ہے،جس کے پاس
مسلمانوں کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے لیکن لینے کیلئے خون ووطن دونوں ہے۔ مسلمانوں کے
خون سے ہولیاں کھیلنا ان کی پرانی عادت ہے،اور ہندوستان سے مسلمانوں کو بے دخل کرنا
ان کے منشور میں اول اول سے شامل ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلمان جائیں
تا کہا ں جائیں ؟دونوں پارٹیاں ایک ہی سکہ کے دو پٹ ہیں ،اور تیسرا کوئی متبادل و مقابل
ہے بھی نہیں جس کو سہارا دیکر اقتدار تک پہونچا سکے۔ کانگریس نے تو اب تک مسلمانوں
کو اپنائیت کا احساس دلا کر بے رحمی سے مارا ہے ،نوجوانوں کے خوشنما ءخواب کو خا ک
و راکھ بنا دیا ہے،بابری مسجد کو چھین لیا،بٹلہ ہاوس انکاونٹر کرایا ،آسام میں مسلمانوں
کی شام کرادی،دھولیہ کے مسلمانوں کے آنکھوں میں فرقہ وارانہ دھول پھینکا گیااور کانگریس
اپنی آنکھوں کے سامنے یہ سب منظر دیکھتی رہی لیکن پاور ان کے ہاتھ ہونے کے باوجود مسلمانوں
کی حفاظت کیلئے ایک قدم بھی نہ بڑھا سکی۔تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ اس ملک میں کوئی
ایسا دن نہیں ہے جب اجتماعی عصمت دری نہ ہوتی ہو لیکن ایک کے ساتھ اس گناہ کو کرنے
والوںنے شدت برتی جس کے پاداش میں اس کی جان چلی گئی تو اس کیلئے فوراً فاسٹ ٹریک کورٹ
کا قیام عمل میں آیا لیکن وہیں سالہا سال سے بے شماربے گناہ مسلم نوجوان جیلوں کے اندر
قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں تو ان کیلئے کوئی فاسٹ ٹریک کی ضرورت کا احساس نہیں
ہوتا ،اپنی زندگی کے سب سے کارگر لمحات جیل میںبرباد کرکے باعزت رہا ہوتے ہیں تو ان
کو بھی دیکھ کر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مسلم نوجوان بے وجہ جیلوں میں اپنی زندگی خراب
کر رہے ہیں ان کیلئے بھی کوئی فاسٹ ٹریک کورٹ کا قیام ہونا چاہیئے تاکہ معاملات کاجلد
خلاصہ ہوجائے کہ یہ لوگ مجرم ہیں یا معصوم؟پھر ہم کیسے کہ سکتے ہیں کہ کانگریس مسلمانوں
کے مفاد کی بات کرتی ہے۔مسلمانوں کو کچھ دینا بھی چاہتی ہے ،ہمارا عالم تو یہ ہے کہ
ہم اس ملک میں ایک باعزت شہری بن کر جیناچاہتے ہیں لیکن حکومت اس کو قبول کرنے کو تیار
نہیں ہورہی ہے۔پھر ہم کیسے اس پارٹی سے مستقبل کیلئے اچھی امید رکھ سکتے ہیں ؟
ہم کھلے لفظوں میں کہنا چاہتے ہیں کہ ششل کمارشنڈے کا
بیان در اصل2014کی تیاری کا آغاز ہے،جس میں کانگریس کامیاب ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی
ہے،کانگریس کو جب جب اس بات کا احساس ہوا ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ ہم سے روٹھ رہا ہے
تب تب اس نے ایسا جال بچھایا کہ سارے سادہ لوح مسلمان با آسانی پھنس گئے،اگر ششیل کمارشنڈے
واقعتا اس ارادے سے حقیقت کا اعتراف کرتے کہ ان تنظیموں کو کیفر کردار تک پہونچانا
ہے تو پھر وہ اپنے خطاب میں یہ ضرور کہ دیتے کہ دہشت گردی کو فروغ دینے والی آر ایس
ایس ،شیو سینا،بجرنگ دل،وشو ہندو پریشدجیسے تنظیموں پر بہت جلد یا بدیر کاروائی کی
جائیگی لیکن ششیل جی نے ایسا کچھ کہا نہیں جو کہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی تھی اور
ایک ایسا سیاسی تیر انہوں نے چلایا جو کہ پوری کامیابی کے ساتھ نشانے پر لگی،اور کانگریس
سانپ مار کر لاٹھی بچانے میں کامیاب ہو گئی،مسلمانوں کا ووٹ پھر سے کانگریس کی طرف
لوٹ رہا ہے،اور مسلمان اس بات پر بہت خوش ہیں کہ ایک حقیقت کا کھلے عام کانگریس نے
اعتراف کیاہے لیکن یہ نہیں سوچ رہے ہیں کہ یہ صرف بیان بازی تھی جس پر کاروائی کرنے
کی طاقت ناہی کانگریس میں ہے اور ناہی کسی اور میں ۔ضرورت ہے کہ مسلمان ہوش کے ناخن
لیں اور اپنی دانشمندی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے آنے والے پارلیمانی انتخاب کیلئے خود
کا کوئی مضبوط اورکامیاب فیصلہ لیں اور اب تک جو ہمیں کھلونے دے کے بہلایا جاتا رہا
ہے ہم اس سے بچیں اور شعور و آگہی کا بھر پور استعمال کریں۔
rahmatkalim91@gmail.com
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق