الاثنين، يناير 07، 2013

مذہبی تعلیمات عام کرنے کی اشد ضرورت



محمد فیصل اقبا ل تیمی
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی

ہم میں سے ہرکس وناکس اس خبرسے پوری طرح آگاہ ہے کہ ابھی چند دنوں پہلے راجدھانی دہلی میں چلتی ہوئی بس کے اندر ایک لڑکی کی اجتماعی آبروریزی کی گئی ۔اس کے بعد پورے ہندستان میں مظاہروں ،احتجاجات اور تحریکات کا سیلاب امنڈ پڑا، مختلف قسم کی مانگیں کی جانے لگیں،کسی نے حکومت کو غیر ذمہ دار ٹھہرایا ،کسی نے پولس کو لاپرواہ کہا ۔لیکن حقیقت کیا ہے ؟عصمت دری کا یہ معاملہ کوئی نیا نہیں ہے ،تقریباً ہر روز عصمت دری کے واقعات اخبارات کی زینت بنتی ہیں پھر بھی لیکن اس واقعہ میں ایسا کیا خاص تھا کہ لوگوں نے سر پے پہاڑ اٹھالیا ؟اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ میڈیا نے اس میں بہت زیادہ دلچسپی لی اور اسے صوبائی سطح سے بلند کرکے عالمی سطح کا مسئلہ بنا دیا ،بہر حال اس سانحہ کے بعد جو بھی رد عمل سامنے آیا اس سے یہ بات تو ثابت ہوہی گئی کہ ہمارے دلوں میں ابھی بھی انسانیت کی بقاءکے لیے حرارت باقی ہے ۔
لیکن ان ساری باتوں کے علاوہ سنجیدگی سے اس کے اسباب و علل پر بھی توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ کچھ ایسے قوانین وضع کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ آئندہ اس طرح کا دلدوز سانحہ رونما نہ ہوسکے۔اس کیلئے حکومت خواہ کوئی بھی پالیسی اختیار کرلے اور مجرمین کیلئے جتنی بڑی اور بری سزا مقرر کرلے وہ صحیح ہی ہوگاکیونکہ بغیر عبر ت آموز سزا مفید نہی ہوتی،لیکن اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی خطرہ لاحق رہتا ہے کیونکہ جسے خدا کا خوف نہی ہوتا اسے دنیا کے کسی قانون کا ڈر بھی نہی ہوتا ،اس کیلئے ضروری ہے کہ لوگوں کے دلوں میں خوف الہی پیدا کی جائے اور ااس کیلئے ہندوستان کے مذہبی علماءکرام کو آگے آنا ہوگا چاہے وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں کیونکہ میرا ماننا ہے کہ ہندوستان میں جتنے بھی مذاہب ہیں ہر ایک کے اندر خوف خدا کی تلقین کی گئی ہے ۔فی الوقت سب سے اہم ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی تعلیمات کو عام کریں ،افراد کی اصلاح کی جانب توجہ دیں ،کیونکہ قانون خواہ کتنا ہی پاور فل ہو اس وقت تک جرائم پر قابو نہیں کیا جاسکتا جب تک جزا وسزا پر ایمان نہ ہوں ۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مختلف قسم کے مظاہروں ،جلسوں اور تحریکوں کے ساتھ ساتھ مذہبی پیشوااور دانشوران قوم وملت بھی اپنی ذمہ داری پر غور کریں اور پوری ایمانداری کے ساتھ اصلاح معاشرہ کا کام کریں ۔

ليست هناك تعليقات: