رحمت کلیم امواوی
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
یہ میری خوش نصیبی تھی کہ میں ایک بار ایسے مشاعرے میں پہونچ
گیا جہاں بین الاقوامی سطح پر اپنی الگ شناخت رکھنے والے شاعر ندا فاضلی کی شخصیت بھی
تشریف فرما تھی ،میں بڑی شدت سے ان کی باری کا انتظار کررہا تھا جب ان کی باری آئی
تو انہوں نے غزل سنانے سے پہلے ایک بہت بڑی بات کہ دی جو میرے دل کو بھا گئی،انہوں
نے پنڈت نہرو اور باپو جی کو دو الگ دنیا کی مخلوق ثابت کردیا اور جس طرح سے انہوں
نے گاندھی اور نہرو کے درمیان امتیاز پیدا کیا میں بھی اس فکر کا قائل ہو گیا پھر کیا
تھا اس کے بعدسے اکثر میں اپنے ساتھیوں سے اس مسئلے پر لمبی بحث کر جاتا ہوں کہ ہندوستان
کو گاندی جی کے نام سے موسوم کرنا چاہیے یا نہرو جی کے ۔گرچہ یہ ایک خیالی بات ہے لیکن
سوچنے کا متقاضی ہے ،ہم یہ جانتے ہیں کہ ملک عزیز کو فرنگیوںکے آہنی پنجوں اور طوق
غلامی سے نجات دلانے میںگاندھی جی کے ساتھ ساتھ پنڈت جی کا بھی اہم رول رہا ہے ،لیکن
ایک دوسری بات جو گاندھی اور نہروجی کے مابین امتیاز پیدا کرنے والی ہے وہ دلوں میں
انسانیت کا دردہونا ہے۔جواہر لال نہرو بڑے باپ کے بڑے بیٹے تھے وہ گاندھی کی طرح زمین
سے پیدا نہیں ہوئے تھے اسی لیے ان کے دلوں میں زمین کا درد نہیں تھا ۔انہوں نے ایک
کتاب ڈسکووری آف انڈیا کے نام سے لکھی جس کا اردو میں ہندوستان کی کھوج نام سے ترجمہ
ہوا ،نہرو جی نے اپنی کھوج کا سلسلہ ریلوے اسٹیشن پر ختم کیا لیکن وہیں اسٹیشن پر مسلسل
صبح سے شام تک اپنے کاندھوں پر بوجھ ڈھونے والے کولیوں کے سرکادرد اور کاندھے کا بوجھ
نہیں لکھ سکے،چونکہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اس میں کیا تکلیف ہے وہیں دوسری طرف جب
سرزمین ہند ۷۴۹۱ءمیں
انگریزوں سے آزادی کا پروانہ حاصل کرتی ہے تو ہر طرف افراتفری کا ماحول ہوتا ہے ،ہر
کوئی جشن میں ڈوبا ہوتا ہے لیکن موہن داس کرم چندر گاندھی جی ناہی کسی جشن کی محفل
میں ہوتے ہیں اور ناہی کسی پارلمینٹ میں ۔بلکہ ایک غریب ولاچار مسلمان کے کٹیہ میں
بیٹھ کر ان کے درد و غم کا بٹوارا کر رہے تھے۔انہوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ مسلمان
ہیں،یا یہ غریب ہیں یا کمتر لوگ ہیں،بلکہ انہیں ایک درد کا احساس تھا اوریہ سمجھتے
تھے کہ ہم سب انسانیت اور وطنیت کے ناطے ایک ہیں اس لیے سب پر نظر رکھنا ہمارا انسانی
فریضہ ہے اور میں سمجھتا ہوں اسی انسانیت ساز فکر وعمل کی بنیا د پر ہندوستان کو گاندھی
جی کا ہندوستا ن کہنا کوئی غلط نہ ہوگا اور ہوگا بھی تو کیوں ؟ ملک عزیز کو گاندھی
جی نے کیا نہیں دیا،آزادی کاپروانہ اور ایک جمہوری ملک دیاکیا اس سے بھی بڑھ کر کوئی
کارنامہ کسی ملک کیلئے ہوسکتا ہے کیا؟اس ملک میں ہندو ،مسلم ،سکھ،عیسائی سبھوں کے درمیان
ایک ساز پیدا کیا ،سبھوں کو جیو اور جینے دو کا پیغام دیا ،کیا یہ کوئی فلمی ڈائلگ
تھا کیا ؟ نہیں ۔بلکہ گاندھی جی نے اس ملک میںایک حسین و دلکش فضا قائم کرکے اس میںپر
سکون باد صبا چلائی،جس پر زمانہ عش عش کرتا رہا ۔لیکن آج اسی فضا میںباد مسموم کا زور
ہے،انسانیت ساز تہذیب وثقافت کو انسانیت سوز تہذیب کا لبادہ اوڑھا دیا گیاہے ،مغربی
افکار و نظریات کو اپنے افکار پرترجیح دے دی گئی ہے ،ہر چیز کیلئے ہم ان ہی کے مرہون
منت بنے ہوئے ہیںجس کی وجہ کر نام نہاد ترقی اور کامیابی کا نعرہ دیکر فحاشی وعریانیت
،خیانت و دھوکہ دری کا بازار گرم کردیا گیا،جس میں خسارہ صرف ہمارا ہی ہورہا ہے لیکن
احساس مردہ ہو چکا ہے کریں تو کیا کریں؟جب ایک غیور و باشعور فرد ان چیزوں اور موجودہ
طرز ہائے زندگی وانداز حکومت کو دیکھتا ہے تو ناطقہ سر بہ گریباں ہوجاتا ہے اور دل
ہی دل میں بول اٹھتا ہے کہ یہ گاندھی جی کا ملک نہیں ہوسکتا ،یہ وہ ہندوستان نہیں جس
کیلئے ہمارے باپ داداﺅں
نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا ۔بلکہ یہ ملک تو امریکہ کا بھکاری اور اسرائیل کا چمچہ
معلوم پرتا ہے،ا پنے ہاتھو ں اپنے ملک کے وقار کو پامال کرنے والا ایک ایسا ملک ہے
جس کو ہندوستا ن کہا جاتا ہے لیکن گاندھی جی کا وہ ہندوستان جو بے شمار قربانیوں کے
ثمرے کے طور پر ہمیں ملا تھاوہ ملک نہیں ہے ،بلکہ یہ تو خودداری کے سودا کا نتیجہ ہے
کہ ایسا ملک دیکھنے کو مل رہا ہے اگر ہم اس ملک کو گاندھی جی کا ہندوستان کہینگے تو
یقینا باپو جی کے روح کو تکلیف پہونچے گی ۔یہ ہندوستان نہیں بلکہ حیوانستان ہے،جہاں
لوگ بھوکے ،بے روزگار،بے آثرا و بے اماں ہیں اور نام رکھا ہے جمہوری ملک ہندوستان۔خبروں،رپورٹوں
اور تبصروں کی بیساخیوں پر چلنے والے یہ دانشوران کیا یہ نہیں جانتے کہ جمہوریت کی
یہ چند گھروں کی محدود رخیل نے نہ جانے کتنے گھر اجاڑ دیے،اور کیا ہندوستان جیسا عظیم
ملک ہمیں اسی لیے دیا گیا تھا کہ ہم یہ دیکھیں کہ لاقانونیت اور معاشرے کی جڑوں میں
آگ کی طرح پھیلی ہوئی کرپشن اپنی آخری حدوود سے بھی تجاوز کرچکی ہے،سماج ایک سفاک منڈی
میں تبدیل ہوچکا ہے،یہاں قانون ساز قانون کی بوٹیاں نوچنے میں فخر محسوس کرتے ہیں،اور
جہاں عوام و اقتدار دومختلف اور متضاد قوتوں کا نام ہے۔جس دیش کے کوچے کوچے میں افلاس آوارہ پھرتا ہو جو دھرتی بھوک اگلتی ہو جہاں دکھ فلک سے گرتا ہو،جہاں بھوکے ننگے بچے بھی آہوں پر پالے جاتے ہوں جہاں سچائی کے مجرم بھی زنداںمیں ڈالے جاتے ہوں
قارئین:ہم یہ پورے یقین کے ساتھ کہ سکتے ہیں اور یہ میرا
دعوی ہے کہ موجودہ ہندوستان باپو جی کا ہندوستان نہیں ہے۔یہ حقائق روز
روشن کی طرح ہر باشعور و سمجھدار اور دردمند دل رکھنے والوں پر عیاں ہے کہ آج ملک کی
معیشت کہاں کھڑی ہے ،مہنگائی کس قدر آسمان چھو رہی ہے ،بے روزگاری کس طرح بام عروج
پر ہے ،ایک طرف وزرا کی عیاشیاں ہے تو دوسری طرف عوام کی خودکشیاں،مائیں اپنے حمل اور
باپ اپنے ہاتھوں سے اپنی نسل ضائع کر رہے ہیں ،جس باپ نے بھوک اور بے روزگاری کے ہاتھوںپاگل
ہوکر اپنے ہی بچے دریائے گنگا و جمنا میں پھینک دیا لیکن حکومت ایک کفن کی قیمت نہ
دے سکی،جس بوڑھے نے پینشن نہ ملنے کے ٹینشن میں اپنے بدن میں آگ لگالیا لیکن حکومت
ان کو ایک لمحے کا خراج نہ دے سکی،اور جو نوجوانوں دگڑیا ں لیکر بھی حکومت کی نظر میں
کامل نہ گردانے جانے کے کارن خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئے اور حکومت کو ذرا برابر بھی
درد نہ ہوا۔کیا ایسے ہی ملک کو گاندھی جی کا ملک کہینگے ؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک
کو جمہوری ملک کہنا بھی جمہوریت کے مفہوم پر آنچ اٹھانا ہے،پھر باپو کی طرف کیسے موسوم
کیا جا سکتا ہے۔آج حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ اندازہ کرنا بھی دشوار کن معلوم
پڑتاہے۔چونکہ
عزت نفس کسی شخص کی محفوظ نہیں اب تو اپنے ہی نگہبانوں سے
ڈر لگتا ہے
لیکن
پھر بھی ڈنکے کی چوٹ پے ظالم کو برا کہتا ہوں
مجھکو سولی سے نہ زندانوں سے ڈرلگتا ہے
جہاں ایک طرف آج ہندوستان کے ہر گلیوں اور کوچوں میںبھوک
سے بلکتے معصوموں کی صدائیںبازگشت کرتی ہیںتو دوسری طرف وزرا کے متملق کتوں کو سیر
ہوتے ہوئے بھی دیکھا جاتا ہے۔کہیں بازار میں بکتی آدم کی بیٹی دیکھنے کو ملتی ہے تو
کہیں بسوں اور پارکوں میں بنت حوا کی عصمت کو تار تار ہوتے سنا جاتا ہے،کہیں اولاد
برائے فروخت کے نعرے بلند ہورہے ہیں تو کہیں فرقہ وارانہ فساد کے ذریعے ایک صالح معاشرے
میں نفرت کا بیج ڈالا جاتا ہے،کہیں غریب شہر کے بچے صبح سے شام ایک نوالے کیلئے ترستے
رہتے ہیں تو کہیںامیر شہر کے کتے کے سامنے کھانے کا انبار لگا ہوتا ہے،کہیں صدائے حق
بلند کرنے والوں کو لاٹھی کھانی پڑتی ہے تو کہیںمسلم نام کو دہشت گردی سے جوڑ کر اپنے
ہی ملک میں اجنبی بتایا جارہا ہے ،کہیں نیک ،شریف ،کمزور مسلمانوںکو پیٹ پیٹ کردہشت
گرد ہونے کا اقرار کرایا جارہا ہے تو کہیں مخالفت کرنے والوں کو جیل کے سلاخوںکے پیچھے
دھکیل دیا جاتا ہے اور زندگی کا بینڈ بجا کر باعزت خالی ہاتھ گھر بھیج دیا جاتا ہے۔
جب
ملک عزیز فرنگی پنجوں سے آزاد ہوا اس وقت یہاں مختلف اقوام کے لوگ ہونے کے باوجود ایک
قوم کی شکل تھی ور ضرورت صرف اور صرف ایک ملک کی تھی جو کہ گاندھی ،نہرو،آزاد،پٹیل،امبیڈکر،جوہروغیرہ
کی جانفشانیوںسے ایک عمدہ پیکر میں ملک کا قیام ہوگیااور جمہوریت کا دسترخوان پورے
ملک میں پھیلا کر سارے اقوام کے لوگوں کو ایک ساتھ بیٹھادیا۔لیکن آج اسی گاندھی نہرو
کے مداحوں نے ان کے بچھائے ہوئے دسترخوان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور ملک کاخاتمہ کرکے
مختلف اقوام میں بانٹ دیااور اقتدار والی قوم اپنے علاوہ کسی کو دیکھنا پسند نہیں کرتی
اوراپنے پیٹ کا خیال کرتے ملک کے دوسرے اقوام کے لوگوں کو بھوک وبے روزگاری کا تحفہ
دیتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج باپو کے جمہوری ملک کا خاتمہ ہوچکاہے ، سربراہان وطن
نے پھر سے طوق غلامی کو پھول کا مالا سمجھ کر پہن لیا ،اور آج آزادی کا پروانہ مل جانے
کے باوجود اسی کے غلامی کے زنجیر میں جکڑا معلوم پڑتا ہے جس سے آزادی حاصل کرنے کیلئے
ہمارے آبا واجداد نے اپنے سر سے مقتل گاہوں کو سجایا تھا ،کئی آدم کی بیٹیوں نے اپنی
عفت کو سر بازار نیلام کیاتھا اور کئی شہیدوںنے اپنے خون سے اس سرزمین کو سیراب کیا
تھا۔
لیکن
ہائے افسوس موجودہ حکومت جمہوریت کا خون ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے مگر اس کی بقا کیلئے
قدم اٹھانے سے قاصر ہے،لوٹ گھسوٹ کا بازار گرم ہے،بدعنوانی کے جال میں از ادنی تا اعلی
گرفتا ر ہیں،انصاف ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے،عدالت دستور کے پابند ہونے کے بجائے صاحب
ثروت کا عین بن چکی ہے۔پھر ہم کیسے کہ سکتے ہیں کہ یہ ملک اسی گاندھی جی کا ملک ہے
جنہوں نے ہمیشہ بیدار مغزی کے عالم میں رہتے ہوئے انصاف کا علم بلند کیا اورایک اعلی
وارفع ملک کاقیام کیا ،سب کے ساتھ مساویانہ سلوک کیا۔آج اس ملک کو جمہوری ملک کہنے
سے پہلے ضروری ہے کہ اسے باپو جی کا ملک بنایا جائے اور باپو جی کا ملک بنانے کیلئے
ضروری ہے کہ جمہوریت کا حقیقی دسترخوان پھر سے بچھایا جائے ورنہ اس طرح کی باتیں کرنا
شعور و آگہی پر خود سے انگلی اٹھانے کا موقع دینا ہوگا،اور اگر اسی طرح ہمارے ملک کا
شب و روز مستقل رہا تو میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے ملک کو گاندھی جی کے نام سے موسوم
کرنا باپو جی کے روح کو ٹھیس پہونچانا ہوگا،اور پھر ایسے ملک کو ملک کہنا ناہی میرا
عقیدہ ہے اور ناہی اس پر انگشت نمائی سے خوف کھاتاہوں۔حبیب جالبی نے بہت پہلے کہا تھا
جسے میں اپنے طرف سے پھر سے کہتا ہوں کہ
دیپ جنکے صرف محلات میں جلے
چند لوگوں کے خواہشات لے کے چلے
جو کہ مسندوں کے سانچوں میں ڈھلے
ایسے دستور کو،صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا ،میں نہیں جانتا
میں بھی خائف ہوں تختہ دار سے
میں بھی منشور ہوں کہ دو یہ اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زندان کے دیوار سے
ظلم کی رات کو،جہل کی بات کو
میں نہیں مانتا ،میں نہیں جانتا
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق