رحمت کلیم امواوی
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
آج چہار دانگ عالم میں ہندوستان کی سرزمین پرہونے والے اس
انسانیت سوز سانحے کو بری نظر سے دیکھا جارہا ہے اور ہر کوئی یہ دوہائی دے رہا ہے کہ
ہندوستان میں خواتین محفوظ نہیں ہیں،ان کی عزت و عصمت کو نیلام کیا جارہا ہے ،روز افزوں
عصمت دری کے معاملات میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے ،اور حکومت کچھ کرنے کے بجائے پس
پردہ اس میں تعاون بھی کر رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔میں سمجھتا ہون قائلین کی یہ رائے
تقریباً صد فی صد حقیقت پر مبنی ہے لیکن یہ ہماری کوتاہ نظری اور کج فہمی ہے کہ ہم
اس کے ذرائع اور بنیادی اسباب پر غور کرنے کے بجائے حکومت پر نشانہ لگانے میں تیزی
کرتے ہیں۔کیا ہم نے کبھی یہ غور کیاہے کہ ہندوستانی تہذیب میں موجودہ رواج شامل ہے
یا نہیں؟کیا ہم نے کبھی یہ غور کیا کی ہندوستانی مذاہب کی تعلیمات میں اس طرح کی بے
پردگی اور آزادی کا کہیں ذکر ہے یا نہیں ؟کیا ہم نے کبھی یہ سوچنے کیلئے وقت نکالا
کہ آزادی نسواںاور عریانیت ہمارے ملک و سماج ومعاشرہ کیلئے مفید ہے یا مضر؟کیا ہم نے
مغربی تعلیمات کا تجزیہ کیا ہے کہ ان کی تعلیمات انسانیت کے حق میں ہے یا حیوانیت کے
؟ہم نے ایسا کبھی نہیں کیا ،اور کبھی یہ نہی سوچا کہ ہمارا مذہب کیا کہتا ہے اور مغربی
تعلیمات کا کیا رد عمل سامنے آتا رہا ہے ؟میں یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ہماری
تہذیب اور ہمار ی مذہبی تعلیمات میں ہماری عزت و عفت کی کل تک حفاظت کی ہے چونکہ ہم
اپنی تہذیب اور دینی تعلیمات کے دائرے میں رہ کر کل تک زندگی گزار رہے تھے۔جب سے ہم
نے اپنی تہذیب و تعلیم کو پس پشت ڈال کر مغربی تعلیمات کو اپنایا تب سے ہماری عزت کی
نیلامی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جب تک ہم اپنے حقیقی اصول زندگی
پر گامزن تھے کبھی کوئی شکوہ کا دنیا کو موقع نہیں ملا ،لیکن جب ہم نے مغرب کو اختیار
کیا اور آزادی نسواں علم بلند کرکے محرمو غیر محرم کی تمیز کو بھلا دیا ،پردہ و بے
پردگی کی اہمیت کو دل سے نکال دیا تب سے ایسے انسانیت سوز حرکات رونما ہونے لگے۔یہ
بات حق ہے مذب اسلام نے عورتوں کو دنیا کا سب سے قیمتی شئے گردانا ہے اور اسی واسطے
اسے پردے میں رکھنے کی تلقین کی ہے ۔پوری دنیا میں کہیں بھی آپ دیکھ جائیے کہیں ایسی
مثال نہیں مل پائیگی کے جس نے اسلامی تعلیمات کو گلے لگایا ہواور اس کے ساتھ اس طرح
کی گھناونی حرکت کی گئی ہو۔ضروری ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات اور مغربی فرمان کے ردعمل
کا فرق سمجھیں ۔اور جب ہم سمجھ لیں گے تو پھر اس طرح کے واردات دیکھنے اور سننے کو
نہیں ملیں گے۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق