السبت، يناير 05، 2013

مذہب و سیاست کا مہرہ ! بابری مسجد



   ضیاءاﷲ صادق تیمی

ہندوستانی مسلمانوں کی ہمہ جہت پسماندگی کے ڈھیر سارے اسبابوں میں ایک بڑا سبب صالح قیادت کا فقدان ہے۔ صالح قیادت کا بحران متعد بیماریوں کا موجد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بابری مسجد کا سانحہ ، شاہ بانو کیس اور متعد مسلم کش فسادات میں مسلمان کچھ ایسا الجھا کہ زندگی کے کچھ اہم معاملات کافی پیچھے چھوٹ گئے۔ اور نتیجے کے طور پر مسلمانوں کو ہمہ جہت پسماندگی ملی۔ افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ یہ سلسلہ اب کھبی جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بابری مسجد کے وجود سے مسلمانوں کا وجود وابستہ ہے؟؟؟ بابری مسجد کی باز یابی مسلمانوں کی ترقی و کامرانی ہے ؟؟؟ میرے پاس ایسے سوال کا کوئی جواب نہیں۔ میرا ماننا ہے کہ قوم کی ترقی و کامرانی اس کے عملی اقدام سے وابستہ ہے۔ لیکن صداقت یہی ہے کہ آزادی کے بعد اب تک مسلمانان ہند دوسری دنیا میں جی رہا ہے۔ جہاں ترقی و کامرانی جھوٹے وعدوں، توڑ پھوڑ، احتجاج اور جلوس کے مرہون منت ہے۔ میں یہ کہتے ہوئے حق بجانب ہوں کہ بابری مسجد کے نام پر جیسی سطحی سیاست ہوئی وہ حیرت انگیز ہے۔ بی۔ جے۔پی۔ رام جنم بھومی اور مندر کے نام پر بر سر اقتدار آئی تو کانگریس مسجد کی باز یابی کو اپنا ایجنڈہ بنایا۔ مختلف علاقائی پارٹیاںبھی بہتی گنگا میں ہاتھ دوھونے سے نہیں چونکی۔ تو علاقائی تنظیم مندر اور مسجد کے نام پر خوب نام کمایا۔ اب باری تھی بھارتی مسلم لیڈروں کی۔ وہ بھلا کیسے پیچھے رہتے۔ انہوں نے تو تمام حدود کو ہی ختم کردیئے اور سیاست کا وہ نمونہ چھوڑا جو بھارتی مسلمانوں کو شعور و آگہی قوت فکر و عمل اور سیاسی سوجھ بوجھ سے بہت دور کردیا۔ اب نمبر آیا ہمارے مذہبی رہنماں کا۔ انہوں نے تو کمال ہی کر دیا۔ مذہب کے پردے میں ایسا دا پیچ رچا کہ بھارتی مسلمانوں کو یہ احساس سرایت کر گیا کہ بغیر ان کے مسجد کا قیام ہو ہی نہیں سکتا۔ حالانکہ سچائی کڑوی ہے کہ اس اسارے کھیل میں سبھوں کا اپنا اپنا مفادپنھاں رہا۔ مندر اور مسجد سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔ اور آج بھی گندی سیاست جاری و ساری ہے۔ 6 دسمبر کے اخبار و رسائل اس کے واضح ثبوت ہیں۔ اردو اخبار میں بیان بازی، مراسلہ نگاری اور مسجد کی شہادت پر افسوس کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ مضامین میں جذباتیت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کل ہی مسجد اپنی شاندار عمارت کے ساتھ کھڑی ہو جائےگی۔ اور یہ سارے حربے اپنی جھوٹی عزت و شہرت کے لئے اپنائے جاتے ہیں جس کا زمینی حقائق کے کوئی تعلق نہیں۔ اور عام مسلمان ان لوگوں کو اپنا مسیحا مان کر اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔
عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد بھی سیاست جاری ہے۔ بعض فل اسٹاف کے حق میں ہے تو بعض ہائی کورٹ میں معاملہ لے جانے کی بات کر رہا ہے۔ بلکہ ہائی کورٹ میں معاملہ جا پہنچا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا ڈرامہ اپنی اپنی سیاسی دکان کو فروغ دینے کے لئے ہے نہ کہ اﷲ کے گھر کی بازیابی کے لئے۔ جہاں تک بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے۔ تو میرا موقف واضح ہے جس میں حضرت مسلمان کے لئے راہ نجات ہے۔ اب جبکہ معاملہ ہائی کورٹ میں جا چکا ہے تب مسلم دانشور پر واجب ہے کہ بہتر انداز سے اپنا معاملہ کورٹ میں پیش کرے۔ بہترین وکیل کی خدمات حاصل کرے البتہ اپنی علمی، فکری اور ذہنی صلاحیتوں کو اسی میں ختم کرنا عقلمندی نہیں۔ اور نہ ہی فل اسٹاف لگا کر سرسے سے معاملہ سے ہاتھ کھینچنا لینا ذہانت ہے۔ بس ضرورت ہے۔ خلوص کے ساتھ اچھی کوشش کی اگر ایسا ہوا تب جیت ہماری ہوگی ۔بصورت دیگر قیامت کی صبح تک مسلمانوں کو کامیابی نہیں مل سکتی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ کیا اب بھی ساری توانائی بابری مسجد پر ختم ہوگی یا علمی میدان میں عملی اقدام ہم کریں گے۔ ثانی الذ کر کامیابی کی ضمانت ہے۔ اﷲ ہمیں نیک قوفیق دے۔

ليست هناك تعليقات: