السبت، يناير 26، 2013

مونس دہلوی کی شاعری – مہذب افکار کا گلدستہ


ثناءاللہ صادق تیمی 
جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی 
ایک ایسے وقت میں جبکہ شاعری پورے طور سے گمراہ کن نظریات و احساسات کی ترجمانی کا وسیلہ بنی ہوئی نظر آرہی ہو اور ہر چہار سو ایک فکری دیوالیہ پن کی کیفیت طاری ہو ۔ اہل علم و دانش اور صاحبان فضل اسے بے کار کا مشغلہ مان کر اپنی الگ دنیا بسانے کی کوشش کررہے ہوں اور باطل آب و تاب کے ساتھ اسے اپنی اشاعت کاذریعہ بنا کر اپنی کامرانی پر اترا رہا ہو تو سوچا جاسکتا ہے کہ ایسے میں کوئی ایسا شعری سرمایہ کا ہاتھ لگ جانا کتنا سکون بخش اور راحت افزا ہو سکتا ہے جو نہ صرف یہ کہ آپ کے ذوق جمال کی تسکین کرے بلکہ بیک وقت آپ کے جمالیاتی حس کی تہذیب کا فريضہ بھی انجام دینے کی دولت سے مالا مال ہو ۔
بڑے بھائی اور صاحب قلم سیال جناب رفیع اللہ مسعود تیمی کی ترتیب دی ہوئی مونس دہلوی کی' کلیات مونس دہلوی ' کچھ اسی قسم کی شاعری کے نمونوں سے مزین ہے ۔ پہلے پہل جب کلیات پر نظر پڑی تو تعجب بھری خوشی ہوئی کہ جناب خواجہ قطب الدین شاعر بھی ہیں اور جب مجموعہ کلام کا مطالعہ شروع کیا تو اس بات کا افسوس کھانے لگا کہ آخر اس بات سے میں اب تک ناواقف کیو ں رہا ۔سچ پوچھیے تو میں جناب قطب الدین مونس دہلوی کو بس اتنا جانتا ہوں کہ ایک آک دفعہ ان کے محلے میں واقع مسجد میں خطبہ جمعہ دینے کی سعادت نصیب ہوئی تو محبت و اپنائیت کے ساتھ ظہرانہ کا نظم انہوں نے اپنے ہی دولت کدے پر کیا اور تھوڑی دیر دینی مسائل پر بات چیت ہوئی لیکن مجموعہ کلام کو پڑھ کر اور لوگوں کی آراء سے واقفیت کے بعد اس بات کا یقین ہو گیا کہ آپ واقعۃ صاحب خلق ہیں اور بیباک بھی ۔ اور حق کے معاملے میں کسی قیل قال اور شش و پنج کے شکار نہیں ہوتے ۔ 
ان کی شاعری در اصل ان کی شخصیت کا اظہاریہ ہے ۔ وہ جن خوبیوں سے متصف ہیں شاعری کے سارے ساز بھی اسی آہنگ میں بجتے ہیں اور دیرپا اثر چھوڑجاتے ہیں ۔ عقیدہ وایمان ، سماجی معاملات، عشقیہ مضامین سب کے سب کا محور ان کا اپنا سرمیایہ تہذیب و شائستگی ہی ہے ۔وہ سلفی الفکر مسلمان ہیں ۔ اخلاق کی نعمت سے سرفراز ہیں ۔ بہتر سماج کی تشکیل کے متمنی ہیں ۔حق کے علمبردار اور باطل کے خلاف صف آرا ہیں اور ان کی شاعری در حقیقت انہیں کاوشوں کی بازگشت ہے ۔
تیرا عروج اسی پر ہے منحصر مونس 
ہو تیرے فکر کی حد لا الہ الا اللہ 
احمد مرسل کا ثانی کوئی ہو سکتا نہیں 
دست قدرت نے تراشا ہے کچھ ایسا آئینہ 
آپ کو قرآن ناطق اس لیے کہتے ہیں سب 
ہے وہی حکم خدا جو کچھ کہ فرماے رسول 
یہاں حق بات کہ کر سوئے مقتل کون جائیگا 
روایت ہے یہ ہم جیسے ہی دیوانوں سے وابستہ 
رہ دین خالص میں ہم سلفیوں کے 
نمایاں نقوش قدم دیکھتے ہیں 
عام طور سے وہ شعراء جو گردش ایام کا رونا روتے ہیں اور حالات کی مار پر شکوہ کناں ہوتے ہیں وہ دانستہ یا نادانستہ طور سے قنوطیت اور ناامیدی کے شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی پوری کی پوری شاعری ایک طرح کا نوحہ یا ایک قسم کا مرثیہ ہو جاتی ہے اسے مونس دہلوی کا امتیاز ماننا پڑیگا کہ وہ ایک طرف شہر آشوب لکھتے ہیں اور دوسری طرف بڑے اعتماد و یقین کے ساتھ بہتر تبدیلی کی بات کرتے ہیں اور کسی قسم کی یاسیت کو اپنے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیتے ۔
ہاں جہد مسلسل سے بدل جاتی ہے قسمت 
ناکامی کو اے دوست مقدر نہیں کہتے 
لاتقنطوا پہ مجھکو مکمل ہے اعتماد 
میری نجات کی یہی بس اک دلیل ہے 
میں تیرگی وقت سے مایوس نہیں ہوں 
امید ہے سینے میں مرے یاس نہیں ہے 
بہت سارے اشعار پڑھتےہوئے یہ محسوس ہوتا ہے جیسے شاعر نے قرآن حکیم یا حدیث رسول کا ترجمہ کردیا ہو۔کہیں کہیں پر یہ ترجمہ پن بھی جھلک جاتا ہے لیکن بیشتر مقام پر فن کی تازگی متاثر نہیں ہوتی اور اچھے اشعار کا تحفہ بھی ہاتھ آجا تاہے ۔
آلام و مصائب کی جو ہم پہ گھٹا چھائی 
خود اپنے گناہوں کی یہ ہم نے سزاپائی 
مجھے لینا ہے کیا غیروں کے در سے 
مرا داتا مرا معبود تو ہے 
دین پسند شعراء و ادباء بالعموم ایک قسم کی خشکی کی زد میں رہتے ہیں اور بدلتے حالات اور تغیر پذیر روایات کی انہیں معرفت نہیں رہتی ، یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر ادبی حلقوں میں ان کی پہچان بھی نہیں بن پاتی اور گمنامی کے اندھیروں میں ہی ان کا سارا فن مدفون ہوجاتا ہے ۔ مونس دہلوی اپنی انتہائی دین پسندی کے باوجود فکری خشکی کے شکار نہیں ہیں اور یہ بلا شبہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے چہرے پر سجی ہوئی آنکھیں بصارت ہی نہیں بصیرت کی دولت سے بھی مالا مال ہیں ۔ان کے یہاں عصری شعور کی کارفرمائی نظر آتی ہے ۔ فکری جہات میں رنگا رنگی کے ساتھ ہی بے حیا اور ایمان سوز اقدارو روایات پر ان کے تیر و نشتر صرف شکوہ یا غصہ کی کیفیت نہیں اجالتے بلکہ فکر و خیال اور شعور کی کئی راہیں وا کرتے ہیں ۔ اور ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ یہاں آکر ان کا فنی کمال زیادہ جلوہ گر نظر آتا ہے ۔
بھٹک رہا ہے خیالوں میں آج کا انساں 
اسے بھی فکر کی آوارگی کہا جائے 
چشم ظاہر تجھے کب نظر آئیگا 
وہ اندھیرا جو دن کے اجالے میں ہے 
رات اپنی ظلمتوں کے پنکھ پھیلاتی رہی 
ہم چراغوں کو لہو دے کر سحر کرتے رہے 
اے اہل حرم شمع حرم لےکے تو آؤ
اک شور ہے مغرب میں اجالا نہیں ممکن 
ساری پرانی قدریں زوال آشنا ہوئیں 
اب زاویے نظر کے بدل کر تو دیکھیے 
ماضی کے خرابے میں تا دیر بھٹکتا ہوں 
احساس کو ڈستی ہے جب حال کی تنہائی 
یہ ارتقائے خرد کی تجلیاں توبہ 
کہ ظلمتوں نے ہر اک سو پڑاؤ ڈالا ہے 
قدروں کے اس زوال کا ادراک کر سکے 
اتنا بلند وقت کا معیار بھی نہیں 
شاعری اور وہ بھی اردو کی غزلیہ شاعری اگر عشق اور واردات عشق سے یکسر خالی ہو تو اسے معجزہ ہی سمجھنا چاہیے ۔ کم از کم اس معجزے کا الزام تو مونس دہلوی پر نہیں ڈالاجا سکتا ۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان کے یہاں بھی عشق اور واردات عشق کے افسانے عام شعراء کے جیسے ہی ہیں ۔ ہر چند کے عشق کا یہ تصور ان کے یہاں متصوفانہ نہیں لیکن ایک حد تک مومنانہ ضرور ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی اس پہ دوسرے رنگ بھی نظر آجاتے ہیں ۔ لیکن کم از کم حیاسوزی اور اخلاق باختگی کا تو کوئی سان گمان ان کی شاعری پر نہیں گزرتا ۔
آؤ صلاے عام ہے یاران میکدہ 
ساغر جھلک رہے ہیں کسی کی نگاہ سے 
یہ درد عشق کی شعلہ گدازیا ں مونس 
سلگ رہاہوں مگر آنکھ تر ہے کیا کہیے 
مہک اٹھیں گی فضائیں لہک اٹھیں گے چمن 
لپٹ کے تیرے بدن سے جدھر صبا جائے
مصحف رخ کے تصدق مست آنکھوں کے نثار 
کردیا دنیا و ما فیھا سے بیگانہ مجھے 
نہیں اتنے بھی ہم آداب میخانہ سے ناواقف 
بہ انداز دگر شغل مے و مینا ب ھی آتا ہے 
شاعر پند ونصائح سے بھی نوازتا ہے لیکن زیادہ تر اس میں ملائیت کی کارفرمائی نہیں بلکہ ایک درد مند دل کی صدا ہے اور ایک مشفق انسان کا خلوص جھلکتا ہوا محسوس ہوتا ہے اورقابل ذکر یہ ہے کہ فن کے دیے یہاں بھی مدھم نہیں پڑتے ۔
ایمان کی ضیا سے نکھرتی ہے زندگی 
اس مشعل یقیں کو سدا اپنے پاس رکھ
تیری رفاقتوں کا زمانہ ہو معترف 
تو اپنے حسن خلق کی ایسی اساس رکھ
آزار جسم و جاں بھی اٹھانا پڑے اگر 
پھربھی نہ آپ حرف صداقت چھپائیے 
پاکیزہ افکار وخیالات کے اس گلستاں میں پھولوں کے اوپر رعنائیوں کی کوئی باضابطہ کمی تو نہیں البتہ پروف کی غلطیاں در آئی ہیں جو بسااوقات حسن و جمال کی جلوہ گری میں حائل ہو جاتی ہیں ۔خالص فنی نقطہ نظرسے دیکھا جائے تو شاعری کلاسیکل روایات کی امین نظرآتی ہے البتہ جہاں ا س گلدستے کے زیادہ تر پھول زینت چمن ہیں وہیں کچھ ایسے بھی ہیں کہ اگرنہ ہوتے تو حسن کی تمازت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ کہیں کہیں پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے تھوڑی اور توجہ دی ہوتی تو فنی زاویہ اور بھی بلند ہو جاتا ۔متقدمین اور ہم عصر شعراء سے استفادے کا احساس بھی کہیں کہیں پر گہرائی سے ہو تا ہے لیکن سرقہ یا نقل کی کیفیت کہیں نہیں ۔
اخیر میں اگر مدون و مرتب کو مبارکباد نہ دیا جاے تو ایک طرح کی ناانصافی ہوگی ۔اس مجموعہ کلام کی تدوین وترتیب کے ذریعہ مدون نے بلا شبہ ایک اہم دینی اور ادبی فریضہ انجام دیا ہے ۔ اس سے جناب رفیع اللہ مسعود تیمی کے ادبی ذوق اور مسلک کا بھی پتہ چلتا ہے ۔البتہ یہ امید تو کی ہی جاسکتی ہے کہ مدون اگر اس کے دوسرے ایڈیشن میں کچھ ضروری ترمیم سے کام لینگے تو مجموعےکا حسن اور بھی بڑھ جائیگا ۔
میری نظر میں صاف ستھرے ادبی اور دین کا کارآمد شعور رکھنےوالوں کو اس مجموعے سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے ۔ اور اہل حدیثوں کو تو بطور خاص اسے ہاتھوں ہاتھ لینا چاہیے ۔


ليست هناك تعليقات: