الجمعة، يناير 04، 2013

زنا بالجبر،عورت، ہم اور ہمارا سماج




ثناءاللہ صادق تیمی

جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی -67

دہلی کی چلتی بس کے اندر ایک طالبہ کے ساتھ ہوے گینگ ریپ (جماعتی زنا بالجبر) کے شرمناک حادثہ نے نہ صرف یہ کہ پورے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ اگر یہ کہا جاے کہ اس سے پوری دنیا ہل گئی تو کچھ مبالغہ نہ ہوگا۔ اس حادثہ کے بعد اس پورے مسئلے پر گرما گرم بحث شروع ہوگئی اور کئی طرح کے حل اور نقطہ ہاے نظر سامنے آئے ۔ جہاں ایک طرف کچھ لوگوں نے مجرموں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا وہیں کچھ اور لوگوں نے پھانسی کو مسئلے کا حل نہ مان کر عورتوں کی سیکوریٹی یقینی بنانے کے مختلف طریقوں کے اپنائے جانے پر زور دیا ۔ ایک طرف بعض حضرات نے اسے عورتوں کی غیر ذمہ دارانہ طرز رہائش اور حیا سوزلباس کا شاخسانہ قراردیا تو دوسری طرف کچھ اللہ کے بندے اسلامی سزا کے نفاذ کی مانگ بھی کر بیٹھے اور اس طرح جتنے منہ اتنی بات کی مثال ہمارے سامنے آگئی ۔ اس تعلق سے بیان بازیوں کو چھوڑ کر اگر سنجیدہ مضامین کی طرف نظر دوڑائی جاے تو وہاں بھی بالعموم عورتوں کی سیکوریٹی بڑھانے ،مختلف قسم کے سخت قوانین اپنانے ،عورتوں کو مزید آزادی دینے اور مساویانہ حقوق کو نافذ کرنے کی باتیں کہی گئیں لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس پورے مسئلے پر صحیح طریقے سے نظر نہیں ڈالی گئی ، شاید اس لیے بھی کہ بہی خواہان خواتین خود بھی کھلی بحث اور منظم حل کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دلچسـپ بات یہ ہے کہ اس بیچ ججوں کا ایک پینل بھی بنا دیا گیا ہے جو کارگر قانون پر غور وخوض کر رہا ہے ، اس سلسلے میں مختلف سیاسی پارٹیوں کی آراء بھی طلب کی گئی ہیں ۔
یہ بات In General درست ہے کہ عورتیں مظلوم ہیں اور سماج میں ان کو ان کا واقعی مرتبہ اور حق نہیں مل پاتا۔ قدم قدم پر ان کی راہیں مشکلات سے بھری ہوئی ہیں اور ان کی عصمت پر ڈاکے کب پڑ جائیں ،اس کا ٹھکانہ نہیں اور بلا شبہ اس ترقی یافتہ دنیا کے لیے یہ شرم کی بات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس پورے مسئلے کا واقعی حل کیا ہے اور کہاں ہے۔ 
نئی تہذیب کے متوالوں اور اشتراکی مفکرین کی مانیں تو عورت اور مرد برابر ہیں ۔ دونوں کے حقوق یکساں ہیں ۔ عورت پر عزت وعصمت کا اخلاقی دباؤ ڈالنا مرد کی چال ہے ۔ عورت کو پوری آزادی دستیاب ہونی چاہیے ۔ وہ کیا پہنے ، کیا اوڑھے ، کیا سوچے ،کس طرح پیار کرے اور کس طرح جیے ، یہ اس کا اختیار ہے ، اسے ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے روپ میں ہی نہیں بلکہ انسان کے روپ دیکھا جاے اور اسے Absolute Freedom (لامتناہی آزادی) دی جاے ۔ اگر کوئی اس کے ساتھ زنا بالجبر کرتا ہے تو اسے قرار واقعی سزا دی جاے لیکن موت یا پھانسی نہیں ۔ عورت کے ذہن سے خوف نکالا جاے اور زندگی کے ہر میدان میں عورت کی آدھی حصہ داری یقینی بنائی جاے تب جا کر ان مسائل سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے ۔
انہیں افکار وخیالات کا اظہار ہندوستان کے مختلف صوبوں سے شائع ہونے والے کثیر الاشاعت انگریزی روز نامہ The Hindu کے 30 دیسمبر 2012 کے صفحہ اول پر چھپے ایڈیٹوریل میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔

But even if the six are hanged , and even if our legislators, in a fit of conveniently misplaced concern, prescribe the death penalty for rape, the pathology we are dealing with will not be so easily remedied…….It is this leader less vacuum that ordinary citizens must step into in order to affirm the right of women. The right to be born and fed, the right to dress and travel and love as they please.


اس کے بالمقابل ایک دوسرا نقطہ نظر وہ ہے جسے ہم غیر انسانی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ کہ سکتے ہیں۔ اس رویے کا اظہار مختلف قسم کے طنزیاتی پیرایہ بیان سے ہوتا ہے جس کے اندر ہر طرح کی ذمہ داری عورت کے سر باندھ دی جاتی ہے ۔ یہ نقطہ نظر سے زیادہ عیاش اور منحرف ذہنوں کا تبریری رویہ ہے لیکن بہر حال یہ بھی ایک پہلو ہے ضرور ۔
ان دونوں کے بالمقابل ایک نقطہ نظر اور بھی ہے یعنی اسلامی نقطہ نظر۔ اسلام کے مطابق مرد و عورت اللہ کی تخلیق ہیں ۔ دونوں کے دونوں کو اللہ نے اس دنیا میں بھیجا کہ وہ بہتر عمل کے ذریعے جنت پانے کا حق حاصل کرلیں ۔ یہ دنیا فانی ہے اور اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے ۔ انسان مرد اور عورت کی ذمہ داری ہے کہ اللہ کی اس زمین پر جور و ظلم کی بجاے عدل و انصاف قائم کریں ۔ اسلام کے مطابق مرد و عورت ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اور ایک دوسرے کے لیے ذریعہ سکون و تسکین ۔ دونوں بطور انسان برابر ہیں البتہ اپنی فطری ضرورتوں اور جسمانی تقاضوں کے مطابق ان کی ڈیوٹی قدرے مختلف ہے ۔ عورت بنیادی طور پر گھر، گھر ہستی اور بچوں کی پرورش و پرداخت کی ذمہ دار ہے اور مرد رزق اور اس کے ذرائع حاصل کرنے کا ۔ اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ عورت کا تعلیم حاصل کرنا یا تجارت وغیرہ میں مصروف ہونا ممنوع یا معیوب ہے ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ باہر جب نکلے تو با پردہ رہے اور حیا و شرم کی چادر اوڑھے رہے۔ اسلام کا یہ بھی ماننا ہے کہ بالغ ہونے پر مرد شادی کرلے جب وہ اپنی ہونے والی بیوی کی خاص ضرورت اور اس کے کھانے پینے اور رہنے سہنے کا نظم کر سکتا ہو ۔ اور جب لڑکی بالغ ہو جاے تو اس کے اولیاء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کی مناسب جگہ شادی کردیں۔ اسلامی ہدایات کے مطابق عورت و مرد یکساں طور پر اس بات کہ مکلف ہیں کہ وہ اپنی نگاہوں کی اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔ خالص اسلامی نقطہ نظرسے دیکھا جاے تو عصمت وعفت صرف عورت کا ہی نہیں مرد کا بھی بے آمیز کردار سب سے اہم اور قیمتی سرمایہ ہے ۔
اسلام کی ان ہدایات کو صرف سماجی تناظر میں دیکھنا صحیح نہیں ہوگا ۔ اسلام تو سب سے پہلے اللہ واحد کا عقیدہ دیتا ہے جو ہر چیز پر قادر ہے اور جس کے ہاتھ میں انسان کی جان ہے ۔ یہ دنیا در اصل آخرت کی کھیتی ہے اور انسان اپنے اعمال کے مطابق ہمیشہ کی زندگی میں جنت یا جہنم کا مستحق ہوگا ۔ ایک ایک عمل کا انسان کو بدلہ دیا جائیگا ۔ اور ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ بلا شبہ انسانی کردار کو بہتری کی طرف مہمیز کرنے میں سب سے مضبوط اور دیرپا اثر ڈالتے ہیں ۔ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق اگر اللہ اور آخرت پر ایمان کی قوت اور ایک صالح معاشرے کے دوسرے اسلامی ہدایات انسان کو برائي سے نہ روک سکیں تو ویسی صورت میں شادی شدہ زانی مردوعورت کو سنگسار کیا جائیگا اور غیر شادی شدہ کو سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطن۔
اس تناظر میں دیکھا جاے تو ان لوگوں کی بات بے وزن معلوم ہونے لگتی ہے جو ہندوستان میں اسلامی سزا کے نفاذ کی مانگ کرتے ہیں ۔ سزا کی یہ بات تب کارگر ہوگی جب ہم اسلامی معاشرہ بھی بنا پائیں ۔ ایک ایسا سماج جس میں خواتین اور حضرات اپنی حدوں میں جیتے ہوں اور پھر کوئی اگر اپنی حدوں سے باہر نکلے تو سزا لاگو کی جاے تبھی جاکر اسلامی سزائیں اور حدود و تعزیر کا نظام اپنا اثر دکھلا پائیگا ۔
اس پورے معاملے میں سب سے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی آج کی بے حیا اور بے پردہ تہذیب پر انگلی نہیں اٹھاتا ۔ ٹی وی ،فلم، اشتہارات، پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور ان سب کے اوپر انٹرنیٹ کا پورا کا پورا جال بس اور بس بے حیائی کے فروغ میں کوشاں ہے۔ اس قدر گرے ہوے اور گھٹیا نغمے دن رات چلتے رہتے ہیں کہ الاماں والحفیظ ۔ کسی بھی چیز کا اشتہار ہو نیم عریاں دوشیزہ کا جلوہ ضروری ہوتا ہے ۔ گویا ہر چہار جانب سے ہم عورت کو سامان تعیش و مستی بنا کر پیش کرتے ہیں اور پھر اس کی Dignity اور Honor کی بات کرتے ہیں ۔ خدا بیزار دنیا کے سامنے اتنے ہیجان انگیز مناظر پیش کیے جاتے ہیں ، اخلاق حمیدہ اور عمدہ خصائل کی باتوں کو گئے دنوں کا بکواس سمجھا جاتا ہے اور پھر جب اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو بے مطلب ہم ہنگامہ شروع کر دیتے ہیں ۔
اگر ہم واقعۃ اس قسم کے مسائل کا پائیدار حل چاہتے ہیں تو ہمیں اس پورے معاملے پر از سرے نو غور کرنا ہوگا ۔ اگر بر سر روز گار خواتین (Working Women ) کو جنسی استحصال کا سامنا ہے ، اگر خواتین گھروں کے باہر غیر محفوظ ہیں ، اگر مردوں کا رویہ عورتوں کے تئیں غیر منصفانہ ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا علاج نہ تو احتجاج ہے نہ ہی سرکار پر الزام اور نہ ہی عورت کی مکمل آزادی کا غیر عملی اور نہایت خطرناک مطالبہ۔
عورتوں کو خوف کی نفسیات سے نکالنے اور اسے ہر میدان میں مرد کے مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کرنے والے بھول جاتے ہیں عورت کی کچھ دوسری فطری ضرورت بھی ہے اور نفسیاتی مانگ بھی ۔ وہ نہ تو اپنی جسمانی ساخت میں اور نہ ہی نفسیاتی رسائی ميں مردوں کی طرح ہے ۔ 
اگر انسان کے اندر اللہ کا خوف ، جنت کی چاہت ، جہنم سے نفور اور بہتر اخلاقی تربیت کے زیور سے آراستگی آ جاے تو ایک ایسے سماج کی تشکیل عمل ميں لانا عین ممکن ہے جہاں ہر کوئی اپنی حد میں جیے اور مسرت بھری زندگی کا لطف حاصل کرے ۔ میرے اپنے ایمان اور سمجھ کے مطابق سوائے اسلامی نظام حیات کے اور کوئی بھی نظام کے پاس انسان کے جملہ مسائل کا کوئی پائیدار حل نہیں اور اس معاملے میں تو اور بھی نہیں ۔ اور ہر چند کہ بھارت میں اسلامی سوسائٹی نہیں لیکن اگر سنگساری کا نظام نافذ کر دیا جاے تو دوسرے قوانین سے زیادہ اثر انگیز تو ضرور ہوگا ۔ ہاں اسلامی قانون کا اصل مزہ تو تبھی سمجھ میں آئيگا جب اسلامی سماج بنانے کی کوششیں بھی ہونگی ۔ اس معاملے میں اشتراکی نقطہ نظر تو حد درجہ گمراہ کن ہے اور غیر عملی بھی ۔ اشتراکی فکر کے مطابق انسان سماج کی پیداوار ہوتا ہے ،بے قید Sex انسان کی ضرورت ہے ،شراب نوشی انسان کا داخلی معاملہ ہے ، اس میں اسے آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آ خر یہ خدابیزار فکر انسان کو لے کہاں جانا چاہتی ہے ، کس قسم کا انسانی سماج بنانا چاہتی ہے جہاں عصمت وعفت کا تصور بھی غلط ہو ، بے حیائی کے ذرائع بھی درست ہوں اور یہ یقین بھی رکھا جاے کہ معاشرہ ہر طرح سے مامون بھی رہیگا ۔ مرضی سے ہو تو ہر طرح کے Sex کو نہ صرف یہ کہ درست سمجھا جاے بلکہ اس کو زیادہ سے زیادہ بڑھاوا بھی دیا جاے ۔ اوپر سے اللہ کو مانا ہی نہ جاے اور آخرت میں جوابدہی کے کسی تصور سے کوئی مطلب بھی نہ ہو ۔ تضاد کی مثالیں دنیا میں اور بھی ہوںگيں لیکن اس کے مقابلے کی شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے ۔

هناك تعليق واحد:

Saifurrahman Hifzurrahman Taimi يقول...

masha allah maqala kafi malumati aur hqaeq per mabni hai allah ahle watan ko in haqaeq ko smajhne aur iske mutabiq iqdam karne ki taufiq de-ham