الأربعاء، فبراير 18، 2015

یہ سعودی عرب کا دارالسلطنت ریاض ہے !


ثناءاللہ صادق تیمی 
 اسسٹنٹ پروفیسر ، امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی ریاض ، سعودی عرب

امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی ریاض کے اندر کلیۃ اللغات والترجمۃ میں  بحیثيت اسسٹنٹ پروفیسر جوائننگ لینے کے بعد ابھی ہم نے اس شہر کے اندر چند ایام ہی بتائے ہيں ۔ ہمارا اصل کام تو ائمہ حرم مکی یا مدنی  کے اردر مترجم کی حیثيت سے خدمات انجام دینا ہے لیکن ہمارا تعاقد امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی کے تحت عمل میں آیا ہے ۔ جس کی وجہ سے ابھی ہم ریاض ہی میں ہیں ۔ ان چند ایام میں کچھ ایسے مشاہدات ہوئے ہيں جنہيں شیئر کرنے کی طبعیت ہورہی ہے ۔

    پہلے دن سے ہی جب ہم نے ریاض میں قدم رکھا ہمیں جتنے ٹیکسی والے ملے وہ سب کے سب پاکستانی ملے ۔ سن رکھا تھا کہ پاکستانی بڑے بد اخلاق اور ترش ہوتے ہيں ۔ ہمارا تجربہ اس کے بالکل برعکس یہ رہا کہ وہ سب کے سب نارمل انسان اور مسلمان کی مانند اچھے ، سلجھے ہوئے اور شریف انسان نظر آئے ۔ بلکہ آج تو ایک بزرگ پاکستانی ٹیکسی ڈرایور سے مل کر ہم اخوان ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی ، جناب حفظ الرحمن تیمی اور میں (ثناءاللہ صادق تیمی ) بالکل باغ باغ ہوگئے ۔ اس تجربے سے ہمارے اس بھائی کی بات کی صداقت سمجھ میں آئی جس نے جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ کے اندر ہم سے عربوں کے بارے میں پوچھا تھا اور جب ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی نے انہيں بتایا تھا کہ عرب بڑے اچھے انسان ہيں تو انہوں نے کہا تھا کہ ہر جگہ اچھے اور برے انسان ہوتے ہيں ۔

   ہم نے ریاض کے اندر ہندوستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش اور نیپال کے لوگوں کو بڑی تعداد میں پایا ۔ برصغیر ہندو پاک سے تعلق رکھنے والے یہ حضرات مختلف قسم کی نوکریوں سے منسلک ہيں ۔ یہاں کی عام زندگی پرسکون ، مطمئن اور فارغ البال ہے ۔ خوشحالی کے اثرات کھانے پینے کی اشیاء پر بالکل واضح ہیں  ۔ ہمارے قلم کار دوست جناب انظار احمد صادق کے مامو اور اس نسبت سے ہمارے مامو جناب عاصم سلفی نے بتایا کہ یہاں کے عام لوگوں  کا لیونگ اسٹینڈرڈ بھی ہندوستان کے امراء کے لیونگ اسٹینڈرڈ سے کم نہيں ہے ۔ عام لوگ بھی اچھا کھاتے پیتے اور بہتر رہائش اختیار کرنے کی سکت رکھتے ہیں ۔  زیادہ تر جگہوں پر گفتگو میں پریشانی محسوس نہيں ہوئي کہ ایک تو ہمیں الحمد للہ عربی آتی ہے اور دوسری یہ کہ یہاں اردو آبادی بہت ہے اور تیسری یہ کہ خود عرب بھی بعض اردو الفاظ کے استعمال کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ہم نے پچھلے ایک ہفتہ میں فائیو اسٹار ہوٹل سے لے کر عام بازاروں اور شاپنگ مول تک میں کسی خاتون کو بے پردہ نہيں دیکھا ۔ اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ خواتین ضروریات زندگی زندگی کے لیے باہر نہيں نکلتیں ۔ وہ باہر نکلتی ہیں لیکن مکمل اسلامی لباس میں ۔

    ایک چیز جس نے دل کے اندر خوشیوں کی پوری دنیا آباد کردی ، وہ ہے آذان ہوتے ہی ساری دکانوں کا بند ہو جانا اور زیادہ تر لوگوں کا مسجد کی طرف چل پڑنا ۔ ایک دوسری چیز جس کا ذکر فائدے سے خالی نہ ہو یہ نظر آئی کہ یہاں لوگ جماعت اولی کے چھوٹنے کے بعد تنہا تنہا نماز نہيں ادا کرلیتے بلکہ وہ جماعت ثانیہ کا اہتمام کرتے ہیں ۔ نماز سے متعلق تھوڑی بہت کوتاہی کا مشاہدہ اجانب کے اندر ہی ہوا ۔ عرب بالعموم نماز کا اہتمام کرتے ہیں ۔ اجانب یہاں غیر عرب کو کہتے ہیں ۔ نماز کی بات چل رہی ہے تو بتاؤں کہ یہاں آج ایک بڑا عجیب منظر دیکھنے کو ملا ۔ ہم عشاء کی نماز کے لیے اپنے کمرے سے باہر نکل کر مین سیڑھی تک پہنچے تو دیکھا کہ لوگ بے تحاشا بالکل لتے پتے لے کر اندر بلڈنگ کی طرف بھاگ رہے ہیں ۔ ہماری سمجھ میں کچھ نہيں آیا اور ہم بھی ان کے ہمراہ بھاگ کھڑے ہوئے لیکن اپنے روم کے دروازے پر کھڑے لوگوں سے ہم نے استفسار کیا کہ آخر باہر ایسا کیا ہوا کہ آپ لوگ یوں سرپٹ بھاگ رہے ہیں ۔ اور ہمیں جواب ملا کہ باہر مطوع آگئے ہيں ۔ اول وہلہ میں تو ہماری سمجھ میں کچھ نہيں آیا لیکن پھر فورا ہی ہمیں اپنے بعض دوستوں کی وہ باتیں یاد آئيں کہ یہاں ھیئۃ الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کافی سرگرم ہے ۔ خیر ہم نے ان بھائیوں سے اللہ سے ڈرنے ، قیامت کے دن کے حساب کا خیال کرنے اور اپنا جائزہ لینے کی تلقین کی اور ہم نماز کے لیے مسجد کی طرف روانہ ہوگئے ۔ باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سارے کے سارے لوگ مسجد کی طرف رواں دواں ہیں اور جیسے پورے بازار پر سناٹے نے پہرہ دے دیا ہے ۔

   آج ہی خادم الحرمین الشریفین ملک عبداللہ بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی موت پر تعزیت کے لیے امریکی صدر براک اوباما ہندوستان سے سیدھے ریاض آئے ہيں ۔ ہم نے ان کی آمد پر سیکوریٹی کا اعلا اور زبردست انتظام دیکھا ۔ قدم قدم پر سیکوریٹی کی گاڑیاں چم چم کررہی تھیں ۔ لیکن حیرت میں ڈالنے والی بات ہمارے لیے یہ تھی کہ اتنی سخت سیکوریٹی فراہم ضرور کی گئی لیکن عام آدمی کے لیے راستہ بند نہیں کیا گیا ۔ جس راستے سے اوباما کو آنا تھا اس سے صرف دس پندرہ منٹ پہلے  ہم کرایے کی ٹیکسی سے گزرے اور ہمیں کوئي پریشانی نہیں ہوئی ۔ ہمارے لیے یہ حیرت نا ک ہونے کے ساتھ ساتھ کافی مسرت انگیز تجربہ بھی تھا کہ ہمیں اپنے ملک میں معمولی وزیروں کی آمد پرروڈ بلاک کیے جانے کی وجہ سے ہونے والی اذیتوں کا احساس ہے ۔

    ہمارے ریاض آنے کے دو تین  دن کے بعد ہی خادم الحرمین الشریفین ملک عبداللہ کا انتقال ہوگیا ۔ ہمارے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اتنی سنجیدگی ، سادگی اور آسانیوں سے ان کی تجہیز و تکفین عمل میں آئے گی ۔ جمعہ کے خطبے میں امام جمعہ نے صرف دو سے تین جملے کے اندر ان کی موت کی خبر دی ، ان کے حسنات قبول کرنے اور سئیات سے درگزر کرنے کی اللہ سے دعا کی اور عام لوگوں کو آخرت کی تیاری پر ابھارا ۔ جس امن و شانتی کے ماحول میں نئے بادشاہ کے لیے بیعت لی گئی اور سارا معاملہ طے پاگیا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہی ہے ۔ دار السلطنت کے اندر ہم نے جن جن علاقوں کا دورہ کیا ان میں  کہیں کہیں پر نئے بادشاہ کی تصویر کے ساتھ بس یہ جملہ لکھا نظر آیا کہ نبایعکم علی کتاب اللہ وسنۃ رسولہ ۔


   از راہ تذکرہ یہ بھی بتاؤں کہ آج جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ کے اندر ہمیں دو ہندوستانی علماء سے ملنے کا شرف بھی حاصل ہوا ۔ ایک جہاں محبت ، تواضع اور وقار کی تصویر نظر آئے وہیں دوسرے کا انداز ، طرز خطاب اور احساس ترفع ہم دوستوں کو ایک آنکھ نہ بھایا ۔ چائے خانے میں باتیں کرتے ہوئے ہم نے جہاں متواضع عالم کی بابت دعائیہ کلمات کا استعمال کیا وہيں احساس ترفع کے بوجھ تلے دبے حضرت کے لیے ہم دوستوں کی زبان پر اگر دعائیہ کلمات تھے تو یہ کہ اللہ یھدیہ ۔ ہم نے سوچا کہ بس ایک مختصر ملاقات میں ایک آدمی نے دعا کا خود کو مستحق بنا لیا اور دوسرے نے ناراضگیوں کا ۔ سوچیے تو انسان کا ایک ایک لمحہ لمحہ کتنا معنی رکھتا ہے اور جب ہم انسانوں کی نظر میں اس کی اتنی اہمیت ہے تواس اللہ کی نظر میں اس کی کیا اہمیت ہوگی جو وقت کی قسم تک کھاتا ہے ۔ فاعتبروا یا اولی الابصار !!!

ليست هناك تعليقات: