الخميس، أبريل 05، 2018


مسلمانان ہند ، مسلم دنیا   اور  نئے تقاضے
ثناءاللہ صادق تیمی
ہندوستان  میں مسلمانوں کی حالت بھی عجیب ہے ۔ انہیں خود اپنی اتنی پروا نہیں رہتی جتنی دوسرے ملکوں میں بس رہے مسلمان بھائیوں کے لیے وہ پریشان رہتے ہیں ۔ ابھی بھی آپ دیکھیں گے کہ ان کے یہاں ہندوستان کی موجودہ صور ت حال سے کہیں زياد ہ فلسطین ، خلیجی ممالک اور دوسرے  خطوں کے سلسلے میں  فکرمندی  پائی جاتی ہے ۔ یہ فکرمندی در اصل اس عقیدے کا نتیجہ ہے جس کی رو سے دنیا کے سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں ، اس پورے منظر کو سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ میں تھوڑا پیچھے بھی جانا پڑے گا ۔ معلوم بات ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نہیں بھی تو ایک بڑی تعداد عرب ممالک ، ایران اور خراسان وغیرہ سے آکر یہاں بسی ہے ، ہندوستانی بادشاہ عرب حکمرانوں سے اجازت حکومت لیتے تھے اور اس کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی ، ہم مسلمانوں نے بیسویں صدی کے دوسرے اور تیسرے دہے میں خلافت تحریک چلائی ہے ، جس خلافت کا ہندوستان سے بس یہ تعلق تھا کہ مسلمانوں کو وہاں ایک مرکز قوت نظر آتی تھی ورنہ ترکی سے اور کیا رشتہ ہو سکتا تھا ،یہ دینی حمیت اور اسلامی اخوت تھی کہ ترکی کی خلافت عثمانیہ کو بچائے رکھنے اور مضبوط رکھنے کی تحریک ہم ہندوستان میں چلا رہے تھے ۔ جس کا جو منطقی نتیجہ نکلنا تھا وہ نکل کر رہا ۔ ہمارا دینی مرکز جہاں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہے وہیں صوفیا کے مختلف سلسلوں کو بغداد وغیرہ سے خاص لگاؤ رہا ہے اور ان کے لیے وہی خطہ   مرکز کی حیثیت رکھتا ہے ۔
اس تناظر میں عرب ممالک کے تئیں یہ فکر مندی نہ تو تعجب خيز ہے اور نہ ہی  مستبعد البتہ افسوسناک بات یہ ہےکہ اب اس رشتے میں مسلکی زہر پیوست ہوگیا ہے ۔ اندھی عقیدتیں اورکم تر جانکاری کی بنیاد پر ہنگامہ آرائی جاری رہتی ہے ۔ ہماری اکثریت کو ان خطوں کی ٹھوس جانکاری نہیں ہےلیکن سب سے زیاد ہ یقین کے ساتھ انہیں خطوں سے متعلق ہماری باتیں سامنے آتی ہیں ۔ ا س کی  ایک وجہ اس طرف آکر ان ملکوں میں پائی جانے والی دولت بھی ہے ، جس سے انکار ممکن نہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ  نیشن  اسٹیٹ کا حوالہ دے کر بر صغیر کے مسلمانوں سے یہ توقع رکھتے ہيں کہ وہ عرب ممالک کے مسائل پر رائے زنی سے گريز کریں وہ ایک ایسی توقع رکھتے ہیں جو کبھی پوری نہیں ہوگی البتہ یہ بہر حال افسوسناک ہے کہ ہم ہندوستان  کے لوگ خود اپنے گھر کی خبر اس طرح نہیں لیتے جس طرح لینی چاہیے ۔ تعجب کی بات تو یہ بھی ہے کہ ہماری یہی توجہ پاکستان ، بنگلہ دیش ، نیپال ، برما ، بھوٹان   اور مالدیپ کے مسلمانوں کے تئیں دیکھنے میں نہيں آتی ۔  نہ معلوم کیوں یہاں آکر ہماری اخوت ایمانی اور غیرت دینی کیوں کمزور پڑجاتی ہے !!
ہندوستان ایک نازک مرحلے سے گزر رہا ہے ، ایک دوسرے پر لعنت کے تیر برساکر ہم اپنے دشمنوں کو صرف مضبوط ہی کرسکتے ہیں ، ہمارے دشمنوں کو پتہ ہے کہ وہ ہمیں ہندوستان سے مٹا نہیں سکتے اس لیے وہ ہمیں بےدست و پا کرنے کی کوشش میں ہیں ، سیاسی سطح پرہمیں بے وقعت بنانے سے لے کر  ہر طرح کے سماجی اور عوامی پلیٹ فارم سے وہ ہمیں دور کردینا چاہتے ہیں ، ان کی خواہش اور سازش دونوں یہ ہے کہ وہ ہمیں چھوٹے چھوٹے اور غیر اہم مسائل میں الجھا کر رکھیں اور قومی سطح پر ہمارے  بحیثيت ایک مضبوط ملت کے اٹھان کو روکا جا سکے ، اسی لیے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے مسائل باہر لائے جارہے ہیں جن کا قوم ملت کی ترقی و تعمیر سے دور دور تک کا رشتہ نہیں ، ایسے مسائل کو چھیڑا جارہا ہے جن سے مسلمانوں کے مختلف مسالک  اور فرقوں کے بیچ دوری پیدا کرکے دشمنی کے بیج بوئے جا سکیں ۔
اس صورت حال میں ہماری سمجھدار ی بہر حال اسی میں ہے کہ ہم اپنی تعمیری پیش رفت کو متاثر نہ ہونے دیں ، تعلیم و تعلم کی راہ پر جو قافلہ چل پڑا ہے وہ بے راہ نہ ہو نے پائے ، ایک جمہوری ملک میں جو مواقع دستیاب ہیں وہ ہاتھوں سے چھوٹنے نہ پائیں بلکہ حالات کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ان کوششوں کو اور مضبوط کیا جائے ، نئے نئے ادارے وجود میں آئیں اور دو قدم آگے بڑھ کر ملت کی تعمیر کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جائے ۔ ہماری تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ہم نا موافق حالات میں اور بھی زیاد ہ بہتر نتیجے حاصل کرتے ہیں ۔ انیسویں صدی کے آخری نصف اور بیسوی صدیں کے پہلے نصف کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں اس عرصے میں ہمارے ہاتھ سے اقتدار نکل گیا وہیں ہم نے کئی سطحوں پر بے مثال کارنامے بھی انجام دیے اور ہم میں ایسے ایسے دماغ اور افراد ابھرے جنہوں نے نازک وقت میں ملت کی بہترین رہنمائی کا فريضہ انجام دیا ۔ سر سید ،  شبلی ، اقبال ، آزاد اور بقیہ رہنماؤں اور ان کے کارناموں کو  دیکھیے تو آنکھیں چمک اٹھتی ہیں ۔موجودہ حالات میں مسلک مسلک ، ایران سعودی اور ترکی وہابی کا کھیل کھیلنے سے قبل یہ ضرور دیکھیے کہ آپ کی اپنی کشتی کس منجھدار میں ہے ۔ یاد رکھیے کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی ہندوستان میں بستی ہے ، اس آبادی میں ایک پر ایک بڑے لوگ ہیں ، بڑا دماغ اور شعور ہے ، آنے والی نسلیں ہمیں نہیں بخشیں گیں کہ اگر یہ دماغ اور شعور تعمیر کی بجائے تخریب یا آپسی اختلافات کی نذر ہوگیا ۔
دشمن تاک میں ہے ، اس نے اپنے جال پھیلا دیے ہیں لیکن ہمارا ایمان ہے کہ ہم بہر حال دشمن کو مات دیں گے اور سرخروئی ہمارا ہی مقدر ہوگی ۔ اللہ کرے کہ ہم حالات کو سمجھ سکیں اور بہتر سمت میں اپنی قوت لگا سکیں ۔راحت کی زبانی ہم اور بھی مضبوطی سے کہ سکیں ۔
ابھی غنیمت ہے صبر میرا ، ابھی لبالب بھرا نہیں ہوں
مجھے وہ مردہ سمجھ رہا ہے ، اسے کہو میں مرا نہیں ہوں
وہ  کہ رہا ہے کہ کچھ دنوں میں مٹا کے رکھ دوں گا نسل تیری
ہے اس کی عاد ت ڈرا رہا ہے ، ہے میری فطر ت ڈرا نہیں ہوں
راحت اندوری