الخميس، فبراير 12، 2015

شاتم رسول تسلیمہ نسرین کے پیچھے کون ؟


رحمت کلیم امواوی
(جواہر لعل نہرو یونیورسٹی،نئی دہلی)

سچائی کا یہ چہرہ کبھی قابل انکار نہیں ہو سکتا کہ مذہب اسلام کو جس قدر اہل اسلام نے ٹھیس پہنچائی ہے اور جس طرح مذہب اسلام کے احکام کو پامال کیاہے، اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کی ہے اور عالمی پیمانے پر اسلامی روح کو زک پہنچانے کی ناروا کوششیں کی ہیں شاید ہی دوسرے مذاہب کے ساتھ اس کے ماننے والوں نے ایسا سلوک کیا ہوگا۔ تاریخ کے اوراق ایسے واقعات وسانحات سے بھرے پڑے ہیں جنہیں بطور دلیل پیش کیا جا سکتا ہے اور شعر کے اس مصرعہ میں بھی قوی سچائی ہے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
اسلامی لیبل چسپاں کئے یا لاالہ اللہ کا بینر لگائے جتنی بھی نام نہاد اسلامی تنظیمیں ہیں چاہے وہ طالبان ہوں یا القائدہ، جماعة الدعوہ ہوںیاانڈین مجاہدین،حجب اللہ ہوں یا داعش۔ مذکورہ تمام تنظیموں نے اسلامی شبیہ کو مسخ کرنے میں جتنا گھناﺅنا کردار ادا کیا ہے اتنا ان تنظیموں نے نہیں کیا جو مغرب نے بطور خاص ہمارے لیے تیار کیے ہیں۔اسامہ بن لادن ہو یا ابوبکر بغدادی، حافظ سعید ہو یا داﺅد ابراہیم یا پھر اس قطار میں کوئی اور سبھوں نے اپنے اپنے طور پر اسلامی حیثیت اور اسلامی حقیقت کو کمزور کرنے کی کوششیں کی ہیں اور کم علم وعقل مسلم نوجوانوں کو جذباتی و مذہبی بلیک میل کرکے اس انداز میں تشدد کے راہ پر گامزن کردیا ہے کہ ان کے اذہان و قلوب پر تالے پڑ گئے ہیں اور حقیقت شناسی سے بہت دور بھاگتے ہوئے جذباتی انداز میں اسلام کے نام پر غلط راہ پر چل پڑے ہیں جن کے کارناموں سے آئے دن اسلام پر انگشت نمائی ہوتی رہتی ہے۔خیر یہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے اپنے گھر سے کب اور کس طرح اپنے ہی مذہب کے دشمن بن گئے اس کا احساس بھی نہ ہوا اور جب تک ان لوگوں کو سمجھ پاتے تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔لیکن عالمی پیمانے پر مذہب اسلام کو نشانہ بنانے کیلئے جس انداز میں سعی کی جارہی ہے اور جس قسم کے حربے استعمال کیے جارہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔مغرب نے اپنے وجود کو بطور خاص مذہب اسلام کے خلاف وقف کر رکھا ہے اور موقع بہ موقع مغربی کارفرمائیوں کا ہمیں مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کارٹون شائع کیے جاتے ہیں تو کبھی جوتے پرمعاذ اللہ’ اللہ و محمد‘ لکھا جاتا ہے تو کبھی اسلامی تعلیمات کو منفی انداز میں فلما کر پیش کیا جاتا ہے تو کبھی کسی اور طریقے سے اپنی دشمنی کا اظہار کرتے ہیں اور مسلمانوں کی غیرت و حمیت کا باربار امتحان لیا جاتا ہے مگران تمام حرکات سے بالا تر مغرب کی سب سے مضبوط اور کار آمد پالیسی جو ہے وہ ہے ہمارے اپنوں کے ہاتھوں اپنے مقصد کو حاصل کرنا ۔یعنی ہمارے درمیان یا یوں کہیے کہ ایسے نام نہاد (so called) مسلمان جنہیں شہرت اوردولت اپنے مذہب کے بالمقابل کچھ زیادہ ہی عزیز ہو اور اس حقیر دولت و شہرت (بدنامی) کو حاصل کرنے کیلئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہوں ایسے لوگوں کا استعمال اپنے مفادات کیلئے مغرب خصوصاً کرتا ہے اور مہرے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے نان ونفقہ کا لالچ دے کر ایسے منافقوں سے ہم پر حملے کراتا ہے۔ تاریخ کے صفحات میں اس قسم کی ہزاروں مثالیں آج بھی محفوظ ہیں۔
لیکن ہم تاریخ کے پیچ و خم میں نہ الجھ کر ماضی قریب کا سہارا لیتے ہوئے حال تک اس حوالے سے پہنچنے کی کوشش کریں گے کہ وہ کون لوگ ہیں جو مغربی غذا کھا کر اسلام کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔اس فہرست میں عام طور پر دو نام فوراً ذہن میں آتے ہیں ۔ایک شاتم رسول سلمان رشدی اوردوسرا گستاخ رسول تسلیمہ نسرین کا۔سلمان رشدی کے خلاف بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ توخاموش ہے لیکن شاتم رسول تسلیمہ نسرین کے خلاف لاکھ آواز اٹھانے اور جلا وطن کرنے کے بعد بھی اس کی دریدہ دہنی میں کوئی کمی نہیں آئی اور وہ بدستور اپنی زہر افشانی پر قائم ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے اور کس کی شہ پر نسرین اس قدر جری ہے ان سوالات کا احاطہ بعد میں کریں گے،پہلے اس بدنام زمانہ خاتون کی زندگی کے بارے میں چند بنیادی باتیں جان لیں ۔
            اس بد نصیب کی پیدائش 25 اگست 1962کوبنگلہ دیش میں ہوئی اور وہیں ابتدائی تعلیم کے بعد ایم بی بی ایس تک کی تعلیم بھی مکمل کی۔ بچپن سے ہی اس کی بد چلنی، فحاشی اور بے حیائی کے چرچے تھے، اسکول و کالج میں اس کو اسی حوالے سے جاناجاتا تھا، چال چلن اور عادات واطوار ایسی کہ کوئی بھی باکردار اس کے سایے سے بھی پناہ مانگے ،یہی وجہ ہے کہ تسلیمہ نسرین کی ازدواجی زندگی کبھی کامیاب نہ ہو سکی اور یکے بعد دیگرے تین تین شادیاں کیں لیکن سبھوں نے اس کی بے راہ روی سے عاجز آکر اسے طلاق دے دی۔ سن 1982ء میں وہ بنگلہ دیش کے مشہور شاعر محمد شاہد اللہ کے عشق میں گرفتار ہوگئی اورگھر سے بھاگ کر شادی کرلی لیکن سن1986ء میں شاہد اللہ نے تھک ہار کر اس کو آزاد کردیا،پھر اسکے بعد اس نے ایک صحافی نعیم الاسلام خان سے شادی رچائی لیکن خان کی زندگی میں آتے ہی اس خاتون نے اس کی زندگی اجیرن کردی اور مجبور ہوکر نعیم نے بھی سن1991ء میں اس سے چھٹکارا حاصل کر لیا، اس طرح اسے یہ دوسری طلاق ملی۔ اس کے بعد بھی اس کی جنسی بھوک نہیں مٹی تواس نے ایک ہفت روزہ کے ایڈیٹر کو اپنے جال میں پھنسایا اور منار محمود سے شادی کر لی لیکن اس کی بے حیائیاں اور بد تمیزیاں یہاں بھی کم نہ ہوئیں تو منار نے بھی عاجز آکر اس کوسن 1992ء میں ہمیشہ کیلئے آزادی کا پروانہ دے دیا۔اس کے بعد سے اب تک یہ ادھر ادھر منہ مار رہی ہے اور مغربی ٹکروں پر پلتے ہوئے اسلام کے خلاف زہر افشانیاں کر رہی ہے۔بنگلہ دیش میں بھی اس کے کالے کرتوت موقع بہ موقع سبھوں کے سامنے آتے رہے ہیں ۔ سن1999میں بنگلہ دیش ساہتیہ اکادمی کے اس وقت کے چیئر مین سنیل گنگ اپادھیائے نے جب تسلیمہ کی ایک گندی اور پھوہڑکتاب کے خلاف فیصلہ دیا تو اس نے خوداس صاف وستھری شبیہ والی شخصیت پر اپنے ساتھ جنسی استحصال کا الزام لگا دیا۔
            بہر کیف یہ تمام باتیں اس سچائی کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ یہ بدکردارخاتون کسی بھی اعتبار سے پاک دامن اور کسی ایک مذہب کی نہیں ہے۔جب وہ اپنی ازدواجی زندگی خوشحال نہ بنا سکی او ر تین تین گھر اجاڑ دیے تو اس کے بعد اس گستاخ کو کوئی مستحکم ٹھکانہ نہیں مل پار ہا تھا، آخر کار اسے مغربی منصوبہ کو اختیار کرنا آسان لگا اور یہ امید بھی جگی کہ مغرب کا گرویدہ ہونے اور راتوں رات شہرت کے آسمان پر پہنچنے کیلئے سب سے آسان راستہ مذہب پر حملہ کرنا ہی ہے۔ اس کے بعد یقینا کچھ لوگ موافق تو کچھ مخالف بن جائیں گے۔ لیکن معاملہ یہ تھا اگر وہ عیسائی یا یہودی عقیدے کے خلاف کچھ بولتی یا لکھتی ہے تو چاروں طرف سے بے سہارا ہو جائے گی اور جینا مشکل ہو جائے گا اور اگر ہندوازم پر وار کر تی ہے تو ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کی مانند آخری سہارا جو ہندوستان ہے وہ بھی ختم ہو جائے گا اس لیے اس نے اپنی مذموم حرکت کیلئے مذہب اسلام کا انتخاب کیا چونکہ وہ جانتی تھی کہ مفت کی شہرت اور مغرب سے حقہ پانی مسلمانوں کو ٹھیس پہنچا کر ہی مل سکتا ہے۔
اس لیے اس نے ایک ناول تصنیف کی اور سن 1993ء میں’لجا‘ کے نام سے وہ منظر عام پر آیا۔جس میں ہمارے تاجدار بطحی محمد عربی کی شان اقدس میں نہایت گستاخی کی گئی پھر کیا تھا مذہبی حمیت سے سرشار مسلمان سڑکوں پر اتر آئے اور مخالفت مستقل اس انداز میں جاری رہی کہ بنگلہ دیش حکومت نے تسلیمہ نسرین کو سن 1994ء میں جلا وطن کردیا ،مسلمانوں کی جانب سے دی گئی قتل کی دھمکی سے ڈر کربدنام زمانہ شاتم رسول ادھر ادھر مغربی آقاﺅں کی پناہ میں ان کے تلوے چاٹتی رہی، درمیان میں سن 2004ء میں ہندوستانی حکومت نے بھی اس کو عارضی طور پر پناہ دی تھی لیکن مسلمانوں نے ا س کوبرداشت نہیں کیا اور مجبوراً سن 2008 میں یہاں سے اسے بھاگنا پڑا۔ سن 1993سے لیکر اب تک بے شمار ایسے ایسے غلیظ اور شرپسند انہ کرتوت کیے کہ اگر اس کے اندر ذرہ برابر بھی حیا باقی ہوتی تو شرم سے ڈوب مرتی ،لیکن اس بے غیرت سے اچھائی کی توقع عبث ہے چونکہ مغرب نے بہت ہوشیاری سے اس کو اپنے استعمال کیلئے رکھا ہے اور شاتم رسول اسی میں خوش ہے،ساتھ ہی ساتھ اپنی ذمہ داری کو اس خوف سے مسلسل انجام دے رہی ہے کہ کہیں مغربی آقاﺅں نے ناراض ہو کر رشتہ منقطع کرلیا تو پھر کسی کام کی نہیں رہ پاﺅں گی۔علاوہ ازیں وطن عزیز ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت بننے سے گستاخ مصنفہ کے حوصلے کو مزید تقویت ملی ہے۔ چونکہ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ مغرب کا چھوٹا بھائی برصغیر میں آر ایس ایس اور بی جے پی ہے اور اگر اس قسم کا رشتہ نہ بھی ہوتو دونوں کے منصوبے مسلمانوں کے حوالے سے یکساں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج گستاخ رسول ہندوستان میں بے خوف وخطر قیام پذیر ہے اور بہت مضبوطی کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کو زک پہنچانے کی وقتاً فوقتاً کوششیں کر رہی ہے۔ساتھ ہی یہ بد نصیب ہر اس کام پر کھلے دل سے خوشی کا اظہار کرتی ہے جو مذہب اسلام یا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوتے ہیں اور ہر اس وقت کا بھرپور استعمال کرتی ہے جہاں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک جملہ بھی لکھنے کا موقع ملتا ہے۔اس کی واضح مثال29جنوری 2015 کی ہے جب 66ویں یوم جمہوریہ کی مناسبت سے امریکی صدر براک اوبا مہ اور ان کی اہلیہ مشیل اوبامہ ہندوستان کے دورہ پر تھیں۔ دورے کے بعد یہاں سے سیدھے سعودی عرب جانے کا پروگرام تھا چونکہ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کا انتقال ہو چکا تھا اور پوری دنیا سے لوگ تعزیت کیلئے جا رہے تھے ایسے میں اوبامہ کا یہ فیصلہ کافی لائق ستائش تھا، اوبامہ سعودی عرب پہنچے اور ساتھ میں ان کی اہلیہ مشیل اوبامہ بھی تھیں۔ مشیل اوباما کا لباس وہی نیم برہنہ تھا جس لباس میں وہ ہندوستان آئی تھیں، حالانکہ مشیل اوبامہ کو احتیاط برتنی چاہیے تھی اور سعودی کلچرکے ساتھ ساتھ ملک کے آداب کا کچھ نہ کچھ ضرور پاس و لحاظ رکھنا چاہیے لیکن ایسا انہوں نے نہیں کیا۔ عالمی پیمانے پر ہرصاحب حل وعقد نے ان کے اس عمل کی مذمت کی اور احتیاط برتنے کو ضروری قرار دیا لیکن یہاں پر شاتم رسول تسلیمہ نسرین کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا، اس نے فوراً ٹوئٹ کرکے دل کہ گہرائی سے مشیل اوبامہ کے اس عمل پر خوشی کا اظہارکیا، گستاخ رسول نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ
A million thanks to Michelle Obama for not wearing a veil in Saudi Arbia.It is necessary to disrespect Saudi's rigid repressive rule  
حالیہ دنوں میں عالمی منظر نامے پر عموماً اور مشرق وسطی کے حوالے سے خصوصاً اس نے ایک ٹوئٹ ایسا بھی کیا جس میں اس نے شیعہ اور سنی کو پوری دنیا میں امن کا دشمن اور سکون کے فقدان کا ذمے دار قرار دیا ،اس نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ شیعہ سنی کا قتل کر رہے ہیں اور سنی شیعہ کا ،دونوں ایک دوسرے کو قتل کر کے ختم کر دیں گے تو پھر دنیا میں سکون قائم ہو جائے گا
 Sunnis are killing Shias.Shias also killing Sunnis .They will finish each other off.We'll finally live in peace. ۔
اس قسم کے اور بھی بیانات شاتم رسول آئے دن دیتی رہتی ہے اور مذہب اسلام کے خلاف بولنے اور لکھنے کیلئے موقع کی تلاش میں رہتی ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ آخر اس گستاخ رسول کو اتنی ہمت کہاں سے مل رہی ہے،کون ہے جو پشت پناہی کر رہا ہے اور ہندوستان میں رہ کر بھی اپنے حوصلے کا بر ملا اظہار کس کے سہارے کر رہی ہے اور کون ہے جو اس کو ہندوستان میں اسلام کے خلاف مستحکم کر رہا ہے؟کیا ہم یہ مان کر کے چلیں کہ آر ایس ایس اور بی جے پی والوں کی شہ پر یہ اچھل رہی ہے یا پھر مغربی دشمنوں نے یہاں باضابطہ انداز میں خیمہ ڈال دیا ہے۔خیر جو بھی ہو وقت کا تقاضہ ہے کہ اس گستاخ رسول کے حوالے سے محتاط رہیں اور کسی سوچی سمجھی اور منظم شر انگیزی کے پیچھے چھپے بڑے منصوبے کو ناکام کرنے کیلئے اسلامی اور اصولی حکمت عملی پر دھیان دیں۔

ليست هناك تعليقات: