الخميس، مايو 30، 2013

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چيے


علمائے كرام كى قدر كيجيے ۔




کعبہ :عظمت اور خصائص ”ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے“










عريانيت ايك سماجى ناسور










ڈاکٹر ذاکر نائک ایک عبقری شخصیت





احمد فراز اور ان كى شاعرى







توڑ دی بندوں نے آقاؤں كےخيموں كى طناب








الأربعاء، مايو 22، 2013

سب پاور کا کھیل ہے بھائی



ثناءاللہ صادق تیمی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی
9560878759

ہمارے دوست جناب بے نام خان کی اپنی ایک دنیا ہے اور اپنا ایک نظام فکر و عمل ۔ اور اس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہمارے دوست کو اس بات کا احساس ضرورت سے زیادہ رہتا ہے کہ وہ اپنا مستقل نظام فکروعمل رکھتے ہیں ۔ ایسے اس قسم کے لوگوں کا اپنا تو کچھ بھی نہیں بگڑتا نقصان ہم جیسے دوستی کے ہاتھوں مجبور سامعین کا ہوتا ہے ۔ وہ جو کہتے ہیں نا کہ خوبصورت لڑکی کو اگر اس کا بات کا احساس ہو جائے وہ کہ خوب صورت ہے تو بڑی پریشانیاں جنم لیتی ہیں ۔ بھائی صاحب اگر کسی پڑھے لکھے انسان کو یہ احساس ہو جائے کہ وہ تھوڑا زیادہ پڑھا لکھا ہے تو سچ مانیے اس میں اور خوبصورت دوشیرزہ میں پھر فرق باقی نہیں رہ جاتا ۔ سو ان دنوں ہمارے دوست کی وہ خوبصورت دوشیزہ والی ادا ہے اور ہم ہیں ۔ بات بات' پر ہمارے حساب سے ایسا ہونا چاہیے' اور' میرا فلسفہ اس سلسلے میں یہ کہتا ہے' ۔ ' میری مانیں تو اس مسئلے کو کچھ اس طرح لینے کی ضرورت ہے ' ۔  یہ اور اس قسم کے جملے ہمارے دوست ادا کرکر کے ہماری ناک میں دم کیے ہوئے ہیں ۔ کمال یہ بھی ہے نا کہ وہ اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ پھر اپنے موقف کی تشریح و توضیح میں اپنی ساری قوت علم و فکراور  ہماری ساری قوت صبر وضبط کا جنازہ نکالنے لگتے ہیں ۔  اب پچھلے دن کی بات لے لیجیے آتے ہی کہنے لگے کہ دوست مجھے پتہ چل گیا ہے کہ ہمارے اوپر جو پوری دنیا میں ایک طرح کا ہنگامہ برپا ہے اس کی وجہ کیا ہے اور آخر ہم کیوں ہر جگہ زدوکوب کیے جارہے ہیں ۔ ہمارے اوپر یہ اعتراضات کی بھر مار کیوں ہے ۔ ہر  ایک موڑ پر ہم سے یہ کیوں پوچھا جاتا ہے کہ ہم اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں۔ جب بھی کچھ بھی غلط ہوتا ہے اس کا سرا ہم سے کیوں جوڑ دیا جاتا ہے ۔ آخر کیوں ہمارے چھوٹے چھوٹے جرم کو بڑا بڑا بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور پوری دنیا اگر اس سے بڑا بھی کوئی جرم کرتی ہے تو لوگ پردہ ڈالنے کا کام کرتے ہیں ۔ آخر کیوں یہ ہوتا ہے کہ ادھر کوئی واقعہ رونما ہو تا نہیں اور ادھر اس کا سرا ہم مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے ۔ بلاسٹ ہونے کے فورا بعد مختلف چینلوں کو معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں مسلم آتنکوادی سنگٹھن نے یہ کام انجام دیا ہے۔
مولانا یار اس کی صرف ایک وجہ ہے اوری وہ وہی ہے  جس کی طرف اقبال نے اشارہ کیا ہے اپنے اس شعر کے اندر ۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
دیکھو ہم اس دنیا میں پہلی مرتبہ نہیں رہ رہے ہیں ۔ ہماری تاریخ بہت پرانی اور بھرپور ہے ۔  اس سے پہلے بھی دنیا میں غلط ہوتا رہا ہے ۔ قتل وغارتگری کوئی آج ہی کی پیداوار نہیں ہے لیکن کل ہمارے اوپر انگلی اتنی جلد اٹھادی جائے ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا لیکن آج دیکھو تو بالکلیہ صورت حال بدلی ہوئی ہے ۔ میرے دوست یہ اور کچھ نہیں دراصل پاور کا کھیل ہے ۔ جب تم مضبوط ہوتے ہو تو کوئی تمہاری غلطی کو غلطی بھی نہیں مانتا لیکن جیسے ہی کمزور پڑتے ہو شروع ہوجاتا ہے تمہارے ساتھ سارا کھیل ۔ جب کسی بڑے باپ کی بیٹی کسی ساتھ بھاگ جاتی ہے لوگ کہتے ہیں لو میرج ہوئی ہے ۔ آزادی کا اظہار عمل میں آیا ہے اور جب کسی غریب  بے قوت انسان کی بیٹی بھاگتی ہے تو لوگ کہتے ہیں بد ذات اور کمینی نکل گئی ۔ مالداروں کے گھر میں بے پردگی فیشن بن جاتی ہے ۔ دھوکہ دھری عقلمندی کا نشان اور غریبوں کے لیے یہی ساری چیزی ننگ و عار اور مسائل کا پیش خیمہ ۔
کسی کے گھر جو دولت کی مہکنے لگتی ہے خوشبو
تو اس کی ہر رذالت خود شرافت ہونے لگتی ہے
ابھی ملکی سطح پر دیکھو تو بھی اور عالمی سطح پر دیکھو تو بھی ہم پاور لیس ہیں اس لیے ہر جگہ ہمیں اپنی صفائی دینی پڑتی ہے اور یہ پہلے سے مان لینا پڑتا ہے کہ جیسے جرم ہمارے علاوہ کوئی کر ہی نہیں سکتا ۔ یہی وجہ ہےکہ شرپسند عناصر خود یہ کام انجام دیتے ہیں اور خوش ہو رہتے ہیں کہ پکڑائیگا بھی کوئی مسلمان اور بدنامی بھی  مسلمانوں کی ہی ہوگی۔
جب بھی فرقہ وارانہ فساد ہوتا ہے مجرم کے خانے مسلمانوں سے بھرے جاتے ہیں ، جیل یہی جاتے ہیں اور املاک بھی ان کے ہی تباہ ہوتے ہیں ۔  باضابطہ طور سے مسلمانوں کی مسجدوں میں حملہ ہوتا ہے اور خود مسلمانوں کو پکڑ کر ٹھونس دیا جاتا ہے جب کہ حقائق کچھ اور چغلی کھارہے ہوتے ہیں ۔ ان سب کے پیچھے بس ایک وجہ کام کرتی ہے کہ مسلمان کو مجرم ثابت کرکے آسانی سے مسئلے کا نپٹارہ ہوجائیگا ۔ مسلمان کمزور ہے سوال تو اٹھائیگا نہیں ، صفائی دینے میں لگ جائیگا ورنہ اگر اصل مجرموں کو پگڑا جانے لگا تو حکومت گر سکتی ہے اور زیادہ اس قسم کے حادثات ہو سکتے ہیں۔ اس لیے یہ مسلمان ہی سوفٹ ٹارگیٹ ہيں  ، ان کو ہی مشق ستم بناؤ۔
یہ مسلمان ایسے بھی بے وقوف ہیں ۔ نہ ان کے اندر اتحاد ہے اور نہ دین کا صحیح شعور اور اس پر عمل ۔ سائنس و ٹکنالوجی میں بھی سب سے پیچھے اور پلاننگ وغیرہ کرنے کا تو خیر ان کا کوئی نہ ارادہ نظرآتا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی قوت و طاقت اور ذہنی تربیت ۔
تم دیکھ لینا جیسے ہی ہمارے اندر طاقت و قوت آجائیگی پھر یہ دنیا والے ہمارے سامنے آکر اپنے اچھے اور بررے اعمال کی صفائی دینے آنے لگیںگے ۔ لیکن وہ وقت آئیگا کب ؟ اس کے لیے ہمیں مضبوط پلاننگ کرنی ہوگی ، امتحان کے ان ایام میں صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا ، دین کے حقیقی مفہوم سے واقف ہو کر اس پر عمل پیرا ہونا پڑے گا ۔ اتحاد و اتفاق کے گلاب کھلانے پڑیںگے۔ ہر طرح کی فضول خرچیوں سے بچ کر پائی پائی جمع کرکے قوم کو مضبوط کرنے کا جوکھم مول لینا پڑے گا ، حصول علم کو اولین ترجیح دینی پڑیگی ، اللہ سے لو لگا نا پڑے گا اور رسائنس و ٹکنا لوجی کو اپنا سرمایہ سمجھ کر اس سے نہ صرف یہ استفادہ کرنا پڑے گا بلکہ اس پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کرنی پڑیگی اور یہ ساری چیزیں تب حاصل ہوگی جب انتھل محنت ، لگن ، جنون، استقلال ، بلند نظری ، ايثار ، فنائیت ، قربانی اور للہیت کے ساتھ اس مشن میں پورے طور پر لگا جاياجا ئيگا۔



السبت، مايو 18، 2013

چائے کی دکان


ثناءاللہ صادق تیمی
        پچھلے کئی دنوں سے میرے دوست بے نام خاں اس بات کو لے کر بضد تھے کہ ان کے ہمراہ راجا بھائی کی دکان پر چائے پی جائے،ہم نے جب بھی ان سے تذکرہ کیا کہ چلیں چائے پئیں ،حضور بس راجا بھائی کی چائے کی دکان کا ترانہ پڑھنے لگے۔ہم نے آخر کار جھلا کر کہا ،بھلا راجا بھائی کی ہی چائے کی دکان کیوں؟ یہ سننا تھا کہ ان کی آنکھوں میں چمک آگئی اور میر ے لیے یہ پہلی بار منکشف ہوا کہ حضور والا تُک بند ی بھی کر لیتے ہیں شاعری تو کر نہیں سکتے۔
چائے کی دکان کا کیا بیان کروں
وہ ہے اپنے آپ میں دنیا
جو بھی چاہوگے وہ ملے گا تمھیں
چین ،سکوں،جفا و و فا
اس لیے آومیرے یار چلو
راجا بھائی کی دکان چلو
        میں نے پوری قوت سے اپنی ہنسی دابتے ہوئے کہا،جناب بے نام خاں صاحب ! وہ دور لد گیا جب اسد اللہ خاں غالب اور مومن خاں مومن ،خان ہونے کے باوجود اچھی شاعری کرلیتے تھے۔ بھلا ان دونوں کے بعد بھی کوئی خان قابل ذکر شاعر ہوا؟ ؟ پھر آپ کیوں شاعری کی روح کو عذاب میں مبتلا کرتے ہیں۔ ہمارے دوست کے لیے ہر چند کہ یہ تبصرہ غیر متوقع نہ تھا لیکن پھر وہ اپنی ناراضگی چھپا نہ پائے اور بالکل خانوں کی ادا کے ساتھ گویا ہوئے، جاہل جیسی بات مت کیجیے،اقبال کے بعد اردو شاعری کا سب سے بڑا نا م جوش ملیح آبادی کا ہے۔ اور وہ اور کچھ نہیں خان تھے ۔ہمیں امید نہیں تھی کہ خاں صاحب اس تازہ معلومات سے مستفید فرمائیں گے اور ہمیں چپی سادھ لینی پڑے گی۔
        خیر جب اصرار بہت شدید ہوا اور ڈر لگا کہ کہیں مزید انکار سے ہمارے دوست ناراض نہ ہوجائیں تو بادل ناخواستہ ان کے ہمراہ راجا بھائی کی چائے کی دکان کی طرف چل پڑے۔دکان کیا تھی ، اپنے آپ میں معجزہ،دو بالکل با با آدم کے وقت کی کرسی جو کسی طرح ٹیک لگائے کھڑی تھی، بھٹی جو اب بجھی تب بجھی کی کیفیت سے دوچاراگر ان کا ہینڈ فین (ہاتھ پنکھا) ہلتا ڈولتا نہ رہے ،ایک سسپین جو اپنی بزرگی کا بطور خود شاہد عدل،ایک بانسوں کا بنا ہوا مچان جس کی بتیاں چر مرائی ہوئیں، بیٹھو تو یوں آواز پیدا ہو جیسے پرانی سائیکل پنکچر ہونے کے باوجود چلائی جارہی ہو،ایسے انداز میں بنائی گئی جھونپڑی کہ ہوا کا گزر دھوکے سے بھی نہ ہونے  پائے۔ہم نے اپنا سامنہ بنا کر بے نام خاں سے شکوہ کیا ،میرے باپ اسی عذاب میں مبتلا کرنے کو لانا تھا کیا؟ یہاں تو کوئی مہذب آدمی پل بھر کو ٹھہر نہیں سکتا ! شروع میں  ہرکسی کو یہی لگتاہے، تھوڑی دیر صبر کیجیے پھر تو یہاں کی خوشبو آپ کو اتنی بھائے گی کہ آپ یہاں کے علاوہ کسی اور جگہ کی چائے پئیں گے ہی نہیں اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ کوئی مہذب آدمی یہاں نہیں ٹھہر سکتا تو اس میں پریشان ہونے کی ضرورت کیاہے، ہم نے تو آپ کو لایا ہے ،کسی مہذب آدمی کو تونہیں!ابے بے نام خاں!اس کا مطلب تم مجھے نامہذب سمجھتے ہو؟ایسا تو میں نے نہیں کہا،اب اگر آپ کو لگتا ہے تو اس میں بھلا میرا کیا قصور ؟مجھے لگا خاموش رہنے ہی میں نجات ہے،بے نام خاں نے مخصوص انداز میں راجا بھائی کو ایک چائے کا آرڈر کیا۔ہم نے جب کھلے منہ سے ان کی طرف دیکھا تو فرمانے لگے کبھی تو ٹو اِن وَن  پرعمل ہونا چاہیے۔اس کے بڑے فوائد ہیں۔ آدمی سدا خوش رہتا ہے کم وقت اور کم خرچ میں کام چل جا تا ہے۔ یوں بھی چائے پینے کا مقصد پیٹ بھرنا تو ہے نہیں۔ہم نے ذرا کرخت لہجے میں کہا ،لیکن بے نام خاں صاحب !خرچ اگرہمیں کرنا ہو تو یہ اصول آپ کو کیوں نہیں یاد آتا ؟اس وقت تو آپ فراخ دلی اور فیاضی کی برکتوں کا شمار کر تے نہیں تھکتے!ہماری بات سن کر براسا منہ بناتے ہوئے ہمارے دوست کہہ رہے تھے،تمھاری یہی عادت ٹھیک نہیں،کبھی تو اپنی تنقیدی گھوڑی کو لگام دو میری باتیں بھی سننے کے قابل ہوتی ہیں ۔جانتے ہو ہمیشہ سعادتیں سن کر عمل کر نے سے حاصل ہوتی ہیں تنقید کرنے سے نہیں!آپ ہی بتلائیے اس تعقل آمیزی کے آگے ہم چپ نہ رہتے تو کیا کرتے؟؟؟
        چائے ایک بھری ہوئی اور ایک خالی پیالی کے ساتھ آئی ۔بے نام خاں نے نصف کم میری طرف بڑھادیا اور نصف زیادہ میں خود مشغول ہوگئے۔اس درمیان پہلی مرتبہ بے نام خاں سے تھوڑی فرصت ملی اور مختلف لوگو ں کے وِچار سننے کا اَوسر پَراپت ہوا۔
        راجا بھائی آج جامع مسجد میں مولانا کی تقریر کتنی بے مزہ تھی ،ہم تو اس سے پہلے بھی ان کی یہ تقریر سن چکے تھے ،لے دے کے لگتا ہے ان کو یہی ایک دو تقریر یاد ہے“،”نتھونی میاں نے بیٹی کی شادی میں دکھلاوے کو جہیز تو بہت دیا ہے لیکن دیکھیے گا شادی کے بعد بیٹی کا کیا حشر ہوگا“،”راجا بھائی جس طرح لوگ پہلے جیسے نہیں رہے آپ کی چائے بھی پہلے جیسی نہیں رہی“،”للو نے آج پھر ایک آدمی کا موبائل غائب کر دیا، کتنی ہوشیاری سے اپنا کام کرتا ہے وہ“،”لالو پر ساد یادو کی ہار سے ہو نہ ہو سیکولر ووٹ کا نقصان ہوا ہے“،”کام نہیں کیجیے گا تو باتوں کے سہارے کب تک چلتے رہیے گا“،”رام ولاس پاسوان تو بے وقوف ہے،ورنہ اس کو یہ دن تھوڑے ہی دیکھنا پڑتا“،”دنیا میں ہر طر ف مسلمان مظلوم ہیں،اللہ میاں کوئی فرشتہ بھی تو مدد کو نہیں بھیجتا“۔مختلف لوگ اور مختلف سادہ باتیں۔کچھ ایسی باتیں جو بولنے والاسمجھ بھی رہا ہے اور کچھ ایسی جنھیں صرف وہ دہرارہاہے۔میں انہیں باتوں میں کھویا ہوا تھا کہ بے نام خاں نے زور سے کھانستے ہوئے اپنے وجود کا احساس دلایا۔کہاں کھو گئے؟تم مولویوں کے پا س دعوت کے کام کا جذبہ تو ہوتا ہے مگر حکمت سے کوسوں دور رہتے ہو، خطبہءجمعہ ،درس قرآن اور درس حدیث سے ہی انقلاب بر پا کرنا چاہتے ہو،قیامت آجائے گی یہ خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوگا۔کبھی ان ہوٹلوں اور چائے کی دکانوں میں آکر بھی داعیانہ کوشش بجا لاؤ تو معلوم ہو دعوت کسے کہتے ہیں اور تبلیغ کتنی کامیاب ہوتی ہے؟اخوان المسلمین کے بانی حسن البناءنے اپنی دعوت کی شروعات انہی چائے کی دکانوں سے کی تھی۔انھوں نے لکھا تھا کہ مسجد کے مصلیوں کے بالمقابل چائے کی دکان میں بیٹھنے والے زیادہ حق کو قبول کرتے ہیں کیوں کہ ان کے اندر ”غرور حق “نہیں ہوتا ، وہ احساس جرم میں پہلے ہی مبتلا ہوتے ہیں، انھیں تو کبھی توجہ کا مرکز بنایا ہی نہیں جاتا، کبھی ان پر محنت کر کے دیکھوکتنے اچھے نتائج رونما ہوتے ہیں!
        زندگی میں پہلی بار بے نام خاں کو اتنی ستھری زبان اورشستہ لہجے میں بولتے دیکھ رہا تھا۔ شاید خلوص نے لہجے میں متانت اور جوش کی تخلیق کردی تھی ۔دل ہی دل میں نے سو چا ضرور تجربہ کر کے دیکھا جانا چاہیے۔ میں سوچ رہا تھا کہ بات ختم ہوئی لیکن نہیں ،بے نام خاں کا خلوص ابھی شباب پر تھا”انقلاب آئے گا ضرور آئے گا،لیکن یہ س وقت آئے گا جب علما محنت کریں گے، دعوتی دورے کریں گے،لوگوں سے ان کے دروازے پر جاکر ملیںگے،ان سے خود کو بر تر محسوس نہ کریں گے،ان کے حقیقی مسائل کو سمجھیں گے اور پھر ان کے مطابق حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔شاہ اسماعیل،عبدالعزیز رحیم آبادی اور ثنا ءاللہ امرتسری کا کردار ادا کریں گے''
        دل میں آیا کہ بے نام خاں کو تھوڑا چھیڑا جائے لیکن ان کی سنجید گی اور متانت کے آگے سپر ہی ڈال دینا پڑا۔اچھی خاصی گھڑی کاٹنے کے بعد ہم بے نام خاں کے ہمراہ لوٹ رہے تھے ،اس ارادے کے ساتھ کہ چائے پھر یہیں کی پی جائے گی۔یکا یک بے نام خاں دوسرے انداز میں مخاطب ہوئے،بولو!اب دوبارہ چائے کہاں پیو گے؟؟؟ میں میں......راجابھائی کی ہی چائے پیوں گا!!! میں نے دیکھا بے نام خاں کے چہرے پر بشاشت کھیل رہی ہے۔گویا ہوئے،ہم ایسے ہی تھوڑے بولتے ہیں، تجربے نے ہمیں بہت کچھ دے دیا ہے۔خط کا موضوع بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر۔
        ہم لوٹ رہے تھے ۔راجا بھائی کے ہاتھ کا پنکھا ابھی بھی ہلنے ڈولنے میں مصروف تھا۔مختلف لباسوں میں ملبوس مختلف سطح کے لوگ آرہے تھے جارہے تھے۔گفتگو ہو رہی تھی تیز آوازوں میں،دھیمی سروں میں اور راز داری کے اندازوں میں اور چائے پی جارہی تھی مسلسل۔٭٭٭

الثلاثاء، مايو 14، 2013

مگر اس کی آنکھ بھینگی ہے



ثناءاللہ صادق تیمی
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی

        ہمارے دوست شرف کائنات میاں کما ل الدین فخر عالم خاں بہت پریشان تھے ۔جناب اتنے پریشان تھے کہ بس یہ سمجھیے کہ وہ پریشان تھے ۔اب میں آپ سے کیابتاﺅں کہ مجھے ان کے پریشان ہونے کا اندازہ ہواتو کیسے ؟بات اصل یہ ہے کہ وہ جب بھی پریشان ہوتے ہیں خود بخود ان کی ہنسی چھوٹنے لگتی ہے ،جو در اصل آنے والی کسی جانکاہ مصیبت کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔سو ان کو ہنستا دیکھ میرا تودل ہی بیٹھ گیا ۔بہر حال استفسار پر پتہ چلا کہ حضرت کی محترمہ خود حضرت کے سامنے کسی اور لڑکی کی جو اس کی سہیلی ہے،اتنی تعریف کرتی ہیں کہ ان کے دل میں خیالات آنے جانے لگے ہیں۔اس کے حسن و جمال ،ادب و آداب ،سیرت و کردار سب کو مثالی بناکر پیش کرتی ہے۔میں نے سوچا خدانخواستہ کسی لڑکے کی تعریف کر رہی ہوتیں توحضرت کا کیا ہوتا؟؟؟
        میرے مزید کریدنے سے پہلے انہوںنے اس پوری الجھن سے چھٹکارا پانے کے طریقے ڈھونڈنے میں مدد دینے کی درخواست کی ،جی میں آیا کہ بیٹے کو پھنساتے ہیں لیکن پھر معاً بعد اس حساس معاملے میں مذاق کرنے کے خیال کو کھرچ کرالگ کر دینا پڑا ۔اب ہم دونوں اس مصیبت سے نکلنے پر وچار ویمرش کرنے لگے لیکن کوئی راستہ صاف نظر نہیں آیا ۔اور بالآخر خان صاحب تھک ہار پھر گھر چلے گئے ۔
        کئی دنوں بعد ہمارے دوست نے ہمیں دیکھتے ہی چہکنا شروع کر دیا ۔اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔میرے پوچھنے سے پہلے ہی انہوں نے بتلایا کہ آج تو معجزہ ہو گیا۔میری بیوی نے اس لڑکی میں عیب نکال دیا ۔میں نے کہا وہ کیسے اور وہ بولے ،جناب ! میں نے تو آج یوں ہی از راہ مذاق محترمہ سے کہا کہ وہ حسن و جمال والی لڑکی تو وہی لڑکی ہے جس کے والدین نے مجھے اس سے شادی کرنے کو کہا تھا اور میں بھی تیار ہی تھا لیکن میرے دوست ! میرا جملہ پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ محترمہ نے کہا وہ خوبصورت تو ہے لیکن اس کی آنکھ بھینگی ہے۔صبح سے اب تک محترمہ نے ایک مرتبہ بھی اس حسین دوشیزہ کا نام میرے سامنے نہیں لیا ہے۔میں تو سکون پا گیا ۔یقین مانیے (نہیں ماننا ہو تو تجربہ کی جیئے )پوری دنیا ہمارے دوست کی محترمہ کی ہی طرح ہے ۔کسی کی تعریف ہو رہی ہو ،کسی کے حسن عمل کا ذکر چل رہا ہو ،کسی کے علمی کارناموں کی تفصیلات بتلائی جارہی ہوں ،کسی کے کردار کی بلندی کا چرچا ہو رہا ہو کہ یکایک ”مگر آنکھ بھینگی ہے “والی بات پیدا ہو جائے گی ۔
        کسی غیر ندوی کے سامنے مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمة اللہ علیہ کی تعریف کیجیے ،ان کی ادبی خدمتوں کو سراہیئے ،ان کے علمی مقام و مرتبہ کا ذکر کیجئے تودیکھئے معا بعد آپ کوکوئی نہ کوئی ”مگر“”لیکن “ضرور ملے گا ۔
        محدث عصر ،مجد دملت علامہ البانی رحمة اللہ علیہ کی حدیث کے باب میں کی گئی کوششوں کا ذکر چھیڑئیے ،اسماءرجال اور فن جر ح و تعدیل میں ان کے مجاہدانہ اور مجددانہ کارناموں کی بات کیجیے او ر آپ کا مخاطب غیر سلفی ہو تو دیکھئے ”مگر “اور ”لیکن “ضرور آدھمکے گا۔
        آپ امام الھند مولانا ابو الکلام آزاد کا نام لے رہے ہوں، ان کی سیاسی بالغ نظری، دوررسی اور عالمانہ وقار کا حوالہ دے رہے ہوں ،تعمیر ہندوستان میں ان کی مساعی جمیلہ کو سنا کر داد طلب نگاہوں سے اپنے مخاطب کو دیکھ رہے ہوں تو یکایک آپ کو ”لیکن “اور ”مگر “کی آواز سنائی دے گی ۔بطور خاص اگر وہ آدمی غیر کانگریسی ہو ۔
        یہ مثالیں میں نے یوں ہی بیان کر دیا ہے ورنہ آپ جدھر نگاہ اٹھا کر دیکھ لیجیے بس یہی منظر نامہ نگاہوں کے سامنے ہوگا ۔میں اپنے دوست میاں کما ل الدین فخر عالم خاں کو کیسے بتاتا کہ تمہاری محترمہ تنہا نہیں ہم سب ہی ان کے جیسے ہیں ۔اسلاف کے بارے میں بتلایا جاتا ہے کہ جب ان کے سامنے کوئی کسی کی خامیاں گنا رہا ہوتا تو وہ جھٹ سے اس کی خوبیاں بیان کرنے لگتے۔اور ہم اس کے بالکل الٹ کرتے ہیں۔
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
        چاپلوسی بری ہے۔اندھی عقیدت مہلک ہے ۔تقلید جان لیوا ہوتی ہے ۔لیکن کیا تنقیص کا راستہ جنت کا راستہ ہے ۔مخالفت کا راستہ ہدایت کا راستہ ہے۔”مگر “اور ”لیکن “کا راستہ نجات کا راستہ ہے ؟؟؟
        تنقید کسی بھی قوم کو اوپر اٹھانے کا کام کرتی ہے ۔تنقید کے بغیر زندہ قوم کا تصور ہوا کے بغیر زندگی کے تصور جیسا ہی ہے ۔لیکن تنقید ”لیکن “اور ”مگر “کا نام نہیں ۔مخالفت اور مخاصمت کے ساتھ تنقیص وتذلیل کا نام نہیں ۔تنقید اصولوں پر ،کڑے ،واضح ،سچے اور مضبوط اصولوں پر کسی چیز،شخص،خدمات کوپرکھنے کا نام ہے۔
        اصل بیماری یہ ہے کہ ہمارے یہاں یا تو تقریظ پائی جاتی ہے یا تنقیص ۔ہم تنقید کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ اور پھر رزلٹ سامنے ہے ۔وجہ یہ ہے کہ ہمارے اندر علم کی ،شعور کی ،تہذیب کی ،متانت اور سنجیدگی کی ،اصولوں کے پیروی کی سب کی کمی ہی نہیں اسکارسیٹی پائی جاتی ہے ۔ Scarcity
        ہم انسانوں کو ان کے اپنے اعمال وخدمات اور کارناموں کی بجائے ان کی جماعت ،فرقہ اور انتسابات سے تولتے ہیں۔او رپھر جھٹ سے ”لیکن “اور”مگر“کا لاحقہ سابقہ جوڑ دیتے ہیں ۔
        یہ بیماری پوری قوم میں ہے ۔کسی ایک جماعت کو مستثنی نہیں کیا جا سکتا ۔سب ایک ہی پیالی کے چٹے بٹے ہیں ۔حزبیت ،فرقہ پرستی اور مسلکی تشدد سے لے کر علاقائیت ،ذات پات اور زبان کی مختلف جاہلیت نے ہمیں جکڑ رکھا ہے ۔اور ہم اس کی گرفت سے باہر نہیں نکل پا رہے ہیں ۔
        ہماری تعریف عقیدت کی وجہ سے ہوتی ہے یا وابستگی کی وجہ سے اور ہماری تنقید (جسے تنقیص کہنا زیادہ موزوں ہوگا ) مخالفت کی وجہ سے ہوتی یا ناوابستگی کی وجہ سے ۔تنقید و تعریف کا یہ سارا محل اصولوں پر تعمیر نہیں ہوتا ۔
        ایک صاحب کے سامنے مولانا مودودی کا ذکر آیا اور انہوں نے چھٹتے ہی انہیں منکرین حدیث میں شامل کر دیا ۔جب تفصیل معلوم کی گئی تو پتہ چلا کہ حضرت کو ٹھیک سے پتہ بھی نہیں ہے کہ مودودی نے کس حدیث کا انکار کیا ہے اور کیسے کیا ہے؟ہمارے ایک کرم فرما دوست نے علامہ البانی پر اس طرح اپنا عندیہ دیا جیسے البانی نے صرف حدیثوں پر حکم لگا نے کا کام کیا ہو اور یوں ہی حسن،صحیح،ضعیف اور موضوع کا ٹھپہ مار دیا ہو ۔ایک حضرت تو مولانا ابو الحسن علی ندوی کو عالم ہی نہیں مانتے تھے ۔اس لیے کہ مولانا علی میاں مقلد تھے اور مقلد عالم نہیں ہوتا ۔دفاع اسلام اور رد قادیانیت کے باب میں مولانا ثناءاللہ امرتسری کی تاریخ چھپی ہوئی نہیں ۔ہمارے ایک دوست نے بڑے تاﺅ سے کہا کہ رد قادیانیت میں وہابیوں کا کیا کام ؟اور مولانا ثناءاللہ امرتسری تو وہابی تھے !!!کچھ لوگ سر سید احمد خان صاحب پر اس لیے برس رہے تھے کہ وہ خان تھے ۔قصہ مختصر یہ کہ جدھر نظر اٹھائیے یہی سارے تعصبات منہ کھولے کھڑے ہیں ۔”لیکن “او ر”مگر “کی دنیا آبادہے اور انسانیت ،اصول اور سچائی کی جان نکل رہی ہے ۔اصول اور سچائی کی بنیاد وں پر ہم اپنی نئی نسل کی تربیت کرنے کی بجائے نفرت اورتعصب کے زہریلے مواد سے نئی نسل کا خمیر تیار کرنے کی غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اسے اچھا نہیں کہا جا سکتا ۔ رہے نام اللہ کا۔        

الجمعة، مايو 10، 2013

غزل

ساگر تیمی
9560878759

آجاؤ اس سنسار کو سنسار بنادیں
بچوں کی ہنسی ، حسن کا سنگھار بنا دیں
میری یہ آرزو کہ محبت کا جشن ہو
ان کی یہ  ضد کہ آنکھ کو تلوار بنادیں
میری دعا کہ ظلم کا دروازہ بند ہو
ان کی انا کہ شہر کو دربار بنا دیں
میری تڑپ کہ حسن کا زیور حیا رہے
ان کی سعی کہ فحش کو معیار بنا دیں
  تم ہی تو  شہر عشق کے تنہا طبیب ہو
 اک حکم ہو تو  شہر کو بیمار بنا دیں
آؤ یہیں پہ سلسلہ توڑیں نضال کا
بیعت کریں اورتم کو ہی  سردار بنا دیں
ساگر مجھے وفا کو بنانا ہے کچھ نہ کچھ
شبنم بنائیں یا اسے انگار بنا دیں