السبت، أبريل 23، 2011

وفاة أخ شقيق لأخينا شافع التيمي

قبل ساعة أخبرني الأخ إسماعيل التيمي عن وفاة الأخ خالد أخ شقيق لأخينا شافع التيمي صباح يوم الجمعة على إثر إحتراق بحادث كهربائي، إنا لله وإنا إليه راجعون - فاتصلت بالأخ شافع بالرياض قبل قليل فأخبرني عن الحادث مشيرا إلى أنه سيسافر اليوم إلى الهند ، والأخ خالد درس سنوات مع الأخ شافع وكان رجلا متوازنا ، هادئ الطبيعة ، خلوقا - نســـأل الله له العفو والرحمه وأن يلهم أهله وذويه الصبر والسلوان. وبالمناسبة أصالة عن نفسي ونيابة عن جميع الإخوة التيميين نعزى الأخ شافع ونقول له : أعظم الله أجرك ، اصبر واحتسب فكل من عليها فان ، ويبقى وجه ربك ذوالجلال والإكرام .

للتواصل والعزاء: 00966540726598

الجمعة، أبريل 15، 2011

چشمِ باطن جس سے کھل جائے وہ جلوہ چاہیے

امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک چرچ کا ملعون پادری جوایک عرصہ سے قرآن سوزی کامنصوبہ بنارہاتھا بالآخرگذشتہ دنوں مجمع عام میں قرآن سوزی کی حرکت کرہی گذرا، اس پر طرہ یہ کہ اسی مجلس میں بڑی بے باکی کے ساتھ آئندہ رحمت عالم صلى الله عليه وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کا مجرمانہ اعلان بھی کردیا۔ پھراس کے بعد عیسائی مشنری چینل ’الحقیقة‘پرقرآن کریم کے تئیں عالمی محاکمہ کا سلسلہ شروع ہوا جس میں ملعون پادری اوراس کے ہمنواؤں نے قرآن، اسلام اورصاحب قرآن کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا اور ہماری پوری قوم خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہی ۔

ادھرمغرب نے اس شیطانی حرکت کو آزادی رائے کانام دے کرملعون پادری سے کوئی تعرض نہیں کیا اور کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کومجروح کرنے کی کھلی آزادی دے دی ، حدتویہ ہے کہ جن لوگوں نے اس کے خلاف زبانیں کھولیں اورمظاہرے کیے انہیں بنیاد پرست کے نام سے مطعون کیا گیا۔

اسلام اوراہل اسلام کے تئیں مغرب کے دلوں میں بغض وحسد کی جو چنگاریاں بھڑک رہی ہیں اس کی وجہ ظاہروباہرہے، آج مغربی ممالک میں اسلام بہت تیزی سے پھیل رہا ہے، گذشتہ بارہ سال کے اندر صرف ریاستہائے امریکہ میں بارہ ہزار مساجد کی تعمیرعمل میں آچکی ہے، ایک اعدادوشمار کے مطابق 11ستمبر کے بعد سے سالانہ بیس ہزار سے زائد امریکی حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ نوواردان اسلام‘ اسلامی تعلیمات کا بیحد التزام کرتے ہیں اورداعی کی حیثیت سے معاشرے میں ابھر کر آتے ہیں۔ یہی وہ تبدیلی ہے جو ملعون پادری اورعالمی صہیونیت کی نیند حرام کیے ہوئی ہے کہ وہ اپنی پیشانی کی آنکھوں سے اپنے گھرمیں اسلام کی بالادستی دیکھ رہے ہیں۔ اسلام اوراہل اسلام کے تئیں اگرمغرب کی یہی ایک کارستانی ہوتی تو مسلمانوں کو صبرکی تلقین کرکے معاملے کو نظرانداز کرنے کا مشورہ دیا جاتا جبکہ یہاں صورتحال تو یہ ہے کہ اسلام اور اہل اسلام کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنا ان کے بنیادی اہداف میں شامل ہے ۔

اس لیے آج ضرورت ہے کہ صہیونیت کے مکروہ چہرے سے پردہ اٹھایا جائے جو ہر زمانے میں نیا چولا بدلتی رہی ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب اس نے مستشرقین کی کھیپ تیار کرکے اسلام اوراس کی تعلیمات پر رکیک حملے کیے ، پھر استعماری منصوبہ کے تحت اسلامی ملکوں میں قدم رکھا،جب عالم اسلام میں بیداری کی تحریک شروع ہوئی تو ”پھوٹ ڈالوحکومت کرو“کی پالیسی اپنائی،اورجب مشرق وسطی میں پٹرول کے ذخائر سامنے آئے توان پر للچائی نگاہ ڈالتے ہوئے اپناتسلط جمانے کے لیے سارے حربے استعمال کئے اورتاہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ لیبیاکی تازہ مثال ہمارے سامنے ہے ۔

ایک طرف مشرق وسطی کوسیاسی ،جغرافیائی ،اورمذہبی سطح پر بیرونی مداخلت کا سامنا ہے تو دوسری طرف اس کی داخلی سلامتی خطرے میں ہے۔ ابھی گذشتہ دوماہ قبل عالم عرب میں احتجاج کی جو لہرچلی تھی جس کے ذریعہ متعددآمراور ڈکٹیٹرحکمرانوں کو قصر اقتدار چھوڑ کربھاگنا پڑاتھا اب اس کے پس پردہ کتنے ناگ ہیں جو پہلے بل میں گھسے تھے،موقع سے فائدہ اٹھاکر پھن پھیلائے ڈسنے کوتیار ہیں۔ حالات بہت سنگین ہیں اوردشمن بڑے شاطر اورچالباز ہیں، ایسی نازک صورتحال میں جہاں خلیجی ممالک کے حکمرانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے حقیقی دوست اوردشمن کی شناخت کریں، آئندہ کے لیے منظم منصوبہ بندی کے ساتھ ہرمیدان میں افرادسازی کا کام شروع کریں، سائنس وٹیکنالوجی اورعصری علوم کے معیاری مراکز قائم کریں اورنئی نسل کو حریف کے شانہ بشانہ چلنے کا گر سکھائیں تاکہ ہمیں دشمن سے استغنا حاصل ہوسکے ۔ اسی طرح دینی مراکز، دعوتی اداروں اور مسلم تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ آپس میں متحد ہوکر قرآن وسنت کی صحیح تعلیمات کی روشنی میں دعوت اوراصلاح دونوں محاذوں پر منظم طریقے سے کام کا آغازکریں مبادا کہ دین کے بازار میں کھوٹے سکوں کی تشہیر کرنے والے نام نہاد دھرم پرچارک ہماری نئی نسل کے ذہن کو پراگندہ کردیں ۔ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ، اب غفلت کا وقت نہیں رہا، اگرآج غفلت کی توکل تاریخ ہمیں ہرگز معاف نہ کرے گی ۔

ہماری ایک بہت بڑی کوتاہی یہ ہے کہ ہم دوسروں کوفوراً موردالزام ٹھہراتے ہیں”حکومتیں خاموش ہیں،جماعتیں کوئی کام نہیں کرتیں، مسلمان ایسے ہیں‘ مسلمان ویسے ہیں“ یہ اور اس طرح کی بیشمار باتیں ہماری مجلسوں کی زینت ہواکرتی ہیں، لیکن کبھی ہمیں توفیق نہیں ملتی کہ خود اپنے آپ میں جھانک کردیکھیں ،اپنا احتساب کریں ،قرآن پاک کی بے حرمتی کا مسئلہ ہو یا رسول پاک صلى الله عليه وسلم کی شان میں گستاخی کاقضیہ‘ ایسے حالات میں ہم ضرور احتجاج کرتے ہیں اوراپنی غیرت ایمانی کا ثبوت دیتے ہیں لیکن کیا واقعی قرآن کریم کے ساتھ ہمارا سلوک اور پیارے نبی صلى الله عليه وسلم کی تعلیمات کے ساتھ ہمارا رویہ اطمینان بخش ہے ، یہ ایسا سوال ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ، جب تک ہم اصلاح کا کام اپنی ذات سے شروع نہ کریں گے تب تک اسلام کی سربلندی کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔ اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ قرآن کو اپنا حرزجان بنائیں، اُس کی تلاوت اورفہم وتدبر ہمارے روزانہ کے معمولات میں شامل ہوجائے، پیارے نبی صلى الله عليه وسلم کی سیرت کا مطالعہ ہماری زندگی کا لازمی عنصر بن جائے ، قرآن وحدیث کی تعلیم کو اپنے گھر میں عام کریں، اس کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت کریں، اِن تعلیمات کی روشنی میں اپنے معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھائیں اورجولوگ اب تک ان آفاقی تعلیمات سے محروم ہیں ان تک اللہ کا پیغام پہنچائیں ۔ایسا کرکے ہی ہم حقیقی معنوں میں قرآن کی عظمت کو بحال کرسکتے ہیں اورنبی پاک صلى الله عليه وسلم کے شیدائی ہونے کا حق ادا کرسکتے ہیں۔

اللہ تعالی ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین

صفات عالم محمدزبیر تیمی

safatalam12yahoo.co.in

الخميس، أبريل 14، 2011

’سوشیلا‘ سے ’سمیرہ ‘بننے تک

تحریر: صفات عالم محمد زبیرتیمی
ملک نیپال کے مشرقی حصہ میں واقع ضلع مورنگ کی رہنے والی28سالہ خاتون سوشیلا تین سال قبل روزگارکی تلاش میں کویت آئیں، اس عرصہ میں شاید معاشی حالت میں کوئی خاص بہتر ی نہ آسکی تاہم ایمان کی گرانمایہ دولت سے ضرور مالا مال ہوئی ہیں۔ ماہ رواں کے اوائل میں انہوں نے اسلام قبول کیا ہے، اور اپنا نام’ سوشیلا ‘ سے ’سمیرہ ‘ منتخب کیا ہے، قبول اسلام کے وقت ان کا ایمانی جذبہ، دینی حمیت اور دعوتی رغبت دیکھ کرایسا محسوس ہورہا تھا گویا یہ کوئی دینی گھرانے کی پروردہ خاتون ہے، ناچیز کے لیے ان کے قبول اسلام کا منظربیحد ایمان افزا تھا ۔ قبول اسلام کے فوراً بعد اس نومسلمہ کے کیسے دینی جذبات تھے‘ اسے جاننے کے لیے ہم ذیل کے سطور میں ان سے کی گئی گفتگو کا خلاصہ پیش کررہے ہیں ۔

سوال :آپ اپنے خاندانی پس منظر کی بابت کچھ بتائیں گی ۔

جواب: میں ہندوگھرانے میں پیدا ہوئی، میرے ماں باپ ہندو ہیں، باپ پوجا پاٹ سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے تاہم ماں پابندی سے ”مہیش “ کی پوجا کرتی تھیں، پر شروع سے ہی میری طبیعت ایسی واقع ہوئی کہ میں نے پوجا وغیرہ سے بالکل رغبت نہیں رکھا ۔

سوال :کیسے آپ اسلام سے متعارف ہوئیں ؟

جواب : جب میں پہلی بار کویت آئی توجس آفس نے مجھے بلایا تھا وہاں کچھ مسلمان کام کرتے تھے ان کے واسطے سے مجھے نیپالی زبان میں IPCکی دعوتی مطبوعات ملیں ، میں نے پڑھا تو مجھے احساس ہوا کہ اسلام بہت اچھا دھرم ہے، اس میں ساری عبادتیں ایک اللہ کے لیے انجام دی جاتی ہیں ۔ میں نے نیپالی زبان میں ”جزءعم“ اور” قرآن کیا ہے ؟ “ کا مطالعہ کیا تو مجھے عجیب طرح کا سکون ملنے لگا ۔

سوال : آپ نے گویا قرآن کا بھی مطالعہ کیا ہے ؟

جواب : صرف تیسواں پارہ کا مطالعہ اب تک کرسکی ہوں، البتہ میری خواہش ہے کہ مکمل قرآن کا مطالعہ کروں ، کاش کہ نیپالی زبان میں بھی قرآن دستیاب ہوتا ۔ چھ ماہ قبل میں ایک مسلمان سے گذارش کی تھی کہ مجھے نیپالی زبان میں قرآن چاہیے، اس نے کہا : چھ دینار میں ملے گا ، میں نے کہا: کوئی بات نہیں تم مجھے لاکر دو۔ لیکن پھر بھی وہ نہ لاسکا اور میں اب تک قرآن سے محروم ہوں ۔ (ابھی میں آپ کو قرآن لاکر دیتا ہوں، میں اٹھا اور فوراً نیپالی زبان میں قرآن لاکر اس کے ہاتھ میں تھمادیا ، قرآن پاتے ہی ایسا لگا جیسے اسے اپنی کوئی گم شدہ چیز مل گئی ہو۔ خوشی سے اس کا چہرہ دمکنے لگا، عالم بے خودی میں قرآن کو لے کر چومنے لگی،ایسا کرتے ہوئے سمیرہ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں اور زبان پر ’تھینک یو ، تھینک یو ‘کے الفاظ جاری ہوگئے ،” آپ کی میں بہت بہت شکرگذار ہوں کہ آپ نے مجھے قرآن دیا“سمیرہ نے کہا ۔ سمیرہ کے یہ الفاظ کیا تھے گویا میرے لیے تازیانہ عبرت، میں تھوڑی دیر کے لیے سکتے میں پڑگیا اور قرآن کے تئیں اپنے معاملے پر نظر ثانی کرنے لگا ، پھر اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے اس سے پوچھا :)

سوال : آپ نے ابھی چند منٹوں قبل اسلام قبول کیا ہے، آپ کے پاس اسلام کی معلومات بھی زیادہ نہیں ہے پھربھی آپ کے دل میں قرآن کے تئیں ایسی محبت وعقیدت ؟

جواب:جہاں تک میرے اسلام کی بات ہے تو کلمہ اگرچہ ابھی پڑھی ہوں تاہم دل میں اسلام دوسال سے بیٹھا ہوا ہے۔ گویا میں دوسال سے مسلمان ہوں، میں نے گذشتہ رمضان میں روزے بھی رکھنا شروع کیا تھا لیکن میری کفیلہ مجھے منع کرتی رہی کہ تم مسلمان نہیں ہوروزہ مت رکھو، چنانچہ میں نے روزہ رکھنا چھوڑ دیا۔ قرآن میرے لیے نسخہ کیمیا ثابت ہوا ہے، قرآن کی آیتوں سے میں بیحد متاثر ہوئی ہوں، جب کبھی مجھے گھریلو ٹینشن ہوتا ہے تیسواں پارہ کا ترجمہ پڑھنے بیٹھ جاتی ہوں جس سے مجھے یک گونہ سکون ملتا ہے ۔

سوال : آپ نے اسلام قبول کرلیا اور آپ ماشاءاللہ اسلام کے تئیں اچھا جذبہ رکھتی ہیں تو کیا آپ کی خواہش نہیں ہوتی کہ آپ کے گھر والے بھی اسلام اپنائیں ۔

جواب : جہاں تک میرے والدین کی بات ہے تو میری پوری تمنا ہے کہ والدین اسلام قبول کرلیں ،ابھی میں اسلام کے متعلق ان کو نہ بتائی ہوں البتہ میں نے اپنے شوہر سے اسلام قبول کرنے کی خواہش کا اظہار کردیا ہے- اس بات کو سن کر انہوں نے مجھے دھمکی بھی دی ہے کہ اگر اسلام قبول کرلی تو نیپال میں لوٹ کر نہیں آسکتی ۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے، اللہ پاک نے مجھے نرک (جہنم ) سے بچالیا ہے، اس لیے اب میں ہرطرح کی تکلیف برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں ۔

سوال :آپ کی کیا خواہش ہے ؟

جواب : میری پہلی خواہش یہ ہے کہ میں قرآن عربی زبان میں پڑھنا سیکھ جاؤں، میں سمجھتی ہوں کہ شاید آپ لوگ اس سلسلے میں میرا تعاون ضرور کریں گے،اگر مجھے بھی عربی پڑھنا سکھادیں تو میں اپنے رب کے کلام کو عربی زبان میں پڑھ سکتی ہوں ۔

سوال : اور بھی کوئی خواہش ہے آپ کی ؟

جواب : میں دعا کرتی ہوں کہ اللہ پاک مجھے جنت میں جگہ دے ۔ اگر وہ مجھے جہنم میں ڈال دے تو میں کچھ اعتراض نہیں کرسکتی لیکن مجھے اللہ سے پوری امید ہے کہ وہ مجھے جنت میں ضرورداخل کرے گا ۔

سوال: آپ کی دوستی کیسی عورتوں سے ہے ؟

جواب : میری کچھ نیپالی سہیلیاں اسلام قبول کر چکی ہیں، ان کو میں پسند کرتی ہوں ۔ اور جولڑکیاں مسلم نہیں ہوتی ہیں ان سے مجھے کراہیت سی محسوس ہوتی ہے ۔ میں کبھی کبھی اپنی سہیلیوں کو اسلام کی دعوت دیتی ہوں اور کہتی ہوں کہ اسلام بہت اچھا مذہب ہے ، یہاں تک کہ دعوتی کتابیں بھی پڑھ کر سناتی ہوں ۔ ان میں سے کچھ تو دلچسپی لیتی ہیں جب کہ اکثر مذاق اڑانے لگتی ہیں ایسی لڑکیوں کو میں سخت ناپسند کرتی ہوں ۔


عزیز قاری ! اسلام کے تئیں يہ جذبات ہیں ایسی خاتون کے جس نے اب تک اللہ کے لیے ایک سجدہ بھی نہیں کیا ہے، ہم نے اس کی باتوں کو بلاکم وکاست آپ کے سامنے پیش کردیا ہے، اب اپنا احتساب کریں کہ اسلام کے تئیں ہم نے کیا کیا ؟ قرآن سے ہمارا کیسا لگاؤ ہے ؟ غیروں تک ہم نے کس حد تک اسلام کا پیغام پہنچایا ہے ؟ کل قیامت کے دن یہ کفار ومشرکین جب ہمارا دامن پکڑیں گے تو اس وقت ہمارا کیا جواب ہوگا۔ ؟

الثلاثاء، أبريل 05، 2011

مفتي مصر علي جمعة وفتواه لتولي الحكم للمرأة أو المسيحي في مصر!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

قال مفتي"دولة مصر" علي جمعة:"لم أجد في الشريعة الإسلامية ما يمنع تولي الحكم للمرأة أو المسيحي".
وأقول:عندما يحتفل المفتي بعيد ميلاده ال57 في نادي ليونز المصري احد المنظمات العالمية التابعة للماسونية ، مع لفيف من الفنانات العاريات والفنانين الساقطين حاملين له ( التورته ) يغنون له حتى منتصف الليل( هابي بيرث داي تو يو يا مفتي مصر ) .
وعندما يفتي هؤلاء بمثل هذا الضلال وهم يبيحون اختلاط النساء بالرجال،ولا مانع من السباحة في البرك المختلطة مع الرجال مع جواز رفع الستر عن رأسها ،وإظهار شيء من صدرها،حرصا على شهادتها الدراسية كما أفتى مفتي قطر القرضاوي.
وعندما يكون بنظرهم أن الأحكام الوضعية لا تعارض أحكام الشريعة الإسلامية.
وعندما يجيز هؤلاء الاستعانة بالكافر ضد المسلم كما أفتى العوا والقرضاوى وغيرهم .
وعندما يكفل المفتي ومن هم على شاكلته كالقرضاوي والعوا ، حق الردة للمسلم بتغيير دينه واعتناق ما شاء من الديانات.
وعندما يستمتع هؤلاء بمشاهدة مسرحيات عادل إمام ، ومسلسلات الديوث نور الشريف ، والذهاب للسينما لمشاهدة الأفلام.
وعندما يبيح هؤلاء سماع الغناء لأم كلثوم وفيروز وسماع موسيقى الروك آندرول
كما صرح علي جمعة بنفسه .
وعندما يجالسون المتبرجات على مرأى من أعين الناس على شاشات التلفاز ، والأماكن العامة ويصافحوهن ، ويفتون لمن تابت عن التمثيل بالرجوع إليه .
وعندما يأخذ هؤلاء صورا تذكارية مع الحكام ، يثنون عليهم ، ولا ينكرون عليهم ضلالهم
يخدعون العامة بهم وينكرون على من يأخذ على أيديهم ، فإذا سقطوا أصبحوا عندهم ظلمة وكفرة .
وعندما لا يغار هؤلاء على عرض الصحابة ولا الصحابيات وهم يبيحون للساقطات والساقطين بجواز تمثيل الصحابة والصحابيات .، كالقرضاوي والعودة والأزهر .
وعندما يكون هؤلاء دعاة سلاطين،وقضاة ضلال ، وأصحاب مواقف متذبذبة،وعقائد صوفية وقبورية .
حينئذ ما الذي يمنع من سماع فتوى بجواز تولي المرأة والنصراني رئاسة الدولة ؟؟!!! .
دعاة يتبعون المتشابه والأقوال الشاذة ، يبحثون عنها بين السطور.
وفي بطون الكتب من أقوال الرجال من غير نظر إلى معرفة الدليل لا من كتاب الله ولا سنة نبيه ولا ذهاب إلى قول أحد من الصحابة لينصروا
أقوالهم الشاذة ومذاهبهم الهدامة.
أنا في شك كون هؤلاء رجالا حتى في بيوتهم،لأن الرجل الكريم،وصاحب الفطرة السليمة لا يقبل بأن تحكمه امرأة قد جعل الله له القوامة عليها . تذب عن عرضه،وتحمي شرفه ، وتتولى أمره.
ولاية المرأة : قد تكون في حالات خاصة ، عندما يكون الرجل عاجزا لا يقدر أن ينفق على زوجته أو لا حيلة له للدفاع عن نفسه لعجزه،أو لا مقدرة له على تولي شؤون أمره فحينئذ لا مانع أن تقوم المرأة بدورها المنوط بها اتجاه زوجها أو أهل بيتها.
ولا مانع من أن يأخذ الرجل من مالها برضاها إن كان فقيرا وهي غنية.
ولذلك كان للمرأة جواز توليها لبعض الولايات الخاصة كوصاية ولايتها على اليتامى ، أو مديرة مدرسة للطالبات ، أو مديرة مستشفى للنساء أو مركزا لتحفيظ القرآن للفتيات ، أو إدارة لسجن النساء ، أمركزا أمنيا لتفتيش النساء أو صاحبة شركة أو مؤسسة ملكها عائد عليها ، فمن حقها إدارتها ما لم يتعارض عملها مع الشرع ، لأن هذا شأن خاص بها من حقها أن تديره بنفسهاإن شاءت ، ونجاحه أو ضياعه عائد بالدرجة الأولى عليها هي صاحبة المال، فولايتها فيه خاصة لأنه مال خاص لها لا مالا عاما للمسلمين . والله عز وجل لم يجعل لأحد وليا على مالها من غير نفسها.
لكن أن يقبل الرجل توليها أمور حياته ، وإنفاقها عليه ، وتدبير شؤون حياته ، والدفاع عنه بحفظ عرضه وتدبير شؤون أموره من غير حاجة لذلك ، فهذا يدل على خسة في الطبع ونذالة بالمرء ، وانتكاس للفطرة
ولذلك تجد من كانت هذه حالته امرءا حقيرا مذلولا مذموما بالمجتمع حتى عند من تقوم على شأنه.
قال تعالى : " الرجال قوامون على النساء بما فضل الله بعضهم على بعض وبما أنفقوا
من أموالهم "
قال ابن كثير: يقول تعالى " الرجال قوامون على النساء " أي الرجل قيم على المرأة أي هو رئيسها وكبيرها والحاكم عليها ومؤدبها إذا اعوجت " بما فضل الله بعضهم على بعض"
ذكر الطبري : حدثنا محمد بن الحسين , قال : ثنا أحمد بن المفضل , قال : ثنا أسباط , عن السدي : ** الرجال قوامون على النساء } قال : يأخذون على أيديهن.
وأما قوله : ** وبما أنفقوا من أموالهم } فإنه يعني : وبما ساقوا إليهن من صداق , وأنفقوا عليهن من نفقة فعن ابن عباس , قال : فضله عليها بنفقته وسعيه.
قال القرطبي : " الرجال قوامون على النساء بما فضل الله بعضهم على بعض وبما أنفقوا من أموالهم " ابتداء وخبر , أي يقومون بالنفقة عليهن والذب عنهن;
وأيضا فإن فيهم الحكام والأمراء ومن يغزو , وليس ذلك في النساء الرجال قوامون على النساء .
قوام :" فعال للمبالغة ; من القيام على الشيء والاستبداد بالنظر فيه وحفظه بالاجتهاد . فقيام الرجال على النساء هو على هذا الحد ; وهو أن يقوم بتدبيرها وتأديبها وإمساكها في بيتها ومنعها من البروز , وأن عليها طاعته وقبول أمره ما لم تكن معصية ; وتعليل ذلك بالفضيلة والنفقة والعقل والقوة في أمر الجهاد
والميراث والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر . انتهى
ذكر أن رجلا من أهل فارس أتى النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم فقال :
إن ربي تبارك وتعالى قد قتل ربك يعني كسرى ، قال – وقيل له – يعني للنبي صلى الله عليه وعلى آله وصحبه وسلم إنه قد استخلف ابنته ، قال فقال : لا يفلح قوم تملكهم امرأة
" وفي رواية : " لا يفلح قوم تملكهم امرأة " وفي رواية أخرى :
" لا يفلح قوم وكلوا أمرهم امرأة "
فنصوص الشرع قد حثت على لزوم المرأة بيتها وعدم الخروج منه إلا للحاجة وقد عظم أمر المرأة خوفا من الافتتان بها حتى غدت صلاتها في بيتها خير لها من صلاتها في بيت الله الحرام ، وجاء الوجوب على حرص المرأة لتسترها وحجابها والحفاظ على بيتها والاهتمام بتربية أبنائها ، وعدم خروجها حتى قال صلى الله عليه وآله وصحبه وسلم " المرأة عورة فإذا خرجت استشرفها الرجال " أي زينها بأعينهم هذا وهي متحجبة فما بالكم إن كانت متبرجة.
فكيف يستقيم كل هذا مع توليها للولايات العامة من حاجة ماسة بل عن الرئاسة.
أما استدلال البعض ببعض الوقائع التاريخية فهذا عزوف عن الأدلة الشرعية الدالة على وجوب حفظ عفة المرأة وعدم خروجها من منزلها لغير الحاجة مع مقام يقوم فيه الرجال وليس فيه حاجة لقيام النساء به والنهي الصريح والصحيح عن توليها شؤون الرجل من غير حاجة ملزمة لذلك ، واستدلال بالشاذ عن الصحيح والصريح المحكم.
أما أن يتولى هذا الأمر( مسيحي ) ؟؟!!! {إِنَّهَا لَإِحْدَى الْكُبَرِ}
{الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّهِ قَالُواْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ وَإِن كَانَ لِلْكَافِرِينَ نَصِيبٌ قَالُواْ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُم مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ فَاللّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَن يَجْعَلَ اللّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً}
لقد انعقدت كلمة المسلمين على أن الإمامة لا تنعقد لكافر ، بل جاء عن عمر ابن الخطاب رضي الله عنه النهي عن ذلك في الأمور العامة فما بالكم بالخاصة منها،وعندما يجوز هؤلاء لحكم البلاد المسلمة وحكم المسلمين من كافر.
كيف لراية الإسلام وعلم الجهاد أن يرفع لإقامة دين الله وشرعه وتعبيد الناس لربهم وإمامهم كافر.
بأي عقل وبأي فكر وبأي عقيدة تفتح البلاد من أجل أن تكون كلمة الله هي العليا وكلمة الذين كفروا هي السفلى وحاكم المسلمين كافر.
كيف للحاكم أن يحكم بكتاب الله وسنة نبيه صلى الله عليه وآله وصحبه وسلم.وهو كافر لا يؤمن إلا بالصليب.
كيف للمساجد أن ترفع ، وللصليب أن ينكس ويطمس ، وحاكم البلاد نصراني كافر.
كيف لنا أن نأمر بالمعروف وننهى عن المنكر ونمنع الخمر ، وتبرج النساء ، وتحريم الربا وحاكم البلاد يرى جواز ذلك.
هؤلاء الدعاة ومن يسمونهم علماء عار وخزي وهلاك على أمة الإسلام.
يجب على كل مخلص لدينه وأمته أن يحذر منهم ، وأن لا يحابيهم ، ووجوب الحجر عليهم ومعاقبتهم.
(مقال لأحمد البوادي)