الأربعاء، فبراير 18، 2015

وزیر اعظم کے بیان کا خیر مقدم لیکن ...


ثناء اللہ صادق تیمی
 اسسٹنٹ پروفیسر، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ ، ریاض

  ایک مدت کے بعد آخر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر اعظم نے فرقہ واریت پر اپنی خاموشی توڑ ہی دی ۔ وزیر اعظم نے اپنے بیان میں ہر قسم کی مذہبی منافرت اور دینی انتہا پسندی کو غلط قرار دیتے ہوے کہا کہ ان کی حکومت نہ تو اکثریت کی مذہبی انتہا پسندی کو برداشت کرے گی اور نہ اقلیت کے دینی تشدد کوقبول کرے گی ۔ محترم وزیر اعظم نے اس سلسلے میں ہندوستان کی پرانی تہذیب اور ہندوستانی آئين کا حوالہ بھی دیا ۔

    قابل غور یہ بھی ہے کہ مودی حکومت بننے کے بعد پچھلے کچھ مہینوں میں جس طرح سے ہندو انتہا پسندوں نے پورے دیش میں غنڈا گردی پھیلائی ہے اس کی وجہ سے پورا دیش اور بطور خاص موجودہ حکومت عالمی سطح پر تنقیدوں کی زد میں رہی ہے ۔ جہاں ملک کے سنجیدہ اور پڑھے لکھے طبقے کے اندر اضطراب و بے چینی کی کیفیت پائی جارہی تھی وہیں اقلیتوں کا ہوش ہی اڑا ہوا تھا ۔ گرجا گھروں پر حملوں سے لے کر دوسری اقلیتوں اور ان میں بھی مسلمانوں کو جس طرح سے ٹارگیٹ کیا جارہا تھا اس نے پورے سماجی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ اس پوری صورت حال سے اندرون و بیرون ملک سب کے سب پریشان تھے البتہ پریشانی نہيں تھی تو حکومت کے کارکنان اور ملک کے دگج وزیر اعظم  کو ۔ پورا دیش آگ اور خون کی چپیٹ میں تھا اور ملک کے سربراہ چپی سادھے خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے ۔ لیکن قدرت بھی کچھ عجیب رنگ میں ظاہر ہوتی ہے ۔ مضبوط وزیراعظم نے پوری دنیا کے فرمانروا سمجھے جانے والے امریکی صدر براک اوباما کو بلایا اور یہ ثابت کرنا چاہا کہ یہ بھی بھارت کی اپلبھدی (حصولیابی ) ہے لیکن یہ سارا کھیل اس وقت بڑا ہی الٹا پڑ گیا جب امریکی صدر نے ہندوستان کو کڑی نکتہ چینیوں کا نشانہ بنایا اور ہندوستان کے اندر ہی پریس کانفرنس کرکے یہ تک کہ دیا کہ جس طرح کی مذہبی منافرت اس دیش میں پھیلائی جارہی ہے اس سے اس دیش کی ترقی نہیں ہو پائے گی اور یہ کہ اگر مہاتما گاندھی زندہ ہوتے تو انہيں ہندوستان کی موجودہ صورت حال کو دیکھ کر بڑی شرمندگی اور تکلیف ہوتی ۔ اوباما جب امریکہ لوٹے تو انہوں نے وائٹ ہاؤس کے باہر بھی اپنے اسی بیان کو ذرا اور شدت سے دہرا دیا ۔ کمال یہ ہوا کہ اسی بیچ نیو یارک ٹائمز نے مودی جی کی اس طویل خاموشی پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس پر باضابطہ ایک اداریہ ہی تحریر کردیا ۔ صورت حال یہ ہو گئی کہ وزیر داخلہ جناب راج ناتھ سنگھ کو بیان دینا پڑا لیکن کسی کے خلاف تردیدی بیان دے دینا اور بات ہے اور سچ کو جھٹلادینا اور بات ہے ۔ جب پوری دنیا میں دور چھیا ہونے لگی تو ہمارے وزیر اعظم کو اپنی خاموشی توڑنی ہی پڑی ۔ ہم اس بیان کا استقبال کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ انہوں نے جو کہا ہے اس کے مطابق عمل بھی کرینگے اور دیش میں جمہوری اور سیکولر فضا بحال ہوگی اور دیش ترقی کے نئے ہفت اقسام طے کرےگا ۔

لیکن جو بات ہم جیسے ہندوستانیوں کو پریشان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب، جو بزعم خویش سمجھدار بھی کم نہیں ہیں ، انہیں آخر اتنی موٹی سی بات سمجھنے میں اتنی دیر لگی ۔ جب پوری دنیا نے تھوکنا شروع کردیا اور پیارے دیش کی جب چاروں طرف بدنامی ہوگئی تب جاکر ہمارے وزیراعظم کو یہ لگا کہ یہ منافرت اور فرقہ واریت صحیح نہیں ہے ۔ کہيں ایسا تو نہيں کہ محترم وزیر اعظم سمجھ تو بہت پہلے سے رہے تھے لیکن بول سکنے کی پوزیشن میں نہیں تھے کیونکہ کبھی کبھی اپنے ہاتھوں پالے پوسے گئے کتے خود اپنے اوپر بھی بھوکنے لگتے ہیں ۔

   محترم وزیراعظم آرایس ایس کے باضابطہ ممبر رہ چکے ہیں ۔ دیش کو مذہبی خطوط پر بانٹنے کا جو پروگرام آرایس ایس کا رہا ہے اس سے وہ ناواقف ہو بھی نہيں سکتے ۔ ان کو وزیر اعظم بنانے میں انہيں کے بقول آرایس ایس کے لوگوں کا بڑا رول رہا ہے پھر بھلا وزیر اعظم کو یہ نہیں پتہ کے ایسے لوگوں کو اگر ضرورت سے زیادہ وقعت دی گئی تو کیا کچھ رزلٹ آئے گا ۔ آپ نے وزارت سے لے کر بیروکریسی تک میں جس طرح سے متعصب ذہن ہندؤں کو بھرنا شروع کیا ہے اس سے کسی متوازن نتیجے کی توقع کرنا فضول ہی ہوگا ۔ محترم وزیر اعظم آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو بہر حال دیش کے دستور کے مطابق ہی چلنا پڑےگا ۔ فیس بوک کا استعمال کرکے آپ وزیر اعظم بنے ہیں تو آپ کو یہ بات تو یاد رکھنی ہی پڑےگی کہ یہی فیس بوک والے  آپ کی نیا ڈبو بھی سکتے ہیں ۔ دہلی کے اسمبلی انتخابات سے تو آپ کو اس کا تجربہ ہو بھی گیا ہوگا ۔ یوں بھی مذہبی منافرت کے خلاف آپ کے اس بیان کو اس تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ آپ عام لوگوں اور اقلیتوں کو خود سے قریب کرنا چاہ رہے ہيں اور بھی اس ڈر سے کہ کہیں اور دوسری جگہوں پر بھی آپ کا حشر دہلی جیسا نہ ہو جائے ۔

    آپ نے اپنے بیان میں ہندوستان کی پرانی تہذیب اور آئین کا حوالہ دیا ہے ۔ اس موقع سے ہم آپ کو بھی یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ہمارے دیش کی مٹی ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ منافرت اور انتہا پسندی کو بڑھا دینے والوں کا ساتھ نہيں نبھا سکتی ۔ آپ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیراعظم ہیں اوردیا رکھیے کہ اگر جمہویت اور سیکولرزم کو چھوڑ کر آپ نے کوئی اور خفیہ ایجنڈہ چلانے کی کوشش کی ، جس کا بہت سے لوگوں کو خدشہ بھی  ہے ، تو یہ خود آپ کے لیے بھی اور پورے دیش کے لیے بھی کافی گھاتک ثابت ہوگا ۔ اس موقع سے آپ کو یہ بھی یاد رکھنے کی زضرورت ہے کہ صرف بیان دینے سے کام نہيں چلے گا ان بدقماشوں اور غنڈوں پر رسہ بھی کسنا پڑے گا جو پورے دیش کے بھائی چارے کے خلاف ماحول تیار کررہے ہیں اور جو اتفاق سے آپ کے کافی قریب آپ کی اپنی پارٹی لوگ ہیں ورنہ یہ دیش نہ تو آپ کو اور نہ ایسے غنڈوں کو بخشنے کے لیے تیار ہوگا ۔

 سمجھدار اور سیکولر ذہن ہندوستانیوں کو انتظار رہے گا کہ ملک کے وزیراعظم اس سلسلے میں کیا رویہ اپناتے ہيں ۔ 

ليست هناك تعليقات: