الأربعاء، ديسمبر 29، 2010

المـؤتـمـر العالمي الأول عن جهود المملكة العربية السعودية في خدمة القضايا الإسلامية

عقدت الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة المؤتمر العالمي الأول تحت عنوان "جهود المملكة العربية السعودية في خدمة القضايا الإسلامية" خلال فترة 13 محرم إلى 15 محرم 1432 وقد شارك فيه عدد من العلماء والمفكرين من داخل البلاد وخارجها منهم ثلاثة وفود من جامعة الإمام ابن تيمية بمدينة السلام وقدموا بحوثهم في المؤتمر وهم كل من
(1) د. محمد لقمان السلفي رئيس جامعة الإمام ابن تيمية وعنوان بحثه : جهود المملكة في تعليم أبناء المسلمين «بناء المؤسّسات التعليمية في العالم»
(2) د. محمد بن أرشد المدني نائب رئيس جامعة الإمام ابن تيمية وعنوان بحثه " الدور الريادي لعلماء المملكة في بيان ونشر العقيدة الصحيحة"
(3) أ.ظل الرحمن بن لطف الرحمن رئيس تحرير مجلة "طوبى" الشهرية الصادرة بالجامعة وعنوان بحثه "إسهامات المملكة العربية السعودية في برنامج الأغذية العالمي"
وللتفضيل إضغط هنا

الأربعاء، ديسمبر 22، 2010

هل تستطيع أن تتبرع براتب اليوم الواحد من دخلك السنوى لنشر الهندوسية والقومية؟

هل نريد منكم التبرع لنشر الهندوسية ؟ كلا، ونعوذ بالله من ذلك ، فالهندوسية ديانة وثنية باطلة والإسلام هو الدين الرباني الشامل الكامل الحق الذي لايقبل الله من الإنسان دينا سواه ولكنك تتساءل ما قصدك بصياغة الموضوع بهذه الطريقة ؟ إذا ترغب أن تعرف الحقيقة فاضغط هنا "هل تستطيع أن تتبرع براتب اليوم الواحد من دخلك السنوى لنشر الهندوسية والقومية؟"

الخميس، ديسمبر 09، 2010

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے


نومبراوردسمبر کا مشترکہ شمارہ پیش خدمت ہے، رسالے کی اشاعت کے دوسال ہوچکے ہيں،اس کا پہلا شمارہ نومبر2008 میں منظرعام پر آیا تھا، تب سے مسلسل اللہ کی توفیق سے یہ شائع ہورہا ہے، جس وقت رسالے کی اشاعت کا خاکہ تیارکیا گیا ہم نے اصلاح معاشرہ کے ساتھ ساتھ قوم مسلم میں دعوتی شعورپیدا کرنے کو اپنی اولیں ترجیحات میں شامل کی، کیونکہ ایک طرف اسلام کی آفاقیت اور دورجدید کے تقاضوں کے سامنے قوم مسلم کی بے حسی ہمارے ضمیر کو کچوکے لگا رہی تھی تو دوسری جانب رسالہ لجنة التعریف بالاسلام کا نقیب اور ترجمان تھا جس کا بنیادی مقصد غیرمسلموں کے بیچ اسلام کا تعارف عمدہ اسلوب اورجدید ٹکنالوجی کی روشنی میں کراناتھا،چنانچہ ہر شمارے میں ایسے مقالات شائع کیے جو ہمارے خواب کو شرمندہ تعبیرکرسکیں-

آج پچیسواں شمارہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد اپنا احتساب کرنے بیٹھے ہیں کہ کیا ہم اپنے مقصد میں کامیاب رہے اورکیا ہمیں مسلمانوں کی ذہن سازی کرنے میں کامیابی مل سکی ۔ اس کا صحیح فیصلہ تو ہمارے قارئین ہی کرسکتے ہیں البتہ ہم اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بڑی حد تک ایسے افراد تیار کرلیے ہیں جو اسلام کی آفاقیت کو سمجھتے ہیں، قوم مسلم کے تئیں اپنی ذمہ داری کا احساس رکھتے ہیں، دعوت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں،دعوتی لٹریچر اور رسالوں کی تقسیم میں ہمارا بھرپور تعاون کرتے ہیں، ہمیں دعوت کے لیے کتنے ایسے دیوانے ملے ہیں جو کرایے کی ٹیکسی سے اردو رسالے کارٹون کے کارٹون لے جا کرلوگوں تک پہنچا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی ڈیوٹی کے تقاضے ہیں ،ذاتی مصروفیات ہیں ، گھریلومسائل ہیں لیکن انہوں نے دعوت کی لذت حاصل کرلی ہے،اپنی ذمہ داری کا شعور پا لیا ہے ، اپنے اعلی مقام کو پہچان لیا ہے،اپنے منصب کی معرفت حاصل کرلی ہے ۔

لیکن یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہماری قوم کی اکثریت تاہنوزفرقہ بندی اورفروعی اختلافات میں پھنس کر اسلام کی عالمگیریت اور آفاقیت سے ناآشناہے ، ہم انسانیت کے رہبر اور قائد بناکر بھیجے گئے تھے،اگر ہم نے اپنا آغوش وا کیا ہوتا تودنیا ہماری ہوسکتی تھی،آج بھی انسانیت پیاسی ہے ،آب حیات کی متلاشی ہے ،افسوس کہ جام حیات پلانے والے نایاب نہیں توکمیاب ضرور ہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ جام شیریں کے نام پرانسانیت کو زہریلاشراب پلایاجارہاہے، قادیانیت اورعیسائیت کو فروغ دینے کے لیے ہرممکن وسائل استعمال کئے جارہے ہیں، قادیانی اور عیسائی مبلغین دنیا کے کونے کونے میں پہنچ کر دین کے بازارمیں اپنے کھوٹے سکوں کی خوب خوب تشہیر کررہے ہیں ۔ ان کے اہل ثروت اور مالیاتی ادارے ارتدادی مہم پر اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں-

جب وہ باطل کے پرچار میں جان ومال کھپا رہے ہیں تو ہمیں حق کے فروغ کے لیے کس قدر محنت، لگن اور جذبے کی ضرورت ہے اس کا اندازہ ہر شخص لگا سکتا ہے ۔ اسلام کے سپوت جہاں کہیں بھی ہوں اورجس میدان میں ہوں انہیں اسلام کاصحیح نمائندہ بننا ہوگا، اپنے قول ،عمل اور کردارسے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنا ہوگی ۔ کویت کی سرزمین دعوت کے لیے نہایت سازگار ہے ، یہاں مسلم وغیرمسلم تارکین وطن کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے ، ہم يہاں ملازمت کے لیے ضرور آئے ہیں لیکن ایک مسلمان جہاں کہیں بھی ہوپہلے مسلمان ہوتا ہے اس کے بعد ملازم ،اسلام کے فروغ میں تارکین وطن کا کلیدی رول رہا ہے ، تاریخ بھی گواہ ہے کہ مسلمان تاجروں کے اخلاق سے متاثر ہوکربے شمار ملکوں اور قوموں نے اسلام کو گلے لگایا ہے ، آج بھی مغربی ممالک میں قبول اسلام کی شرح میں جونمایاں اضافہ ہورہاہے، اس کے پیچھے تارکین وطن کی محنت اور لگن کا بڑادخل ہے-

اس مناسبت سے میں اپنے قارئین کو سرزمین کویت کے ایک تارک وطن کا قصہ سنانا چاہوں گا جنہوں نے ملازمت کے لیے ترک وطن نہیں کیا بلکہ محض دعوت کے لیے کیا ہے ۔ تیس سال کے عرصہ میں چالیس ممالک کے اندر پچاس لاکھ سے زائد افراد نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ، یہ کوئی خیالی بات نہیں بلکہ امر واقعہ ہے،انہیں ہم ڈاکٹر عبدالرحمن السمیط کے نام سے جانتے ہیں جوکویت کی ایک مشہور رفاہی جمعیت ”جمعیة العون المباشر“ کے بانی اور مؤسس ہیں جو پیشے کے اعتبار سے الصباح ہاسپیٹل میں طبیب تھے لیکن جسمانی علاج کرنے کی بجائے روحانی علاج میں لگ گئے ، وزارة الاوقاف کویت کی طرف سے بحیثیت مندوب جب افریقی ممالک کا ایک بار دورہ کیا تو وہاں عیسائی مشینریز کی سرگرمیوں اورارتدادی مہم نے ان کی دینی غیرت کو للکارا، بالآخر علاج ومعالجہ اور کویت کی آرام پسند زندگی کو چھوڑ کر افریقی ممالک کے شہروں، دیہاتوں اور کوردہ علاقوں میں گھوم گھوم کر دعوت کا کام کرنے لگے، کتنے پادریوں اور عیسائی مبلغوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اورعیسائیت کی تبلیغ چھوڑ کر اسلام کے فروغ میں لگ گئے ۔ ڈاکٹر السمیط کی ہمت مردانہ کو سلام کہ متعدد بار ان پر حملہ کیا گیا ،اغوا کرنے کی کوششیں ہوئیں ،ذیابیطس کے مسلسل مریض ہیں،تین بارسراوردل کا دورہ پڑا ، لیکن جنت کی جستجو میں نہ دشمنوں کا خوف ہے نہ بیماری کا احساس۔ اس مرد مجاہد نے دعوت کے لیے اپنی زندگی کیوں وقف کی اس سلسلے میں ان کا کہنا ہے کہ بعض نومسلموں نے قبول اسلام کے بعد مجھ سے شکایت کی کہ” اے مسلمانو! تم کہا ں تھے ،تم نے اتنے دنوں تک اسلام ہم تک کیوں نہ پہنچایا یہاںتک کہ ہمارے والدین کفرپر مرچکے ، کاش کہ تم نے اس وقت ہمیں اسلام کی دعوت دی ہوتی جب کہ ہمارے والدین باحیات تھے“ ۔

مجھے یاد آتا ہے میں نے ماہنامہ راہ اعتدال کے کسی شمارہ میں مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب کا کچھ ایسا ہی بیان پڑھا تھا ،انہوںنے جامعہ دارالسلام عمرآباد کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا کہ مجھے پچھلے دنوں ایک نومسلم کا مکتوب موصول ہوا جس میں اس نے تمام مسلم برادری کو کوستے ہوئے لکھاہے کہ جب میں کسی مسلمان کو دیکھتا ہوں تو دل کرتا ہے اس کا چہرہ نوچ لوں، کیونکہ انہوںنے مجھے اسلام اس وقت بتایا جب کہ میرے والدین فوت پاگئے،اگر اسلام کی آفاقی تعلیمات مجھ تک والدین کی حیات میں پہنچی ہوتیں تو میرے والدین جہنم سے بچ سکتے تھے ۔

اللہ اکبر ! یہ باتیں جہاں دل دہلا دینے والی اور ضمیر میں ہلچل مچادینے والی ہیں وہیں ہمارے سمند ہمت کے لیے تازیانہ بھی ، میری آپ سے گزارش ہے انہیں دوبارہ اور سہ بارہ پڑھیں اور اس آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھیں ،اپنا جائزہ لیں کہ ہم بحیثیت مسلمان کس حدتک دین کی خدمت سر انجام دے رہے ہیں ، ہرشخص اپنے اپنے دائرہ میں رہ کر دین کی خدمت کرسکتا ہے، ابھی ہم سال نو کا استقبال کرنے والے ہیں،نئے سال کی آمد سے قبل اگلے سال کے لیے اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنائیں اور دعوت کو اس میں سرفہرست جگہ دیں ،اگر آپ قلم کارہیں تواپنی سنجیدہ تحریر سے دین کی خدمت کریں،اگرآپ مقررہیں تو اپنی شیریں بیانی سے دین کی خدمت کریں، اگر آپ صحافی ہیں تو میدان صحافت میں دین کی خدمت کریں ،اگر آپ انٹرنیٹ اور الکٹرونک میڈیا سے واقفیت رکھتے ہیں تو آلات جدیدہ کے ذریعہ دین کی خدمت کریں ،اگر آپ مالدار ہیں تواپنے پاکیزہ مال سے دین کی خدمت کریں،حتی کہ اگرآپ ایک رسالہ بھی دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں تویہ بھی دین کی عظیم خدمت ہوگی۔ ہمیں ہر میدان میں دعوت کے شہسواروں کی ضرورت ہے ،ہم جس قدر افرادی قوت کے مالک ہوںگے اسی قدر دعوت کو فروغ ملے گا ، اس رسالہ کو اپنے لیے دعوت سمجھیں ،یہ رسالہ آپ کاہے،اور آپ کے دینی جذبات کا ترجمان ہے ، پس وپیش نہ کریں، کمرہمت باندھیں اوردعوت کے فروغ میں جس طرح کا بھی تعاون پیش کرسکتے ہوں‘فوراً ہم سے رابطہ کریں ۔ ہماری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں ۔


والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صفات عالم محمد زبیر تیمی
ایڈیٹر ماہنامہ مصباح(كويت)