الأربعاء، فبراير 18، 2015

چوری اس پر سینہ زوری !!


ثناء اللہ صادق تیمی 
اسسٹنٹ پروفیسر ، امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی ، ریاض ، سعودی عرب

ہمارے دوست کا بھی کچھ عجب حال ہے ۔ وہ وقتا فوقتا کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کر جاتے ہیں کہ ہمیں الجھن سی ہونے لگتی ہے ۔ اب جیسے ہی ہم نے نماز کی اہمیت اور اللہ اور بندے کے رشتے کی معنویت انہيں سمجھائی وہ نماز چھوڑنے کا فلسفہ ہمہیں سسمجھانے لگے ۔ انہوں نے کہا کہ بھائی ایسا نہيں ہے کہ نماز چھوڑنا صرف کوتاہی یا بے عملی ہے ۔ یہ تو در اصل ایک فلسفہ ہے ۔ میرا منہ حیرت کے مارے کھلا کا کھلا رہ گیا ۔ میں نے کہا کہ وہ کیسے ؟ ہمارے دوست بے نام خاں گویا ہوئے دیکھو ہم سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے ۔ بنایا ہے اور وہ ہم سے بہت محبت کرتا ہے ۔ بھلا جو رب اپنے بندوں سے اتنی محبت کرتا ہے ۔ اس نے انہيں اتنی بڑی کائنات میں نائب بنا کر بھیج دیا ہے اس اللہ کو آخر کیا حاجت ہوگئی کہ لوگ اس کے آگے ماتھے ٹیکیں ، سجدے کريں اور رورو کر گڑگڑائیں ۔ وہ تو چاہے گا کہ اس کے بندے خوش رہيں ، آباد رہیں اور دی ہوئی زندگی پوری طرح جیئیں ۔ یہ تو مولویوں کے ڈھکوسکے ہیں کہ نماز کو اتنی اہمیت مل گئی ہوئي ہے ۔ بھائی ہمارا رب کیا انسانوں جیسا بادشاہ ہے کہ جب بندہ اس کے آگے جھکےگا وہ خوش ہو جائےگا ؟ سوچو دماغ لگاؤ ۔

    پتہ ہے یہ مولوی ان سوالوں کا کوئی جواب دینے کی بجائے کیا کہینگے کہ نماز چھوڑنے والے کافرہيں ۔ اللہ کے باغی ہیں اور رحمت الہی سے دور ہیں ۔ اور دیکھنا اکثر مولوی ہی اللہ کی رحمت سے دور نظر آئینگے ۔ چہرہ بجھا ہوا ، مسکینی اور محرومی کی تصویر ! ایک مرتبہ عبد الرزاق ملیح آبادی کی ملاقات علامہ تقی الدین ہلالی سے ہوئی ۔ تقی الدین ہلالی مولانا ابو الکلام آزاد  سے ملنے گئے تھے ۔ باتوں باتوں میں ملیح آبادی اور ان سے نماز کے مسئلے پر بات ہونے لگی ۔ ملیح آبادی نے تارک نماز کے کافر نہ ہونے کی انہيں ایسی دلیل دی کہ وہ بس دیکھتے رہ گئے ۔ ملیح آبادی نے کہا کہ بھائی میں نماز نہيں پڑھتا اور ایک لمحے کے لیے بھی  میرے دل میں یہ بات نہيں آتی کہ میں مسلمان نہيں ہوں ! یوں بھی نماز پڑھنے والے لوگ اپنی نماز کا دھونس جما کر لوگوں کو وہ وہ دھوکہ دیتے ہیں کہ غیر نمازی دے ہی نہیں سکتے ۔ آپ تجربہ کرلینا نمازی لوگوں میں عجیب و غریب قسم کا غرور دیکھنے کو ملے گا ۔ وہ بقیہ مسلمانوں کو ہر طرح سے اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں ۔ یہ اتنے بد اخلاق ہوتے ہیں کہ سوچا بھی نہيں جا سکتا ۔

     بھائی ہم اللہ کے بندے ہيں ۔ اس کی زمین پر رہتے ہیں ۔ اس کی دی ہوئي ساری نمعتیں ہيں تو ہم اسے یاد کرلیں یہ کیا کم ہے ۔ اور ہم تو الحمد للہ اللہ کو یاد کرتے ہی رہتے ہيں ۔ ان مولویوں نے تو سارے اسلام کو داڑھی اور نمازمیں سمیٹ دیا ہے ۔ نماز کے علاوہ اخلاق بھی ہے جس کی تکمیل کے لیے رسول بھیجے گئے تھے ۔ لوگوں کی مدد ہے جو انسانیت کا بنیادی تقاضہ ہے ۔ ایسے دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ نماز چھوڑنے کے معاملے میں مولوی طبقہ سب سے آگے ملےگا ۔ اگر صلاۃ واقعی دخول جنت کے لیے ضروری ہے تو ان مولویوں سے پوچھیے یہ مولویانہ پیشوں سے نکلنے کے بعد نماز کو بالعموم طلاق بتہ کیوں دے دیتے ہيں ۔ یہ جب تک مولوی ہیں تب تک نماز ہے اور جیسے ہی دنیا کے راستے کھلے کہاں داڑھی اور کہاں نماز ! ایک اور بات بتاؤں یہ جب لوگوں کے بیچ ہونگے نماز پڑھینگے اور جب تنہا ہونگے انہیں نماز سے کوئی مطلب نہيں ہوگا ۔ میرے بھائی اصل انسانیت یہ ہے کہ لوگوں کی مدد کیجیے ۔ غریبوں کا خیال رکھیے اور کسی کو اپنی  ذات 
سے تکلیف مت دیجیے ۔ دھوکہ فریب مت کیجیے ۔ حالی نے کہا ہے

یہی ہے عباد ت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
نماز وغیرہ در اصل انسان کو انسانیت سے دور لے جانی والی چیز ہے ۔ اسی لیے اکثر زیادہ پڑھے لکھے ، سمجھدار اور انسانیت کا درد رکھنے والے لوگوں کو دیکھوگے وہ مسلمان ہونگے لیکن نمازی نہيں ۔

    میں نے اپنے دوست سے دو تین باتيں عرض کرنی چاہی ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ نماز اسی اللہ کا حکم ہے جس اللہ نے انسانوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔ دوسری یہ کہ اگر کوئی نمازی آدمی اخلاق کا برا ہے تو اس میں نماز کا کیا کردار ہے کہ غیر نمازی تو زیادہ تر بھونڈے اخلاق کے مالک ہوتے ہیں اور کیا ایک بد اخلاق نمازی کی بجائے ایک با اخلاق نمازی کو مثال نہيں بنایا جا سکتا ۔ تیسری بات یہ کہ کیا یہ سارے فلسفے انسان کو قیامت  کے دن اللہ کے قہر سے بچالینگے ۔ ہمارے دوست نے ہمیں مسکراکر دیکھا اور کہا کہ بھائی ناراض مت ہونا ۔ یہ باتیں ہماری کب تھیں یہ تو ہم تمہیں بے  نمازی متفلسفین کے افکار عالیہ سے روشناس کرارہے تھے !


ليست هناك تعليقات: