السبت، نوفمبر 29، 2014

غزل


ساگر تیمی 

یہ سلیقہ ہے وہ نبھائے گا 
تم بلاؤ ، ضرور آئےگا 
سوچتا ہے وہ کتنی شدت سے 
اس کی شادی میں گانا گائے گا 
کیسی کھونے کی لت لگی ہوگی 
پا بھی جائے تو پا نہ پائےگا 
یہ عمارت نہیں ہے ، مسجد ہے 
توڑ کر بھی گرا نہ پائےگا 
تجھ سے غصہ ہے ، تیرا شیدائی 
تم مناؤ گے ، مان جائےگا 
اتنی الفت بھلی نہیں ہوتی 
بے وجہ بھی دوا کھلائےگا 
آپ ساگر سے مانگ کر دیکھیں 
مسکرائےگا ، جاں لٹائے گا

الاثنين، نوفمبر 24، 2014

ڈر



ساگر تیمی

میں ڈرتا ہوں
مگر یہ بات تم سے کہ نہيں سکتا
کہ تم اتنے بہادر ہو
یہ دنیا تم سے ڈرتی ہے
سر محفل ہی تم سدا
 حق بول دیتے ہو
مگر یہ سچ ہے  اب بھی حق
کا کلمہ ہی شکار ناتوانی ہے
تسلط ظلم کو حاصل ہے
ظالم کا زمانہ ہے
بہادر میں بھی ہوں لیکن
یہ سارے قصے ، سب کہانی میری جرات کی
بنائی ہے کہ میں تم سے کہیں پیچھے نہ رہ جاؤں
مبادا ہار میری ہو نہ جائے ، جیت تم جاؤ
وگرنہ سینے میں بیٹھا
جریم راز جو میری طرح تیرا بھی بھیدی ہے
بتاتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں
اور سچے نہیں تم بھی 

الخميس، نوفمبر 20، 2014

{جامعہ امام ابن تیمیہ میں سپریم اسلامی کونسل برائے فتوی وقضاء" کی تشکیل}

 آصف تنویر تیمی 

ویسے تو جامعہ کے ذریعہ اول دن ہی سے سماجی ومعاشرتی مسائل میں لوگوں کی رہنمائی کتاب وسنت کے مطابق ہوتی رہی ہے، اس مقصد کی خاطر جامعہ کے بعض سینئر اساتذہ مختص تہے، جو اس فریضے کو بحسن وخوبی انجام دیا کرتے تہے.اب تک سیکڑوں سوالات کے جوابات جامعہ کے پلیٹ فارم سے دیے جاچکے ہیں.

مگر اب اس شعبہ کو مزید متحرک اور فعال بنانے کے لیے اس میں بعض اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ دین سے جوڑا جاسکے، ان کو حکومتی چارہ جوئی اور شکم پرور مفتیوں کے باطل فتووں سے محفوظ رکہا جاسکے. پہلے صرف فتوی پر ہی اکتفا کیا جاتا تہا جب کہ اب مسلمانوں کے دیگر معاشرتی وسماجی مسائل کا تصفیہ بہی اس کونسل کے ذریعہ ان شاء اللہ کیا جائیگا، اس کونسل سے جو فیصلہ ہوگا وہ سرکاری طور پر بہی فریقین کے لیے قابل تسلیم ہوگا کیونکہ کونسل کو سرکاری حمایت حاصل ہوگی.حسب ضرورت مدعی اور مدعی علیہ کو کونسل کی آفس میں آکر اپنا بیان دینا اور اپنا مدعا پیش کرنا ضروری ہوگا ضروت پیش آنے پر فریقین کے نام اخبارات وجرائد میں بہی نوٹس جاری کیے جاسکتے ہیں.اس کونسل کی جامعہ کے احاطہ میں ایک مستقل آفس کا انتظام کیا گیا ہے، جہاں اس کے نام کا بینر بہی ہوگا.
اس کونسل کے لیے جامعہ نے جن علماء کرام کا انتخاب کیا ہے ان کے نام اس طرح ہیں:
1-حصرت مولانا محمد ارشد فہیم مدنی.
2-حضرت مولانا محمد سمیع اللہ مدنی.
3-حضرت مولانا نور الاسلام مدنی.
4-حضرت مولانا عبد الرحمن مدنی.
5-مولانا اسد الرحمن تیمی.
6-مولانا ذبیح اللہ تیمی.
7-آصف تنویر تیمی.
اگر کسی کے پاس کوئی استفتاء یا دینی ومعاشرتی سوال ہو تو وہ کتاب وسنت کی روشنی میں اپنا جواب اس کونسل سے حاصل کرسکتا ہے.ساتہہ ہی آپ دیگر افراد کو بہی اس کمیٹی کے نشاطات سے با خبر کریں تاکہ وقت پڑنے پر وہ اس کونسل سے رجوع کرسکیں.
اس کمیٹی کو آپ سب کے سوالات کا انتظار ہے.

الجمعة، نوفمبر 14، 2014

{ DML PUBLIC SCHOOL کا دوسرا سالانہ تعلیمی کانفرنس }



{آصف تنویر تیمی}

آج بتاریخ 12/نومبر 2014 کو جامعہ امام ابن تیمیہ بہار کے زیر اشراف چل رہے DM L PUBLIC SCHOOL کے وسیع وعریض آنگن میں یک روزہ دوسرے تعلیمی کانفرنس کا شاندار افتتاح اسکول کے ہی ایک طالب علم زاہد انور کی تلاوت کلام پاک سے ہوا.اس کے بعد نازیہ نے اپنی سہیلیوں کے ساتہہ اسکول کا ترانہ بڑے ہی خوبصورت اور اچہوتے انداز میں پیش کیا.پہر یک بعد دیگرے ڈاکٹر ارشد مدنی حفظہ اللہ نے خطبہ استقبالیہ، مولانا ظفیر عالم سلفی نے تعیلم کے میدان میں جامعہ اور اس کے جملہ شعبہ جات کی کارکردگی کی ایک جہلک، ماسٹر مشتاق احمد شیدا نے انگریزی زبان میں DLM کا تعارف، شیخ مصطفی مدنی نے جونیئر ماڈل اسکول کا تعارف پیش کیا.
اس کے بعد اسکول کے بعض طلبہ نے اردو، انگریزی، ہندی اور سنسکرت زبانوں میں اپنی اپنی نمائندہ تقاریر سے سامعین کو محظوظ کیا.جن طلبہ نے اس میں حصہ لیا ان میں نوشاد، عبد اللہ، شازیہ، عقیل طارق، انچل کماری، عاصم پرویز، سندیش کمار، مریم شاہین وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے.
اس موقع سے علم کی اہمیت وافادیت پر مبنی دو ڈرامے بہی سٹیج کیے گئے، جسے لوگوں نے کافی پسند کیا.پہلے ڈرامہ میں یہ دکہانے کی کوشش کی گئی تہی کہ اگر آدمی جاہل اور ان پڑہہ ہو تو اس کو زندگی کے مختلف مراحل میں کن کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور سے نوکری اور دوران سفر کی پریشانیاں بڑی تکلیف دہ ہوتی ہیں.دوسرے ڈرامے کا لب لباب یہ تہا کہ بچیوں کی تعلیم بہی بچوں کی تعلیم کی طرح اہم اور ضروری ہے.ہوسکتا ہے بسا اوقات گہر کے افراد بہی غلط فہمی کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت کریں.مگر ان کو اگر علم کی اہمیت باور کرائی جائے تو وہ بہی حصول علم کے لیے تیار ہوسکتے ہیں.
اس کے بعد اس پروگرام میں شامل مہمانوں نے اپنے اپنے تاثرات کا کہل کر اظہار کیا.جناب پون کمار جیشوال، جناب نوشاد عالم صاحب نے صاف لفظوں میں ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ کی جملہ کوششوں کو سراہتے ہوئے ان کی جم کر تعریفیں کیں، اور جامعہ اور اس سے منسلک تمام شعبوں کی مدد کی کامل یقین دہانی کرائی.انہوں نے پوری وضاحت سے کہا کہ ملک کو اس جیسے اور اسکولوں اور یونیورسیٹیوں کی ضرورت ہے تاکہ بہارت کا پچہڑا ہوا یہ علاقہ تعلیم کے میدان میں ترقی کرسکے.سامعین نے ان کی باتوں کی تائید میں اپنے ہاتہوں کو لہراتے اور تالیوں سے حوصلہ بخشتے رہے.اس کانفرنس میں تشریف لائے سینئر تیمی اور "ہمارا سماج"اردو کے اڈیٹر جناب ڈاکٹر خالد برکت اللہ تیمی نے بہی زور دار انداز میں بانی جامعہ کی تاریخی قربانیوں کا جذباتی انداز میں تذکرہ کیا، اور اس بات پر افسوس کا بہی اظہار کیا کہ اس عالمی شخصیت کو اب تک اپنی قوم، علاقے اورملک سے وہ پزیرائی نصیب نہیں ہوئی جس کے وہ حقدار تہے یا ہیں.
کانفرنس کے اخیر میں اپنے صدارتی کلمات کے ساتہہ بانی جامعہ جناب ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ مائک پر حاضر ہوئے.ان کی تشریف آوری پر پنڈال کے طول وعرض میں بیٹہے بزاروں لوگوں نے تالیوں کی گڑ گڑاہٹ کے ساتہہ ان کا شایان شان استقبال کیا.اس عبقری شخصیت نے اپنی باتوں کی ابتدا حمد وصلاة سے کی اور مختصر وقت میں دو تین اہم باتوں کی طرف اشارہ کیا جس کی تفصیل کے لیے وقت درکار ہے.موصوف نے اپنی زندگی کا نچوڑ بیان کرتے ہوا کہا کہ ہزاروں کتابوں کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ علم ہی انسان کی بلندی اور ترقی کا راز ہے.علم انسان کو عزت وقار عطاکرنے کے ساتہہ ساتہہ اس کے اندر تہذیب وتمدن بہی پیدا کرتا ہے.پہر ڈاکٹر موصوف نے اپنی باتوں کی تائید میں امریکہ کے پہلےصدر ابراہیم لنکن کی زندگی کے کئی سنہری واقعات پیش کیے. جنہیں سامعین ہمہ تن گوش سماعت فرماتے رہے.اس کے علاوہ بہی انہوں نے بہت ساری قیمتی نصیحتیں طلبہ وطالبات اور عام سامعین کو کیں.
اس طرح یہ بے مثال کانفرنس پوری کامیابی کے ساتہہ اپنی انتہا کو پہنچی. نائب رئیس جامعہ جناب ڈاکٹر ارشد فہیم مدنی نے اس کانفرنس کے اختتام کا اعلان کیا.
واضح رہے کہ اس پورے پروگرام کی نظامت برادرم ابراہیم سجاد تیمی نے شروع سے اخیر تک انگریزی زبان میں کی.اور اس کانفرنس کو کامیابی کی سیڑہیوں تک پہنچانے میں جن ہستیوں نے رات دن ایک کیا ان میں ہمارے دو بہائیوں کا نام سر فہرست ہے اس سے میری مراد جنرل ڈائرکٹر آف جامعہ امام ابن تیمیہ اور DLM PUBLIC SCHOOL جناب عبد الرحمن تیمی اور ان کے مضبوط بازو عربی وانگریزی کے ساتہہ ہندی واردو کے باکمال ادیب جناب اسد الرحمن تیمی صاحبان ان دونوں کی جتنی بہی تعریفیں کی جائیں کم ہیں.ہم لوگوں کو جو کچہہ دیکہنے اور سننے کو ملا وہ انہی دونوں کے خوابوں کی خوبصورت تعبیر تہی.اللہ انہیں سلامت رکہے، اور ان کے تمام مصاحبین اور کارکنان کو بہی.
نوٹ: میں نے پروگرام کی یہ مختصر رپورٹ اپنے ان بہائیوں کے لیے تیار کی ہے جو جامعہ کے ایک ایک اینٹ سے محبت کرتے ہیں، اس کی تعمیر وترقی کے لیے ہمہ وقت دست بدعا ہوتے ہیں مگر خوشی کے اس قسم کے لمحات سے کسی وجہ سے وہ محروم رہتے ہیں.

{جامعہ امام ابن تیمیہ کی عظیم الشان مسجد میں درس بخاری کا انعقاد}

آصف تنویر تیمی

بانی جامعہ کی مبارک تشریف آوری کی وجہ سے جامعہ خوشیوں سے نہا رہا ہے.جامعہ کے جملہ متعلقین میں عجب قسم کی امنگیں دیکہنے کو مل رہی ہیں.ہر طرف سے علم وہنر کی باد بہاری چلتی محسوس ہورہی ہے.متنوع قسم کے علمی اور ثقافتی پروگراموں کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے.درس قرآن، درس حدیث اور خطاب عام سے جامعہ کی کل فضا معطر ہے.
اسی سلسلے کی ایک کڑی گزشتہ کل کا درس بخاری بہی ہے.جو کہ جہاں ایک طرف محترم بانئی کے لیے صدقہ جاریہ ہے تو وہیں طلبہ جامعہ کے ایک انمول علمی سرمایہ.اس درس میں جامعہ کےآخری سال کے تمام طلبہ اور طالبات نے حصہ لیا.قرآن مجید کے بعد دنیا کے سب سے صحیح کتاب "بخاری شریف"کی پہلی اور آخری حدیث کا سبق اپنے مربی اور عالم اسلام کے معروف عالم دین ڈاکٹر محمد لقمان السلفی حفظہ اللہ سے اخذ کیا.تقریبا تیس سے زائد طلبہ اور طالبات نے یک بعد دیگرے بخاری شریف کی پہلی یا تو دوسری حدیث کو پڑہا. ڈاکٹر موصوف پوری تن دہی سے سبہوں کی قرات سنتے رہے اور حسب ضرورت اصلاحات بہی کیں.
ویسے تو اس درس کے اصل مخاطبین اس سال جامعہ سے فارغ ہونے والے طلبہ اور طالبات ہی تہیں مگر درس کی اہمیت اور اس کی افادیت کی خاطر وسیع وعریض مسجد اساتذہ جامعہ اور طلبہ جامعہ سے اٹی ہوئی تہی.
حدیثوں کی خواندگی کے بعد ڈاکٹر موصوف نے اپنے خاص علمی انداز میں درس کا آغاز کیا، چونکہ وقت کافی گزر چکا تہا اس لیے انہوں نے اختصار کو اپنے سامنے رکہتے ہوئے اپنے طلبہ(بیٹے) طالبات (بیٹیوں) کو حدیث سے مستفاد چند نہایت قیمتی باتیں بتلائیں.انہوں نے کہا:ہر چہوٹے بڑے نیک عمل اور عبادت کے لیے نیت صالحہ کا پایا جانا ضروری ہے.بلکہ حدیث کی زبانی تمام تر اعمال کا دار مدار نیت کی سلامتی پر ہے.اس لیے امام بخاری نے اپنی کتاب کے اندر پہلی جو حدیث نقل کی وہ نیت کی اصلاح سے متعلق ہے جس کے ذریعہ وہ لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بلا نیت کسی عمل کا کوئی شمار وقطار نہیں.خاص طور سے طلبہ اور دعاة اپنے فرائض کی انجام دہی میں نیت کی پاکی کا خاص خیال رکہیں.
اس کے بعد آخری حدیث کی شرح میں بہت سارے علمی وفنی حقائق کا انکشاف کیا. جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کو اپنی زندگی کو عمل سے آباد رکہنی چاہیے، عبادات سے کبہی غفلت اختیار نہیں کرنی چاہیے.اور اگر آدمی حسن نیت کے ساتہہ عمل پیہم کرتا رہے تو ان شاء اللہ وہ اللہ کی رحمت اور توفیق سے جنت کا حقدار ہوسکتا ہے جیسا کہ امام بخاری کی حدیث سے پتا چلتا ہے.
خاص طور سے ذکر و اذکار اور توبہ واستغفار سے بندے کا کوئی پل خالی نہیں ہونا چائے کیونکہ اس کے ذریعہ ایک مسلمان کو وہ چیزیں حاصل ہوتی ہیں جس کی اسے امید بہی نہیں ہوتی.اس ضمن میں قرآن وحدیث کے نصوص کے علاوہ ڈاکٹر موصوف نے امام احمد (رحمہ اللہ) کی زندگی کا ایک سبق آموز واقعہ بہی ذکر کیا.
ایک مرتبہ امام احمد(رحمہ اللہ) کہیں جارہے تہے، رات ہوگئی، رات گزارنے کی خاطر پرانے زمانے کے مطابق قریب کی ایک مسجد کا رخ کیا. مسجد کا متولی کچہہ بد اخلاق اور جاہل قسم کا تہا.نماز کے بعد جب اسے امام موصوف کے ارداے کا پتہ چلا تو وہ اس امر پر راضی نہ ہوا کہ وہ مسجد میں ٹہریں، کہینچ کر اس بدبخت نے امام احمد(رحمہ اللہ) کو مسجد سے باہر نکال دیا.اسی درمیان ایک شخص کا گزر ہوا اس نے یہ سارا ماجرا قریب سے دیہکا اسے امام صاحب پر بڑا ترس آیا (واضح رہے کہ یہ شخص اور نہ مسجد کا متولی امام صاحب کا پہچانتا تہا، اور نہ امام احمد (رحمہ اللہ) نے اپنے بارے میں کچہہ بتایا تہا) اس نے امام صاحب کو اپنے ساتہہ چلنے پر آمادہ امام صاحب کو تو رات گزارنی تہی تیار ہوگئے.آپ کو لے جانے والا شخص پیشے کے اعتبار سے ایک نان بائی تہا.وہ بڑی محبت کے ساتہہ اپنے ساتہہ لے کر گیا، اپنی دکان جہاں وہ کام کرتا تہا آپ کی راحت کا سارا انتظام کیا،اور اپنے کام میں مصروف ہوگیا.
آپ نے(امام صاحب) دیکہا کہ ان کا میزبان(نان بائی) روٹی بیلتا ہے، آگ میں ڈالتا ہے، نکالتا ہے.اور اپنے ہر عمل کے ساتہہ کثرت سے"استغر اللہ"کا ورد کرتا ہے.امام احمد(رحمہ اللہ) دیر تک اس کا جائزہ لیتے رہے اور اخیر میں سوال کیا، اے میرے بہائی! ذرا یہ تو بتلاو جو یہ تم بار بار "استغر اللہ"پڑہہ رہے کیا اس کا فائدہ بہی تمہیں ہوا ہے؟ اس نے کہا اے مسافر آدمی سنو! میرے اس کثرت استغفار کی وجہ سے اب تک میں نے جو دعائیں اللہ سے کی ہیں ساری قبول ہوئیں سوائے ایک خواہش کے.امام صاحب نے پوچہا وہ خواہش کون سی ہے؟ تو اس نے بتلایا میں نے اللہ سے دعا کی ہے کہ:میری موت اس وقت تک نہ آنے جب تک ان آنکھوں سے میں امام احمد بن حنبل (رحمہ اللہ) کو نہ دیکہہ لوں.
جب امام موصوف نے یہ بات سنی تو ان کی آنکہیں چہلک پڑہیں اور کہا لو یہ خواہش بہی تمہاری پوری ہوگئ.پہر تفصیل سے بتلایا کہ میں ہی امام احمد بن حنبل(رحمہ اللہ) ہوں.قربان جائے آدمی اس عالی مرتبت امام کی تواضع اور خاکساری پر.
اس واقعہ کے ذریعہ ڈاکٹر موصوف سامعین کو عمل صالح اور اوراد وظائف پر ابہارنے کی کوشش کررہے تہے، ساتہہ ہی انہوں نے اپنی پوری تقریر کا خلاصہ اور پیغام اس واقعہ کو قرار دیا.
اس کے بعد ہمارے ممدوح ڈاکٹر صاحب حفظہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی زندگی کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی، علم حدیث کے باب میں ان کی لازوال قربانیوں اور خاص طور سے شہر بخاری کی پریشانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی آنکہیں ڈبڈبا گئیں.انہوں نے برملا اپنے اس خیال کا اظہار بہی کیا کہ اسلاف کے تذکرے اور سوانح حیات کے مطالعے سے مجہے یہ اندازہ ہوا کہ صحابہ کے بعد اس دنیا میں اب تک امام بخاری(رحمہ اللہ) سے بڑا انسان نہیں گزرا (انہوں نے اس کو محض اپنی ایک ذاتی رائے سے تعبیر کیا)
اس کے علاوہ انہوں نے سفیان ثوری(رحمہ اللہ) اور دیگر محدثین عظام اور فقہائے کرام کی خدمات حدیث و فقہ کی طرف بہی اشارہ کیا.
اس طرح دعاوں کے ساتہہ اس عظیم الشان کتاب کا شاندار درس پایہ تکمیل کو پہنچا، طلبہ نے اپنے مربی اور استاذ سے ملاقات کی، مصافحہ کیا، اور خبر وخیرت کی دریافت کے ساتہہ علم وعرفان کے پروانوں کا یہ قافلہ اپنے اپنے نشیمن تک جاپہنچا.
اللہ تعالی جملہ مشارکین کو حسن عمل کی توفیق بخشے اور ہم سب کے مربی اور گارجین محترم ڈاکٹر موصوف کو اللہ صحت وایمان کے ساتہہ لمبی عمر عطا کرے تاکہ دیر تک ہم ان سے خوشہ چینی کرسکیں.
سدا آباد رہے چمن یہ ہمارا.

الاثنين، نوفمبر 10، 2014

رئیس جامعہ امام ابن تیمیہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ کے ایک پر مغز خطاب کا خلاصہ


آصف تنویر تیمی

دنیا ایک اندھیری کوٹھری سے عبارت تھی، انسانیت روشنی کے لیے پریشان تھی.ہر کسی کو انتظار تھا ایسی روشنی کا جو انہیں قعر مذلت سے نکال سکے،اندازہ لگائیے اگر ایک تاریک کمرہ ہو،کہیں سے کسی شعاع تک کا گزر اس کے اندر ممکن نہ ہو، کوئی کھڑکی یا روشن دان بھی موجود نہ ہو.اور سیکڑوں افراد اس کمرے میں ہوں،بھلا اس کوٹھری کا کیا حال ہوگا۔

کچھ ایسا ہی حال طلوع اسلام سے قبل اس دنیا کا تھا.حیوان کیا اس سے بہی بدتر زندگی لوگ گزار رہے تہے.عقائد، عبادات اور معاملات تمام شعبوں میں لوگ افرا تفری کے شکار تھے.

ایسے تاریک زمانے میں اللہ نے اہل دنیا پر رحم کیا، اور ہادی عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قرآن کی شکل میں روشنی عطا کرکے سارے عالم کے لیے مینارہ نور بنادیا.ان کے ذریعہ ہمیں ایسا ٹارچ ملا جس سے کائنات کا اکثر حصہ منور ہوگیا، ظلمت چھٹ گئی، روشنی ہر جگہ عام ہوگئ.جس کے سبب لوگوں نے اپنے آپ کو پہچانا، اپنے رب کو جانا، اپنے نبی کے حقوق کو سمجہا.

ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم مسلمان ہیں، صاحب ایمان ہیں.ہمیں روشنی کا ایسا پاور ہاوس حاصل ہے جس سے دنیا کے بہت سارے لوگ محروم ہیں.یہودیوں کو اس حقیقت کا اعتراف تھا کہ دین اسلام میں ہر مرض کا علاج موجود ہے، مسئلہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کا مناسب حل مل سکتا ہے تو فقط دامن اسلام میں، جیسا کہ حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) اور ایک یہودی کے مکالمے میں موجود ہے.
میرے بھائیوں اور میرے بچوں! قرآن وحدیث کا علم ہی حقیقی علم ہے، اس کے علاوہ سارے علوم مجازی ہیں.
وہ علم ہی کیا جو رب کا عرفان اور رسول کی معرفت نہ دے سکے.آپ بڑے سے بڑے یہودی عیسائی ڈاکٹر انجینئر یا ان کے علماء سے پوچھ لیجئے ان کو غسل اور آب دست تک کا علم نہیں ہوتا، آخر ان کو اس کا علم ہو بھی کیسے جبکہ ان کو یہ چیزیں سکھائی ہی نہیں جاتیں.یہ علم النفس اور دیگر دنیاوی علوم جس میں بسا اوقات قرآن وحدیث سے عاری شخص اپنے کمال کا دعوی کرتا ہے بھلا وہ اس ذات سے زیادہ نفسیات کے راز کو کیسے جان سکتا ہے جس نے اس نفس کو پیدا کیا، جی نہیں، نہیں جان سکتا، ان کی اکثر باتیں تو غلط ہوتی ہیں اور جو تھوڑی بہت مبنی بر حقیقت ہوتی ہیں وہ یا تو کتاب وسنت سے ماخوذ ہوتی ہیں یا اس کی اصل ہمارے پاس وحی الہی یا احادیث رسول کی شکل میں موجود ہوتی ہے جس کے لیے ان ناپاک لوگوں کی تحقیق کی ہمیں چنداں ضرورت نہیں.

علمائے کرام! اللہ نے آپ کو نورانی کتابوں (علم قرآن، علم حدیث) کی تعلیم وتعلم کے لیے چن لیا ہے، اور واضح رہے علم حقیقی یا علم شرعی صرف چند کتابوں کی ورق گردانی کا نام نہیں.بلکہ پورے طور پر ان نورانی کتابوں کے حوالے اپنے آپ کو کردینے کا نام ہے.خاص طور سے عقائد اور عبادات میں کوتاہی سے علم شرعی کا نور حاصل نہیں ہوسکتا.امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے تعلق سے آتا ہے کہ جب کبھی انہیں کوئی مسئلہ نہیں سمجھ میں آتا تو کسی ایسی مسجد کا رخ کرتے جہاں لوگ کم آیا جایا کرتے تھے،وہاں جاکر امام صاحب کبھی اپنے دائیں اور کبھی بائیں گال کو مٹی سے رگڑتے اور دعا کرتے"یا معلم ابراہیم علمنی"اے ابراہیم (علیہ السلام) کے معلم مجھے بھی سکھلا۔
کیا کبھی ہم نے بھی ایسا تجربہ کیا ہے؟ اپنے رب کے حضور اس انداز میں تذلل کے ساتھ کہڑے ہونے کی کوشش کی ہے؟ آپ کے کمروں کے اندر بھی ایسی جگہ مختص ہونی چاہیے جہاں آپ رات کی تاریکی میں اٹھ کر اپنے رب کی عبادت کرسکیں، سنن ونوافل کا اہتمام کرسکیں، یقین جانیے یہ نبوی طریقہ اور سلف صالحین کا وطیرہ رہا ہے۔
علم شرعی کا راستہ کامیابی اور سرفرازی کا راستہ ہے.اللہ نے اس راہ کا راہی ہمیں بنایا ہے تو ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ پورے انہماک اور محنت سے اس نور کو حاصل کریں جس سے دنیا کے شرک وبدعت کی تاریکی کا ہم خاتمہ کرسکیں،دعوت وتبلیغ کا فریضہ بخوبی انجام دے سکیں، قرآن کی لذت اور حدیث کی چاشنی کو ہم محسوس کرسکیں۔
امام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق عربی کا اتنا درک جس سے آدمی کے اندر قرآن وحدیث کی فہم آ سکے واجب ہے.
اس کے علاوہ رئیس وموسس جامعہ ( ڈاکٹر محمد لقمان سلفی حفظہ اللہ ) نے آج فجر کی نماز کے بعد جامعہ کی وسیع وعریض مسجد میں موجود اساتذہ اور طلبہ کو بہت ساری قیمتی نصیحتیں کیں، ان سے ملاقیں کیں، طلبہ گرمجوشی سے کافی دیر تک مصافحہ کرتے رہے اور رئیس جامعہ مسکراتے ہوئے سب کی خبر خیریت دریافت کرتے رہے.
اللہ موصوف کی عمر اور علم میں مزید برکت دے تاکہ جامعہ کا ذرہ ذرہ ان سے اسی طرح استفادہ کرتا رہے.

نوٹ: سابقہ سطور میں ان کی پر مغز تقریر کی محض ادنی ترجمانی کی کوشش کی گئی ہے.اگر اس میں کسی طرح کی کوئی معنوی یا لفظی غلطی ہو تو وہ میری جانب سے تصور کی جائے گی.