الثلاثاء، سبتمبر 03، 2013

عقیدت اندھی ہوتی ہے

ثناءاللہ صادق تیمی
جواہر لال نہرویونیورسٹی ، نئی دہلی -67

پچھلے دنوں محلے کی ایک مسجد میں ہماری بحث ایک خاص مسلک کے متبع عالم دین سے ہورہی تھی ۔ بات در اصل اس بات پر ہو رہی تھی کہ پورے اسلام پر عمل کرنے کا مطلب کیاہے ؟ اللہ اور رسول کے مطابق چلنا ہی اصل اسلام ہے ، یہ  ہمارا ماننا تھا اور اس کے لیے ہم قرآن و سنت کے دلائل فراہم کررہے تھے ۔ ان کا ماننا تھا کہ ایک نہ ایک امام کی تقلید ضروری ہے ۔ ہم نے کہا بھائی لیکن چوتھی صدی ہجری تک تو اس قسم کی تقلید کا کوئی رواج نہ تھا جیسا کہ مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے ۔ پھر جب ہم نے ان سے یہ کہا کہ آپ کے امام صاحب کے دو زیادہ بڑے اورمحترم شاگردان نے خود مسائل میں  ان سے اختلاف کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے اور ہم خود بھی امام صاحب کی ان ہی باتوں کو مانتے ہیں جو قرآن و سنت کے مطابق ہوں ۔ ہم نے کہا کہ اگر بات ایسی ہے تو ہمارے اور آپ کے درمیان فرق کہاں رہا ۔ ہماری تو پوری دعوت ہی یہ ہے کہ اصل مرجع قرآن و سنت کو بنایا جائے ۔ علماء ، بزرگ اور فقہاء کرام کی کوششوں سے استفادہ اور ان کا احترام ضروری ہے لیکن ان کو قرآن و سنت کا درجہ دے دینا در اصل ایک طرح سے دین کی اصل اساس کو ختم کردینے جیسا ہے ۔ لیکن بحث میں تو بات سے بات نکلتی ہے انہوں نے ایک عالم دین کا حوالہ دے کر ہم سے کہا کہ دیکھیے آپ کے گروپ کے عالم صحابہ کے ساتھ گستاخی کرتے ہیں ۔ ہم نے کہا کہ بشرطیکہ یہ بات درست ہو جو آپ بیان کررہے ہیں تو ہم اپنی برائت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے حق میں عفو و درگذر کی دعا کرتے ہیں ۔اس لیے کہ غلط اس لیے صحیح نہیں ہو سکتا کہ ہماری جماعت یا گروپ کے کسی آدمی نے کہا ہے ۔ ہم نے پھر ان سے کہا کہ میرے بھائی اگر یہی رویہ ہم میں سے ہر آدمی اپنا لے کہ آگر کسی کی بھی بات ہوگی اور وہ قرآن وسنت کے خلاف ہوگی تو ہم اسے تسلیم نہیں کرینگے بلکہ ان کا احترام کرتے ہوئے اس لیے مسترد کردینگے کہ وہ اللہ کے رسول کے لائے ہوئے دین کے مطابق نہیں ہے ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس سے ان کی اہمیت کم ہو جائیگی یا ان کا رتبہ گھٹ جائیگا ۔ پھر ہم نے ان کو ایک بزرگ کا واقعہ سنایا اور کہا کہ دیکھیے جب ان کے مرید نے ان سے یہ کہا کہ رات کو خواب میں وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ رہے تھے تو محمد رسول اللہ کی جگہ حضرت کا نام آجارہا تھا ۔  صبح بیدار ہو کر بھی جب کوشش کی تو رات والا ہی معاملہ سامنے آیا ۔ اس پر بزرگ نے کہا کہ اشتیاق و محبت میں ایسا ہوجاتا ہے ۔ بھلا بتلائیے حضرت کو ایسا کہنا چاہیے تھا ؟ جناب عالی : ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ان صاحب نے یہ کہا کہ اس سے ان کا نبی ہونے کا دعوی کرنا تو ثابت نہیں ہوتا ! وہ بڑے عالم اور بزرگ تھے انہوں نے ایسا کہا تو ضرور کچھ سوچ کر کہا ہوگا!!! ہم نے کہا میرے بھائی ہم تو خود ان کی دینی کوششوں اور خدمات کے معترف ہیں اور الحمد للہ ان کو نبوت کا دعویدار نہيں مانتے ہم تو صرف یہ کہ رہے ہیں  کہ دیھکیے یہاں پر حضرت سے چوک ہوگئی ۔ انہيں کہنا چاہیے تھا اپنے مرید سے کہ تم ایک مرتبہ پھر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھو ، توبہ کرو اور شیطانی وسوسے سے پناہ طلب کرو اللہ کی ۔لیکن انہوں نےایسا نہیں کیا ۔ آپ کو پتہ ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو آپ کی آمد پر چھوٹی چھوٹی لڑکیوں نے خوشیاں مناتے ہوئے گانا گایا اور اس میں کہا کہ ہمارے درمیان ایسے نبی ہیں جو کل کی بات بھی جانتے ہیں آپ نے فورا منع کیا اور کہا اس سے پہلے جو کچھ گارہیں تھیں وہی گائیے ایسا مت کہیے ۔ اسی طرح آپ نے اس صحابی کی تنبیہ کی جنہوں نے یہ کہا کہ جو اللہ چاہے گا اور آپ چاہیںگے وہی ہوگا آپ نے فرمایا نہیں بلکہ وہ ہوگا جو صرف اللہ چاہے گا ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اللہ نے بھی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت وفضیلت کو بیان کیا اور آپ کا مرتبہ بیان کیا وہیں اگر آپ سے کہیں پر چوک ہوئی یا آپ سے بتقاضے بشریت کہیں کوئی غلطی ہوئی تو آپ کی اصلاح کی گئی۔ نابینا صحابی کے مقابلے میں صنادید قریش کو ترجیح دینے کا معاملہ ہو یا بیویوں کے کہنے پر شہد نہ کھانے کا عہد کرنے کا معاملہ ہو یا بغیر ان شاءاللہ کہے مسئلہ کل بتانے کا وعدہ کرنے کا معاملہ ہو ہر جگہ اللہ نے آپ کی اصلاح کی اور آپ کو غلطی پر باقی نہ رہنے دیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلطی شریعت نہیں بنائی گئی تو اور لوگوں کی غلطی شریعت کیسے بن سکتی ہے ؟
            ہم نے مولانا سے کہا میرے بھائی ! آپ اگر حدیث پر اس لیے عمل کرتے ہیں کہ یہ حدیث آپ کے مسلک کے مطابق ہے تو سوچیے آپ حدیث کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں ۔ اس پر انہوں نے کہا ایسی بات نہیں اور جب ہم نے ایک بڑے فقیہ کی بات نقل کی تو پھر سے اس کی الٹی سیدھی تاویل کرنے لگے ۔ ہم نے کہا کہ دیکھیے اگر یہ بات ایک ادنی مسلمان سے کہی جائے کہ آپ اللہ رسول کی بات مانیںگے یا کسی اور کی ان کے مقابلے میں تو وہ یہی کہے گا کہ وہ اللہ رسول کی بات مانے گا ۔ حضرت فقیہ سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے امام صاحب کی بات کو اصل حیثیت دے دی اور کہا کہ اگر قرآنی آیت یا حدیث امام صاحب کے قول سے ٹکرائے تو امام صاحب کے قول کی بجائے آیت یا حدیث کی تاویل کی جائے گی یا اسے منسوخ سمجھا جائیگا ۔ مولانا نے یہاں بھی کہا تو یہ کہا کہ اس کا اور بھی مطلب ہو سکتا ہے ۔ ہم نے انہیں علامہ ارشد القادری کی لکھی ہوئی کتاب' زلزلہ ' اور اس پر مولانا عامر عثمانی صاحب کا یہ تبصرہ بھی سنایا  کہ یاتو ان مشمولات کو غلط ثابت کیا جائے یا پھر ساری کتابوں میں بیچ چوراہے پر آگ لگائی جائے ۔
                    ہم نے مولانا سے بتلایا کہ دراصل اس رویے سے سارا اسلام خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔ ہم نے ان سے از راہ تذکرہ جے این یو کے اپنے ایک دوست کی اس بات کو بھی نقل کیا کہ عاملین بالحدیث کے اس گروہ نے ہندوستان میں زیادہ تر ٹانگ کھینچنے کا کام کیا ہے ۔ ہر چند کہ اس میں صرف جزوی سچائی پائی جاتی ہے لیکن   ہم نے  کہا کہ اگر ان لوگوں  کی یہ تنقیدی کاوشیں نہ ہوتیں تو نہ جانے یہاں کا سواد اعظم عقیدت کے راستے کن گمراہیوں میں جا گرا ہوتا اور ہمارے جے این یو کے دوست نے ہماری بات سے اتفاق کیا ۔ جو ظاہر ہے ان کی انصاف پسندی اور اعلی ظرفی کی دلیل تھی ۔
            ہوتا یہ ہے کہ جب ہم یا آپ کسی کی عظمت دل میں بٹھالیتے ہیں تو پھر اس کی ہر صحیح غلط بات ہمیں اچھی اور بھلی معلوم ہونے لگتی ہے ۔ ہم ایک خاص تناظر میں ہی چیزوں کو دیکھتے ہیں ۔ ہمارا سارا زور اپنے محبوب و معتقد کو سب سے اعلی ثابت کرنے پر ہوتا ہے ۔ اور اس چکر میں ہم سارے حدود پھلانگ دیتے ہیں ۔ اس کی کئی سطحوں پر مثالیں مل جائینگی ۔
            ہماری عقیدت کے سب سے بڑے مرکز رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس لیے سب سے زیادہ گمراہی بھی اسی راستے سے امت میں آئی لوگوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ سے بھی زیادہ درجہ دے دیا اوریہاں تک کہا گیا کہ اللہ کی جھولی میں وحدت کے سوا کچھ نہیں جو کچھ لینا ہوگا محمد سے لے لینگے ۔ بعضوں نے پوری کائنات کا خلاصہ آپ کو گردانا، کسی نے یہ سمجھا کہ اگر آپ نہ ہوتے تو کائنات کی تخلیق نہ   کی جاتی اور نہ جانے کیا کیا خرافات آپ سے جوڑے گیے ۔ اسی طرح اولیا ء کرام سے عقیدت میں لوگوں نے انہیں انبیاء سے بھی اونچا اٹھا دیا اور یہاں تک کہا گیا کہ معراج میں جب رسول چھوٹے پر رہے تھے تو پیران پیر نے انہیں سہارادیا اور اس طرح رسول معراج سے سرفراز ہوئے ۔ یہی نہیں بلکہ ان سے وہ تمام خدائی صفات منسوب کیے گیے جن پر اللہ کے علاوہ کوئی قادر نہیں۔ اسی لیے اسلام میں دین کی بنیاد عقیدت کی بجائے اصولوں پر رکھی گئی اور اس قسم کے سارے دروازوں کو بند کردیا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد جب حضرت عمررضی اللہ عنہ  جیسے صحابہ نے یہ کہا کہ اگرکوئی یہ کہے گا کہ محمد انتقال کرگيے ہیں تو میں اس کی گردن اڑادونگا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بہت اعتماد کے ساتھ قرآنی آیت پیش کرتے ہوئے بتلایا کہ جو کوئی محمد کی عبادت کیا کرتا تھا تو محمد البتہ مر چکے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ حی قیوم ہے ۔ صحابہ نے اصول ، علم اور حق کی بنیاد پر ایک دوسرے کو ناکارا بھی اور ایک دوسرے سے استفادہ بھی کیا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک کے معاملے میں صحابہ اصول کے مطابق عمل کرتے تھے ۔ اللہ کے رسول نے جب حضرت بریرہ سے کہا کہ وہ مغیث کو لوٹالیں تو بریرہ رضی اللہ عنھا نے پوچھا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے یا صرف مشورہ یعنی آپ یہ بات بحیثیت رسول ارشاد فرماتے ہیں یا بحیثیت محمد ابن عبد اللہ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا یہ ایک مشورہ ہے اور ہم عبداللہ کے بیٹے کی حیثیت سے فرمارہے ہیں اللہ کے رسول کی حیثیت سے نہيں تو بریرہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ کو قبول نہیں کیا اور اسے ان کی جرائت بے جا بھی نہ سمجھا گیا ۔ جب کہ وہی صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک حکم پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کوتیار رہا کرتے تھے ۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ خاص طور سے برصغیر ہندوپاک کے اندر عقیدت کا یہ مرض تھوڑا زیادہ ہی پایا جاتاہے ۔جہاں یہ برادران وطن کے یہاں بہت ہے وہیں مسلمانوں کی اکثریت بھی غلط طور سے اس عقیدت کے ہتھے چڑھی ہوئی ہے ۔ اور صحیح اور واقعی دین سے کوسوں دور ہے ۔ اسلام کی بنیا د کھرے اور واضح اصولوں پر ہے جب بھی اور جہاں بھی اس کی جگہ عقیدت لے ليگي سمجھ لیجے کہ گمراہی کا دروازہ کھل جائيگا ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہ نکالاجائے کہ وہ محبت و وابستگی جس کی بنیاد قرآن وسنت میں موجود ہے ہم اس کے خلاف ہیں کہ اس کے بغیر تو دین کا تصور ہی غلط ہوجائیگا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کی گمراہی کی بھی اصل وجہ یہ عقیدت ہی تھی اور اسی کا فائدہ اٹھاکر شیطان نے ان کو حق سے منحرف کردیا ۔ آج بھی جہاں جہاں مذہب کے نام پر مختلف دکانیں سجی ہوئی ہیں ان میں اس عقیدت کی اپنی کارفرمائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔لیکن کیا کیجیے کہ معاملہ اتنا آسان بھی نہیں ایک طرف تو مسلمانان ہند کا وہ طبقہ ہے جو علماء کو خدا کا درجہ دینے پر تلاہوا ہے اور رسولوں کے منصب پر نقب زنی کرنے کو تیار ہے وہیں دوسرا ایک طبقہ وہ بھی ہے جو سرے سے علماء کی کسی حیثیت کا قائل ہی نہيں بلکہ تمام طرح کی خرابیوں کا اسے ہی مرجع سمجھتا ہے ۔ یہ بلاشبہ افسوسنا ک بات ہے اور اس سے خرابیوں کی کئی سبیلیں نکلتی ہيں ۔ ہر دوصورت میں در اصل معاملہ اسی اصول سے انحراف کا ہے ۔ اللہ ہمیں بہتر توفیق عنایت کرے آمین ۔  

ادب ، ادیب ، سماج اور ہم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ثناءاللہ صادق تیمی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی

بر صغیر ہندو پاک کی حد تک یہ بات بالکل درست ہے کہ مسلمانوں کی زبان اردو ہے ۔ عربی کے بعد شاید ہی کوئی ایسی زبان ہو جس کے اندر اسلامی ادب کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہو جتنا اردو میں ہے ۔ ہر زبان کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور اس کے ادب کا اپنا مقام ہوتا ہے ۔ ادب کی قدر و قیمت سے زبان کا معیار واعتبار بھی قائم ہوتا ہے ۔ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو اردو کو پروان چڑھانے اور اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں سب سے بڑا رول علماء کرام کا رہاہے ۔ اب اردو ناول کے باوا آدم ڈپٹی نذیر ہوں یا اردو تنقید کے بنیاد گزار مولانا الطاف حسین حالی ۔ اردو کے دامن کو علم و آگہی کے موتی سے  بھرنے والے سرسید احمد ہوں تو یا اسے انشاء و نگارش کے اوج پر پہنچانے والے مولانا ابوالکلام آزاد ۔ علم و تنقید کے پیش رو شبلی نعمانی ہوں یا گيسو اردو کو سنوارنے والے بابائے اردو مولوی عبد الحق ۔ ہر جگہ مولانا لوگوں کی کاوشوں کا تارا چمکتا ہوا نظر آتا ہے ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے بعد کے ادوار میں علماء نے ادب کے سارے دروازوں کو  اپنے  لیے بند کر لیا  ۔ انہوں نے ناول ، افسانہ، ڈرامہ ، شاعری اور دوسرے اصناف سخن سے خود کو دور ہی رکھا کہ مبادا کچھ غلط نہ ہو جائے ۔
    ادب کے اس پورے میدان کو چھوڑ دینے کا مطلب یہ تھا کہ ادب کے اوپر ایسے لوگوں کا قبضہ ہو جائے جو ادب کے نام پر ساری بے حیائی ، بے ادبی، بے دینی اور باطل کی ترویج و اشاعت کو  اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں ۔ چنانچہ یہ معلوم بات ہے کہ ترقی پسند تحریک سے لے کر جدیدیت تک اور جدیدیت سے لے کر مابعد جدیدیت تک ہر جگہ ایسے ایشوز ادب کا موضوع بنتے رہے جن کا نہ تو صالح سماج سے اور نہ باکردار انسانوں سے کوئی تعلق ہو ۔ ترقی پسندی نے ایک طرف اگر مزدوروں اور کمزوروں کے حقوق کی بات کی دوسری طرف دین کے ساری بنیادوں پر نشتر زنی کرنا بھی ضروری سمجھا  ۔
جدیدیت نے ذاتیت کے خول میں خود کو ایسا بند کیا کہ ادب اور سماج کا کوئی تعلق باقی نہیں بچا اوپر سے انتہائی درجے کے خاص تعلقات تک کو رمز و کنایہ اور سمبولزم کے نام پر عام کیا جانے لگا ۔ اور اس پورے عرصے میں ہمارا علماء طبقہ لاتعلق سا بنا رہا جیسے زبان حال سے کہ رہا ہو ' ڈوم کے بھوج ہمیں کیا کھوج' ۔ اس کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو خالص بے حیا اوربد تہذیب تحریروں کو عام کرنے کا  ادبی طبقے نے ٹھیکہ لے لیا اور بڑی ربے حیائی اور ڈھٹائی کے ساتھ منٹو جیسے لوگوں کی برہنہ تحریروں کو ادب کے نام پر سماج ميں عام کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس طرف آکر جس طرح منٹو صدی منائی گئی اور جس طرح منٹو منٹو کا رٹ لگایا گیا اس سے تو ایسا لگا جیسے منٹو کے علاوہ اور کوئی کچھ ہو ہی نہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ترقی پسندوں اور جدیدیوں نے کچھ بھی اچھا پیش نہيں کیا یا پھر یہ کہ منٹو کے یہاں سب کچھ غلط ہی ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج جس قسم کا ذہن ادبی سطح پر بنا دیا گیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مدارس کے فارغین بھی یونیورسٹی کے اندر آکر جب تحقیقی کاوشوں سے جڑتے ہیں یا تنقیدی سطح پر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو پہلے بیچارے اپنے آپ کو غیر جانبدار ثابت کرنے کے لیے خود کو  لبرل اور سیکولر بتلاتے ہیں ۔ علماء کا یہ طبقہ یہ کہتا ہوا ملتا ہے کہ دین کو ادبی مباحث سے دور ہی رکھا جائے ۔
                       چوں کفر ازکعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی
   یہاں پر ہم بازاری ادب کے اس پورے ذخیرے سے بھی آنکھ نہیں موڑ سکتے جو ہر ایک چوراہے پر سماج کے قتل کرنے میں لگا  ہوا  ہے  اور جن پر ہماری کوئی نظر نہيں ہے ۔ خیر سے یہ تو شروع سے ذرا الگ خانوں میں رہا کیا ہے ۔ اور بالعموم چھپ چھپا کر ہی لوگ اسے پڑھا کیے ہیں ۔ یعنی اسے غلط سمجھا ضرور گیا ہے لیکن کیا کبھی ان ڈائجسٹوں کی ہم نے خبر لی ہے جو مشرقی تہذیب کے فروغ کے نام پر کیا کچھ نہیں پھیلاتے ۔ اوردھڑلے سے ہمارے گھروں میں پہنچتے ہیں ۔ جن کے اندر عقیدے کی خرابی سے لے کر عملیات محبت اور نہ جانے کیا کیا خرافات ہوتے ہیں ۔        
              کبھی اگر محاسبے کے پہلو سے سوچیے تو سمجھ میں آئیگا کہ ایک طرف نہایت مرصع ، سلیس اور سادہ زبانوں میں باطل کے فروغ کا کام نام نہاد معیاری ادب انجام دے رہاہے تو دوسری طرف بازاری ادب کا طومار ہے جو ایک عام آدمی تک آسانی سے پہنچتا ہے اور تیسری طرف ہے وہ جیسا تیسا دینی ڈائجسٹ جو اتنا غلط دین پھیلاتا ہے کہ الاماں والحفیظ اور ان تینوں کے مقابلے میں ہمارا حال یہ ہے کہ یاتو ہمارا کوئ اپنا لٹریچر نہیں اور اگر ہے تو وہ اتنا افسردہ کہ کسی کو اپنی طرف کھینچنے سے قاصر ہی رہے ۔ شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اتنے سارے دینی رسالے نکلتے ہیں لیکن ان کا جتنا اثر ہونا چاہیے وہ نادارد ہے ۔
            علماء کرام کا بے ہودہ ادب سے دور رہنا وقت کی بھی ضرورت ہے اور ان کی دینی ذمہ داری بھی ۔ لیکن  پورے طور پر ادبی منظرنامے سے الگ ہوجانے کو ایک طرح کی حماقت نہیں بھی   تو افسوسناک سادہ لوحی سے  تعبیر کیا جانا چا ہیے ۔ لوگ ادب پڑھتے ہیں اگر انہیں اچھا ادب نہیں ملے گا تو وہ غلط ادب پڑھینگے اور جب غلط ادب پڑھینگے تو غلط اثرات قبول نہ کرنے کا کوئی مطلب نہیں بنتا ۔ جماعت اسلامی سے جڑے چند ادباء نے دانستہ کوشش کی تھی کہ کچھ صالح ادب تیار ہو سکے بلاشبہ وہ ایک اچھا قدم تھا اسے زیادہ اونچی سطحوں اور بڑے پیمانوں پر عام کرنے کی ضرورت تھی لیکن ایسا ہو نہیں پایا ۔ لیکن وہ ضرورت ختم نہیں ہوئی ہے ۔ ہميں کئی سارے عزیز بگھروی ، حفیظ میرٹھی ، ماہرالقادری ، ابوالمجاہد زاہد، تابش مہدی اور فضاابن فیضی کی ضرورت ہے ۔ ہمیں یہ  سوچنا پڑے گا کہ ہم کس طرح خرم مراد ، ابن فرید اور مائل خیر آبادی جیسے لوگ زیادہ سے زیادہ سامنے لاسکیں ۔
             آج کی ضرورت صرف یہ نہیں کہ ایسے لوگوں کی کھیپ تیار کی جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ ہر سطح پر اسلامی اور تعمیری ادب کے فروغ کی کوشش کی جائے ۔ ہم ایک بار پھر سے معیاری ادب کو ' مسلمان' بنانے کی کوشش کریں ۔ ہم ایسے دینی ڈائجسٹ نکالیں جو عام لوگوں تک پہنچ بھی سکیں اور وہ انتہائی درجے میں سادہ بھی ہوں اور دلکش بھی ۔ کم از کم یہ تو ضرور کریں کہ ہمارا جو بھی دینی رسالہ نکلتا ہے اسے پرکیف اور مؤثر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے اندر صالح ادب کو  شامل کریں  ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ سبعہ معلقہ کے اندر امرؤا لقیس کی شاعری کو مدارس کے نصاب تعلیم کا حصہ بنانے والے علماء کرام اردو کے ادبی سرمایوں کو کیوں شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں ۔ بے ہودہ غزلوں اور فحش ادب کا بائیکاٹ ضروری ہی نہیں اشد ضروری ہے لیکن ساتھ ہی پاکیزہ شاعری اور صالح ادب کا پیدا کرنا اس سے کم اہم نہیں ۔ شتر مرغ کی طرح خود کو چھپالینے سے مسائل ختم نہیں ہو جاتے ۔ اس پورے رویے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ مشاعروں میں دھرلے سے پہنچنے والے علماء دوسروں کے بعض دینی میلان رکھنے والے اشعار پر جس طرح اچھلتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ وہ خود اس سے زیادہ معیاری اور بہتر کلام کہنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ۔ خاتون مشرق جیسا نہایت غیر معیاری رسالہ خرید کر اپنی خواتین کو پیش کرتے ہوئے انہیں شرم نہیں آتی لیکن کوئی اچھی ادبی کوشش کرنے کو وہ اپنے لیے ہتک عزت سمجھتے ہیں ؟
                  دیکھو  یہ   پندار  تقوی   ٹھیک  نہیں  ہے   مولانا
                 شعر و ادب کا ذکر چھڑے تو چیں بہ جبیں ہوجاتے ہو
مولانا ابوالکلام آزاد نے غبار خاطر لکھا ۔ اس کے اندر ادبی لطافت اور چاشنی پیدا کی ۔ لوگ پڑھنے پر مجبور ہوے تو نہ صرف یہ ان کا ادبی معیار اونچا ہو ابلکہ دینی تربیت بھی ساتھ ساتھ ہوتی رہی ۔ شبلی نے  شعر العجم لکھا تو لوگوں پر ایک خاص کیفیت طاری ہوئی ۔ اقبال کی شاعری تو خیر یوں بھی مدارس کی چہار دیواری میں  زیادہ گونجتی ہے ۔ ماہرالقادری کے تبصروں پر ادبی دنیا نے بھی سر دھنا حالانکہ وہ اسلامی ادب کے علمبرداران میں سے تھے ۔ کیوں ؟ اس لیے کہ انہوں نے اپنی قوت فکرو فن کے سہارے لوگوں کو مجبور کیا ۔ آج علماء کا طبقہ نہ جانے کیوں اپنے آپ کو اس سے الگ کرنا چاہتاہے ؟ بزرگی اور للہیت کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ وہ وسایل جن کا استعمال کرکے دشمان دین باطل کی ترویج و اشاعت کا کام لے رہے ہوں حق کے علمبرداران ان سے کنارہ کشی اختیار کر لیں ۔ علماء کو یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ علامہ ابن تیمیہ نے متکلمین اور اہل کلام کے ہی ہتھیار سے لیس ہو کر ان کا ناطقہ بند کیا ۔ دنیا کی کئی زبانوں میں اسلامی ادب کی ایک تحریک سامنےآئی ہے سوال یہ ہے کہ ہم اردو میں ایسا کیوں نہیں کرسکتے ؟ اگر ڈر اس بات کا ہے کہ لوگ اسلامی ادب کا نام سن کر بدک جائینگے تو سوال یہ بھی پیدا ہو تا ہے کہ بغیر نام لیے ہم اپنی تخلیقات کو معروف و مقبول رسالوں کی زینت کیوں نہیں بناتے ؟ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہمارے مدارس سے خوشہ چینی کرکے نکلنے والے اسکالرس بھی ہماری تخلیقات کو ادبی تنقید کا نہ صرف یہ کہ موضوع نہیں بناتے بلکہ سرے سے انہیں اس قابل سمجھتے ہی نہیں ؟ کیا یہ ایک طرح کا  احساس کمتری ہے یا پھر سچائی یہی ہے کہ ہمارے علماء کی تحریرں ایسی ہوتی ہی نہیں کہ ان پر تحقیقی کام کیا جاسکے ؟ ظاہر ہے کہ ہر دو صورت تکلیف دہ ہے ہر چند کہ پہلی حالت کا امکان زیادہ اور دوسری کا بالکل کم ہے ۔ اور یہ بات یقین کے ساتھ اس لیے بھی کہی جاسکتی ہے کہ جن لوگوں کے فکر و فن پر بالعموم کام کیا جارہاہے کم از کم علماء کی تحریرں ان سے زیادہ وقیع ، علمی اور جانداروشاندار تو ضرور ہوتی ہیں ۔
             دنیا کے کسی بھی میدان میں اپنی مضبوط حصہ داری اور پہچان کے ذریعے ہی بات منوائی جاتی ہے ۔ ہماری ادبی بساط کمزور ہے تبھی تو مولانا سید سلیمان ندوی کی ادبی کاوشوں پر کوئی کام نہیں ہوتا ۔ مولانا مودودی کے لٹریچر میں ادبی زاویے نہیں تلاشے جاتے ۔ مولانا ابوالحسن ندوی کی تحریروں میں ادبی لطافت کے گوشے نہیں ڈھونڈے جاتے ۔عزیز بگھروی ، ابوالمجاہد زاہد کو ادبی حلقہ نہیں پہچانتا ۔ حفیظ میرٹھی کی بات نہیں ہوتی ۔ حد تو یہ ہے کہ فضا ابن فیضی جیسے عظیم ادبی شاعر کو بھی منظر عام پر لانے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔ لیکن منٹو کی تحریریں کھوج کھوج کر چھاپی جاتی ہیں ۔ عصمت چغتائی کی بے حیائی اور برہنگی کو ادبی حسن کا نام دیا جاتاہے ۔ ندافاضلی جیسے گھٹیا افکار کے لوگ نہ صرف یہ کہ ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں بلکہ ان کے نہایت گرے ہوے اشعار بھی زبان زد خاص و عام ہو جاتے ہیں ۔  میرا یقین ہے کہ آج بھی کسی حالی کی ضرورت ہے جو مسدس حالی لکھ سکے ۔ آج بھی شاہنامے کی اپنی اہمیت باقی ہے لیکن کیا ہمارے درمیان کوئی حفیظ جالندھری ہے ؟ ہمارا ادبی قد کیوں بونا ہوتا جارہا ہے ؟ ہم کبھی اتنے تہی داماں تو نہیں تھے ؟ پھر آج کیوں ؟ تو کیا یہ امید کی جائے یہ آوازصدا بصحرا نہیں جائیگی ؟؟؟
                     اٹھ کے اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
                    مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
ایک بات ذہن میں رکھنے کی یہ بھی ہے کہ ادھر آکر خود ادبی حلقے کے اندر ایک مضبوط آواز ایسے لوگوں کی بھی ہے جو غیر دینی افکار و خیالات کے بانجھپن سے تنگ آچکے ہیں ۔ جو زندگی کی سچائیوں میں مذہب کی اہمیت کا احساس رکھتے ہیں ۔ صالح اور بہتر بنیادوں پر سماج کی تعمیر و تشکیل چاہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا علماء کا طبقہ ایسے لوگوں کو کوئی سپورٹ فراہم کرنے کو تیار ہے ؟ کیا وہ اپنے خول سے نکلنے کو تیار ہیں ؟ کیا وہ اپنی چو طرفہ ذمہ داریوں کو سمجھنے کو تیار ہیں ؟ آج جب کہ لادین افکار و نظریات کا کھوکھلاپن واضح ہو چکا ہے یہ سوال اہم بھی ہے اور بسرعت جو اب کا طالب بھی ۔

اللہ پر ایمان : معنی ، مفہوم اور تقاضے

ثناءاللہ صادق تیمی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی ۔ نئی دہلی 110067
09560878759

یہ کائنات اور اس کی ہر ایک ہستی ، چھوٹی ہو یا بڑی اس بات کا کھلا اعلان کرتی ہے کہ کوئی ہے جو اسے چلا رہا ہے ۔ ورنہ بغیر چلائے یہ چل نہیں سکتی ۔ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے کسی نے کہا  کہ یہ دنیا اللہ چلاتا ہے ، میں نہیں مانتا ۔ امام صاحب نے کہا کہ میں فلاں دریا سے ہو کر آرہاہوں ۔ وہاں پر ایک کشتی خود بخود آگئی اور جب میں اس پر سوار ہو گیا تو مجھے اس نے ساحل تک پہنچا دیا ۔ سائل نے کہا ایسا کیسے ہو سکتا ہے ۔ آپ یقینا جھوٹ بول رہے ہیں ۔ کشتیاں ملاحوں سے چلتی ہیں خود بخود نہیں چل سکتیں ۔ امام صاحب نے فرمایا میرے بھائی جب معمولی کشتی بغیر ملاح کے نہیں چلتی تو سوچویہ پوری کائنات اپنے آپ کیسے چل سکتی ہے ؟ اور اس آدمی کے دماغ میں بات آگئ ۔
عجیب بات ہے کہ آج کی پڑھی لکھی دنیا میں چند پڑھے لکھے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ دنیا خود بخود وجود میں آگئی ۔ سائندانوں کی مانيں تو پوری کائنات در اصل ایک غیر معمولی لیکن خود بخود رونما ہونے والے حادثے سے وجود میں آئی جو ان کی اصطلاح میں بگ بینگ کہلاتا ہے ۔ حالانکہ ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہيں کہ آخر یہ حادثہ اس متعین وقت پر ہی کیوں ہوا ؟ دنیا اگر حادثاتی ہے تو اتنی منظم کیوں ہے ؟ کیا دنیا کا کوئی بھی حادثاتی واقعہ اتنا منظم ہو سکتاہے ؟ اگر یہ نیچر کا قانون ہے تو سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ یہ نیچر خاص طرز و انداز میں کیوں چلتا ہے ؟ بارش خاص موسم میں ہی کیوں ہوتی ہے ؟ گرمی خاص وقت میں کیوں آتی ہے ؟ موت و حیات کا پورا فلسفہ کیا ہے ؟ وغیرہ ۔ کمال تو یہ ہے کہ وہ سائنسداں جو ہر بات کو ثابت کرنے کے بعد ماننے کو اصل اصول بتاتے ہیں اس معاملے میں مان لیتے ہیں کہ ایسا ہوا ہوگا۔
جب خدا نہیں موجود کائنات چہ معنی ؟
یہ زمین یہ سورج چل رہی ہوا کیا ہے ؟
خدا رہے نہ رہے کائنات چلتی ہے
عجیب بات ہے لیکن یہ بات چلتی ہے
اللہ پر ایمان لانے کا سب سے پہلا مرحلہ تو یہ ہے کہ اللہ جل جلالہ کے وجود پر ایمان لایا جائے کہ ایک ذات ہے جو اللہ ہے ۔ یہ کوئی خیالی پلاؤ نہيں اور نہ ہی انسانی ذہن کی اپج ہے بلکہ وہ ایک حقیقی وجود ہے اور وہ احساس بھی نہیں بلکہ ایک ذات ہے ۔ تنہا ، بے نیاز، نہ کسی کا بیٹا نہ کسی کا باپ، ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا ۔ اور پورے یقین واعتماد کے ساتھ اس بات کا انکار کہ یہ دنیا ایسے ہی وجود میں آگئی ۔ اردو کے شاعر جناب بشیر بدر صاحب کا یہ شعر ایک ناقص اور کم ترین علم کا عکاس ہے ۔
خدا   ایسے   احساس  کا  نام    ہے
سامنے بھی رہے اور دکھائی نہ دے
اللہ صرف احساس نہیں مستقل وجود ہے جسے دیکھنے کی انسانی آنکھوں میں رہتی دنیا تک تاب نہیں ۔ رویت الہی کا شرف مومنوں کو جنت میں دخول کے بعد حاصل ہوگا۔
ایک صحیح حدیث کے مطابق ایک لونڈی اللہ کے رسول کے حضور پیش کی گئی تو آپ نے پوچھا اللہ کہاں ہے اور میں کون ہوں ۔ اس نے کہا اللہ آسمان پر ہے اور آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے آزاد کردو یہ مومنہ ہے ۔ اللہ فرماتا ہے کہ هو الله في السماء و الارض (آسمان و زمین کا اللہ وہی ہے )
اللہ پر ایمان کا دوسرامرحلہ یہ ہے کہ یہ ایمان رکھا جائے کہ اس پوری کائنات کا خالق ، مالک ، چلانے والا اور اس پر پوری طرح حکمرانی کرنے والا ایک اللہ ہے ۔ وہی رب ہے ۔ اسی کی بادشاہی ہے ۔ اس کے حکم کے بغیر ایک پتہ تک نہیں ہل سکتا ۔ وہی مارتاہے ، وہی جلاتاہے ، وہی ہوا چلاتا ہے ، وہی بارش برساتا ہے۔ کائنات کا ایک ایک ذرہ اس کا غلام ہے ۔ اللہ تعالی جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ اس کے آگے کسی کی نہیں چلتی ۔ وہ مالک ہے سب مملوک ۔ وہ رب ہے سب محتاج ۔ وہ حاکم ہے سب محکوم ۔ اس کے کسی کام میں کوئی نقص نہیں ۔ وہ پاک اور بے عیب ہے ۔ اللہ فرماتا ہے۔ ترجمہ :اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا ،تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بن سکو ۔ وہ ذات جس نے زمین کو تمہارے لیے بچھونا اور اور آسمان کو چھت بنایا ۔ اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کیے جو تمہاری لیے روزی ہیں ۔(البقرۃ: 21-22 ) ایک دوسری جگہ اللہ فرماتا ہے ۔ ترجمہ : یاد رکھو اللہ ہی کے لیے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا ۔ بابرکت ہے وہ اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے ۔ (الاعراف: 54 ) ایک اور جگہ پر اللہ فرماتا ہے ۔ ترجمہ : زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندارہیں سب کارزق اللہ کے ذمہ ہے ۔ وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہے اور ان کے سونپے جانے کی جگہ کو بھی ۔ سب کچھ واضح کتا ب میں موجود ہے ۔ (ھود :6 ) اسی طرح اللہ فرماتا ہے ۔ ترجمہ : آپ کہ دیجیے کہ اے اللہ ! تمام بادشاہت کے مالک ! تو جسے چاہتا ہے بادشاہت دیتاہے اور جس سے چاہتا ہے بادشاہت چھین لیتا ہے ، اور تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے ۔ تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں ۔ تو بے شک ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمران : 26 )
                      اللہ پر ایمان لانے کا تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے ۔ عبادت کی تمام قسموں کو اسی کے لیے خاص کیا جائے ۔اللہ اس جہان کا خالق ہے، مالک ہے ، دنیا اسی کی ہے اور وہی اس کائنات کا پالنہار ہے تو عباد ت بھی اسی کی ہوگی ۔ اسی کام کے لیے اللہ نے تمام انبیاء کو مبعوث کیا ۔ انسانوں اور جناتوں کو پیدا کیا اور یہی وہ بڑی سچائی ہے جس میں لوگوں نے زیادہ سے زیادہ گمراہیاں پیدا کیں اور راہ راست سے بھٹک گئے ۔ ہوا یہ کہ لوگوں نے اللہ کو یا تو مانا نہیں اور اگر مانا تو یہ مان لیا کہ کوئی ہے جو اس دنیا کو چلا  رہا ہے اور بس ۔ عبادت نہ جانے کیسی کیسی  چیزوں کی کرتے رہے ۔ اور اگر کسی نے اللہ کی عبادت کی بھی تو اس کے ساتھ نہ جانے کس کس طرح سے شرک کا بازار گرم کیے رکھا ۔ اللہ فرماتا ہے ۔ ترجمہ : اور یقینا ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ( لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو (النحل : 36 ) ایک دوسری جگہ اللہ فرماتا ہے ۔ ترجمہ : تم ایک اللہ کی عبادت کرو ، اس کے علاوہ تمہار کوئی معبود نہیں ۔ (الاعراف : 59 ) اسی طرح اللہ فرماتا ہے ۔ ترجمہ : یہ سب اس لیے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے علاوہ وہ جس کو پکارتے ہیں وہ باطل ہے اور بے شک اللہ ہی بڑائی والا کبریائی والا ہے ۔(الحج : 62 ) اور اللہ فرماتا ہے ۔ ترجمہ : آپ کہ دیجیے کہ میری نماز ، میری قربانی ، میری زندگی اور میری موت سب کچھ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی ساجھی اور شریک نہیں ۔ مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے فرمانبردارہو ں۔ (الانعام :162-163 )
           اللہ پر ایمان کا چوتھا مطلب اور مرحلہ یہ ہے کہ  آدمی اس بات کا یقین رکھے کہ اللہ کے اچھے نام ہیں اور وہ جملہ صفات کمال سے متصف ہے ۔ وہ تمام اسماء جو اس نے قرآن کے اندر یا اس کے نبی نے احادیث کے اندر بیان فرمائے ہیں وہ بر حق ہیں ۔ اللہ تعالی عمدہ اور بے نظیر صفات کمال سے متصف ہے ۔ یعنی ہر وہ ذاتی یا فعلی صفت جو اللہ اپنے لیے ثابت کرتا ہے وہ ثابت ہے بغیر تعطیل ، تحریف ، تشبیہ ، تمثیل اور تفویض کے ۔ یعنی یہ ایمان رکھا جائے کہ اگر اللہ یہ کہتا ہے کہ اس کے پاس ہاتھ ہے تو ہے اب یہ ہاتھ کیسا ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے ۔ ہمیں اللہ کے ہاتھ کے ثابت ہونے پر ایمان رکھنا ہے اس اعتماد اور یقین کے ساتھ کہ وہ انسانوں کے جیسے ہاتھ والا نہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہ سمجھا جائے کہ ہاتھ کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس قدرت ہے یا پھر یہ کہ اس کے ہنسنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خوش ہوتا ہے ۔  در اصل یہ اللہ کے صفات کے اندر انحراف کا چور دروازہ ہے ۔ اللہ فرماتا ہے کہ ' اس کے  جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ خوب سننے والا اور دیھکنے والا ہے ' ۔ (الشوری : 11 )
         یاد رہے کہ اللہ کے صفات کے باب میں بہت سے لوگ بھٹک گيے ۔ جن لوگوں نے اللہ کو تمام صفات سے عاری قرار دیا وہ بھی گمراہ ہوئے حالانکہ انہوں نے سوچا اس سے وہ اللہ تعالی کو انسانوں کے جیسا ہونے سے بچا لینگے ۔ اسی طرح وہ لوگ بھی گمراہ ہوئے جنہوں نے اللہ تعالی کی صفتوں کو انسانوں کی صفتوں کے جیسا سمجھ لیا ۔ اسی طرح وہ بھی گمراہ ہوے جنہوں نے  غلط سلط تاویلات سے کام لیا ۔ اس معاملے میں حق وہی ہے جس کا اظہار اللہ نے مذکورہ آیت میں فرمایا اور جس کا بیان امام دار الھجرہ مالک بن انس کے یہاں ہوا کہ استوا معلوم ہے ، اس کی کیفیت مجہول ہے ، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس سلسلے میں سوال کرنا بدعت ہے ۔
           اللہ پر اس انداز میں ایمان لانے سے سب سے بڑا فائدہ تو یہ حاصل ہوتا ہے کہ اس کائنات کی معقول توجیہ ہو جاتی ہے ورنہ آدمی بھول بھلیوں میں ساری زندگی گزار دیتا ہے ۔ دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسانی زندگی میں سکون اور آخرت میں دخول جنت سے سرفرازی حاصل ہوگی ۔ انسان کسی بھی مرحلے میں ناامید نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ چوکنا اور خبر دار رہتا ہے ۔ وہ مصیبت اور خوشی ہر دو گھڑی میں اللہ کے حکم کے مطابق چلتا ہے اور راضی و صابر رہتا ہے ۔ اندھیرے اجالے کے فرق کے بغیر بھلائی کی طرف راغب ہوتا ہے اور برائی سے دامن بچائے رہتا ہے ۔اس کی زندگی میں سب کچھ بامقصد ہوتا ہے ۔ وہ ایک لمحہ بھی ضائع کرنا نہیں چاہتا ۔ لیکن یہ سب تب ہوتا ہے جب اللہ پر یہ ایمان پورے شعور اور دل کی گہرائیوں سے ہو ورنہ کہنے کو تو آج ایمان والوں کی کمی نہیں ۔ ایسے ایمان والوں کا عالم یہ ہوتا ہے کہ ان کی نگاہوں سے حالا ت بدل جاتے ہیں ۔ ہوا کا رخ بدل جاتا ہے ۔ ناممکن ممکن بن جاتا ہے اور دنیا حیران و پریشان دیھکھتی رہ جاتی ہے ۔ تین سو تیرہ ایک ہزار پر بھاری پڑتے ہیں ۔ چراغ بجھا کر ضیافت کی جاتی ہے ۔ دشمن کے سامنے جاکر بر ملا اپنے ایمان کا اظہار کیا جاتاہے ہر چند کہ ایسا کرنا موت کو دعوت دینے جیسا ہو ۔ ایک لمحہ کو بھی ضائع کیے بغیر مال غنیمت تقسیم کی جاتی ہے کہ مبادا کہیں دیر ہو جائے اور اللہ کے دربار میں پوچھ گچھ ہو جائے ۔ فرمانروا اپنے پیٹھ پر آٹے کی بوری ڈھو کر ضرورت مند تک پہنچاتاہے ۔ جرنیل کو معزول کیا جاتا ہے اور وہ کوئی واویلا نہیں مچاتا جبکہ وہ کسی جنگ میں ہارنے کا کوئی ریکارڈ رکھتا ہی نہیں ۔ تیر آکر لگتا ہے اور بولا جاتا ہے کہ اللہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا ۔ سوائے اللہ کے کسی کے آگے جھکا نہیں جاتا ، سوائے اس کے کسی سے مانگا نہیں جاتا ، وہ سمیع ہے تو وہی سنے گا ، وہ بصیر ہے تو دیکھے گا وہی ، شافی ہے تو اچھا وہی کرے گا۔ کیا آج مسلمانوں کو اللہ پر ایسے ایمان کی ضرورت نہیں ہے ؟