الخميس، فبراير 12، 2015

اس کو لہر نہیں قہر کہتے ہیں


رحمت کلیم امواوی 

(جواہر لعل نہرو یونیورسٹی)

ملک کی راجدھانی دہلی میں ہونے والے سن 2015 کے اسمبلی انتخابات اور اس کے نتائج شاید تاریخ کے صفحات میں اس لیے بھی زیادہ مضبوطی کے ساتھ محفوظ کیے جائیں گے کہ ایک ایسا شخص جو واقعتا عام آدمی ہواور نہتا ملک کی دارالسلطنت کے انتخابی دنگل میں دو چند پڑھے لکھے حامیوں کے ساتھ قدم جمانے کیلئے مضبوط ارادے کے ساتھ نکلا ہوا اور بڑے بڑے سورما ﺅں کو ایک آن میں دھل چٹا دی ہو۔اروندر کجریول اینڈ کمپنی کوئی بہت ہی زیادہ پرانی اور سیاسی فہم وشعور سے لیس نہیں تھی ۔لیکن حوصلے بلند تھے،شبیہ صاف ستھری تھی اس لیے دہلی کی عوام نے پہلی بار ایک ساتھ دانشمندانہ فیصلہ لیا ہے اور سیاسی دنیا میں طوفان بلا خیز لا دیا ہے۔ گزشتہ 10فروری کو انتخابا ت کے نتائج کا اعلان کیا گیا اور دہلی کی کل 70سیٹوں میں سے 67 سیٹوں پر عام آدمی پارٹی کو کامیابی نصیب ہوئی اور مرکز میں قائم بی جے پی کو صرف 3سیٹ اتفاقیہ طور پر مل پائی اور افسوس کہ کانگریس کا کھاتہ بھی نہیں کھل پایا ۔

غور کرنے والی بات یہ ہے کہ گذشتہ آٹھ ماہ قبل پارلیمانی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے والی بی جے پی اور یکے بعد دیگر کئی ریاستوں میں مودی لہر کے نام پر سرکار بنانے میںکامیاب رہنے والی پارٹی بی جے پی دہلی میں کیوں اور کیسے بری طرح ناکام ہوگئی ۔ساتھ ہی ساتھ پچھلے پندرہ سالوں سے دہلی کو سجانے سنوارنے کا دعوی کرنے والی کانگریس پارٹی کو اس انداز میں شکست فاش سے دوچار کیوں ہونا پڑا۔کبھی کبھی یہ نتیجہ بہت ہی عجیب وغریب سا لگتا ہے کہ ایک ایسی پارٹی جس کا وجود کل ہوا ہے اس کے باوجود بھی اس نے دہلی کی سیاسی سرزمین پر تاریخ رقم کردی ۔یہ دہلی کی تاریخ ہی نہیں پورے ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے جب کسی پارٹی کو اس اکثریت کے ساتھ جیت ملی ہو۔واقعتا یہ ایک نیا باب ہے جو مکمل طور پر تاریخ میں کجریوال اور اسکی عام آدمی پارٹی پر مشتمل ہوگا۔اب سوال یہ ہے کہ آخر کل تک پورے ہندوستان میں بڑے فخر کے ساتھ دہرایا جانے والا جملہ کہ’ مودی لہر کا اثر ہے ‘دہلی میں کہا ںگیا۔حالانکہ یہاں بھی وزیر اعظم ہندوستان نے اپنی پارٹی کیلئے انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھاور ایک دو نہیں کئی ریلیاں کی تھیں۔مزے کی بات تویہ ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے سارے وزراءکو اپنی اپنی وزارت سے فرصت دے کر صرف اور صرف دہلی اسمبلی انتخابات کیلئے راجدھانی بلا کر باضابطہ انداز میں کچھ کچھ اسمبلی ہر وزیرکے نام کر دیا تھا، اور وہاں انتکابی مہم چلانے اور امیدوار کو کامیابی دلانے کی ذمہ داری عائد کی تھی۔ساتھ ہی کئی ریاستوں کے وزراءاعلی کو بلوا کر ان سے بھی پارٹی کی تشہیر کرائی گئی اور مودی جی خود اپنی لہر پھیلانے کیلئے ہر لمحہ اس دوران پارٹی کے ساتھ ساتھ رہے لیکن اس کے باوجود ساری کہ ساری لہر اور کوششیں ناکام و نامراد ہو گئیں اور ایک معمولی جھاڑو والے کی ٹیم نے اس انداز میں ہرایا کہ دنیا حیران ہوگئی اور چراغ لے کر مودی لہر کو ڈھونڈنے لگی۔اب سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا کہ بی جے پی کا جنازہ اٹھانے کیلئے بھی ایک کاندھا کم پڑ گیا اور تین ہی امیدوار کامیاب ہوئے،کانگریس کی تو بات ہم اس لیے بھی زیادہ نہیں کریں گے کہ کانگریس کے برے دن آئے ہوئے ہیں اور پہلی بار کانگریس کسی ریاست میں تیسری پوزیشن پر باقی رہنے کیلئے دہلی میں انتخاب لڑی ہے اور اس میں بھی ناکام ہو گئی ہے۔لیکن مودی لہر کا کیا ہوا اور کہاں گئے وہ قسمت والی سرکار ،کہاں گیا کرن بیدی کا ایماندارانہ چہرہیہ دہلی ہے میری جان ۔یہاں سمجھداروں اور پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد دوسرے ریاستوں کے بالمقابل زیادہ رہتی ہے ،یہاں کسی کی ہمیشہ نہیں چلتی،یہاں کی عوام کسی کو بہت محبت کرتی ہے تو اس محبت کی ناقدری پر اسی اندازمیں ذلیل و رسوا بھی کرتی ہے جس کی واضح مثال حالیہ انتخابات کے نتائج ہیں۔کانگریس کیڈر اور بی جے پی کیڈر اوران کے سارے سیاسی حربے ایک معمولی زمین سے جڑے ہوئے شخص اوراس کی ناتجربہ کار ٹیم کے سامنے ناکام ہوگئے۔اروندر کجریوال کو آخر اتنی بڑی جیت اور بی جے پی وکانگریس کو اتنی بری ہار کیوں ملی ۔اس کے پیچھے بہت سارے بنیادی مسائل ہیں اور وہ سب آپ کے سامنے عیاں ہیں ۔میں اس کو مزید واضح کرنا نہیں چاہتالیکن ایک بات ضرور واضح کرنا چاہوں گا کہ جو لوگ سماج سے جڑے ہوتے ہیں اور زمین سے جڑے مسائل اور اس کے دردکو اپنے اندر محسوس کرتے ہوئے اس کوپوری قوم اور عوام کے مسائل کے طور پر قبول کرتے ہوئے ایک چیلنج سمجھ کر اسکے خلاف جب کوئی کھڑا ہوتا اور اس کے جو نتائج سامنے آتے ہیںتو اس کو لہر نہیں قہر کہتے ہیں اور یہ قہر ان لوگوں کیلئے یا ان لیڈران کیلئے ہوتاہے جو کئی سالوں سے عوام کی آنکھوں میں دھل جھونک کر ،ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا کر ،ان کا گھر اجاڑ کر ،ان کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کر کے اپنا مستقبل سنوارنے میں محو ہوتے ہیں اور عوام در در کی ٹھوکریں کھاتی رہتی ہیں،یہ قہر اس وقت برپا ہوتا ہے جب عوام کا رہبر رہزن بن گیا ہو اور اپنا پیٹ بھرنے کیلئے غریبوں کی تھالی کی روٹی چھین لیا کرتا ہو اور موجودہ سیاسی قہر ان نیتاﺅں پرہے جو اپنی انا کی خاطر کسی بھی حد تک عوامی نقصانات کراتا تھے،جو فرقہ وارانہ فساد بھڑکا کر اپنی سیاسی روٹی سینکتے تھے اور اپنے جانوروں کے سایے کیلئے غریبوں کی بستی اجاڑ دیا کرتے تھے،یہ قہر ہے ان نام نہاد دھوکے باز رہنماﺅں پر جو اب تک عوام کو بیوقوف اور خود کو سب سے زیادہ دانا سمجھا کرتے تھے اور یہ قہر ہے ان تمام لیڈران پرہے جو کل تک عوامی جائداد کو اپنی جائداد سمجھ کر ناحق ان پر قابض تھے اور اپنی عیاشی کیلئے غریبوں کی زندگی تباہ و برباد کر رہے تھے۔

ایک قیمتی بات یہ بھی واضح کر دوں کہ جب عام آدمی ہوش کے ناخن لیتا ہے اور اس کے آنکھوں کے سامنے سیاسی رہنماﺅں کے ذریعے ڈالے گئے جھوٹ اورمکر وفریب کا پردہ ہٹتا اور ساری سچائی واضح ہو جاتی تو عوام کا جو رد عمل ہوتا ہے ا س کو سیاسی دنیا میں قہرکہتے ہیں اورعوام کی جانب سے یہی قہر حالیہ انتخابات میں برپا کیا گیا ہے۔تاکہ کرسی پر برسوں سے بیٹھے لیڈران کو ایک جھٹکے میں ہی ہواس باختہ کر دیں اور ایسا ہی ہوا ہے ،سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔




ليست هناك تعليقات: