الأربعاء، يونيو 27، 2012

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کتب رجال میں


مولانا محمد یوسف حافظ ابوطلحہ مدنی 

مساجد اوربدعات

 احسان بدرتیمی 

دوست کیسا ہو؟

رفیع اللہ مسعود تیمی 

امانت داری انسان کی بنیادی صفت

 رفیع اللہ مسعود تیمی 

السبت، يونيو 23، 2012

رہنمائے ملت بیدار ہوں


 رحمت کلیم امواوی
                                                               

rahmatkalim91@gmail.com
اس دنیا میں ہر وہ شخص جو فہم وادراک کا ذرا برابربھی مادہ رکھتا ہے اس بات سے بخوبی واقف ہوگا کہ آج عالمی پیمانے پر عالم اسلام کے خلاف مختلف طرح کی سازشیں رچی جا رہی ہیں ،مسلم قوم کیلئے مسائل و مصائب پیدا کئے جا رہے ہیں،مذہب اسلام پر کیچڑ اچھالنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہیں،مذہبی آزادی سلب کرنے کیلئے جہد پیہم کیا جا رہا ہے اور نست ونابود کا سپنا سجائے ہوے شیطانی چال چلی جا رہی ہے ۔”لیکن وعدہ الہی بر حق ہے اور دین حق کو غالب ہونا ہے مغلوب ہونا نہیں“ بلاشبہ یہ آراءوخیالات ان غیر مسلم حضرات کے ہیں جو گرگ باراں دیدہ ہیں،جو عالمی دسیسہ کاریوں اور شیطانی ماشگافیوں سے باخبر ہیں ،مذہب و ملت سے اوپر اٹھ کرانسانیت کا چشمہ لگا رکھے ہیںاور مطلق انسانی حقوق وآزادی اور باہمی میل میلا پ کے قائل ہیں۔
اس کے برخلاف ایک دوسراطبقہ جو ہمارے علماءوصلحا، ارباب قلم، اور ملت کے نمائندگان کا ہے ان کا حال کچھ عجیب ہے کہ ہر وہ مسئلہ جس سے دنیا واقف ہے بار بار اسی کا ڈھنڈوڑا پٹتی رہتے ہیں او ر معمولی شہرت کیلئے میڈیا کا سہارا لیکر یہ بیان عوام تک پہونچاتے ہیںکہ آج اسلام کے خلاف سازش کی جارہی ہے،مسلمانوں کو دہشت گرد کہا جارہا ہے، مذہبی آزادی پر قدغن لگایا جارہا ہے ، مدارس اسلامیہ کو دہشت گردی کا اڈہ بتایا جارہا ہے ،ٹوپی کر تا اور داڑھی کو دہشت گردوں کی علامت بتائی جا رہی ہے ،مسلمانوں کے ساتھ عالمی اور ملکی پیمانے پر ناانصافی کی جارہی ہے اور ظلم وجبر کا سیل رواںجاری وساری ہے،وغیرہ وغیرہ ۔جبکہ رھنمائے قوم و ملت کو ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چونکہ یہ عمل لا حاصل ہے اور جبکہ دنیا کا ہر فردوبشر اس حقیقت سے آشنا ہے تو پھر آپ آ واز لگا کر کیا کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔اردو میڈیا نے بھی آج تک اس میدان میںاس کے علاوہ کوئی دوسرا قدم اٹھایا ہی نہیں سوائے اسکے کہ مسائل کو بار بار شائع کرکے درد سر بڑھایا گیا۔جبکہ علماءو صلحا، اور ارباب دانش، سربراہان قوم وملت اور صاحب زبان وقلم کا یہ رویہ اور یہ کردار ہونا چاہیے کہ ان پیدا شدہ مسائل سے نپٹنے کیلے عمدہ سے عمدہ حل تلاش کیے جاتے اور دشمنان قوم کے سازشوں کو ناکام کرنے کیلے بہترین وسائل پید ا کیے جاتے اور عوام کو اس بات سے باخبر کرایا جاتا کہ اس طریقے سے ہماری آزادی،ہمارا شعاراور ہمارا امن و سکون محفوظ رہ سکتا ہے اور اس طرح سے دشمنو ں کا دندان شکن جواب دیا جاسکتا ہے اور اسی میں ہماری بھلائی اور کامیابی ہے گرچہ ہم تھوری دیر کیلے یہ سوچ کر خوش ہو جاتے ہیں کہ’ زندہ قوموں کے ہی مسائل ہیں‘،لیکن ساتھ ہی ساتھ اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ                                          
 خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہی بدلی
 نہ ہو جس کو فکر خود اپنی حالت کے بدلنے کی
            آج امت محمدیہ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ امت مسائل و مشکلات کو شمار کرنے اور عوام کو اس سے باخبر کرنے تک ہی اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے جب کہ آ ج ضرورت ہے کہ ہم اپنے مسائل ومصائب کو گنانے کے بجائے اس کے حل کیلے سعی پیہم کریں اسی میں ہمارے لیے عافیت ہے ۔حل کے کون سے طریقے زیادہ بہتر اور کارفرماں ہو سکتے ہیں آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔لیکن مجھے جہاں تک سمجھ میں آتا ہے وہ یہ کہ سارے کے سارے مسائل اس وقت خود بخود رفع دفع ہوجائینگے جب ہم قرآن و سنت کی تعلیمات کو زندگی کے ہر میدان میں اپنالیںگے کیونکہ دنیا و آخرت کی فلاح وبہبودی کا راز اسی میں پنہاں ہیں

الأحد، يونيو 17، 2012

سعودى ولی عہد اور وزیرداخلہ شہزادہ نائف بن عبدالعزیز انتقال كرگئے

نہايت گہرے دکھ اور غم کے ساتھ خادم حرمين شريفين  شاہ عبداللہ بن عبد عزیز نے يه اطلاع دى ہے كه ان كے بھائی شہزادہ نائف بن عبدالعزیز، ولی عہد اور وزیرداخلہ  سعودی عرب سے باہرہفتے کے روزانتقال كرگئے- انا  لله وإنا إليه راجعون  ان کی نماز جنازہ اتوار کو مسجد حرام میں نماز مغرب کےبعد ادا کی جائے گی۔ شہزادہ نائف کو اکتوبر دو ہزار گیارہ میں سابق ولی عہد شہزادہ سلطان بن عبد العزیز کے انتقال کے بعد ولی عہد مقرر کیا گیا تھا۔ ہم ابناے جامعه امام ابن تیمیہ، طلبہ ، اساتذہ اور ذمہ داران خادم حرمين شريفين، اور سعودى عوام کے غم میں برابر کے شریک ہیں - اللہ تعالی مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے،انہیں غریق رحمت کرے ، انہیں جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے اور ان کے جملہ لواحقین کو صبرجمیل کی توفیق عطاکرے ۔آمین یا رب العالمین


السبت، يونيو 16، 2012

موسم گرما کی تعطیل اور سمر کورسیز کی اہمیت

صفات عالم محمد زبیرتیمی 

ریڈیوکویت ارودسروس کاثقافتی اور حفظ قرآن کوئزپروگرام
ریڈیوکویت ارودسروس کا ثقافتی پروگرام

ابھی ہم موسم گرما کی تعطیل سے گزر رہے ہیں، گوکہ ہم میں سے اکثر لوگوں کے معمولاتِ زندگی اس سے متاثر نہ ہوئے ہوں گے مگر اتنا توضرور ہے کہ ہمارے بچے چھٹیاں منا رہے ہیں، تعطیل کے ایام میں بچے درسگاہوں سے دور ہوجاتے ہیں اور ان کے سارے اوقات گھر پر گزرتے ہیں ، اس مناسبت سے بچوں کی نگرانی کی ساری ذمہ داری والدین کے سر آجاتی ہے۔ اکثر بچے اپنی چھٹیوں کو کھیل کود میں ضائع کردیتے ہیں، کتنے انٹرنیٹ کیفوں میں وقت گزاری کرتے ہیں، کتنے ٹیلیویژن چینل کے دیوانے بن جاتے ہیں، کتنے بُرے دوستوں کی صحبت اختیار کرلیتے ہیں، اس طرح تعطیل ان کے لیے ذہنی تفریح کا سبب بننے کی بجائے وبال جان بن جاتی ہے ۔
دوسرے ناحیہ سے جب ہم عصری تعلیمی اداروں کے نصاب تعلیم پرغورکرتے ہیں توکلیجہ منہ کو آتاہے، ہمارے بچوں کو جو نصاب پڑھایاجاتا ہے اس میں مادیت کو سب کچھ گردانا گیا ہے، اسے پڑھ کر بچہ یہی سیکھتا ہے کہ دنیا کماؤ چاہے جیسے بھی ہو، آج مسلمانوں کے اندر تعلیمی شعور ضرور پیدا ہوا ہے ، اپنے بچوں اوربچیوں کو اعلی سے اعلی تعلیم دلارہے ہیں، لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اعلی تعلیم کے ذوق نے مسلم معاشرے کو شریعت سے بیگانہ کردیا ہے ، مخلوط تعلیم نے ایسی فحاشی اور عریانیت پھیلائی ہے کہ ہماری مسلم لڑکیاں اپنی پہچان کھونے لگی ہیں، کتنی مسلم لڑکیاں غیرمسلم لڑکو ں سے شادیاں کررہی ہیں، کتنے مسلم بچے رواداری اور روشن خیالی کے نام پر ٹویٹر، فیس بک اور بلوگز پر اسلام کے تعلق سے معذرت خواہانہ باتیں لکھ رہے ہیں اورکچھ تو صراحت کے ساتھ اسلامی تعلیمات کو ہدف تنقید بناتے ہیں ۔ قتل اولاد کا یہ وہ مہذب طریقہ ہے جس پر آج والدین شرمندہ نہیں بلکہ فخرمحسوس کررہے ہیں ، اکبر الہ آبادی نے اسی دور کی ترجمانی کی تھی 
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا 
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
جی ہاں! یہ قتل ہی ہے جس پر فخر کیا جارہا ہے ، لیکن یہ کوئی جسمانی قتل نہیں ہے بلکہ روحانی قتل ہے ، ایمان و عقیدہ کا قتل ہے۔ پہلے مسلمانوں کے اندر اپنے بچوں کو مکاتب ومدارس میں دینی تعلیم دلانے کا ذوق بھی تھا جس کی وجہ سے کم ازکم بچے بچپن میں دین کے مبادیات سے آگاہ ہوجاتے تھے لیکن اب انگلش میڈیم سکولوں کے عام ہونے کی وجہ سے بچے اللہ اور رسول کا نام تک نہیں جان پاتے، وہاں مخلوط تعلیم کا رواج ہوتا ہے ، وہاں بے حجابی اور بے پردگی کو تہذیب کا نام دیا جاتا ہے ، وہاں پردہ کو رجعت پسندی کی علامت سمجھاجاتا ہے، وہاں اسلامی تہذیب کی تضحیک کی جاتی ہے، ایسے ماحول میں جب ہمارے بچے پڑھیں گے تو ظاہر ہے اسی تہذیب کے دلدادہ بنیں گے ،اسی ماحول کا گن گائیں گے ،اسى کی بولیاں بوليں گے 
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
یادرکھیں!بچے ہماری امانت ہیں ،اورکل قیامت کے دن ان کے تئیں ہم سے بازپرس ہونے والی ہے ۔ اگراس سمت میں غفلت برتی گئی تو نتائج بڑے خطرناک ظاہر ہوں گے ، ہمارے معاشرے میں کتنے سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین پیدا ہوسکتے ہیں ۔ آخر اس علم سے کیا فائدہ جس سے انسان عارضی دنیا توکما لے ،لیکن خالق حقیقی کا عرفان نہ حاصل کرسکے ، اس علم کا کیا حاصل جس سے مسلم معاشرہ میں لادینیت پھیلے ، ہماری باتوں سے کوئی یہ نتیجہ نہ نکالے کہ ہم عصری تعلیم کے مخالف ہیں، نہیں، بلکہ ہم عصری تعلیم کی ہمت افزائی کرتے ہیں، آج مسلمانوں میں ڈاکٹرس ،انجینیرس اور سائنسدانوں کی بیحد ضرورت ہے، اور اگر اللہ پاک نے ہمیں مالی وسعت دے رکھی ہے تو ہم اپنے بچوں کواعلی سے اعلی تعلیم دلائیں، لیکن دین کو نظر انداز کرکے نہیں ....اس مناسبت سے قوم کے سربرآوردہ اشخاص کے نام ہمارا پیغام ہوگا کہ جس طرح ارباب مدارس بچوں اوربچیوں کی دینی تعلیم کے لیے الگ ادارے قائم کررہے ہیں اسی طرح بچے اوربچیوں کی عصری تعلیم کے لیے بھی الگ الگ ادارے قائم کئے جائیں جن میں دینی ماحول فراہم کیاگیا ہو ، الحمدللہ بعض مقامات پر اس قبیل کی کوششیں ہورہی ہیں، جن کے نتائج نہایت حوصلہ افزا ہیں، ایسے اداروںکی ملک کے کونے کونے میں ضرورت ہے، اوریہ کام ہماری فوری توجہ کا مستحق ہے ۔ 
اسی کے ساتھ ہمیں اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ آج کے اس دورمیں جدید ٹکنالوجی کی بدولت دنیا ایک گھرکی شکل اختیار کرچکی ہے ، ایسے حالات میں مغربی تہذیب کے اثرات سے ہم اپنے بچوں کو بالکلیہ نہیں بچا سکتے ، الکٹرونک میڈیا کے اپنے اثرات ہیں ، ماحول کے اپنے اثرات ہیں ، درسگاہوں کے اپنے اثرات ہیں اورنصاب تعلیم کے اپنے اثرات ہیں۔ اس لیے موسم گرما کی تعطیلات تربیت کے ناحیہ سے بڑی اہمیت رکھتی ہیں، بالخصوص وہ بچے جو عصری تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں ان کی دینی تربیت کے لیے سنہری فرصت ہے، اس لیے والدین کی بڑی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی تعطیل کو ان کی دینی تربیت کے لیے کارآمد بنائیں۔ گھرمیں دینی ماحول ہو، ٹیلیویژن اورانٹرنیٹ کااستعمال سرپرست کی نگرانی میں ہو، دینی محفلوں اور دروس میں بچوں کو شریک کریں، مساجد کے ائمہ وخطباءکی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مناسبت سے لوگوں کی صحیح رہنمائی کریں، مسلم کمیونٹیزاورسماج کے سربرآوردہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کے لیے سمرکیمپ کا اہتمام کریں جس میں بچوں کے لیے دینی تربیت کے ساتھ ذہنی وفکری تفریح کا سامان فراہم کیا گیا ہو۔ 
الحمدللہ کویت میں مختلف دینی کمیٹیاں دینی ماحول میں سمر کیمپ کا اہتمام کرتی ہیں ،بچوں کے سرپرست کوچاہیے کہ اپنے بچوں کو ایسے کیمپ سے استفادہ کرنے کا بھرپورموقع فراہم کریں اوراس سلسلے میں کوتاہی نہ کریں کیونکہ یہی بچے مستقبل میں قوم کے رکھوالے اورمعمار بننے والے ہیں اور ان کی نیکی کا فائدہ خود ہمیں دنیا اورآخرت میں ملنے والا ہے۔ 

الجمعة، يونيو 15، 2012

وفاة شيخنا الفاضل صدرعالم السلفي

 تلقينا قبل دقائق ببالغ الحزن والأسى نبأ وفاة شيخنا الفاضل المتواضع  صدرعالم السلفى الأستاذ بجامعة الإمام ابن تيمية ، إنا لله وإنا إليه راجعون، توفي رحمه الله أمس إثر مرض خفيف ودفن في قريته "دوستيا" الساعة 9 ليلا. رحم الله الفقيد رحمة واسعة وأسكنه فسيح جناته ، ولكن كيف أقوله فقيدا وكأنني أراه أمام أعيني مبتسما متواضعا،هادئا، بسيطا، متسامحا، أحبه الطلبة والأساتذه حبا جما فالخبر كأنه صاعقة لي لا أملك نفسي أن أعبر مدى حزني الذي أجده في قلبي تجاه أستاذنا الفاضل ولست أنا وحدى من يتأثر بهذا الخبر بل كل من يسمع هذا الخبرمن تلاميذ الشيخ يحزن على فراقه . ولكن العين تدمع والقلب يحزن  ولانقول إلا ما يرضي ربنا ، اللهم اغفر له وارحمه واعف عنه وعافه وأكرم نزله ووسع مدخله واغسله بماء وثلج وبرد ونقه من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس وأبدله دارا خيرا من داره وأهلا خيرا من أهله وزوجا خيرا من زوجه وقه فتنة القبر وعذاب النار. 
وبالمناسبة أقدم أصالة عن نفسي ونيابة عن جميع التيميين تعازينا إلى أسرة الفقيد وعلى رأسهم الأخ ظفير عالم التيمي والدكتور مهر عالم  في مصابهم سائلين المولى العلى القدير أن يلهمهم الصبر والسلوان إنه نعم المولى ونعم النصير.  (وشكرا لأخينا الفاضل د.معراج عالم التيمي على نعيه عن وفاة الشيخ عبر رسالة النقال.)