الأربعاء، يونيو 08، 2011

اصلاحِ معاشرہ : کیوں اورکیسے ؟

اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اورمسلمان اس کی آفاقیت کے علمبردار ہیں ،ہردور میں اسلام کے ماننے والوں نے دنیا والوں کے سامنے اسلام کا نمونہ پیش کیا چنانچہ انسانیت نے ان کے عمل اورکردار سے متاثر ہوکر اسلام کو گلے لگایا ۔ لیکن صدحیف آج اسلام کے سپوت اسلامی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں، اسلامی تعلیمات ایک طرف تو ہماری اکثریت دوسری طرف ہے، زندگی کے ہرشعبے میں ہم نے اسلامی تعلیمات کو نظرانداز کررکھا ہے- عقائد ،عبادات ،معاملات،اخلاقیات، معاشرت ومعیشت غرضیکہ زندگی کا ہرشعبہ اسلامی تعلیمات سے خالی دکھائی دیتا ہے ۔ وہ دین جس کی بنیاد توحید پرتھی ،جس کے پیغمبر نے اپنی 23سالہ زندگی توحید کے اثبات اورشرک کی تردید میں صرف کردی ،جس نے اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام میں انبیاءکی قبروں کوعبادت گاہ بنالینے پر یہودونصاری کو مطعون کرتے ہوئے دعا کی تھی کہ’ بارالٰہامیری قبرکوعبادتگاہ نہ بنانا‘ آج اسی دین کے ماننے والے اوراسی پیغمبر کی اطاعت کا دم بھرنے والے مسلمان دن رات قبروں پر نذریں چڑھاتے، مردوں کومشکل کشا،حاجت روااور غوث اعظم تصور کرتے ہیں۔ وہ دین جس نے نماز، زکاة ، روزہ اور حج کو اپنی بنیاد قرار دیاتھا ،کلمہ شہادت کے اقرار کے بعد پہلا فریضہ نماز بتایاتھا ، جسے عطا کرنے کے لیے خالقِ کائنات نے اپنے حبیب کو اپنے پاس بلایا تھا صدحیف آج ہماری اکثریت اسے پامال کرکے اپنی پہچان کھوچکی ہے ۔ وہ دین جس نے اخلاقیات کو مرکزی حیثیت دی تھی اور جس کی تکمیل کے لیے پیغمبر اسلام مبعوث کیے گئے تھے،وہ دین جس نے معاملات کو اصل دین قرار دیا تھا،آج اسی دین کے نام لیوا اخلاقیات اور معاملات کی ایسی پستی میں گرچکے ہیں کہ الاماں والحفیظ ۔

منشیا ت کے بازارہم نے لگارکھے ہیں،ہوس کے اڈے ہم نے قائم کررکھے ہیں، قماربازی ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل و غارت گری،رشوت خوری ،دھوکہ دہی ،بددیانتی ، جھوٹ ،سامان میںملاوٹ، ناپ تول میں کمی آخر وہ کو ن سی اخلاقی بیماری ہے جو ہم میں نہیں پائی جاتی؟ معاشرتی زندگی میں جہیز کی لعنت، لڑکیوں کی وراثت کا مسئلہ ،طلاق کا غلط استعمال اوربعض ہندوانہ رسم ورواج میںہم بُری طرح پھنس چکے ہیں۔ ذات پات کے مسئلہ اورمسلکی تعصب کے عفریت نے ہمارا کچومر نکال رکھاہے ۔ غرضیکہ تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم ”پورا جسم زخم آلود ہے ،مرہم کہاں کہاں لگائیں “ نتیجہ ظاہر ہے کہ آج اسلام کی اشاعت محدود ہوکر رہ گئی ہے ، غیروں نے اسلام پر انگشت نمائی شروع کردی ہے اوراسلامی تعلیمات کو مشکوک نگاہوں سے دیکھاجارہاہے ۔

ایک طرف تو مسلم معاشرے کی یہ حالت ہے تو دوسری طرف دشمنان اسلام نے امت کے نونہالوں کے ساتھ فکری جنگ چھیڑرکھی ہے جس کی پشتیبانی خارجی سطح پرعیسائی مشنریز اورداخلی سطح پر قادیانیت کررہی ہے ۔ جس کا نتیجہ ہے کہ آج امت مسلمہ میں بڑی تیزی سے ارتداد کی وبا پھیلتی جارہی ہے۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں اصلاح معاشرہ کی کس قدر ضرورت ہے اس کا اندازہ ہم اور آپ بخوبی لگا سکتے ہیں ۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھانے والے خود اصلاحِ معاشرہ سے عاجز وقاصرنظر آرہے ہیں۔ اصلاح کی کوششیں ضرورہورہی ہیں،اجتماعات ہورہے ہیں،کانفرنسیں ہورہی ہیں، جلسے اورسیمینارز ہورہے ہیں تاہم یہ ساری کوششیں صدحیف نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہی ہیں۔ میری سمجھ سے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ جلسے ہماری جماعت اورتنظیم کی نمائندگی کرتے ہیں،ہماری کوششوں کا محورجماعت کی خدمت ہوتاہے،اورہمارے کام روحِ اخلاص سے خالی ہوتے ہیں ۔ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ہمارے علماءترجیحاتِ دین کو نظر انداز کرکے فروعی مسائل میں مناظروں اور مباحثوں میں مشغول ہیں جس کی وجہ سے علم کا استحصال ہورہا ہے اورادھرمعاشرہ آئے دن پستی کا شکارہوتا جارہا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیاایسا کوئی لائحہ عمل نہیں جواس جمود کو توڑ سکے اور معاشرہ اسلامی تعلیمات کا گہوارہ بن سکے ؟جی ہاں ! ہمارے پاس ایسا نظام حیات ہے جومردہ انسانوں کے اندر زندگی کی روح پھونکنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اس آفاقی نظام کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی مصلح ، مفکراورفلسفی کی قطعاً احتیاج نہیں البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اصلاح امت کے لیے اسی نسخہ کیمیا کو اپنائیں جسے اپناکر اگلے کامیاب ہوئے تھے ۔ اس کے لیے ذیل میں ہم چند گذارشات پیش کررہے ہیں امید کہ ان پر دھیان دیاجائے گا :

(1) علماءوخطباءاورداعیانِ دین فروعی مسائل پر بحث وتحقیق کرنے اور مناظروں ومباحثوں میں وقت لگانے کی بجائے ترجیحاتِ دین پر توجہ دیں کہ کرنے کے کام ابھی بہت ہیں ورنہ یہی حالت رہی تو ہماری شناخت بھی مٹ جائے گی ۔

(2) اصلاحِ معاشرہ میں خطبہ جمعہ کا کلیدی رول ہے،اس کی فعالیت کو بحال کرنے کے لیے بستی اور شہر کے سارے مرکزی مساجد میں حاضرین کی زبان میں خطبہ جمعہ کا اہتمام کیاجائے اورامام وخطیب کی تعیین میں روایتی ذہنیت کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے ائمہ وخطباءکا انتخاب کیاجائے جو نیک اورصالح ہونے کے ساتھ باصلاحیت ہوں تاکہ عوام کی صحیح رہنمائی کرسکیں ۔

(3) ناظرہ قرآن اور قرآن فہمی کے لیے ہر محلہ کی مسجد میں حلقے قائم کیے جائیں،عوامی دروس کا بکثرت اہتمام کیا جائے اور ناخواندہ حضرات کو ضروریاتِ دین سے واقف کرانے کے لیے کلاسیز منعقد کیے جائیں ۔

(4) اصلاح معاشرہ میں خواتین کے بنیادی کردار کوبحال کرنے کے لیے علیٰحدہ خواتین کے لیے دینی اجتماعات کا نظم کیاجائے،گھر کے اندر ماں کے کردار کوفعال کیاجائے ، گھرمیں بچوں کو دینی ماحول فراہم کیاجائے، دینیات پرمشتمل کتابوں کی چھوٹی لائبریری بنائی جائے ،عیسائی مشینریزکے زیراہتمام چلنے والی درسگاہوں میں بچوں کو تعلیم دلانے کی بجائے ایسے سکولز کے انتظامات کیے جائیں جہاں دینی ماحول ہو۔

اورہرشحص کودوسروں کی اصلاح کے لیے فکرمند ہونے سے پہلے اپنا احتساب کر نا ہو گا، خود کو بدلنا ہو گا۔ کیونکہ چندافراد سے ہی معاشرہ بنتا ہے ۔فردکی جب تک اصلاح نہ ہوگی معاشرے کی اصلاح کا خواب شرمندہ ¿ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔ رہے نام اللہ کا

صفات عالم محمد زبیرتیمی

نوواردانِ اسلام کے تئیں دل میں جگہ پیدا کریں

خلیجی ممالک میں ملازمت پیشہ غیرمسلم تارکین وطن کی اچھی خاصی تعداد پائی جاتی ہے، ان میں سے ایک بڑی تعداد نے یہاں کے اسلامی روایات اوردینی اقدار سے متاثر ہوکر اسلام کے سایہ میں پناہ لی ہے اور تاہنوز لے رہے ہیں۔ الحمدللہ ان ممالک میں تارکین وطن کی دینی تعلیم وتربیت کے لیے باضابطہ دعوتی کمیٹیاں قائم ہیں اور انہیں معیاری دعاة کی خدمات حاصل ہیں جو تعارفِ اسلام کے لیے ہرممکنہ کوشش کرتے ہیں۔ یہاں کا دینی ماحول عام مسلمانوں کو بھی دعوت کے لیے متحرک اور فعال رکھتا ہے ۔ البتہ جولوگ اسلام کی آفاقیت سے متاثر ہوکر اسلام کو گلے لگاتے ہیں ان کے تئیں مسلم معاشرہ کی بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں جن کا صدحیف ہماری اکثریت کواب تک صحیح شعور حاصل نہ ہوسکا ہے ۔ یہ امرخوش آئندہے کہ کسی غیرمسلم کے قبولِ اسلام کا منظر ایک عام مسلمان کے لیے بھی نہایت ایمان افروز ، روح پرور اور مسرت آمیز ہوتا ہے۔ فوراً اس کے دل میں اپنے نومسلم بھائی کے تئیں محبت اور عقیدت کاجذبہ امڈ پڑتاہے ۔ لیکن جب اس سے معاملہ کرنے کی بات آتی ہے تو زمینی حقائق گواہ ہیں کہ ہماری اکثریت ایسے نومسلموں کو پہلے دن سے ہی اسلام کا نمونہ دیکھنا چاہتی ہے اور اگر کسی طرح کی اس سے کوتا ہی ہوگئی تو فوراً اس کا مواخذہ ہوتا ہے حالانکہ کتنے مسلمان خود طرح طرح کی برائی میں لت پت ہیں، ظاہر ہے کہ جس شخص کو چند دنوں قبل ہدایت ملی ہے اس کی تربیت کے لیے ایک مدت درکار ہے بالخصوص جبکہ ایک شخص نے عمر کا اچھا خاصا وقت غیر اسلامی ماحول میں گزارا ہو۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس نووارد سے نرمی کا معاملہ کیا جاتا، اسے مسلم معاشرے کا ایک فرد سمجھا جاتا، دوسرے مسلمانوں کے جیسے اسے معاشرے میں سارے حقوق حاصل ہوتے ، شروع میں اس کی معمولی کوتاہیوں کو نظر انداز کیا جاتا اورپیار اورمحبت کے ساتھ اس کے سامنے دین کے احکامات رکھے جاتے لیکن افسوس کہ جہالت اور دعوتی ذوق کے فقدان کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں ان امور کی رعایت کرنے والے افراد خال خال ہی پائے جاتے ہیں ۔ کتنے تو یہ بھی سمجھتے ہیں کہ نومسلم نے اسلام قبول کرکے گویا مسلمانوں کے آبائی دین کو ہڑپ لیا ہے اور اس میںایک نیا حصہ دار بن بیٹھا ہے ،تجربہ بتاتاہے کہ کتنے سادہ لوح مسلمان جب غیرمسلموں کو تعارفِ اسلام پر مشتمل کتابیں دیتے دیکھتے ہیں تو جہالت میں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ” اسلامی کتاب…. آپ غیرمسلم کو دے رہے ہیں….؟“ حالانکہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے ،اس کے مخاطب دنیاکے سارے انسان ہیں ۔
اسلام قبول کرنے کے بعد اکثر نومسلموں کی شکایت ہوتی ہے کہ انہیں مسلم معاشرے کا تعاون حاصل نہیں ہوتا اور یہ شکایت بجا ہے ،شادی بیاہ میں لڑکا اور لڑکی دینے کی بات تو درکنار ان سے معاملہ کرتے وقت بھی اپنے ذہن میں مختلف طرح کے تحفظات رکھے جاتے ہیں۔ راقم سطور ایک عرصہ سے غیرمسلموں کے بیچ کام کرتا آرہا ہے ،اس دوران اس قبیل کے متعددواقعات پیش آئے۔
ایک مرتبہ IPC میں میرے پاس ایک صاحب کسی غیرمسلم عیسائی کولے کر آئے اورمجھ سے طلب کیا کہ انہیں اسلام کی دعوت دوں ،دونوں تعلیم یافتہ تھے ،چند تمہیدی باتیں کرنے کے بعد میں انہیں اسلام کی دعوت دینے لگا ۔ جب وہ اسلام سمجھ چکے اور اسلام لانے کے لیے تیار ہوئے تو لانے والے نے مجھ سے ایک سوال کیا جسے میں پیدائشی مسلمان سمجھ رہا تھا:
” اسلام میں مرتد کا کیاحکم ہے ؟“ میں نے سوال کے بے محل ہونے کی وجہ سے حکمتِ دعوت کے پیش نظر صراحت سے اس کا جواب نہیں دیا کہ مرتد کی سزا قتل ہے بلکہ کہاکہ” ایک سچے مسلمان کے تئیں ارتداد کا تصور نہیں کیا جاسکتا ،جو حقیقی معنوں میں مسلمان ہوگا وہ مرتد نہیں ہوسکتا، اس پر محمد صلى الله عليه وسلم کے اصحاب کی درخشندہ زندگی گواہ ہے کہ انہیں انسانیت سوز تکلیفیں دی گئیں تاہم ان کے پایہ استقلال میں ذرہ برابر تزلزل پیدا نہ ہوا ….کیونکہ اسلام میں جبر واکراہ نہیں،یہ انسان کا اپنا دھرم ہے جسے وہ قناعت سے اختیار کرتا ہے “۔ پھرمیں نے انتظار کیا تاکہ ان کا ردعمل دیکھوں….انہوں نے جواب کو نظر انداز کرتے ہوئے حقیقت حال سے آگاہ کیا :”میں نے آپ سے یہ سوال اس لیے پوچھا ہے کہ پانچ سال قبل میں نے اسلام قبول کیا تھا تاہم اس پرقائم نہ رہ سکا ،البتہ جب میں نے اپنے دوست کے سامنے اسلام کی خوبیاں بیان کیں توانہوں نے اسلام کو جاننے کی خواہش ظاہر کی،اسی لیے میں آج انہیں لے کر آپ کے پاس آیاہوں“۔
میں نے پوچھا: ”آپ کے اسلام پرقائم نہ رہنے کی وجہ ؟“ اس کا جواب تھا :” جب میں نے اسلام قبول کیا تو میرے منیجر نے سارے ملازمین کے سامنے خوشی سے کچھ رقم دی جو ایک مسلمان بھائی کے بیل مونڈھے نہ چڑھ سکا ، ایک روز جبکہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہاتھا اس نے مجھے بحالتِ سجدہ پیچھے سے ایک لات مارا اوربڑی جرأ ت سے کہا:” لالچی کہیں کے …. پیسہ کے لیے اسلام لایا ہے “ (حالانکہ اللہ شاہد ہے کہ میں نے پورے شرح صدر کے ساتھ اسلام قبول کیاتھا) جب پیچھے مڑکر دیکھا توغصہ توبہت آیا،پرمیں نے بروقت جذبات پرقابوپایا اور اس سے الجھے بغیر مسجد سے نکل بھاگا ۔ اس دن سے مجھے مسلمان سے نفرت سی ہوگئی ہے، لیکن آج بھی مجھے اسلام سے محبت ہے ،میری خواہش ہے کہ دوبارہ اپنے دوست کے ساتھ اسلام میں آجاؤں، کیا ایسا ممکن ہے ؟ “۔
یہ قصہ سن کر تھوڑی دیر کے لیے حواس باختہ ہوگیا ،دانتوں تلے انگلی آگئی اور سوچنے لگا کہ کیا آج بھی ہمارے مسلم معاشرے میں ایسے لوگ ہیں جو اسلام کے راستے میں کانٹے بنے ہوئے ہیں ۔ پھر دفعةً اس سے مخاطب ہوا:”پیارے بھائی ! میں آپ کے درد کو سمجھ رہاہوں ، لیکن وہ جاہل تھا ، اورجاہل اپنے نفس کا دشمن ہوتا ہے چہ جائیکہ غیرکا دوست بن سکے ،پھر آپ نے اس جاہل کا دین تو قبول نہیں کیا تھا بلکہ آپ نے اپنے مالکِ ارض وسماکے دین کی معرفت حاصل کی تھی جو آپ کا اور ساری انسانیت کا دین ہے ۔ یہ تو آپ کی گم شدہ نعمت ہے جسے ایک عرصہ پہلے کھو چکے تھے اب جبکہ اسے پالیا ہے توکیایہ مناسب ہے کہ کسی احمق کی بات پر اپنی نعمت گم گشتہ سے دست بردار ہوجائیں ….؟ “اس طرح اسے مختلف مثالیں دے کر سمجھایا چنانچہ دونوں نے کلمہ لاالہ الا اللہ کا اقرار کیا اور کلاس میں حاضر ہونے لگے ۔
یہ اور اس طرح کے درجنوں واقعات ابھی ذہن کے پردے پرمرتسم ہیں جنہیں بیان کرنے کا یہ موقع نہیں البتہ اس کے ذریعہ ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم میں سے ہرشخص نومسلم بھائیو اور بہنوں کے تئیں سنجید ہ ہو،ان کے مسئلے پر دھیان دے اور ان کے لیے اپنے دل میں جگہ پیدا کرے کیونکہ مستقبل اسلام ہی کا ہے ۔ ان شاءالله


صفات عالم محمدزبیر تیمی
safatalam12@yahoo.co.in

ہمارے باڈی گارڈ

صفات عالم محمد زبیر تیمی
لَہُ مُعَقِّبَات مِّن بَینِ یَدَیہِ وَمِن خَلفِہِ یَحفَظُونَہُ مِن أ َمرِ اللّہِ﴿ (سورة الرعد 11)
ترجمہ :” اللہ کے پہرے دار انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے انسان کی حفاظت ونگرانی کرتے ہیں“۔
تشریح : اللہ پاک کابے انتہا کرم اوراحسان ہے کہ اس نے قطرہ آب سے لے کر دنیامیں آنکھیں کھولنے تک اور دنیامیں آنکھیں کھولنے کے بعد سے لے کر آخرت سدھارنے تک ہماری حفاظت کا منظم بندوبست فرمایا۔وہ ہروقت ،ہرآن اورہرلمحہ ہماری حفاظت کررہا ہے ۔ ہم اس قدرعاجز ہیں کہ خود اپنے نفس کے مالک نہیں،اس کی تدبیر ہم خود نہیں کرسکتے بلکہ معمولی ایک عضو کو سنبھالنے کی ذمہ داری لینے سے بھی قاصر ہیں، ہماری یہ آنکھ جس سے ہم دیکھتے ہیں اگراس کے نظام کی ذمہ داری خودہم پر ڈال دی جاتی تواس کی تدبیرمیں لگ کردنیا کی ساری چیزوں کو فراموش کرجاتے پھربھی معمولی ایک عضو کے نظام کو ٹھیک ٹھاک نہیں چلاسکتے تھے۔ لیکن باری تعالی نے ہمارے جسموں کے سارے نظام کی حفاظت اپنے ذمہ لے لی، پھر ہرطرح کی آفات سے ہماری حفاظت بھی فرمارہا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اپنی مخلوقات میں سے فرشتوں کوہماری حفاظت پرمامور فرمادیاہے۔ حافظ ابن کثیر رحمه الله فرماتے ہیں”
جس طرح اللہ پاک نے بندوں کے اچھے برے اعمال نوٹ کرنے کے لیے ان کے دائیں بائیں کندھوںپر دوفرشتے مقررکردئیے ہیں،اسی طرح ان کی حفاظت اور نگرانی کے لیے ان کے آگے اور پیچھے دوفرشتوں کو مقررکردیا ہے جو انہیں حوادث اور شروروفتن سے محفوظ رکھتے ہیں “
۔ مجاہد رحمه الله کہتے ہیں :
”ہربندے پر فرشتے مقررہیں جو سوتے جاگتے ہروقت جنوں،انسانوں اور موذی جانوروں سے اس کی حفاظت کرتے ہیں ،جب کوئی شے اسے نقصان پہنچانے کے لیے آتی ہے تو فرشتہ کہتا ہے ”پیچھے ہٹ جا“ بجز اس کے کہ جس کافیصلہ اللہ پاک نے کردیا ہو تو وہ ہوکر رہتاہے“۔

اللہ پاک کی عمومی حفاظت تو ہرمتنفس کو حاصل ہے البتہ اس کی خصوصی حفاظت جس کی طرف آیت بالا میں اشارہ کیا گیا ہے اسی شخص کو حاصل ہوتی ہے جس کے حق میں اللہ پاک کا حکم ہو، ظاہر ہے اللہ کا حکم ایسے ہی لوگوں کے حق میں ہوگا جو ا س کے اوامر کی حفاظت کرتے ہوں گے ۔ اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم نے اپنے عم زادے حضرت ابن عباس رضى الله عنهما کویہی نصیحت کی تھی جبکہ وہ آپ کے پیچھے سواری پر سوار تھے: اِحفَظِ اللّٰہَ یَحفَظکَ….(سنن ترمذی ) ”اللہ کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت کرے گا “ ۔
جس قدرہم اسلامی احکام کی پابندی کریں گے اسی قدر ہماری سیکوریٹی اور حفاظت سخت کردی جاے گی ۔ جب ایک آدمی نمازِ فجر کی باجماعت ادائیگی کرلیتا ہے تو وہ اللہ کی حفاظت میں آجاتا ہے(صحیح مسلم) جب ایک بندہ اپنے گھر سے نکلتے وقت یہ دعاپڑھتا ہے بِسمِ اللّٰہِ تَوَکَّلتُ عَلٰی اللّٰہِ وَلَاحَولَ وَلَاقُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہِ تو اس سے کہا جاتا ہے: ”تمہارے لیے اللہ کافی ہے، تجھے ہدایت دی گئی اورتم بچالیے گئے “تب شیطان کفِ افسوس ملتے ہوے کہتا ہے : ”اس شخص کا تم کیا کرسکتے ہو جس کے لیے اللہ کافی ہوگیا ہو ، جسے ہدایت مل گئی ہو اور جو حفاظت میں آگیا ہو“ ۔ (سنن ابی داؤد) جو شخص سوتے وقت آیت الکرسی کی تلاوت کرلیتاہے اس پر اللہ کی طرف سے سیکوریٹی مقرر کردی جاتی ہے اور صبح تک شیطان اس کے قریب نہیںآتا ۔ (صحیح بخاری )
لیکن جب انسان نے اللہ پاک اور فرشتوں کی سیکوریٹی کو نظر انداز کیا تو درگاہوں کی خاک چھاننے پر مجبور ہوا ۔ کاہنوں ، نجومیوں اور جیوتشیوں کے دامِ تزویرمیںپھنسا۔خرقے ‘دھاگے ‘ اور تعویز گنڈوں کا سہارا لیا۔ اس طرح ان غیرشرعی ذرائع حفظ وامان میں پھنس کرذہنی الجھن اورپریشانی مول لینے کے ساتھ ساتھ اپنے ایمان کوبھی داغدار کر بیٹھا۔