الأربعاء، ديسمبر 28، 2011

افسوس میری قوم بدلتی نہیں کروٹ


اسلام ساری انسانیت کے لیے رحمت کا پیغام بن کرآیاہے ، اس کی آفاقی تعلیمات میں انسانی زندگی میں پیش آنے والے سارے مسائل کا مکمل حل موجودہے ، اس میں انسانی فطرت اوراس کے تقاضے کی پوری رعایت رکھی گئی ہے تاکہ انسان چاہے وہ جس ملک، جس زمانے اورجس قبیلے سے تعلق رکھتا ہو‘اس کے گہوارہ میں امن وسکون اورسعادت کی زندگی گذار سکے۔ لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سامان گوکہ بیش قیمت اورگراںمایہ ہو اگراس کی تشہیر مطلوبہ طریقے سے نہ کی گئی توصارفین کی نظروں میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ، بلکہ رفتارِ زمانہ کے ساتھ لوگ اسے فرسودہ اورازکاررفتہ سمجھنے لگتے ہیں۔ صد حیف آج یہی صورتحال تقریباً اسلام کی ہے، چنانچہ ایک طرف عالمی میڈیا جہالت اور مذہبی تعصب کی بنیاد پر اسلام پرمختلف قسم کے اعتراضات کئے جارہاہے، تودوسری طرف خودہماری نئی نسل کے ذہنوں میں اسلام کے خلاف بھانت بھانت کے سوالات پیدا ہورہے ہیں، ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہورہا ہوکہ ہم شاید اپنی قوم سے بدظنی کے شکار ہیں یا ان کی کوششوں کی ناقدری کررہے ہیں،ایسا ہرگز نہیں ہے،ہمیں اپنی قوم کے باہمت نوجوانوں پرفخر ہے، تاہم جس حدتک ہمارے پاس افراد ہونے چاہیے تھے نہیں ہیں، جب ہم اپنے حلقے میں ہوتے ہیں تو خوش فہمی کے شکار ہونے لگتے ہیں کہ ماشاءاللہ ہمارے پاس دین کی خدمت کرنے والے احباب کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے لیکن جب ملکی اورعالمی سطح پراہل باطل کی چستی ، اورباطل کے فروغ کے لیے منصوبہ بندی کے سامنے اہل حق کی سستی اورحق کے فروغ میںبے حسی پر غورکرتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے ۔ اورہمیں اپنی کوتاہی کاپورا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ اگرہمارے پاس کسی چیز کی کمی ہے تو بلند ہمت ، اولوالعزم اورفولادی ارادہ کے مالک افراد کی ، جواسلام کوعملاً اپنی زندگی میں نافذ کرکے گھرگھراس کی تشہیرکرتے ۔ اسلامیات کاگہرا مطالعہ کرنے والا ایک مستشرق جب اس نکتہ پر پہنچتا ہے توبے لاگ یہ تبصرہ کرنے پر مجبورہوتا ہے کہ :
 یا لہ من دین لوکان لہ رجال”کیاہی عمدہ دین ہے کاش کہ اسے ویسے افراد مل جاتے“۔ شاید امیرالمؤمنین عمرفاروق رضى الله عنه نے ایسی ہی نازک حالت کے لیے یہ دعا کی تھی اللھم انی أعوذ بک من جلد الفاجروعجزالثقة ”اے اللہ ! میں تجھ سے فاجرکی ہمت وقوت اورثقہ کی پست ہمتی وکوتاہی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ “
جی ہاں! اگرایک مسلم کوتاہ ہے تواس سے اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا گوکہ اس کے ایمان کی گواہی پوری زمین دیتی ہو، وہ معاشرے کے لیے مفید نہیں بن سکتا ،بلکہ بسا اوقات اس کی کوتاہی باطل کومعاشرے میں پروان چڑھنے کا موقع فراہم کرے گی ۔ ایک انسان جو اپنی ذات تک محدود ہووہ معاشرے کے لیے عضومعطل ہے ، کتنے لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم نے نماز روزے کی پابندی کرلی تواپنی ذمہ داری سے عہدہ برآہوگئے ، حالانکہ ایک مسلمان کی ذمہ داری محض یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کی اصلاح کرلے اوربس بلکہ اسے’ خیرامت‘ کا لقب اس بنیادپر دیاگیا ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہے ،وہ خیر کا ہرکارہ ہے۔آج انسانی معاشرے کو غفلت کیش اورپست ہمت عابد وزاہد کی ضرورت نہیںبلکہ بیدارمغزاوربلند ہمت داعی کی ضرورت ہے جو خود کی اصلاح کے ساتھ کفروشرک کی شب تاریک میں ایمان وعمل کی قندیل روشن کرسکے ۔اس
کی ذات سے دوسروں کو فیض پہنچ سکے ،اس کا وجود انسانیت کے لیے نیک فال بن سکے ۔ اللہ کے رسول  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ شخص وہ ہے جو لوگوںکے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو،اوراللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل یہ ہے کہ کسی مسلمان کے دل میں خوشی کی لہر دوڑا دو ، یا اس کی کسی پریشانی کودور کردو،یا اس کا       قر ض ادا کردو ،یا اس کی بھوک مٹادو، میں کسی مسلمان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے چلوں‘ یہ میرے لیے مسجد (نبوی ) میں ایک مہینہ اعتکاف میں بیٹھنے سے بہتر ہے “۔     (رواہ الطبرانی فی الکبیرو حسنہ الالبانی فی الصحیحة 906)
 یہ ہے ایک سچے مسلمان کا حقیقی خدوخال جو ہمیشہ حرکت میں ہوتا ہے ، جوشجرسایہ دار ہوتا ہے جس کے سایہ سے خاص وعام سب کویکساں فائدہ پہنچتا ہے ۔ لیکن جب ہم قوم مسلم کا عمومی تجزیہ کرتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ آج ہماری اکثریت اپنی ذات کے خول میں گم ہے ، ہمیں دوسروں کی کوئی پرواہ نہیں ، اورجہاں اسلامی تشخص کا مسئلہ ہو وہاں ہماری بے حسی اس قدربڑھ جاتی ہے کہ ہم اپنی پہچان تک کھوبیٹھتے ہیں بالخصوص جب کثیرمذہبی معاشرے میں کسی منصب اورعہدے پر فائز کردئیے جائیں توہماری بے حسی مزید دوآتشہ ہوجاتی ہے،بسااوقات روشن خیالی اوررواداری کے نام پر اپنے دین وایمان تک کا سودا کربیٹھتے ہیں۔ ہماری ذات سے اپنی قوم کو فائدہ کم پہنچتا اوردوسروں کو زیادہ پہنچتا ہے ۔
 دوسری جانب کفارومشرکین قوم پروری میں پیش پیش اوراپنے باطل مذہب کے فروغ میں تن من دھن کی بازی لگاتے ہوئے دکھائی دیں گے ۔عالمی سطح پراہل باطل ذرائع ابلاغ کے ذریعہ شہوات اورشبہات کو ہوادینے کے لیے ان سارے وسائل کوبروئے کار لا ہی رہے ہیں جو ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکیں۔جب ملکی اورقومی سطح پر ان کی کوششوں کا جائزہ لیں توشہر، قصبہ اوربستی کا وہ کو ن سا علاقہ نہیں ہے جہاں عیسائی مشینریز اورقادیانیت کی ارتدادی سرگرمیاں جاری نہ ہوں۔ ایک عیسائی کو اس کا باطل مذہب اتنا پیار اہے کہ ملازمت سے فارغ ہوتے ہی کلیسا کی ایما ء پربائبل بغل میں دبائے عوامی مقامات پرپہنچتا ہے ، اورجہاں موقع ملا بائبل کی تعلیم شروع کردیتا ہے ،گھر گھر عیسائی لٹریچر پہنچاتا ہے ، کمپنیوں میں اپنے افراد پر کڑی نظر رکھتا ہے ۔ ایک پاکستانی نومسلم نے ہمارے سامنے اعتراف کیا کہ وہ وفرہ کے علاقے میں ہرہفتہ غذائی اشیاء کے ساتھ بائبل تقسیم کیا کرتا تھا ۔ قوم پروری کی طرف دھیان دیں توایک غیرمسلم جب کہیں برسرروزگارہوتا ہے تو اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہاں اس کے ہم مذہب زیادہ سے زیادہ تعداد میں پہنچ سکیں۔
کویت میں راقم سطورنے ہندوستان کے ہندوؤں کو بھی قریب سے دیکھا ہے ، وہ اپنی اجتماعیت بحال رکھنے کے لیے خاص علاقے میں رہنا پسند کرتے ہیں، مذہبی شعارکی ادائیگی کے لیے روزانہ اکٹھا ہوتے ہیں ، اپنی قوم کے تنگ دستوں کے لیے ماہانہ رقم جمع کرتے ہیں۔
اب ذرا دل کو ٹٹولیں اورمن سے پوچھیں کہ ان کے مقابلہ میں ہم نے کیا کیا ہے ؟ کس حدتک ہم نے اپنی قوم کے بارے میں سوچا ہے؟ کس حدتک ہم نے انسانیت کی رہنمائی کا فریضہ ادا کیا ہے؟ آخر ہم کیسے خود کوآفاقی پیام کا علمبردار کہہ سکتے ہیں؟ ؟؟

         بیدارہوئی جاتی ہے دنیا کی ہرایک قوم     
افسوس میری قوم بدلتی نہیں کروٹ     

الثلاثاء، ديسمبر 20، 2011

نماذج لهمم كالجبال في طلب العلم


الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وآله وصحبه ومن اتبع هداه

اما بعد :

فنظروا يرحمكم الله الى ههم هؤلاء الرجال في طلب العلم فهي والله كقمم الجبال الرواسي او قل كهجر رغم امواج البحر راسي وكيف اصبح حال بعض طلابنا اليوم الذين توفرت لهم اسباب الدراسة وطلب العلم وهم رغم ذالك متكاسلون وفي طرق الغش يبدعون تعالوا معي اخوتي وسمعوا الى هؤلاء الرجال :

الأحد، ديسمبر 04، 2011

”مسدس شاہراہ دعوت “شاعری میں اسلامی دعوت کا بہترین نمونہ

تبصرہ نگار:   ثناءاللہ صادق تیمی
ریسرچ اسکالر جواہر لال نہرویونیورسٹی

علمی دنیا میں صلاح الدین مقبول احمد کا نام محتاج تعارف نہیں: زوابع فی وجہ السنۃ، نامی علمی کتاب سے اپنی پہچان بنانے والے مولانا صلاح الدین مقبول احمد نے دراسات اسلامیہ میں گراں بہا اضافہ کیا ہے، علمی حلقوں میں ان کے مقالات شوق سے پڑھے جاتے ہیں، “السيد ابوالحسن علی الندوی: “الوجه الآخر من کتاباته” سے لے کر “دعوة شيخ الإسلام وأثرها فى الحركات المعاصرة” سے ہوتے ہوئے  المرأۃ بين ھداية الإسلام وغواية الإعلام” بشمول ان کے سینکڑوں علمی، دعوتی اور فکری مقالات جو ہندو بیرون ہند کے معیاری عربی اردو رسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں، ان کے فکر اور دعوتی تڑپ کی بحسن وخوبی غمازی کرتے ہیں۔

مولانا کی تحریروں سے جن لوگوں کو استفادہ کا موقع ملا ہے وہ جانتے ہیں کہ مولانا کا اول وآخر مطمحِ نظر صحیح اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت ہے، وہ ہمیشہ عقیدے کے بگاڑ کی اصلاح چاہتے ہیں، غیر اسلامی افکار وخیالات کی پر زور علمی تغلیط کرتے ہیں، سنت کے رسیا ہیں اور اس کے خلاف کسی بھی قسم کی زیادتی برداشت کرنے کے روادار نہیں ہوتے، اللہ نے تقریر کا بھی بہتر ملکہ عطا کیا ہے اور دین متین کی توضیح وتشریح میں مولانا اس کا بہتر استعمال کرتے ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے اسلاف کی بہت سی علمی کتابوں کی تحقیق بھی کی ہے، جیسے “مسألة العلو والنزول لإبن طاھر”، إرشاد النقاد للأميرالصنعانی”، تحفة الأنام لمحمد حياۃ السندی”، “تحفة المودود بأحکام المولود لابن القيم”، وغیرہ ساتھ ہی کچھ کتابوں کو آپ نے عربی کا قالب بھی دیا ہے ، جیسے “موقف الجماعة الإسلامية من الحديث محمد إسماعيل السلفی”، اور“مذھب الإمام البخاری فی صحيحه”۔ (له أيضا)

سردست خاکسار مولانا کی جس کتاب سے متعلق گفتگو کرنے جارہا ہے، یا یہ کہیے کہ اردو قارئین بطور خاص سلفی الفکر حضرات کے سامنے اس کتاب کا قدرے تفصیلی تعارف کرانے جارہا ہے، وہ حسب معمول مولانا کی کوئی عربی تصنیف نہیں ، بلکہ اردو کتاب ہے اور یہ جان کرمسرت بھرا تعجب ہونا چاہیئے کہ وہ نثری سرمایہ نہیں شعری شاہکار ہے۔
      
سب سے پہلے توا سلامی اسکالر صلاح الدین مقبول احمد کو اس بات کی مبارکباد کہ انھوں نے تَرک شاعری کے طویل مدتی روزہ کو توڑ دیا اور نامور اسلامی سوانح نگار جناب اسحاق بھٹی ؔ کی ایک تحریر سے تحریک پاکر پھر سے شاعری کی طرف متوجہ ہوئے اور اتنی اہم کتاب   سامنے آئی ، پوری اردو برادری کو بطورعام اور سلفی برادری کو بطور خاص جناب اسحاق بھٹیؔ صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے کہ انھوں نے بقول ابن احمد نقویؔ  “وہی کام کیا جو پروفیسر آرنلڈ نے اقبال کے حق میں کیا” (زیرتعارف کتاب ص:۳۷)

کتاب کے اندر جماعت اہل حدیث کے چند بڑے علمی اور ادبی شخصیات کے تاثرات شامل ہیں، علامہ محمد اسحاق بھٹی، علامہ ابن احمد نقوی اور مولانا عبدالعلیم ماہرؔ تمام لوگوں نے اچھی اور بہتر رائے دی ہے، ساتھ ہی پیش لفط کا قدرے تفصیلی بیان خود صلاح الدین مقبول احمد کے قلم سے بہت اہم ہے۔ مولانا نے شعروشاعری سے متعلق نہایت ہی مدلل گفتگو کی ہے، ساتھ ہی اپنی شاعری کا پس منظر بھی بیان کیا ہے۔ مولانا کو خود اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کی بہت سی باتوں سے لوگوں کو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن بہر حال ان کا اپنا ماننا یہی ہے کہ شاعری کو بھی نشراسلام اور صحیح دعوت کی تبلیغ کا ذریعہ ہونا چاہیئے۔
اس مسدس کو مولانا الطاف حسین حالیؔ کی مشہور زمانہ “مدوجزر اسلام” (مسدّس حالی) کے طرز پر لکھا گیا ہے اورا س کے اندر علامہ اقبال کے “ شکوہ جواب شکوہ”  کی زمین اپنائی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر حالی اور اقبال زندہ ہوتے تواس کی داد ضرور دیتے۔ میری معلومات کی حد تک اب تک اس قدر محتاط اور صحیح اسلامی تعلیمات پر مبنی کوئی شاعرانہ کاوش کم ازکم اردو میں دستیاب نہیں۔ کلیات اقبال، کلام شبلی، کلیات اکبر الہ آبادی، شاہنامۂ اسلام، مسدس حالی اور دیوانِ گلشن تمام کے تمام اپنی حد درجہ اہمیت کے باوصف صحت فکر اور صحت پیغام میں اس مقام کو نہیں پہنچتے جس مقام کو “مسدس شاہراہ دعوت” کی رسائی ہے۔ وجہ ظاہر کہ وہ شبلی ہوں، اقبال ہوں، اکبرؔالہ آبادی ہوں، حالی ؔہوں یا کوئی اور'شاعر تو یقینا بہت بڑے تھے لیکن وہ علمی، تحقیقی اور فکری صحت کی سعادت( جو مولانا صلاح الدین مقبول احمد کو حاصل ہے،) سے اس درجہ فیضیاب نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کے یہاں ہمیں رطب ویابس بھی مل جاتے ہیں۔ “مسدس شاہراہ ِدعوت” کی یہ سب سے امتیازی خصوصیت ہے۔

 “مسدس شاہراہِ دعوت” مرقع ہے ایمانیات، رسالت، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مساعیِ جمیلہ، آئین اسلام، محاسن اسلام، اسلام پر مخالفین کے اعتراضات اور ان کے جوابات، محدثین کرام کی کاوشیں، اہلِ حدیث کے فضائل ومحاسن، فقہائےکرام کی مساعیِ جمیلہ، اور مسلکِ اہل حدیث کی جامعیت کا۔

 نہایت ہی مہذّب انداز میں مولانا نے تفصیل سے وجودِ باری تعالیٰ، الوہیت ِباری تعالیٰ اور خالقِ کائنات کی صفتِ خالقیت اور معبودیت کو ثابت کیا ہے، ملاحدہ کے انکارِ وجود ِخدائے واحد کی تردید کی ہے، ایمان، احسان اور توحید کو بیان کیا ہے، اللہ کے نبی ﷺ کی رسالت، آپ کے داعیانہ اوصاف، آپ کی دعوت کے اثرات، آپ کے فضائل ومناقب اور آپ کے مراتب کو بہترخراج تحسین پیش کیا ہے، آپ ﷺ کی رسالت اورذات سے متعلق مسلمانوں کو ان کی ذمہ داری یاد دلائی ہے، پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل ومساعی کاذکر کیا ہے، آئین ِاسلام میں قرآن وحدیث کی اہمیت بڑی خوبصورتی سے واضح کی ہے، محاسن اسلام کا قدرے تفصیلی ذکر ہے، دشمنان اسلام کے اعتراضات کے مسکت جوابات دیئے گئے ہیں، اسلام بزورشمشیر پھیلا، اسلام میں قصاص وحدود اور تعزیرات کے ظالم احکامات پائے جاتے ہیں، تعددزوجات کا عیب اسلام میں موجود ہے، اسلام عورتوں کو پابند کرتا ہے، یہ اور اس قسم کے مسائل کا علمی دلائل کے ساتھ نہایت جاذبِِ توجہ شاعری سے جائزہ لیا گیا ہے، پھر محدثین کرام کی کوششوں کو پیش کیا گیا ہے کہ انہوں نے کس طرح صحیح دین کی حفاظت کی اور کس طرح صحیح اور ضعیف حدیثوں کو تمیز کرکے دکھلایا اور اخیر میں مسلک اہل حدیث کی حقانیت اور اس کی جامعیت کے گیت گائے ہیں لیکن بہر حال فقہائے کرام کی کاوشوں کو نظر انداز کرنے کی غلطی نہیں کی گئی ہے اور بڑے والہانہ انداز میں ان کا ذکر خیر آیا ہے۔

اس طرح  “مسدس شاہراہِ دعوت”  ایک طرح سے پورے اسلام کو پیش کرنے کی مولانا صلاح الدین مقبول احمد کے زندگی بھر کے مطالعہ، علمی کاوش اور دعوتی تگ وتاز کا اظہار ہے ۔ پوری کتاب میں ان کی مختلف علمی کتابیں بولتی نظر آتی ہیں۔ بلفط دیگر اس مسدس کے اندر جہاں مولانا کی ساری علمی کاوشوں کی جھلک ہے وہیں خود مولانا بھی اس مسدس میں ظاہر ہوگئے ہیں۔

اس کتاب کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے اندر حواشی کے تحت قرآنی آیات، احادیث، اسلامی واقعات، مختلف علمی کتابوں کے حوالوں کے ساتھ، اور مشکل عربی الفاظ کی تشریح بھی شامل کردی گئی ہے ، جو کتاب کی معنویت میں اضافہ کا باعث ہے۔ یہ کتاب،الکتاب انٹرنیشنل نئی دہلی  سے شائع ہوئی ہے ۔ چھپائی اچھی ہے، کاغذ عمدہ ہے اور اس کے اندر کل ۱۵۵ صفحات ہیں۔ کتاب پر قیمت درج نہیں ہے۔
 “مسدس شاہراہ ِدعوت” اپنی مشمولات کے اعتبار سے بلاشبہ ایک حسین ترین تحفہ ہے پوری اردو برادری کے لئے اور اہل حدیثوں کے لئے تو اسے نعمتِ غیر مترقبہ ہی کہا جانا چاہئے البتہ اس کے فنی کمال سے متعلق جہاں مولانا اسحاق بھٹی صاحب نے یہ کہہ کر “ ایک عرصے سے چوں کہ انھوں نے اس طرف توجہ نہیں کی، اس لئے ذہن کچھ ہچکولے کھاتا دکھائی دیتا ہے ” اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے وہیں جناب ابن احمد نقوی صاحب نے بھی کچھ اسی قسم کا راستہ اپنایا ہے۔

وہ لکھتے ہیں:
“جو لوگ اس “مسدس ” میں فنی محاسن تلاش کرنے کی کوشش کریں گے انہیں تو مایوسی ہوگی، لیکن جن لوگوں کی نظر پاکیزگئ فکر ، جذبہ کے سوزوساز اور لہجہ کی سلاست پر ہے وہ یقینا اس “مسدس” کو پسند کریں گے”۔(شاہراہ مسدس دعوت ص:۳۹)

ذاتی طور پر میں جماعت اہل حدیث کے ان دونوں بزرگوں کا احترام کرتا ہوں، ان کے علمی اور ادبی قدوقامت کا اعتراف کرتا ہوں اور الحمدللہ ان کی تحریروں سے خوب خوب استفادہ کرتا ہوں، ان تمام کے باوصف یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ “مسدس شاہراہ ِدعوت” فنی محاسن سے یکسر خالی بھی نہیں ہے، فنی خوبیوں کے متلاشی مایوس نہیں ہوں گے، ہاں بعض غیر مانوس عربی الفاظ اُنہیں کھٹکیں گے ضرور ،لیکن موضوعات کے تقاضوں کو جب سامنے رکھا جائے گا تو اس احساس کی رو بھی مدھم پڑجائے گی۔ اس کے باوجود یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر مولانا موصوف نے اس طرف تھوڑی اور توجہ دی ہوتی اور بھی اچھی بات ہوتی۔

عام خیالاتِ عشق وعاشقی، جذبات دل کو نظم کرنا آسان ہوتا ہے لیکن علمی، فکری، تحقیقی موضوعات کو شعری پیکر میں ڈھال کر اس کی سلاست وروانی اور تاثیریت کی حفاظت کرلینا ہی بڑی بات ہے۔ “مسدس شاہراہ دعوت” کے اس پہلو کو نظر میں رکھا جائے تو اس کی اہمیت کا احساس مزید گہرا ہوجائے گا۔

اپنی بات ختم کرنے سے پہلے نمونے کے طور پر “مسدّس” کے چند بند کا قارئین کے سامنے پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے تاکہ خود قارئین بھی پتہ لگاسکیں کہ واقعتا یہ ہے کیا:


“ایمان ایک فطری تقاضا ” کے تحت مرقوم ہے:

رب پر ایماں ہے تقاضائے دلِ انسانی 
 رب کا عرفان ہے تزئین رہِ ایمانی
دین فطرت پہ ہے تخلیقِ جہانیِ فانی  
    نسل آدم ہے “اَلَستُ” کی سدا زندانی
طفل نوزادہ ہے اسلام کی فطرت کا امیں
منحرف کرتے ہیں ا س راہ سے خود گھر کے مکیں

دلائلِ وجود باری تعالیٰ کے تحت مولانا لکھتے  ہیں:

پُر فضا قصر ہے، جس کے ہیں حَسیں نقش ونگار    
اس کی تعمیر میں پوشیدہ ہے فنِّ معمار
بحروبر، ارض وسما، دشت وجبل، لیل ونہار     
 ان کی تنظیم کا نگراں نہیں کوئی فنکار؟
نظمِ عالم سے ہے، خود عقل پہ دہشت طاری
کیسے جھٹلائے گی آثار ِوجودِ باری

دیکھئے“ ڈارون ”کے نظریۂ  ارتقاء کی کیا خوبصورت پیرایے میں قلعی کھولی گئی ہے  :

اصلِ انسان “حقیقت میں یہ” بندر ہوگا
 پھر بتدریج وہی آج کا رہبر ہوگا
 “نظریہ” کیا ہے؟ یہ اِک  طفل کا دفتر ہوگا 
   اس “نظریہ” سے کوئی نظریہ بدتر ہوگا؟
“ارتقا” ختم ہوا، نسل کی آئی باری
وہ حقیقت نہ رہی آج کیوں جاری ساری؟

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے وجود پر کیا دلیل دی گئی ہے!!

دونوں ہی جنس کا ہوتا ہے حمل میں امکان 
       جنسِ تذکیر کی کرتا ہے تمنا انسان
ہوتی ہے پھر بھی ولادت یہ، خلافِ ارماں
  جاری تانیث میں ، تذکیر میں کس کا فرمان
کام خواہش کے جو برعکس ہوا کرتا ہے
رب کی قدرت کا ہی وہ عکس ہوا کرتا ہے

بعثت نبوی صلى الله عليه وسلم پر دیکھئے کیا اچھا بند آیا ہے    :

 تھی  یہی بعثت نبوی وہ تمنّائے خلیل  
       ہوگئی آشنا دربار گہ ِربِّ جلیل
ان کی آمد کے لئے موسیٰ وعیسیٰ ہیں دلیل
 اس پہ توریت جو ناطق ہے ، تو شاہد انجیل
عالم ِ کون ومکاں ماہی ِ بے آب رہا
بعثتِ پاک کو سارا جہاں بے تاب رہا

صحابہ کرام ؓ کا والہانہ ذکر ہے، ایک بند آپ بھی ملاحظہ کریں  :    

یہ سعادت تھی، نبوت کے وہ ہم راز رہے  
خود فراموش رہے، گوش بہ آواز رہے
عمر بھر دیں کے لئے محوِ تگ وتاز  رہے    
    مرضی ِ رب سے وہ ہر خیر کا آغاز رہے
ان کی ہر سمت ترقی نے قدم بوسی کی
اور قدرت نے بھی ان کے لئے جاسوسی کی

منکرینِ حدیثِ نبوی پر ،حجیت ِحدیث کے دلائل وبراہین کے بعد، کیا دلچسپ چوٹ کرتے ہیں :

سنتِ پاک معطّل ہو، یہ ارمان اس کا      
 مصدرِ دین ہو مشکوک ہو، یہ ایمان اس کا
دین لمبا ہوا سنت سے، یہ فرمان اس کا      
مختصر دین کا حامل ہے یہ قرآن اس کا
ہے ہدف، خود ہی وہ قرآن کی تفسیر کرے
اپنی آوارگیِ فکر کو تحریر کرے

اسلام کی جامعیت ووضاحت کا بیان ملاحظہ فرمائیں  :   
دین ودنیا کے مقاصد کی صراحت اس میں
جملہ اسرار ِشریعت کی وضاحت اس میں
طرز ِتعلیم بھی، اخلاق وعباد ت اس میں        
  اس میں آدابِ معیشت بھی ، سیاست اس میں
سہل ہے حضرتِ انسان کو اس کی تعمیل
شرعِ اسلام کی تنفیذ خرد کی ہے دلیل
آزادئ نسواں ، کرامتِ نسواں اور مغرب کے نعروں کی حقیقت کا بیان دیکھئے  : 
اپنے آفس میں رہے، صبح سے وہ شام کرے 
     بوس راضی رہے، وہ خود کو تہہ دام کرے
حالتِ حمل ورضاعت میں نہ آرام کرے
      اپنا بھی کام کرے، مرد کا بھی کام کرے
وہ کیا سمجھیں گے بھلا حمل ورضاعت کا مقام؟
یہ نہ ہوں کام ، تو دنیا میں نہیں کوئی کام!

مسلک اہل حدیث کی وضاحت کیا خوب فرمائی گئی ہے    :
سیرت وسنت وقرآن کی تفسیر ہے یہ  
   دین ودنیا کے مسائل کی بھی تحریر ہے یہ
خودعبادات وعقائد کی بھی تعبیر ہے یہ 
       دین اسلام کی اک دائمی تصویر ہے یہ
اس میں موجود ہے انسان کی فطرت کا نشاں
اس میں مضمر ہے میری قوم کی عزت کا نشاں

اللہ رب العزت سے اس عاجزی میں آئیے ہم سب شریک ہوجائیں    :
ظاہری باطنی ہر قسم کی حالت معلوم
    زندگی بھر کی تجھے پوری جہالت معلوم
چشم ودل کی تجھے ہر ایک رذالت معلوم  
تجھ سے مخفی نہیں کچھ، پوری وکالت معلوم

آسرا کچھ بھی نہیں، تیری وکالت کے سوا
کوئی چارہ بھی نہیں، تیری کفالت کے سوا
الغرض پوری کی پوری کتاب انتخاب ہے، کم ازکم ہر ایک اہل حدیث مسلمان کے پا س اسے تو ضرور ہی ہونا چاہیئے، پوری کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کے بعد صلاح الدین مقبول احمد مصلح ؔ نوشہروی کو مبارکباد دینے کو دل کرتا ہے   :
اللہ کرے زور بیاں اور زیادہ     
کتاب کے اندر “املا ” کی بعض غلطیاں راہ پاگئی ہیں، امید ہے کہ آئندہ ایڈیشنوں میں ان کی طرف توجہ دی جائے گی ،جیسے “ان کی” کو“ انکی ” لکھنا اور اس طرح کی دوسری املا کی غلطیاں ، کبھی کبھار ان سے بھی مطلب الجھ جاتا ہے۔


شعلوں سے محبت اُس نے کيا

 
                                                                     صفات عالم محمد زبير تيمي

وہ ايک سليم الفطرت انسان تھا.... اپنے معاشرے کی بُرائيوں سے بےزار ہوکر کسی پہاڑی گوشہ ميں تنہائی اختيار کئے ہوا تھا ....شايد کسی غيبی ہدايت کا منتظر تھا جو اُسے منزل کا پتہ دے سکے .... اس نے اپنی پيشانی کی آنکھوں سے انسانيت کو سسکتے بلکتے اور وحشيانہ زندگی گزارتے ہوئے ديکھا تھا ....اس نے اپنے سامنے انسانيت کی کشتی کو بيچ بھنور ميں ہچکولے کھاتے ہوئے ديکھا تھا ....اس سے رہا نہ جا رہا تھا....اس کا دل تڑپ رہا تھا .... مچل رہا تھا کہ کوئی نا خدا مل جائے جو اس نَيا کو ساحل سمندر لگائے .... اچانک بنی نوع انسان پر رحم وکرم کی بارش ہوئی اور اسی انسان کو مسيحابنا ديا گيا ۔ اب کيا تھا ؟ کراہتی انسانيت کو مسيحا مل چکا تھا ....وہ زخموں پر مرہم ڈالنے کا بيڑا اٹھا ليتا ہے ، دہکتی اور سلگتی ہوئی آگ ميں کودنے والوں کا کمر پکڑ پکڑ کر نکال رہا ہے ، کيا دن اور کيا رات ہروقت اُسے انسانيت کی فکر ستا رہی ہے ، اچھے اخلاق کی تعليم ديتا ہے ، بُرے اخلاق سے روکتا ہے ،گلی، کوچہ اور بازار ہر جگہ ہانکے پکارے بولتا جا رہا ہے ” اے لوگو! اللہ والے بن جاؤ کامياب ہوجاؤگے .... “۔ پاکيزہ نفوس اس کی دعوت پر لبيک کہتی ہيں ، لوگ ساتھ آتے جا رہے ہيں اور قافلہ بنتا جا رہا ہے .... ليکن بُرا ہو جاہلی تعصب اور اندھی تقليد کا جس نے اکثريت کو راہ حق کا مزاحم بنا ديا، وہ ہاتھ دھوکر اس کے پيچھے پڑجاتے ہيں ، اس کے کاز کو ناکام بنانے کے ليے ہر حربہ استعمال کرتے ہيں ....
يہ ايک دن اور دو دن کا معاملہ نہ تھا .... مسلسل اکيس سال تک اُسے مشق ستم بنايا، اُسے پاگل ،کاہن اور ساحر کہہ کر مطعون کيا ، اس کے گردن پر اونٹ کی اوجھڑياں ڈالیں ، اس کے راستے ميں کانٹے بچھائے ، اس کے گھر کے دروازے پر عفونتيں پھينکیں ، اس کے ماننے والوں کو روح فرسا تکليفيں دیں ،اس کا معاشرتی بائيکاٹ کيا ، ايک موقع سے آواروں نے اس پر ايسی سنگ باری کی کہ پورا بدن لہولہان ہوگيا اور بيہوش ہوکرگرپڑا ، اس کے قتل کی سازشيں کیں، اسے اپنے جانثاروںسميت وطن عزيز کو خيربادکہنے پرمجبورکيا ، ملک بدرکرنے اورانکی جائدادوں کو ہڑپ لينے کے باوجود انہيں چين سے رہنے نہ ديا اور مسلسل آٹھ سال تک انکے خلاف محاذآرائیاںقائم رکھیں۔اب تک اکيس سال کا طويل عرصہ گذر چکا ہے اور حالات بدستور پُرآشوب ہيں ، ليکن اکيس سال کے بعد وہی انسان جب اپنے دس ہزار جانثاروں کے ہمراہ اپنے مادر وطن ميں فاتح کی حيثيت سے داخل ہوتا ہے تو سارے دشمنوں کو اپنے سامنے پاتا ہے ، اکيس سال تک دہشت گردی مچانے والوں ، امن وامان کا خون کرنے والوں اور اپنے جانثاروں کے قاتلوں کو اپنے قبضہ ميں پاتا ہے ، اگروہ چاہتا تو اُن مجرمين کو کيفرکردار تک پہنچا سکتا تھا ليکن قربان جاؤ اس انسان کے رحم وکرم پرجس نے اپنے جانی دشمنوں کے حق ميں عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمايا : کسی سے کوئی شکايت نہيں آج تم سب آزاد ہوسبحان اللہ ! يہ کيسا انسان ہے جو گالياں سن کر دعائيں دے رہا ہے، پتھر کھا کر گلدستہ پيش کررہاہے ، خون کے پياسوں کو جام حيات پلارہاہے ؟ جی ہاں! يہ ہيں ہمارے نبی رحمت عالم ، تاجدارمدينہ اورمحسن انسانيت کی ذات مبارکہ مطہرہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّم وَبَارِک عَلَيہِ جو اپنے سينے ميں سارے جہاں کا درد رکھتے تھے۔ جن کا فيض انسان تو کجاحيوان و نباتات اور جمادات تک کے ليے عام تھا ۔ يہی وہ رحم وکرم تھا جس نے اسلام کے ليے پوری دنيا ميں جگہ بنايا چنانچہ فتح مکہ جس ميں آپ کے جانثاروں کی تعدادمحض دس ہزار تھی‘ دو سال کے بعد آپ حجة الوداع کے ليے نکلتے ہيں توشمع اسلام کے پروانوں کی تعداد ڈيڑھ لاکھ تک پہنچ جاتی ہے ۔ پھر وہ دن آيا کہ ساری تاريکياں کافور ہو گئيں ، ہدايت کا چراغ جلنے لگا ، انسانيت اسلام کے سايہ ميں پناہ لينے لگی اور چند ہی سالوں ميں اسلام کا پرچم مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک لہرانے لگا ۔آج انسانيت جس پُرفتن دور سے گذر رہی ہے ،جس طرح معاشرے سے امن وامان رخصت ہوتا جا رہا ہے اورہرسُودہشت گردی کی فضا چھائی ہوئی ہے ايسے کشيدہ حالات ميں شديد ضرورت ہے کہ ہم بحيثيت مسلمان رحمت عالم صلي الله عليه وسلم کی زندگی کا مطالعہ کريں کيونکہ اللہ تعالی نے آپ کی پوری زندگی کو ہمارے ليے اسوہ حسنہ قرار ديا ہے اورہميں ساری مخلوق کے ليے رحمت کا پرتوبناياہے ۔ پھرعام انسانی نقطہ نظرسے بھی سيرت نبوی کے مطالعہ کی سخت ضرورت ہے کيونکہ آج دنيا جن عالمی مسائل ميں گھری ہوئی ہے اُن کا علاج بھی نظامِ مصطفوی ميں پوشيدہ ہے ۔ جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے محمد صلي الله عليه وسلم نے محض تئيس سال کی مختصر مدت ميں مردہ انسانوں کے اندر زندگی کی روح پھونک دی تھی اور زندگی کی کاياپلٹ دی تھی آج بھی وہ دورآسکتاہے بشرطيکہ ہم شريعت محمدی کی بالا دستی کو قبول کرنے کے ليے تيار ہوجائيں ۔

الأربعاء، نوفمبر 30، 2011

هجرت اور هجرى سن كي تقويم

Add caption

شیخ صلاح الدین مقبول احمد کی”مسدس شاہراہ دعوت“

 صفات عالم محمد زبير تيمي

کویت میں مقیم برصغیر کے عظیم اسکالر اورجید عالم دین فضیلة الشیخ صلاح الدین مقبول احمد صاحب حفظہ اللہ کو الله پاك نے اهل وطن سے پہلے اہل كويت ميں بڑی پزيرائي عطا كرركهى ہے- كويت ميں ان كے شاگردوں كا حلقہ بڑا وسيع ہے جن ميں سے بعض بڑے بڑے عہدوں پر فائز هيں، ہمارا تجربہ ہےكہ علماء كى صحيح قدرومنزلت عرب ہى پہچانتے ہيں،ہم ايك  عرصہ سے آپ كوعربی زبان میں محقق ، مؤلف ، داعی اور اسکالرکی حیثیت سے توجانتے تھے تاہم یہ معلوم نہیں تھا کہ آپ عربى اور اردو زبان کے قادرالکلام شاعر بھی ہیں، عربى زبان ميں ہم نے آپ كا ايك مدحيہ كلام پڑھا تھا لیکن اردو زبان کی شاعری کا علم اس وقت ہوا جب ہم نے علامہ محمد اسحاق بھٹی صاحب کی کتاب ”دبستانِ حدیث“ پڑھى-
یوں توبچپن سے ہی  آپ کا مزاج شعرگوئی کی طرف مائل تھا ، لیکن اعلی تعلیم کے لیے مدینہ یونیورسٹی جانے لگے تو  آپ نے اللہ سے دعا کی کہ  آپ کی شعرگوئی کا جذبہ ختم ہوجائے اوریہ دعا قبول ہوئی، اللہ جزائے خیر دے برصغیرکے معروف مؤرخ علامہ محمد اسحاق بھٹی صاحب کوکہ انہوں نے اپنی کتاب ”دبستانِ حدیث“ میں موصوف کی زندگی کے بعض گوشوں کو اجاگر کرتے ہوئے اس ضمن میں ان کے ذوق شاعری پرتبصرہ کیا اور انہیں عربی کے ساتھ اردو نظم میں بھی خدمات انجام دینے کی تاکید کی ۔ پھرکیا تھا ،مذکورہ کتاب کے منظرعام پر آتے ہی موصوف کے ذوق شاعری نے دوبارہ سراٹھایا اورچند مہینوں کے اندر”مسدس شاہراہ دعوت“ کے پیکر میں ڈھل کردنیا کے سامنے جلوہ گرہوگئی ۔
مسدس كے منظرعام پرآتے هى علمى حلقون نے اسے سراہا اور ستائشی کلمات لکھےجن میں سے معر وف ادیب اورصحافی سہیل انجم كا ایک تبصرہ بھی روزنامہ ہمارا سماج میں شائع ہوا تھا، اس مسدس پر تبصرہ کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں:
 278 مسدس یعنی 834 ابیات پر مشتمل یہ کتاب اسلامی افکار کا ایک حسین مجموعہ ہے ۔ پاکیزہ شاعری کی اہمیت وضرورت پرزوردیتے ہوئے شيخ موصوف نے جن موضوعات کو نظم کے لیے انتخاب کیا ہے وہ خالص اسلامی ہیں مثلاً ایمانیات، صفات باری تعالی، رسالت ،صحابہ کرام ، محاسن اسلام ،اسلام پر مخالفین کے اعتراضات اوران کے جوابات ، محدثین کی مساعی جمیلہ ، اہل حدیث کے فضائل ومحاسن اورفقہائے کرام اور ان کی مساعی جمیلہ وغیرہ ۔
مسدس پر تین بڑی شخصیات علامہ محمد اسحاق بھٹی ،علامہ ابن احمد نقوی اورمولانا عبدالعلیم ماہر کے اعتراف نامے اورعلمی تبرکات نے اس کی اہمیت کودوبالا کردیا ہے ۔ 
سهيل انجم مزيد لکھتے ہیں: ”اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانائے موصوف نے ایک طویل عرصے تک شاعری ترک کرکے اپنے ساتھ ناانصافی کی ہویا نہ کی ہو ‘ دنیائے شعروادب کے ساتھ  نا انصافی ضرور کی ہے“۔

السبت، نوفمبر 26، 2011

حقیقت خرافات میں کھوگئی

حقیقت اور خرافات دوالگ الگ اورمتضاد چیزیں ہیں جن کا بیک وقت ایک ساتھ اکٹھا ہونا اجتماع ضدین ہے ۔ البتہ حق وباطل کی معرکہ آرائی میں وقتی طورپر حقیقت خرافات میں کھوجاتی ہے ۔ ایسا ہردورمیں ہوتا آیا ہے اور آج بھی ہورہا ہے ، اسلام سب سے پہلا مذہب ہے اوراس کی سب سے پہلی دعوت توحید ہے اس کے باوجود شیاطین جن وانس نے ہردورمیں انسانوں کو شرک کا آلہ کاربنائے رکھا اورحقیقت خرافات میں کھوتی رہی، اسی حقیقت کی دبیز تہہ سے پردہ اٹھانے کے لیے ہردورمیں انبیائے کرام مبعوث کئے گئے ۔لاکھوں انبیائے کرام کی دعوت کے باوجود رحمت عالم ا کی بعثت کے وقت ساراعالم کفروبت پرستی سے جوجھ رہا تھا محض اس بنیاد پر کہ حقیقت خرافات میں کھوچکی تھی ،ہمارے آقا نے اپنی نبوت کی23سالہ زندگی میں حقیقت اورخرافات کا ایسا واضح تصور پیش کردیا کہ اس کی رات بھی دن کی مانند ہوگئی لیکن بُرا ہوجہالت اورہوائے نفس کا کہ مرورایام کے ساتھ یہ امت اپنے نبی کی تعلیمات سے دور ہوتی گئی ، امت کا ایک بڑاطبقہ گمراہی کا شکار ہوگیا پھر حقیقت کی جگہ پر خرافات کوفروغ ملنے لگا اورروایات کی گرم بازاری ہوگئی۔ آج برصغیرپاک وہند میں ایسے بے شمار اعمال وتصورات پائے جاتے ہیں جوحقیقت میں ایجاد بندہ ہیں لیکن دین کے نام پر مسلم معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں۔
ابھی ہمارے سروںپر محرم الحرام کا مہینہ سایہ فگن ہے ، جوحرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جس میں بالخصوص اللہ پاک نے اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے منع کیا ہے ، (سورة التوبة18) جس میں ہمارے حبیب کی سنت یہ ہے کہ بکثرت روزے کا اہتما م کیاجائے خاص طورپر عاشوراء کے دن اس تاریخی واقعے کو تازہ کرتے ہوئے روزے رکھے جائیں جس دن اہل حق فتح وکامرانی سے سرخروہوئے اوراہل باطل کی شب تاریک کا خاتمہ ہوا، جس دن موسی علیہ السلام کوفرعون کے چنگل سے نجات ملی تھی اورفرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت دریائے نیل میں غرقاب ہوکرہمیشہ کے لیے عبرت کاسامان بنا تھا ، چنانچہ ہردورمیں اللہ والوں نے اس دن روزہ رکھنے کا اہتمام کیا یہی حقیقت ہے عاشورہ کی اوربس ۔
لیکن اللہ کی مشیت ہوئی کہ سن 61 ھ میں عاشورہ ہی کے دن ایک جگرخراش اوردل دوز حادثہ پیش آیا یعنی جگرگوشہ بتول اورنواسہ رسول سیدنا حسین  رضى الله عنه میدان کربلا میں شہید ہوکر زندہ وجاوید بن گئے ۔  یہیں سے تاریخ نے ایسا رخ بدلا کہ پچھلی ساری حقیقتیں ذہنوں سے اوجھل ہوگئیں اوراس امت کا ایک طبقہ روایات میں کھوکر رہ گیا ، چنانچہ اگرایک طرف قاتلان حسین رضى الله عنه نے اچھے ملبوسات زیب تن کرنے ، اچھے کھانے پکانے اورسرمہ لگانے کی بدعت ایجاد کی تودوسری طرف سیدناحسین رضى الله عنه سے محبت کا دعوی کرنے والوں نے اس دن کو رنج والم کا دن قرار دیا ۔ بدقسمتی سے اہل سنت کے جاہل عوام میں یہ تصورات نفوذ کرگئے ، اب ان میںکا ایک طبقہ عاشورہ کے سلسلے میں نبوی طریقہ کو فراموش کرکے بدعی طریقہ کا قائل اورعامل ہے حالانکہ سنت کا طریقہ یہ تھا کہ اس دن روزے رکھے جائیں
حقیقت خرافات میں کھوگئی     یہ امت روایات میں کھوگئی
اہل بیت سے محبت ایمان کی علامت ہے ، اورشہادت حسین  رضى الله عنه کے دردناک اورکربناک واقعے کوسن کرامت مسلمہ کا ہرفرد بے چین اورمضطرب ہوجاتا ہے ، آنکھیں اشک باراوردل بے قرار ہوجاتا ہے لیکن ایک مسلم پر لاکھ پریشانیاں آجائیں وہ شرعی حدود کو تجاوز نہیں کرسکتا ،شریعت نے مصیبت کے وقت صبر کرنے کا حکم دیا ہے اورسینہ کوبی اورماتم وشیون سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے (بخاری ومسلم) پھرشریعت نے میت پر سوگ منانے کی مدت تین دن ہی رکھی ہے ، سوائے اس عورت کے جس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہو، کیونکہ وہ چارمہینے اوردس دن سوگ منائے گی ۔(بخاری ومسلم) حالانکہ شہادت حسین کوایک زمانہ بیت گیا آخر اب تک نوحہ کرنا اورماتم منایا کیوں کر درست ہوسکتا ہے ؟ اورتاریخ میں محض شہادت حسین کا ہی واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ ان سے پہلے بھی سیدنا حسین رضى الله عنه کے ابّاشیرخدا علی رضى الله عنه نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کردئے گئے جوسب کے نزدیک حضرت حسین رضى الله عنه سے افضل تھے ، ان سے پہلے تیسرے خلیفہ عثمان ذوالنورین رضى الله عنه کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آیا جو حضرت علی رضى الله عنه سے بہرحال افضل تھے، ان سے پہلے خسر رسول حضرت عمرفاروق رضى الله عنه کی شہادت کا عظیم سانحہ اسی محرم کی یکم تاریخ کوپیش آیا لیکن ان سب کے یوم شہادت کوماتم کا دن نہیںبنایاگیا ۔
زندہ قومیں ہمیشہ اپنے نئے سال کا استقبال عزم اورحوصلہ کے ساتھ کرتی ہیں، اپنی غلطیوں پر رونے اورماتم کرنے کی بجائے ہمت اوراستقلال کے ساتھ آنے والے سال کے لیے پلاننگ کرتی ہیں۔ یہی دانشمندانہ قدم ہے ورنہ ماضی کی غلطیوں پر آنسو بہانا اورسال کا آغاز ہی نوحہ وماتم سے کرنا شکست خوردہ قوموں کی پہچان ہے ۔ افسوس کہ اہل سنت کی ایک اچھی خاصی تعداد اس دن روزہ رکھنے کی بجائے تعزیہ داری اورنوحہ خوانی کرتی اوراس طرح کے جلوسوں میں تماشہ بیں کی حیثیت سے شریک ہوتی ہے۔ آج ضرورت ہے کہ ہمارے خطباءاورواعظین عوام الناس کے سامنے اس مناسبت سے موسیٰ علیہ السلام اورفرعون کا واقعہ بیان کریں، ہجرت مصطفی اوراس سے حاصل ہونے والے اسباق پر گفتگوکریں، محرم الحرام کی فضیلت پر روشنی ڈالیں اورواقعہ کربلا میں جورنگ آمیزی کی گئی ہے اس کی حقیقت سے لوگوں کوآگاہ کریں تاکہ حقیقت بے غبار ہوکرسب کے سامنے آسکے۔


السبت، نوفمبر 05، 2011

سمو الأمير سلمان الوفاء- من إمارة الرياض إلى وزارة الدفاع!!!!

لقد أصدر خادم الحرمين الشريفين الملك عبد الله بن عبد العزيز آل سعود حفظه الله ورعاه مساء يوم السبت 9/12/1432هـ يوم عرفةالعظيم قراراً سامياً يقتضي تعيين صاحب السمو الملكي الأمير سلمان بن عبدالعزيز آل سعود وزيراً للدفاع خلفاً لصاحب السمو الملكي الأمير سلطان الخير رحمه الله.
والأمير سلمان حفظه الله من أبرز الأمراء الذين أوكلت لهم مهام كبيرة,وله إسهامات كبيرة ودور بارز في إدارة دفة أركان البلاد في المهام التي أوكلت له.
والأمير سلمان من مواليد 5 شوال 1354 هـ / 31 ديسمبر 1935م هو الابن الخامس والعشرين من أبناء الملك عبدالعزيز آل سعود الذكور من زوجته الأميرة حصة بنت أحمد السديري.
وقد بدأ دخول الأمير سلمان العمل السياسي في 11 رجب 1373 هـ الموافق 16 مارس 1954م عندما عُين أميراً لمنطقة الرياض بالنيابة عن أخيه سمو الأمير نايف بن عبدالعزيز, وفي 25 شعبان 1374 هـ الموافق 18 أبريل 1955م عُين أميراً لمنطقة الرياض, وحتى 7 رجب 1380 هـ الموافق 25 ديسمبر 1960 عندما استقال من منصبه, وفي 10 رمضان 1382هـ الموافق 4 فبراير 1963م أُعيد تعيينه أميراً لمنطقة الرياض، واستمر في منصبه حتى عين وزيراً للدفاع.
وعُرف الأمير سلمان بحبه ودعمه للعمل الخيري والإنساني, ويترأس عدداً كبيراً من الجمعيات والهيئات منها :
رئيس اللجنة التنفيذية العليا لتطوير الدرعية.
رئيس مجلس إدارة مكتبة الملك فهد الوطنية.
رئيس مجلس إدارة دارة الملك عبدالعزيز.
أمين عام مؤسسة الملك عبدالعزيز الإسلامية.
المؤسس والرئيس الأعلى لمركز الأمير سلمان لأبحاث الإعاقة.
الرئيس الشرفي لمركز الأمير سلمان الاجتماعي.
رئيس شرف مجلس إدارة شركة الرياض للتعمير.
رئيس جمعية البر في الرياض.
الرئيس الفخري للجنة أصدقاء المرضى بمنطقة الرياض.
الرئيس الفخري للجنة أصدقاء الهلال الأحمر بمنطقة الرياض.
الرئيس الفخري لمدارس الرياض.
رئيس مشروع ابن باز الخيري لمساعدة الشباب على الزواج.
رئيس مجلس إدارة مشروع الأمير سلمان للإسكان الخيري.
رئيس مجلس إدارة مؤسسة الرياض الخيرية للعلوم.
رئيس الجمعية الخيرية لرعاية الأيتام بمنطقة الرياض.
رئيس جمعية رعاية مرضى الفشل الكلوي بمنطقة الرياض.
الرئيس الفخري لمؤسسة الشيخ عبدالعزيز بن باز الخيرية.
الرئيس الفخري للجمعية التاريخية السعودية.
الرئيس الفخري للجمعية الخيرية لتحفيظ القرآن في منطقة الرياض.
الرئيس الفخري لجمعية المكفوفين الخيرية بمنطقة الرياض.
وتولى سموه الكثير من المهام في مجالات الإغاثة ودعم مجهودات حربية ورئاسة لجان عليا خيرية وإنسانية منها :
رئيس لجنة التبرع لمنكوبي السويس عام 1956.
رئيس اللجنة الرئيسة لجمع التبرعات للجزائر عام 1956.
رئيس اللجنة العليا الشعبية لمساعدة أسر شهداء الأردن عام 1967.
رئيس اللجنة الشعبية لمساعدة مجاهدي فلسطين عام 1967.
رئيس اللجنة الشعبية لإغاثة منكوبي باكستان عام 1973 وذلك في أعقاب الحرب بين الهند وباكستان.
رئيس اللجنة الشعبية لدعم المجهود الحربي في مصر وسورية في أعقاب اندلاع حرب أكتوبر 1973.
رئيس الهيئة العامة لاستقبال التبرعات للمجاهدين الأفغان عام 1980 وذلك في أعقاب الغزو السوفييتي لها.
رئيس اللجنة المحلية لإغاثة متضرري السيول في السودان عام 1988.
رئيس اللجنة المحلية لجمع التبرعات لجمهورية اليمن الديمقراطية الشعبية عام 1989.
رئيس اللجنة المحلية لتقديم العون والإيواء والمساعدة للكويتيين إثر الغزو العراقي لدولة الكويت عام 1990.
رئيس اللجنة المحلية لتلقي التبرعات للمتضررين من الفيضانات في بنجلاديش عام 1991.
رئيس الهيئة العليا لجمع التبرعات للبوسنة والهرسك عام 1992.
رئيس الهيئة العليا لجمع التبرعات لمتضرري زلزال مصر عام 1992.
الرئيس الأعلى لمعرض المملكة بين الأمس واليوم، الذي أقيم في عدد من دول العالم وذلك بالفترة من عام 1985 إلى عام 1992.
رئيس اللجنـة العليا لجمع التبرعات للانتفاضة الفلسطينية الثانية بمنطقـة الرياض عام 2000.
رئيس اللجنة العليا واللجنة التحضيرية للاحتفال بمرور مائة عام على تأسيس المملكة العربية السعودية، والتي أقيمت في 5 شوال 1419 هـ.
وحصل الأمير سلمان على العديد من الأوسمة والجوائز من أبرزها :
وشاح الملك عبدالعزيز من الدرجة الأولى.
وسام بمناسبة مرور 2000 عام على إنشاء مدينة باريس عام 1985.
وسام الكفاءة الفكرية من المغرب عام 1989.
جائزة من جمعية الأطفال المعوقين في السعودية للخدمة الإنسانية عام 1995.
وسام البوسنة والهرسك الذهبي؛ لدعمه وجهوده لتحرير البوسنة والهرسك عام 1997.
درع الأمم المتحدة لتقليل آثار الفقر في العالم عام 1997.
وسام نجمة القدس من فلسطين عام 1998.
وسام سكتونا من الفلبين عام 1999.
الوسام الأكبر من السنغال عام 1999.
وسام الوحدة اليمنية من الدرجة الثانية من الجمهورية اليمنية عام 2001.
جائزة البحرين للعمل الإنساني لدول مجلس التعاون الخليجي في فبراير 2007.
الحصول على زمالة بادن باول الكشفية من قبل كارل السادس عشر غوستاف ملك السويد، وذلك في فبراير من عام
أعان الله سموه في ما أنيط به ووفقه لكل خير وحفظ به البلاد المباركة بلاد الحرمين الشريفين .

الخميس، نوفمبر 03، 2011

سليمان الدوسري رداً على القرضاوي:قيادة السيارة ليست قضية المسلمين ياشيخ!!!!

يبدو أن شيخنا يوسف القرضاوي اختلطت عليه المسائل كثيرا، فأصبح لا يفرق بين القضايا العامة التي تهم المسلمين، والقضايا الخاصة التي هي من شؤون هذا المجتمع وذاك. هذا الخلط، الذي آمل ألا يكون متعمدا ومقصودا، بان واتضح في الرسالة التي قال القرضاوي، عبر موقعه الإلكتروني، إنه أرسلها لخادم الحرمين الشريفين الملك عبد الله بن عبد العزيز، يدعوه فيها إلى السماح للمرأة بقيادة السيارة، ولعل أول سؤال يتبادر للذهن هنا: هل قيادة المرأة للسيارة أو عدم قيادتها، من القضايا المصيرية للمسلمين حتى يطل فيها القرضاوي أو غيره طالما أنها لا تخصهم من قريب أو بعيد؟
الكلام حول قضية قيادة المرأة الجدلية أشبع نقاشا، ولا يزال، ولا يمكن سوى القول إن هذه القضية تحديداً رفعت من سقف النقاش والاختلاف المحمود في قضايا كانت شبه حساسة لا يفضل التعرض لها، غير أن الجديد هو تدخل الشيخ القطري ـــ المصري في قضية محلية بحتة، حتى لو سعى لإلباسها ثوب الدين عندما قال إن القيادة أصلها حلال إلا إذا جاء ما يحرمها بنص صريح، إذن القرضاوي يصر على تحوير القضية من خلاف مجتمعي إلى خلاف فقهي، بل إن تدخل القرضاوي بهذه الطريقة، يسيس القضية ويبعدها عن أصلها وحقيقتها. أرجو ألا يكون هذا هو هدف الشيخ في تدخله هذا!
لا جدال أن دعوة الشيخ القرضاوي بهذه الطريقة الفجة في أمور داخلية لدولة لا ينتمي لها، وفي هذا التوقيت بالذات، تشعل تكهنات بشأن ارتباط رئيس الاتحاد العالمي لعلماء المسلمين بأجندة ''الإخوان المسلمين''، هذه الجماعة التي لا يمكن لأي مراقب إلا ملاحظة هجومهم المنظم، وعبر كل المحاور، ضد السعودية، لذا لم يكن مناسبا للقرضاوي أن يدخل في هذه اللعبة السمجة، أضف إلى ذلك أن دعوة القرضاوي لا تختلف عن دعوة وزيرة الخارجية الأمريكية هيلاري كلينتون في القضية ذاتها، بل ربما كانت الوزيرة الأمريكية أكثر كياسة عندما أكدت أن هذه قضية داخلية والمجتمع هو من يقرر المناسب بها.
أما إذا أحسنّا النية واعتبرنا دعوة القرضاوي بريئة تماماً، فلا نفهم لماذا أصر الشيخ على أن تكون دعوته علنية، وهنا لا نجد غضاضة من التساؤل: لماذا أغفل القرضاوي كثيراً من القضايا الجدلية بل التي هي من الكبائر والمحرمات المتفق عليها، وتجري كل يوم وليلة على بعد أمتار من مقر سكنه في العاصمة القطرية، واختار الدخول في قضية محلية لمجتمع بعيد عنه كل البعد، هل أعطانا فضيلته سبباً موضوعياً وحيداً لهذا التناقض حتى نحسن النية بدلا من الدخول في تفسيرات لا تليق بمكانته واحترامه اللذين يكنهما له الكثيرون، وأولهم مسؤولو هذا البلد؟
تصرُّف القرضاوي ربما كان سيمر مرور الكرام لو صدر من غيره ممن لا مكانة لهم بين علماء المسلمين، أما وقد اختار الشيخ أن يكون هو لا غيره مَن يقوم بذلك، فهو هنا اختار أحد أمرين لا ثالث لهما، يريد من خلالهما تسجيل هدف وحسب، الأول اعتقاده أنه بات من المكانة والسلطة والقوة، حيث يحق له التدخل في أي قضية كانت، والثاني: أن يتكسب شعبيا عندما يعزف على وتر مطلب شعبي، وفي الحالتين لن يخسر أبدا، لكننا نقول للشيخ الفاضل: دعوتك لا تليق بك ولا للبلد الذي أحسن استقبالك كلما حللت ضيفا عليه، وأهدافك لن تحقق أيا منها. عُد عن هذا يا شيخ، فالتناقضات لا تليق بمكانتكم، والسعودية لا تستحق هذه المزايدة المكشوفة!
المصدر: المختصر للأخبار يوم الخميس 7/12/1432هـ -3/11/2011م العدد3708