الاثنين، سبتمبر 29، 2014

پیغام محبت



                                       ڈاکٹرعبد المعطي الدالاتي                                                
 ترجمانی: سیف الرحمان تیمی
                             يَحار القلبُ في ذكراكْ*** فيسألني متى ألقاكْ
    تیری یاد میں دل سرگرداں ہے, ہر آن یہی پوچھتا ہے کہ تیری بہار وصال کب ہے 
                              أصبّرهُ .. وأعذرهُ *** فمن يهواكَ لا ينساكْ
میں اسے منا تا ہوں, بھلاتا ہوں,جو تیرا شیفتہ ہووہ بھلا تجھے کیسے بھلا پائے
                             يحار القلبُ والفكرُ *** يحار اللحن والشعرُ
    دل دماغ حیران ہیں, سخن کو تاب گویائی نہیں, شعرکا دم ٹوٹا جاتا ہے
                          رسولَ الله ما السرُّ *** مُنى المليار في لقياكْ!
  رسو ل اللہ آخر راز کیا ہے کہ لاکھوں لوگ ایک تیرے دیدار کے فرط شوق میں بے تاب ہیں!
                            رسولَ الله يا عمري*** ألا يا حامل الذكرِ
       میری جان آپ پہ فدا اے اللہ کے رسول,اے صاحب قرآن ,اے فرقان
                             بقلب زجاجة العطرِ***حروفٌ تبتغي نجواكْ
مشک وعنبر سے باوضو ہو کر حروف والفاظ کے دل تجھ سے محو سرگوش ہونا چاہتے ہیں
                             رسولَ الله في قلبي *** رسالاتٌ من الحبِّ
میرا دل رسول اللہ کامسکن, محبت کے سارے پیغام اور الفت کے تمام سوغات انہی کے لئے ہیں
                              هنا في آخر الركبِ *** محبٌ قصدُه رؤياكْ 
یہاں کارواں کے پیچھے ایک ایسا حبیب بھی ہے جو محبوب کے شوق دیدارمیں بے قرار ہے
                                                   ***
 


عالمی صحافت کے اثرات اور نسل نو کی ذہنی تربیت

بسم اللہ الرحمان الرحیم


سیف الرحمان حفظ الرحمان تیمی
جامعہ اسلامیہ , مدینہ منورہ

صحافت اور میڈیا ایک ہی چیز کے دو الگ الگ نام ہیں, دونوں اس ناحئے سے برابر ہیں کہ دونوں کی سنگینی ,وقتی اثرپزیری کے دائرہ کو پھلانگ کر تا دیر کی فکری اور ذہنی تبدیلی کی حد تک پہنچ جاتی ہے,صحافت میڈیا کی تمام صنفوں میں اس اعتبار سے سب سے قدیم ہے  کہ میڈیا کی تاریخ ,صحافت یعنی اخبار ہی سے شروع ہوتی ہے جسے ہم جدید مانوس لفظ میں پرنٹ میڈیا کہتے ہیں,
خبر اپنے اثر کے معاملے میں تب بھی اسی قدر مضبوط اور بے جوڑ تھا جب اس نے ابھی ڈگ بھرنے ہی شروع کئے تھے اور آج بھی اس کی بلا خیز تاثیر اسی طرح برقرار ہے بلکہ آج کے ماحول میں یہ بلا خیزی بسااوقات قیامت خیزی میں بھی بدلتی دیکھی جاتی ہے,صحافت اگرچہ بظاہر ایک معمولی سا علمی مشغلہ معلوم ہوتا ہے لیکن اس پیشہ کو اختیار کرنے والے غیر معمولی ذمہ داریوں کےحامل ہوتے ہیں, کہتے ہیں کہ انسانی فکر کے تہ خانے میں چھپے ہوئے انقلاب کو اپنی آنکھوں کے سامنے دوڑتا دیکھنا چاھتے ہو تو اخبار نکالو اور انکو گھر سے باہر سڑکوں پر جاں بکف نکلتے دیکھو,عصر حاضر میں صحافت کی اہمیت اگر اس وجہ سے کسی کو گھٹتی معلوم ہو کہ ساری تاثیرات الکٹرانک میڈیا نے لے لیا ہے تو یاد رکھنا چاہئے کہ الکٹرانک میڈیا جس میں ٹی وی , ریڈیو,انٹرنیٹ اور اسکے مختلف شوسل سائٹس شامل ہیں, یہ سب کسی نہ کسی ناحئے سے پہلے پرنٹ میڈیا کے مرحلے سے ہی گزر تے ہیں ,بلفظ دیگر انہیں تاثیر, صحافت اور اسلوب صحافت ہی سے ملتی ہے ورنہ بے تکی حرکتوں اوربے معنی باتوں سے کس دل  پر اثر پڑتا اور کون سا ذہن اسے قبول کرتا ہے , یہ بتانے کی ضرورت نہیں- ہم گفتگو صحافت کی تاثیری قوت پر اس لئے کرناچاہتے ہیں کہ آج کے ماحول میں اس نے ایک خاص خول پہن لیا ہے اور اس ایک کے انیک روپ سامنے آرہے ہیں,سچائی یہ ہے کہ ہمارے دشمنوں نے آج سے تقریبا ایک سو پندرہ سال قبل ۱۸۹۸ میں یہ فیصلہ لیا تھا کہ" اگر ہم یہودی پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے سونے کے ذخائز پر قبضے کو مرکزی اور بنیادی اہمیت دیتے ہیں تو ذرائع ابلاغ بھی ہمارے مقاصد کے حصول کے لئے دوسرا اہم درجہ رکھتے ہیں۔ ہم میڈیا کے سرکش گھوڑے پر سوار ہو کر اس کی باگ کو اپنے قبضے میں رکھیں گے، ہم اپنے دشمنوں کے قبضے میں کوئی ایسا موٴثر اور طاقتور اخبار نہیں رہنے دیں گے کہ وہ اپنی رائے کو موٴثر ڈھنگ سے ظاہر کرسکیں، اور نہ ہی ہم ان کو اس قابل رکھیں گے کہ ہماری نگاہوں سے گزرے بغیر کوئی خبر سماج تک پہنچ سکے" یہودیوں کا یہ منصوبہ ۱۹ پروٹوکولز کی صورت میں دنیا کے سامنے بھی آچکا ہے-
یہودیوں نے دنیا پر غلبہ پانے کے اس منصوبے کو یقینی بنانے کے لئے سب سے زیادہ صحافت اور میڈیا کے اس حصہ پر فوکس کیا جس کا تعلق نوجوانوں اور قوم کے نو نہالوں سے ہے ,تاکہ اقوام وملل کی اصل پونجی ہی مخدوش ہو جائے اور انکی تعمیری صلاحیت , تخریبی مواد میں بدل جائے ,اس کے لئے انہوں نے اخبارات و رسائل کے ساتھ خبر رساں ایجنسیوں کے قیام کی طرف بھی خصوصی توجہ کی ،یہی وہ بنیادی ذریعہ ہے جس کے استعمال سے اپنی خواہش کے مطابق وہ کام کرتے ہیں، عالمی خبر رساں نیوز ایجنسیوں کے ذریعے یہودی ہمارے دل و دماغ کو دھو رہے ہیں-دوسری طرف فلموں( جن کی بنیاد بھی صحافت ہی پر قائم ہوتی ہے) کے ذریعے ہمارے نوجوانوں اور فرزندانِ قوم کے دل و دماغ کو اپنے افکار و خیالات کی مسلسل غذا پہنچارہے ہیں تاکہ ہمارے بچے  ا ن یہودیوں کے دم چھلے اور فکری غلام بن جائیں , صرف دو گھنٹے کے قلیل وقفے میں  فلموں کے ذریعے ہماری ابھرتی ہوئی نسل کی عقل کومفلوج اور کردار کومسخ کر دیا جاتا ہے،۔ وہی عقل اور کردار جس کی تیاری میں مہینوں اور سالوں اساتذہ اور مربیوں نے صرف کیے تھے-
صحافت اور پرنٹ میڈیا کی اسی سحر انگیزی کے پیش نظریہودی اسے اس قدر عزیز سمجھتے ہیں کہ ایک ایک یہودی فرم ۵۰،۵۰ اخبارات اور میگزین شائع کررہی ہے۔ نیوزہاوٴس یہودیوں کی ایک اشاعتی کمپنی ہے جو۲۶ روزنامے اور ۲۴ میگزین شائع کرتی ہے۔
دنیا میں پانچ بڑی میڈیا فرم ہیں جن کے سارے سربراہان, عہدیداران, ایڈیٹرز اور منیجرز یہودی ہی ہیں
پہلے نمبر پر والٹ ڈزنی آتی ہے۔ اس کے چیف ایگزیکٹو ،پروڈیوسرز ، منیجرز اور جنرل منیجرزسب یہودی ہیں۔
۔دوسری بڑی میڈیا کمپنی” ٹائم وارنر“ہے، جس میں کام کرنے والے تمام چھوٹے بڑے عہدیدار یہودی ہیں۔
۔ ”وایا کام پیراماوٴنٹ “دنیا کی تیسری بڑی میڈیا فرم ہے۔ اس میں بھی تمام ملازمین یہودی ہیں۔
چوتھی بڑی کمپنی” نیوز کا رپوریشن“ ہے، اس کمپنی میں یہودیوں کے علاوہ اور کسی کو کام نہیں ملتا
پانچویں نمبرپر جاپان کی کمپنی ”سونی“ ہے۔ گو اس وقت اس میں زیادہ تر عملہ جاپانیوں پر مشتمل ہے، لیکن یہودی لابی اسے خرید نے کیلئے پورا زور لگا رہی ہے۔
میڈیا سے یہودیوں کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ
اس وقت جاپان میں صرف ۲۰۰۰ یہودی آباد ہیں۔ ان میں سے۱۰۰۰ یہودی کسی نہ کسی شکل میں میڈیا سے وابستہ ہیں-
یہ تمام کمپنیاں بہ اتفاق رائے جس مشن پر لگی ہوئی ہیں اسے اگر وہ اپنے لفظوں مین دنیا پر غلبہ پانے کا نام دیتے ہیں تو ہم اسے مسلمان عالم کو صفحئہ ہستی سے مٹادینے کے ناپاک عزم  سے تعبیر کرتے ہیں,یہ تعبیر کہاں تک درست ہے اس کا اندازہ لگانے کے لئے یہودی مکاریوں اور سازشوں کا تاریخی تسلسل بہت کافی ہے,
فرقہ واریت کے جذبات کو شہہ دینا، واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے عوام کو گمراہ کرنا اور ان کو خلافِ شان حرکتوں پر مجبور کرنا، دوسروں کے محاسن کو بالائے طاق رکھنا , ان پر دبیز پردے ڈالنے کی کوشش کرنا، نااہل افراد اور جماعتوں کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملا دینا، رائی کو پہاڑ بنانا، اصولی مسائل کے بجائے جزئیات اور غیرضروری اُمور پر توجہ مرکوز کرانا___ یہ سب عالمی صحافت اور میڈیا کے ایسے مظاہر ہیں جو یہودی عزائم کی تکمیل کے لئے شب وروز انجام دئے جارہے ہیں۔ حقائق کا نظروں سے اوجھل ہوجانا، اخلاقی قدروں کی پامالی، فتنہ و فساد کا دور دورہ اور انسانیت دشمنی کے المناک حوادث اور کربناک واقعات کی ذمہ داری بھی تعصب و جانب داری پر مبنی اسی قسم کی صحافت کے سر آتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام عزائم میں سب سے زیادہ اور سب سے آسانی سے ناپختہ نوجوان ہی استعمال ہوتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں, ان عزائم کی تکمیل میں انکی موجودگی ہی دراصل صحافت کی سنگینی کو دوبالا کرتی ہے,صحافت کے ذریعہ انکی برین واشنگ, انکے جذبات سے کھیل کر انکی بلیک میلنگ اور ان کے کندھوں پر بندوق رکھ کر نشانہ بنانے جیسے دورخے پن نے یہودیوں کے لئے ان کا مشن آسان بنا دیا ہے,وہ مختلف پروگرامز اور متنوع کالمزکے ذریعہ انکی رائے سے بآسانی با خبر ہوتے ہیں اور اس طرح بغیر مشقت کے معاشرہ کے نبض پر ان کا ہاتھ موجود رہتا ہے,وہ سماج کے ہر پرندے کا پر تولنے اور ہر گھر کا نمک چکھنے میں کامیاب رہتے ہیں-
میڈیا کا حملہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ نوخیز ذہن کو ایک خاص رخ دینے میں  بہت جلد کامیابی مل جاتی ہے , صحافت نے نئی نسل کا مزاج بگاڑنے، اس کے اخلاق خراب کرنے اور اسے نفسانی خواہشات کا غلام بنانے میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھی ہے,
وہ ناپختہ ذہن جسے ابھی تربیت , پختگی اور بلند فکری حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے, اسے یہ مرحلہ آنے سے پہلے ہی اس لائق بنادیا جاتا ہے کہ مربی کی تربیت, مصلح کی اصلاح اور استاد کی فکری باتیں اس پر بے اثر اور بے معنی ثابت ہوتی ہیں,اور وہ صحافت کے پیش کردہ اخلاق سوزی,فکری پستی اورناروا کردارو گفتار کے جال(نٹ) میں پھنستا ہی چلا جاتا ہے, پھر ہوتا یہ ہے کہ ہزار مخالفتوں کے باوجود بھی سماج ومعاشرہ میں وہی تہذیب راہ پاجاتی ہے , جو صحافت کے ذریعہ پیش  کی جاتی ہے,نتیجہ ظاہر ہے سماج ہمارا ہوتا ہے, اس کے حوادث غیروں کے کئے ہوتے ہیں,اس میں اٹھائے جانے والے ایشوز کسی اور کے پیش کردہ ہوتے ہیں,اولاد مسلمانوں کی ہوتی ہیں,انکے دماغ کو غذا اور فکر کو توانائی کہیں اور سے پہنچ رہی ہوتی ہے,اب وہ ہمارا ہوکربھی ہمارا نہیں رہتے,چال ڈھال اتنے خود سر کہ باپ دادا کی برسوں پرانی تہذیب کویک لخت روندتے ہوئے بھی انہیں باک نہیں ہوتا,روشن خیالی کے نام پر ساری پرانی روایتیں دقیانوسیت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں,اب مغرب کے خول میں مشرقیت بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے,سیکولر ذ                                                                                        ہنیت کو فروغ دینے کی آڑ میں لادینیت کا رواج ہونے لگتا ہے,الحاد ایک مذہب کے روپ میں پنپنے لگتا ہے, اورفکری دیوالیہ پن کا ایسا آغاز ہوتا ہے کہ تھامے نہیں تھمتا.... ہمارے موجودہ سماج میں ان سب کی زندہ مثالیں کسی بینا نظرسے اوجھل نہیں!
خلاصہ یہ ہے کہ یہ حالاتِ حاضرہ کا ایک دل گیر عمومی منظر نامہ ہے، جوسب  نام نہادسیکولر جرنلزم کا کیا دھرا ہے۔ اوراگر بہ نظرِ غائر جائزہ لیا جائے تویہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ یہ سانحہ صرف  اسلامی  صحافت کے بحران کے نتیجے میں رونما ہوا ہے۔ کیوں کہ اگر یہ بات المیہ ہے کہ حالات اور کفریہ طاقتیں ہمارے خلاف ہیں، توپھر یہ امر بھی سانحہ ہے کہ ہم نے اس خطر ناک اور تباہ کُن خاموش طوفانِ بلا خیز کا چیلنج بھی قبول نہیں کیا ہے۔ مدارسِ دینیہ اورعلمائے کرام کی طرف سے صحافت کا میدان  اکثر بے توجہی کا شکار رہا ہے ۔ اس محاذ کو جس التفات کی ضرورت تھی، وہ اس کو نہیں مل پائی ۔ جس کی وجہ سے ایک ’’اسلامی صحافت کے بحران‘‘ کا سا سماں رہا ہے۔       اور یوں علمائے کرام  اس میدان میں قدم رنجہ فرمانے  سے کتراتے رہے اور اس زمین کو بے علم اور بے فہم سیکولر لوگ روند تے رہے۔عوام ان کی گمراہ کُن راہ نمائی کی وجہ سے اپنا اسلامی راستہ دھیرے دھیرے فراموش کرتے گئے۔ بنا بریں یہ معاشرہ اسلامی نہیں ،بلکہ مغربی تہذیب کی ایک خزاں رسیدہ اور سوختہ شاخِ نازک کا منظر پیش کرنے لگا۔ آج 95فیصد صحافت سیکولر ہے۔ اسلامک جنرنلزم نہ ہونے کی وجہ سے مغرب نواز کالم نگار، اینکر پرسن، پروڈیوسرزاور پروگرامرز سب  ملکر اسلامی روح کو مسخ کرنے اور جہاد,خلافت,تکفیرجیسے اسلامی اصطلاحات کو غلط طریقے سے پیش
کرنے میں کامیاب رہے ہیں ,اس کے علاوہ یہودی دماغ سے فکری نشوونما اور عیسائی وسائل سے بطنی غذا پانے والے
قلم  کاروں نے  جہاں  بہت سے گل کھلائے وہیں
ایک اور خطرناک کام یہ کیا کہ انہوں نے آج کے حقیقی علم سے نابلد نوجوانوں  کو یہ باور کرانا شروع کررکھا ہے کہ اسلام موجودہ زمانے کا ساتھ نہیں دے سکتا۔
اس دکھتے ہوئی رگ کا علاج وہی ہے جسے ہم نے اسلامی صحافت سے تعبیر کیا ہے, جب تک ہم اپنی کاوش سے موجود خلا کوپر کرنے کےلئے آگے نہیں آتے, دشمن کے پاؤں جمتے ہی جائینگے اور انکے ناپاک عزائم کی تکمیل آسان تر ہوتی جائیگی,ہم اپنےنونہالان اور قوم کے نوجوانان کو انکے فکری یرغمال  بننے سے نہیں روک پائینگے ,ہمارے گھر اور سماج مغربی رنگ میں رنگتے رہینگے ,ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے نونہالوں کا مستقبل لٹتا رہیگا,قوم کے نوجوانوں کی مردانگی جاتی رہیگی اور حوا کی بیٹیاں اپنی نسوانیت سے محروم ہوتی رہینگی اور ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہینگے!
اٹھ کے اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے




الأربعاء، سبتمبر 24، 2014

خرد   
ساگرتیمی
  وہ شام کا وقت تھا ۔  سارے لڑکے لڑکیاں کینٹین میں چائے نوشی کے لیے آیا ئے ہوئے تھے ۔ یہ یونیورسٹی کاعام مزاج تھا ۔ لائبریری سے نکل کر کبیر نے بھی کینٹین کی راہ لی ۔ کینٹین میں جوہی  پہلے سے چائے کا آرڈر دے کر اس کے انتظار میں تھا ۔ کبیر نے چائے لی اور اپنے نئے خوبصورت موبائل کے ساتھ میسجینگ میں مصروف ہو گیا ۔  جوہی  کو برا لگا لیکن وہ جانتا تھا کہ اب اور کچھ ہو بھی نہیں سکتا ۔ اور تھوڑی دیر بعد وہ اس سے معذرت کرتا ہوا نکل گیا ۔ فیس بک کی اہمیت کا احساس اسے اس دن کچھ زیادہ ہی ہو رہا تھا ۔
   " میں تہمیں فیس بک پر دیکھتی رہی ہوں "
"اچھا ؟"
" تم بہت اچھے لگتے ہو "
" تصویر میں یا سچ مچ؟ "
" دونوں جگہ "
" تو ؟ "
" میں تم سے ملنا چاہتی ہوں اگر تمہیں مجھ سے مل کر خوشی  ہو "
" ٹھیک ،کل شام چائے پر ملتے ہیں "
     کبیر نے اسے ہلکے میں لینے کی کوشش ضرور کی تھی ۔ لیکن اب اسے شام کا انتظارشدت سے تھا ۔اس کی باتوں سے اس کی لیاقت بول رہی تھی ۔ اس نے بغیرملے ہی اسے اپنا گرویدہ بنا لیاتھا ۔ اس کی طبیعت نے بارہا اسے اکسا یا کہ وہ اس سے بات کرے لیکن در اصل وہ ہمت نہ کرسکا۔  اسے لڑکیوں سے باتیں کرنے اور ان کے ساتھ  چھیڑ کرنے کی عادت سی تھی لیکن اس مرتبہ اس کے دل کی کشتی خود ہی ڈانواڈول تھی ۔  فلسفےدم توڑ چکےتھے اور ترکیبوں کا کوئی مطلب بھی  نہیں تھا  ۔
     دوسرے دن کی  شام گوری رنگت کی ایک چلبلی سی لڑکی اس کے سامنے تھی ۔ میانہ قد ، چوڑی پیشانی، چمکداربولتی ہوئي آنکھیں اس کے بھولے  سے چہرے پر سلیقے سے سجی ہوئی تھیں ۔ اس پر اس کے پتلے سے دونوں لب جیسے پھول کی  دو پتیاں ۔ اس نے اس کے سراپے پر ایک نطر ڈالی اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہ پاتا اس نے کہا " ہائے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔"
" اور میں کبیر ۔۔۔۔۔۔"
چائے لیتے ہوئے دونوں کی گفتگو آگے بڑھنے لگی جیسے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ پچھلے کئی مہینوں سے چل رہا ہو ۔ کبیر نے دوسری بار اس کے مقابلے اپنی شکست قبول کی ۔ بولتے ہوئے اس کے دانتوں کی چمک اور مسکراتے ہوئے اس چہرے کی دمک نے اسے کہیں کا نہيں چھوڑا تھا  ۔ آج اسے بھی اپنے سمارٹ ہونے کا احساس ہو رہا تھا کہ بہر حال پہل تو اسے نے کی تھی ۔  اس کے خیالات کی دنیا پھیلتی چلی گئی۔ اور دل کے دریچوں سے خوشبوؤں کی آمد سی ہونے لگی ۔ اورپھر وہ اس کے ساتھ کچھ ایسے آئی جیسے بہار نہ جانے کے لیے آگئی ہو ، جیسے نسیم کے چلنے کا سلسلہ رکے گا نہيں ،  جیسے صبح و شام کے یہ حسین نظارے کبھی فنا نہیں ہوںگے ، جیسے گلاب کے اوپر صبح کے وقت  شبنم کے حسین قطرے گرتے رہینگے ۔ 
     اس کا نام نورین  تھا ۔ ہندو ماں اور کمیونسٹ باپ کے بیچ پروش پانے والی اس لڑکی کے اندر غضب کا حسن جمع ہو گیا تھا ۔ ایک طرف اس کے اندر پرانے ہندو خاندان کی تہذيب تھی  تو دوسری طرف کمیونسٹوں کی سی روشن خیالی ، لاابالی پن اور زبردست سماجی شعور ۔ یونیورسٹی کے اندر اپنے شروعاتی دنوں میں اس نے بایاں محاذ کی  پارٹیاں بھی جوائن کی تھی ۔ اسی لیے بولنے کے معاملے میں خاصی بے باک اور اپنے نکتے واضح کرنے کے سلیقہ سے آراستہ تھی ۔ سیاست ، سماج ، مذہب اور جرائم کی نفسیات پر گفتگوکرتےہوئےاس کی سنجیدگي کےساتھ ہی اس کے نکتے اس کی غیر معمولی ذہانت کے گواہ ہوتے ۔
         کبیر جب اپنے دوستوں کے ساتھ اس کی باتیں شیئر کرتا تو اس کے دوست مسکرا کر رہ جاتے جیسے انہیں یقین ہی نہ ہو لیکن جب وہ اس سے مل لیتے تو پھر کبیر کی خوش نصیبی  پر رشک کا اظہار ضرور کرتے اور یہ بات کبیرکو بہت اچھی لگتی ۔ ان میں سے ایک نے جب یہ کہا کہ اسے نورین کی بجائے خرد کہا کرو تو اسے یہ نام بہت پسند آیا اور پھر نورین خرد بن گئی ۔ بات یہ تھی کہ خود نورین کو بھی اپنی شخصیت سے جڑی یہ تعریف اچھی لگتی تھی ۔ ایسے کبیر ایک عام سا طالب علم تھا ۔ سیاست ، مذہب اور فلسفہ سے اسے کوئی زیادہ سروکار نہیں تھا ۔ وہ اپنے سبجیکٹ میں اچھا تھا اور دیکھنے میں ایسا کہ لڑکیاں اعتماد سے اپنی سہیلیوں سے اس کے بارے میں اپنے عشق کا قصہ بیان کرسکیں ۔ خرد کو اس کے مردانہ وجاہت نے ہی اس کے اتنا قریب کردیا تھا ۔
        خرد کی یادداشت بلا کی تھی  ۔ اسے پڑھنے کا بھی شوق بہت تھا ۔ کبیر اسے اپنے موضوع پر لاکر بات کرتا کہ لٹریچر میں تو کم از کم اپنی برتری ثابت ہو لیکن وہ ادب پر گفتگو کرتے ہوئے بھی کہيں سے کمزور نہ پڑتی ۔ خرد کی باتیں سن کر اسے " لندن کی ایک رات " کی شیلا گرین یاد آجاتی۔ ایک روز اس نے اس سے کہا ۔
" کبیر ! ہم سب اس دنیا میں کیوں آئے ہیں؟ "
" خرد ! مجھے اس قسم کے سوالات الجھن میں ڈالتے ہيں ۔ اس لیے میں اس طرف سوچتا بھی نہیں "
" لیکن یہ مسئلے کا حل تو نہيں ہے  نا "
" ہاں ، لیکن میں بے مطلب الجھنا بھی نہیں چاہتا ۔ یوں بھی ہم سے پہلے لوگ سب کچھ کر کراکر تھک چکے ہيں "
" لیکن اس سے ہماری ذمہ داری ختم تو نہيں ہو جاتی ۔"
" خرد ! میں جب کبھی اس پر سوچتا ہوں کنفیوزڈ ہو جاتا ہوں "
" تو یہ کرو نا کہ سوچنے کی بجائے بس کرنا شروع کردو ۔ کوئي ایسا کام جس میں سب کی بھلائی ہو ۔ ہماری تمہاری اور سب کی ۔ میرا مطلب ہے انسانوں کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
      اسی درمیان کبیر کی  کال آگئی اور اسے وہاں سے نکلنا پڑا ۔  
اس بیچ وہ دونوں کئی بارملے ۔ باتیں ہوئیں ، مناقشے ہوئے ، بحث و تکرار میں لڑائی کی نوبت بھی آئی لیکن ان کی محبت پروان بھی چڑھتی رہی ۔ خرد اس درمیان یہ کوشش کرتی رہی کہ کبیر زندگی کے اس افادی پہلو کو سمجھے جس پر وہ ایمان رکھتی ہے ۔ اس کبیر سے بلا کی محبت تھی اور اس معاملے میں اس کا کوئي اختیار بھی نہیں تھا لیکن وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا ہم سفرایک عام سے فکر کا آدمی ہو جو بس کمانے کھانے کو زندگی سمجھتا ہو ۔
 کئي  دنوں بعد خرد نے باتوں باتوں میں کبیر سے پوچھا ۔
" کبیر ! ایسے تم کرنا کیا چاہتے ہو ؟ "
" پہلے تو بہت زیادہ متعین ہدف نہیں تھا ۔ بس نوکری کرنا چاہتا تھا لیکن اب ۔۔۔۔۔۔"
"لیکن اب ۔۔۔۔۔۔۔۔؟"
" اب تم سے ملنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے تمہارے نظریے سے اختلاف کرنا آسان نہیں تو کیوں نہ تسلیم ہی کرلیا جائے "
 خرد کی آنکھوں میں بجلی کی سی چمک آئی۔ اس نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اسے پیار سے دباتے ہوئے کہا ۔
" کبیر اب تک تم اپنی مادی شخصیت کی وجہ سے میرے لیے مرکز توجہ تھے ۔ میں نے جب تمہیں دیکھا تھا تم مجھے سمارٹ کے ساتھ ہی ذہین لگے تھے ۔ لیکن آج جب تم نے اپنے ان خیالات کا اظہار کیا ہے مجھے ایسا لگتا ہے کہ مجھے پوری دنیا مل گئی ۔ جان من ! تم اس راستے پر آگے بڑھو ، تمہاری  خرد سدا تمہارے ساتھ  ہوگی ،ہم اس دنیا  کو بدلینگے ۔ اونچ نیچ ، بھید بھاؤ اور تفریق کی لعنت کے خلاف ہم لڑینگے ۔ ہم سیاست کا مفہوم بدلینگے ۔ کبیر آج میں حد سے زیادہ خوش ہوں ۔ آج میں اپنے پاپا سے کہ سکوں گی کہ میں نے ایک ایسے مرد کو چنا ہے جو ان کی طرح ترقی پسند خیالات کا مالک ہے اور جو اپنی کوششوں سے بہتر سماج بنانے کا خواہشمند ہے  "
" ہاں خرد ! میں تم سے وعدہ کرتاہوں کہ اب یہ زندگی ایک مقصد کے تحت چلے گی۔ تمہارا ساتھ رہا تو میں پہاڑوں سے گزر جاؤنگا  "
" کبیر! میں نے تمہیں منتخب کیا تھا ۔ تم میرا یقین مانو کہ وہ بھی میری خود اعتمادی تھی ۔ تم یہ سوچ کر خوش ہو سکتے ہو کہ تہمیں ایک لڑکی نے چنا لیکن میں یہ سوچ کر بہت خوش ہوں وہ لڑکی میں تھی اور میرے دل نے جو کہا وہ میں نے کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔ اے کاش میری ہی طرح اس دیش کی ہر لڑکی کو اس کی اپنی  پسند سے اپنی زندگی کا ہم سفر چننے کی آزادی حاصل ہو تی ۔ "
" خرد ! ہم لڑینگے اس آزادی کے لیے ، تمہارے لیے ،اپنے لیے،سب کے لیے"
       پھر وہ دونوں خود اعتمادی ، اپنی مدد آپ اور انسانیت کی بھلائی کے بارےمیں دیر تک باتيں کرتے ۔ لمبی چوڑی اور کبھی ختم نہ ہونے والی باتيں ۔ " کبیر ! میں ایسے لوگوں کو نکما اور فالتو سمجھتی ہوں جو اپنا کام خود نہيں کر سکتے ۔ میں نے اپنی ایک لڑکی دوست سے اپنا تعلق اس لیے توڑ لیا کہ وہ ایک لڑکے کو چاہتی تھی اور  وہ یہ چاہتی تھی کہ میں اس لڑکے تک یہ بات پہنچاؤں کہ میری دوست اس پر مرنے لگی ہے ۔ میں نے اسے صاف لفظوں میں کہا تھا  کہ یہ ذلیل حرکت مجھ سے نہيں ہوگی ۔ اگر اس کے  اندر ہمت ہے تو جا کر اظہار عشق کرے ورنہ آہیں بھرنے والوں اور دکھڑا سنانے والوں سے مجھے کوفت ہی  ہوتی ہے ۔" اور کبیر مسکرائے بغیر نہيں رہ سکا تھا ۔
       آج سالوں بعد جب سماج سدھار کے کام میں کبیر کی شناخت بن گئی تھی ۔ عورت ، بچہ اور پسماندہ لوگوں کے حقوق کے لیے لڑائی جاری تھی اور کبیر کو ایک آئیکن کے روپ میں دیکھا جارہا تھا ۔ غریب لوگ اسے مسیحا سمجھ رہے تھے  ۔ اپنے آنگن میں بیٹھا کبیر خرد کی گود میں گلکاریاں لے رہے اپنے بیٹے کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا اور خرد محلے کے ایک لڑکے کو سمجھا رہی تھی کہ اگر تم امتحان پاس کرنے کے لیے سفارش کے محتاج ہو تو بتاؤ زندگی کے امتحان کیسے پاس کروگے ۔ اور اسے وہ منظر بہت شدت سے یاد آرہا تھا جب خرد نے اس کے ایک دوست سے بات کرتے ہوئے کہا تھا ۔ " جوہی  ! اگر وہ لڑکی تمہيں اچھی لگتی  ہے تو جاؤ اس سے خود اپروچ کرو ۔ جب ایک  معمولی لڑکی  سے اپنی بات نہيں کہ سکتے تو اس ظالم دنیا کے سامنے تمہاری زبان کیسے کھلے گی ۔ یوں بھی مجھے دلوں والا کام بالکل بھی پسند نہيں " ۔









     





الأربعاء، سبتمبر 17، 2014

آرزوئے دراز:
(عربی کے ایک منظوم کلام کو اردو تعبیر دینے کی کوشش)

بچے جوان ہونا چاہتے ہیں
بوڑھےاب غلمان ہونا چاہتے ہیں
فارغ البال ‘تنگیئ  شغل سے آزاد ہے

مشغول کا عالم یہ کہ کام کہ بوجھ سے ناشاد ہے
مالدار کثرت دولت سے پریشان ہے
نادار اپنے فقر سے حیران ہے
صاحب اولاد‘ اولاد کے کردار سے موہوم ہے
تو بے اولاد ‘محرومی اولاد سے مغموم ہے
کوئی فتنہ حسن پہ شکوہ بزباں ہے
توکوئی جمال سے تہی دامنی پہ ماتم کناں ہے
کسی کے لئے شکست ہی گو کہ مقدر ہے
کوئی ہے کہ فوز وفلاح کا سکندرہے
شرف ومجد کی جیسے کوئی جنگ ہے
اگر ہاتھ آجائے تو پھر بھنگ ہے
شکوہ سنجوں کاکوئی معیارنہیں

چپقلش ہے کہ عدل کا اعتبار نہیں
یہ انسان تقدیر سے ششدر وحیران ہے

یا کہ تقدیر ہی ان سے پشیمان ہے؟


      (اردو قالب:سیف الرحمان حفظ الرحمان تیمی)



الاثنين، سبتمبر 15، 2014

سیاست کیجیے لیکن سنبھل کر
ثناءاللہ صادق تیمی ، ریسرچ اسکالر جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی
   اناؤ سے لوک سبھا کے ممبر پارلیامنٹ جناب ساکشی مہاراج نے الزام لگایا ہے کہ مدارس کے اندر صرف دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ اگر یہ مدارس حب الوطنی سکھاتے ہیں تو ان پر ترنگا کیوں نہیں لہرایا جاتا ؟ ساتھ ہی انہوں نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ ہے لو جہاد کے لیے مسلم ممالک یہاں کے نوجوانوں کو مالی مدد فراہم کرتے ہیں ۔ انہوں نے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ سکھ لڑکیوں سے شادی کرنے کے لیے 11 لاکھ روپے ، ہندو لڑکی سے شادی کرنے کے لیے 10 لاکھ روپیے ، جین لڑکیوں سے شادی کرنے کے لیے 8 لاکھ روپیے اور دیگر برادری کی لڑکیوں سے شادی کرنے کے لیے 6 لاکھ روپیے دیئے  جاتے ہیں ۔
   ابھی یوپی کی صورت حال انتہائي درجے میں پریشان کن ہے ۔ پورا ملک بالعموم اور اترپردیش بالخصوص آگ کے شعلوں پر کھڑا ہے ۔ بی جے پی کے بڑے بڑے نیتا گمراہ کن اور بھڑکیلے بیان داغ رہے ہيں ۔ ان کو معلوم ہے کہ اسی طرح سے ووٹ حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ ووٹ کی اس سیاست میں البتہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی بولتی نہ جانے کیوں پوری طرح بند ہے ۔ ہمارے دیش کے نئے وزیر اعظم جنہیں اپنے بارے میں ایک پر ایک خوش گمانیاں ہيں ،اچھے دن لانے والے  وکاش پرش اس پوری صورت حال پر نہایت سمجھداری سے خاموشی کی چادر تانے ہوئے ہيں ۔ لیکن یہ کس کو معلوم ہے کہ کل کے پیٹ میں کس کے لیے کیا مقدر ہے ۔ اقتدار کا نشہ اتنا بھی نہ چھاجائے کہ آدمی آدمی ہی نہ بچے ۔
اس سے پہلے مرکز میں جب بی جے پی کی حکومت تھی تب اس وقت کے وزیر خارجہ ایل کے اڈوانی، جنہیں آج کل کسی قابل نہیں سمجھا جاتا ، نے بھی مدارس کو اپنے گمراہ کن اور لچر تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اپنی ساری مکارانہ سیاست کے باوجود مدارس کا کچھ بگاڑ نہیں پائے تھے ۔ بی جے پی کے لوگوں کو شاید یہ بات نہیں معلوم کہ اگر مدارس دہشت گردی کے اڈے ہوتے تو پھر اس پورے ملک کا کیا ہوتا ! ساکشی مہاراج اگر ایک دن بھی ایک مدرسے کے اندر چلے جائیں اور وہاں کچھ پڑھ لکھ نہ بھی سکیں صرف وہاں کے ربانی اور روحانی ماحول ، پدارنہ شفقت ، بے مثال محبت اور انسانیت نوازي کا مشاہدہ کرلیں اور ان کے سینے میں دل بھی ہو تومارے شرم کے پانی پانی ہو جائیں کہ انہوں نے کیا کچھ کہ دیا لیکن سوال تو یہی ہے نا کہ نفرت کی سیاست کرنے والوں کے سینے میں دل ہوتا کب ہے ؟ کل اڈوانی جی بھی جانتے تھے اور آج ساکشی مہاراج اور دوسرے وہ نیتا بھی جانتے ہیں جو نفرت اور تفریق کی سیاست کرتے ہیں کہ مدارس کی چہار دیواری میں  قرآن وسنت کی تعلیم دی جاتی ہے ، انسانیت نوازی اور صبر و تحمل کے اسباق پڑھائے جاتے ہیں ، خدمت خلق کی ٹریننگ دی جاتی ہے ، ایمانداری اور صالح اقدار سے بچوں کو لیس کیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت کے اظہار سے تو سیاست کا چولہا بجھ جائےگا اور  اقتدار کا لڈو مل نہيں پائے گا تو سچ کا اظہار کیوں کیا جائے ؟
         ساکشی مہاراج کے بیان کے اوپر مولانا خالد رشید فرنگی محلی کا بیان آيا ہے کہ مہاراج کو تاریخ نہیں معلوم ورنہ ہندوستان کو آزاد کرانے والے ہمارے پروجوں میں بہت سے  علماء شامل تھے جو انہيں مدارس کے تربیت یافتہ تھے ۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر مدارس کے خوشہ چیں علماء آزادی کی لڑائی میں اپنی جانوں کا نذرانہ نہ بھی پیش کیے ہوتے تو بھی کیا مدارس کو یوں ہی دہشت گردی کے اڈوں سے موسوم کرنا جائز ہو جاتا ؟ مدارس کے خوشہ چینوں نے نہ صرف یہ کہ ملک کو آزاد کرایا ہے بلکہ پورے دیش کے سیکولر مزاج کو برقرار رکھنے میں بھی اپنی پوری حصہ داری نبھائی ہے ۔ ہندوستان کے لگ بھگ تمام کے تمام مدارس عوامی چندوں کے سہارے بغیر کسی حکومتی مدد کے چلتے ہیں اور سماج کے غریب، ناداراور بے بس بچوں کی تعلیم وتربیت کا انتظام کرتے ہیں جس کی ذمہ داری ظاہرہے کہ حکومت کی ہے ۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو مدارس کتنی بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ دیش کی بھی اور دیش کی ترقی کے راستے کھولنے کے معاملے میں بھی ۔ ایسے مجھے ذاتی طور پر ساکشی مہاراج کے اس بیان پر ہنسی ہی آئی کہ اگر مدارس کے اندر حب الوطنی کی تعلیم دی جاتی ہے تو ان میں ترنگے کیوں نہیں لہرائے جاتے ؟ میں خود ایک مدرسے کا فارغ ہوں ۔ مجھے آج تک ایک بھی مدرسہ نہيں ملا جہاں پندرہ اگست اور چھبیس جنوری کے موقع سے ترنگا نہ لہرایا جاتاہو اور سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا اور جن من گن کے نغمے  فضائے بسیط میں نہ گونجتے ہوں ۔
    بی جے پی کے راج نیتا بھولتے جارہے ہيں کہ نفرت کی سیاست سے کرسی تو مل سکتی ہے لیکن دیش کا امن غارت ہو جائےگا اور امن و امان کے غارت ہونے کے بعد نہ صرف یہ کہ دیش کی ترقی رکتی ہے بلکہ دیش واسی کی زندگیاں بھی جہنم کا نمونہ بن جاتی ہيں ۔ اتنے سارے مذاہب ، زبانیں اور علاقے والے ملک میں لوگ اگر ایک دوسرے سے ملتے جلتے اور ایک دوسرے کے دین کا احترام کرتے ہيں تو اس کے پیچھے بلاشبہ ہمارے آباءو اجداد کی وہ حکمت پوشیدہ ہے جو انہوں نے اس دیش کو جمہوی اور سیکولر بنا کردکھلایا تھا ۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اس دیش کو اصل خطرہ اقلیت کی انتہا پسندی سے نہیں اکثریت کی انتہا پسندی سے لاحق ہے ۔ بی جے پی کے راج نیتا آرایس ایس کی رہنمائی میں جس قسم کی سیاست کررہے ہيں اس سے پنڈت نہرو کے خدشات حقیقت کی طرف تیزي سے قدم بڑھانے لگے ہیں ۔ اس طرح کی سیاست نہ تو بی جے پی کے حق میں ہے اور نہ دیش کے حق میں ۔ عوام نے نریندر مودی کی قیادت کواس لیے بھی قبول کیا ہے کہ انہوں نے ترقی اور شفافیت کا وعدہ کیا تھا ، لوگ کانگریس سے اوب چکے تھے اور کوئی دوسرا ملکی پیمانے پر متبادل بھی نہيں تھا ۔ ظلم ، افواہ اور تشہیر کی سیاست پائیدار نہيں ہو سکتی ۔ بی جے پی بھی اس حقیقت کو جتنی جلدی سمجھ لے اس کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا ۔ مجھے نہيں معلوم کہ اس بات کو کتنے لوگ سچ سمجھینگے یا تسلیم کرینگے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستانی عوام کی اکثریت امن پسند اور آپس میں محبت کرنے والی ہے ۔ اس ملک کی مٹی میں رواداری ، محبت اور احترام باہم کی خوشبو ملی ہوئی ہے اور یہاں کا پورا تاریخی اثاثہ یہی بتاتا ہے کہ غیر جمہوری ، نفرت خیزاور اشتعال انگیز سیاست وقتی طور پر تھوڑا بہت کامیاب تو سکتی ہے لیکن وہ پائیدار نہيں ہو سکتی ۔ مجھے اپنا ہی شعر یاد آتا ہے ۔

سیاست کیجیے لیکن سنبھل کر

کہيں یہ ملک ہی نہ ڈوب جائے 

الخميس، سبتمبر 11، 2014

وضاحتی اور تریدی بیان : ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

                   تحرير:ڈاکٹرعلی بن عبد العزیز شبل                    
اردو قالب: سیف الرحمان تیمی
مملکت  سعودی عربیہ، جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ   
                        
الحمد لله وحده , وصلى الله وسلم على نبينا ورسولنا محمد , سيد الأنبياء والمرسلين وخليل رب العالمين , وعلى آله وصحبه أجمعين , وبعد :

غلط ,جھوٹ اور افتراپردازی پر مشتمل اس زعم باطل کا یھ ایک اضافی,وضاحتی اور تردیدی بیان ہے جسے میرے حوالے سے بعض ذرائع ابلاغ میں نشر کیا گیا ہے کہ میں نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک کو منتقل کیا جائے,حجرات مبارکہ کو منہدم کرکے ختم کردیا جائے,اور آپ کے جسد اطہر کو دوسری جگہ مدفون کیا جائے....اس کے علاوہ ان تمام غلط بیانیوں , افتراپردازیوں اور کذب تراشیوں کی یہ وضاحتی تحریر ہے جسے غلط اور باطل طریقے سے میری طرف منسوب کیا گیا ہے- اس مقام پر میں اللہ سے مدد کا خواستگار ہوں اور اس سے ہدایت ودرستگی اور توفیق وراست روی کا طلبگار ہوں:
1-میرے حوالے سے ان ذرائع ابلاغ میں جو کچھ بھی نشر کیا گیا ہے وہ محض جھوٹ,افترا , گمراہی اور تراشیدہ بہتان ہے,میں اس سے اللہ کے حضوربراءت  کا اظہارکرتا ہوں, اور وہی کہتا ہوں جو اللہ نے خود فرمایا ہے:ولولا اذ سمعتموہ قلتم ما یکون لنا ان نتکلم بھذا سبحانک ھذا بھتان عظیم"(النور:16) کہ جب تم نے وہ خبر سنی تو تم نے کیوں نہیں کہا کہ ہمارے لئے زیبا نہیں کہ ہم ایسی بات کریں,اللہ کی ذات پاک ہے, یہ تو بڑا بہتان ہے-
2-اس بہتان کو گڑھنے والے اور اس کے جھوٹے مصادر کی بابت جو کچھ بھی برطانوی اخبار"انڈپنڈنٹ" میں آیا ہے, وہ بھی لغو وباطل گفتگو ہے,فاسد اور بےسود مضمون ہے,اور ایسے مفہوم ومعنی (پر مشتمل ہے )جس سے حرمین شریفین,بطور خاص مسجد نبوی , آپ کے حجرات طیبہ, سنت مبارکہ اور شریعت مطہرہ کے خلاف گندے مقاصد اور مذموم عزائم پر روشنی پڑتی ہے-
3-اللہ کے جس (پسندیدہ) دین کے ہم پیروکار ہیں ,(وہ ہمیں یہ عقیدہ سکھاتا ہے کہ ) اللہ نے انبیاء کرام کی عزت وکرامت,انکے جسموں کی حفاظت وصیانت اور انکی رفعت ومرتبت کے سبب زمین پر انکے جسموں کو کھانااور گلانا حرام قرار دیا ہے, احمد اور ابن ماجہ وغیرھما نے شداد بن اوس سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  إن اللہ حرم علی الارض أجساد الأنبیاء" یعنی اللہ نے انبیا کے جسموں کو زمین   بر  حرام قرار دیا ہے_(اس حدیث کو بیشتر محدثین نے صحیح کہا ہے) اس میں کوئی شک نہیں کہ ان برگزیدہ انبیاء میں ان سب کے سردار ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی سر فہرست ہیں-
4-آپ جس جگہ مدفون ہیں, دیگر انبیاء کی طرح آپ کا جسد اطہر بھی اسی جگہ مدفون و موجود ہے,امام مالک اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے کہ آپ کی وفات کے وقت صحابہ کے درمیان اختلاف ہو گیا کہ آپ کو کہاں دفن کیا جائے؟ بعض صحابہ کی رائے تھی کہ آپ کو ممبر کے قریب دفن کیا جائے, بعض کی رائے تھی کہ آپ کو بقیع میں دفن کیا جائے.اس موقع پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:ما دفن نبی الا فی المکان الذی قبض اللہ نفسہ فیہ" یعنی کہ تمام انبیاء کو اسی جگہ دفن کیا گیا حہاں انکی وفات ہوئی-امام ترمذی کی ایک دوسری روایت ہے جسے انہوں نے حسن کہا ہے,کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا:میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی بات فرماتے ہوئے سنا جسے میں نہیں بھول سکا, آپ نے فرمایا:ما قبض اللہ نبیا الا فی الموضع الذی یحبّ أن یدفن فیہ " کہ اللہ نے نبیوں کی روحیں اسی جگہ قبض کی جس جگہ انکی تدفین مطلوب تھی_پھر ابو بکر صدیق گویا ہوئے: اللہ کے رسول کو آپ کے خواب گاہ او ربستر مبارک کے پاس ہی دفن کرو! اس کے بعد تمام صحابہ کرام اس پر متفق ہوگئے-
ہمارا بھی وہی عقیدہ ہے جسے ابو بکر صدیق نے بیان فرمایا اور تمام صحابہ نے اسے بلا چوں چرا قبول کر اجماع کا ثبوت دیا,رضی اللہ عن الجمیع_
5-نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے , آپ نے ارشاد فرمایا:اللھم لاتجعل قبری وثنا یعبد, لعن اللہ قوما اتخذوا قبور انبیائھم مساجد" یعنی کہ اے اللہ تو میری قبر کو وثن مت بنانا کہ اس کی پرستش ہونے لگے, اللہ کی لعنت ہو اس قوم پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد میں بدل دیا_(مالک, احمد اور طبرانی نے اسے روایت کیا ہے)
آپ کی یہ دعا شرف قبولیت سے سرفراز ہوئی, چنانچہ نہ صرف یہ کہ آپ کی قبر مبارک کو اللہ نے وثن بننے سے محفوظ رکھا بلکہ آپکے دونوں صحابہ (جو آپ کے پہلو میں مدفون ہیں) کی قبریں بھی اس لعنت سے محفوظ رہیں,بلکہ اللہ نے ان قبروں کو تین (مختلف اور مضبوط)دیواروں سے(گھیر کر) انکی حفاظت فرمائی:
1-حضرت عائشہ کے حجرئہ مبارکہ کی دیوار جس میں آپ مدفون ہیں
2-دیگر امہات المؤمنین کے حجروں کی وہ دیوار جسے عمر بن عبدالعزیز نے تعمیر کروایا
3-تیسری وہ بیرونی دیوار جو ان حجروں کے ساتھ ساتھ حضرت علی اور فاطمہ رضی اللہ عنھما کے گھر کو بھی شامل ہے
اس طرح آپ کی اور آپ کے دونوں اصحاب کی قبریں ان اوثان اور اصنام میں تبدیل ہونے سے محفوظ رہ سکیں جن کی عبادت اور پرستش کی جاتی-
امام ابن القیم نے اپنے "قصیدہ نونیہ" میں خوب کہا ہے:
      فأجاب رب العالمین دعائہ       
وأحاطہ بثلاثۃ الجدران
کہ اللہ نے انکی دعا سن لی اور انہیں تین دیواروں سے گھیر کر محفوظ کر دیا
جیسا کہ صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنھا کی روایت موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لعن اللہ الیھود والنصاری اتخذوا قبور انبیائھم مساجد" یعنی کہ یہودونصاری پر اللہ کی لعنت ہو, انہوں نے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا- امّا عائشہ فرماتی ہیں:آپ اس مذموم عمل سے متنبہ کررہے ہیں جن کے مرتکب یہود ونصاری ہوئے,اگر ایسا نہیں ہوتا تو آپ کی قبر بھی بلند کردی جاتی , آپ کو یہ خدشہ بہر حال تھا کہ کہیں آپ کی قبر کو بھی لوگ مسجد نہ بنا لیں-
میں نے اپنے مقالہ "عمارۃ مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ودخول الحجرات فیہ دراسة عقدية" کے ساتویں مبحث میں ان تمام تفصیلات کا اعتقادی جائزہ لیا ہے-
6-ابھی جس بحث(مقاله) کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس میں کسی بھی طرح یہ من گھڑت اور جھوٹا دعوی نہیں آیا ہے کہ آپ کے جسد مبارک اور آپ کے دونوں صحابہ کی قبروں کو حجروں سے الگ کر دیا جائے-کیوں کہ اصلا یہ مسجد نبوی سے الگ اور خارج ہی ہیں-اس میں یہ مطالبہ بھی نہیں ہے کہ حجروں کو منہدم کر دیا جائے,یا یہ کہ مسجد نبوی کو مسمار کردیاجائے.....جس نے بھی یہ الزام ڈالا ہے اس نے میرے اوپر بہت بڑا بہتان گڑھا ہے, خود کو بڑی غلط فہمی میں مبتلا کیا ہے, اس بہتان کے اسباب وعوامل کے تئیں بد ظنی کا شکار ہوا ہے,اللہ اسے مناسب اور لائق جزااور بدلہ دے(یا ایھا الذین آمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم....)اے ایمان والو! بہت زیادہ وہم وگمان سے بچو ,یقینا کچھ بدگمانیاں گناہ ہے­_
7- میرے جس مقالے  کا ذکر گزرا ہے , وہ ایک تمہید, نو مباحث اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے, جو حسب ذیل ہیں:
   1- مدینہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے مسجد نبوی کی تعمیر
2   -عمر بن الخطاب کا مسجد نبوی کی تعمیراور اس میں توسیع کرنا
-عثمان بن عفان کی تعمیر اور انکی توسیع واضافہ
-ولید بن عبد الملک کی تعمیر
-جب ولید بن عبدالملک نے حجروں کو مسجد میں داخل کیا اور اسے سجانے سنوارنے  کا کام کیا تو اسلاف کرام نے اس پر نکیر کی, اس کا بیان
-مہدی کی تعمیر
-عھد ممالیک میں سلطان قابتیانی کی تعمیر اور اس کی جدت طرازیوں کابیان
-عھد عثمانی میں سلطان عبد المجید کی تعمیر
-مسجد نبوی کی تعمیر میں گزشتہ تھذیبوں کے اثرات
-خاتمہ جس میں پانچ توصیات وتجاویز اور تنیہات ذکر کی گئی ہیں جن کا تعلق جہاں کتاب کے پورے مشمولات سے ہے, وہیں ان کا تعلق ان دیرینہ تجربات سے بھی ہے جو میں نے حج کے گزشتہ تین موسموں میں حرم کے اندر کام کرتے ہوئے  مشاہدہ کیا ,یہ ان افراد امت سے بھی متعلق ہیں (جن کی نادانی کو میں نے زخمی دل سے جھیلا) وہ مسجد کے درودیواراور حجروں کی کھڑکیوں کو بطور تبرک چھواکرتے اور بکثرت مجھ پر سوال داغتے تھے کہ قبر مبارک کے طواف کا کیا حکم ہے اور اس شخص کا کیا حکم ہے جو ابھی محو طواف روضئہ اقدس ہی تھا کہ نماز کا وقت آپہنچا اور جماعت کھڑی ہوگئی.......؟  تا آنکہ ملک فھد کی موجودہ توسیع میں باب السلام کے سامنے باب البقیع کھول دیا گیا-
ان تمام شواھد,ملاحظات اور قرارداد کو سپریم علماء قونصل(ہیئۃ کبارالعلماء) کی خدمت میں بھیجا گیا,پھر ان سے یہ آخری گزارش کی گئی کہ علماء کرام کی ایک خاص کمیٹی تشکیل دیں,جو ان قراردار کامطالعہ کریں, ان پر علمی اور شرعی طریقے سے غوروخوض کریں(تاکہ کسی مثبت نتیجہ تک پہنچا جا سکے)
8-یہ طے شدہ پروپیگنڈے اور باطل ومذموم دعوے جو موسم حج سے پھلے بارہا سامنے آتے رہے ہیں تاکہ حجاج کرام اور زائرین عظام کے تئیں مملکت سعودی عربیہ کی خدمات,حرمین شریفین کی توسیع,نگہداشت,حفاظت اور کمیوں کوتاہیوں کو دور کرنے جیسی قابل ستائش کوششوں کی تحقیر کی جاسکے, اور ان مساعی پر پانی پھیر نے کی جتن کی جائے,(یہ لوگ ایسا کرتے ہوئے در اصل یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سب) اللہ کے حکم کی تعمیل, اس کے دین کی اتباع اور شرعی وجوب کی ادائیگی کے لئے کی جاتی ہیں – (قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحواھو خیر مما یجمعون)
آپ کہ دیجئے کہ اللہ کی رحمت اور اس کے فضل سے ہی انہیں خوش ہونا چاہئے , یہ ان تمام چیزوں سے بھتر ہے جو وہ جمع کر رہے ہیں_
9-شرعی طور پر مومنوں کے لئے یہ واجب ہے کہ خبروں کی(نشرواشاعت) سے پہلے اس کی تحقیق کریں اور توثیق حاصل ہونے کے بعد ہی دوسرے تک پہنچانے کی زحمت کریں, بطور خاص جب خبر کاتعلق دین یا مومنین سے ہو, قرآن کی یہ آیت اسی اصول پر پرزور روشنی ڈالتی ہے "یا ایھا الذین آمنوا ان جائکم فاسق بنبأ فتبینوا أن تصیبوا قوما بجھالۃ فتصبحوا علی ما فعلتم نادمین"
اللہ مسلمانوں کو اس کی توفیق بخشے, ہمیں اس کی مخالفت اور فتنوں کی گمراہیوں سے محفوظ رکھے, مسلمانوں کے کلمہ کو نیکی و بھلائی اور تقوی وپرہیزگاری پر جمع کرے, ہمیں اپنی طاعت وعبادت کے کاموں میں مشغول رکھے,ہمارے حكام اور دعاۃ کو اپنے دین اور اپنے نبی کی سنت کی نصرت واعانت کی توفیق ارزانی کرے, مسلمانان عالم اور حرمین شریفین کےلئے جو خدمات وہ پیش کر رہے ہیں ,اللہ انہیں ان کا بہتر اجر وثواب عطا کرے,والحمد للہ رب العالمین-

                                                  علی بن عبد العزیز الشبل
   استاذ العقیدۃ بوزارۃ التعلیم العالی وعضو التوعیۃ الاسلامیۃ فی الحج والعمرۃ والزیارۃ
                                                  المملکۃ العربیۃ السعودیۃ