الخميس، مارس 12، 2020

شیخ محمد لقمان سلفی اور اصلاح امت کی فکر (اپریل 1943م _مارچ 2020م)

 
تحریر :عبد المالک محی الدین رحمانی 
متعلم جامعہ اسلامیہ مدینہ نبویہ 
کلیۃ الحدیث والدراسات الاسلامیہ 
_________________________

قارئین کرام! 
گزشتہ کئی مہینوں بلکہ سالوں سے بیمار چل رہے تھے، صحت میں مسلسل گرانی کی شکایت تھی اور بروز جمعرات 05/مارچ 2020 م کو بھی صبح ہی شیخ کی صحت یابی کا خیال آیا اور ان کی صحت یابی کی دعا کی اور پھر کھانا وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد تھوڑا قیلولہ کرنے لگا، اور عصر کی نماز کے لیے جیسے ہی مسجد میں داخل ہوا ایک ساتھی نے خبر دی کہ مفسر قرآن، شارح حدیث، باکمال ادیب، گوناگوں صفات کے حامل، بانی جامعہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ شیخ محمد لقمان سلفی صاحب راہ اجل کے مسافر بن گئے یہ سننا تھا کہ اچانک جسم میں سناٹا چھا گیا اور زبان گنگ ہو گئی انا للہ وانا الیہ راجعون اللہ پڑھا اور پھر یک لخت ان کے ساتھ جو حسن سلوک اور بہتر مشاہد و مناظر جو ہم نے جامعہ امام ابن تیمیہ میں رہ کر کیے تھے وہ سب نظروں کے سامنے گردش کرنے لگے اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ ابھی تو ان کے ساتھ تھا اور ابھی وہ ہمارے درمیان نہ رہے. 
ان کی زندگی کے بہت سے گوشے ہوں گے اور ان پر تحریریں بھی ہوگی میں ان کی زندگی کا ایک پہلو *" امت کے تئیں ان کی فکرمندی"* اس پر کچھ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں اس سے قبل عوام کے ساتھ ان کیا سلوک اور رابطہ تھا؟ ملاحظہ فرمائیں. 
 *شیخ علیہ الرحمہ اور عوام کے ساتھ روابط* :
شیخ علیہ الرحمہ اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز تھے، ان کی زندگی جس طرح علما و طلبا کے لیے کھلی ہوئی کتاب کی مانند تھی اسی طرح عوام الناس کے لیے بھی تھی، یقیناً جس طرح علما و طلبا ان سے کسب فیض کرتے تھے اسی طرح عوام سے بھی قربت کی وجہ سے لوگ اپنے مسائل بلا کسی جھجھک اور تردد کے آپ کے سامنے پیش کرتے اور چونکہ عوام الناس میں ان کی فکر کرنا اور ان کی اصلاح کے لیے ان کے ساتھ روابط کا مضبوط و مستحکم اور تعلق کا اچھا تال میل رہنا بے حد ضروری ہے ورنہ عوام اجنبیت محسوس کرے گی اور پھر ان سے علاحدہ ہو کر ان کی اصلاح اور فلاح کا خواب دیکھنا محال ہے، چونکہ آپ بیک وقت مفسر قرآن بھی تھے اور ایک بہترین سیرت نگار وغیرہ علوم پر فائز تھے اس وجہ سے انبیا کو ان کی اپنی قوم میں بھیجنے کے جو مقاصد اللہ تعالیٰ نے ذکر کیے ہیں ان میں سے ایک بھی ہے رسالت کا حامل ان کا اپنا اور معروف ہو تاکہ اجنبیت کا احساس نہ ہو اسی وجہ سے عوام کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہترین اور خوبصورت شکل دی تاکہ بعد میں جو اصلاح کا خیال ہے اس میں معاون ثابت ہو. 
 *شیخ اور اصلاح امت کی فکر* :
دن رات ایک کر دیتے، جب سوچتے قوم اور عوام کی صلاح و فلاح کی سوچتے، جب بات کرتے تو ان کی باتوں کا محور یہی ہوتا کہ کس طرح قوم کے لیے دینی و دنیوی فلاح و بہبودی کی راہیں ہموار کی جائیں، کس طرح معاشرے سے شرک و بدعات کا مکمل صفایا کیا جا سکے، کس طرح ہر طرف علم و معرفت کا بول بالا ہو، کس طرح قوم کے ایک ایک بچے کو اس دینی حق دینی علم سے بہر ور کیا جا سکے، کس طرح اس پر فتن دور میں قوم کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لایا جا سکے اور بھنور سے بچایا جا سکے، کس طرح معاشرے میں دینی معرفت سے دین کی صحیح پہچان اور روشن تعلیمات سے منور معاشرہ بن سکے وغیرہ ہر وقت اسی فکر میں لگے رہتے اور یہ صرف خیال یا تصور یا صرف آرزو نہیں تھے بلکہ انہوں نے ان خوابوں کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا اور اس لیے ہر جائز وسیلہ اختیار کیا اور ہر ممکن طریقہ استعمال میں لایا ان ہی کوششوں میں سے ایک سمت جامعہ امام ابن تیمیہ کا قیام بھی ہے. 
جب تک صحت نے ساتھ دیا تب تک شیخ اکثر جامعہ امام ابن تیمیہ کا دورہ کرتے اور بالخصوص طلبہ سے ایک خاص ملاقات کرتے، کچھ باہم گفتگو ہوتی اور شیخ نصیحت کرتے اور امت کے تئیں اپنے جذبات کا اظہار کرتے، میں خود 2010 سے 2013 تک جامعہ میں بحیثیت طالب علم رہا اور ان کو قریب سے جاننے کا موقع ملا یقین مانیں شیخ نے اپنے بچوں اور جامعہ کے بچوں میں کوئی تفریق نہیں کی ہمیشہ بچوں کی فکر اور ان کی بہتر تعلیم کی فکر، سہولیات کی فراہمی اور سب خدمات اور سہولیات یا ان بچوں پر محنت، جد و جہد محض اپنے ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ یہ بچے کل کو عوام الناس کی اصلاح اور ان کی تعلیم کا ذریعہ ہوں گے اس لیے . 
 *جامعہ امام ابن تیمیہ کا قیام* :
شیخ رحمہ اللہ کی اس اصلاحی فکر کی ایک جیتی جاگتی اور منہ بولتی تصویر جامعہ امام ابن تیمیہ کا قیام بھی ہے، شیخ کو امت کی فکر کس قدر تھی اس سے اندازہ لگائیں کہ اپنا سب کچھ وار دیا، اس فکر کو منزل تک پہنچانے کے لیے، اپنے اس خواب کو حقیقت کی شکل دینے کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا، اس سنہرے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنی پوری زندگی جانثار کر دی، ان کی نیک نیتی و خلوص اور امت کے تئیں فکر مندی کا ہی کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے بعد شیخ کی جد و جہد اور آپ کی سعی مشکور ہے کہ ہند کیا دنیا کے کئی مقامات پر جامعہ کے فارغین اپنی بہترین کارکردگی اور نشاطات سے اپنا لوہا منوا رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں اب تک فراغت حاصل کر چکے ہیں اور مختلف شعبوں میں میں اپنا نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں، کوئی صحافت میں تو کوئی کتابت میں، کوئی تدریس میں تو کوئی تحریر میں، کوئی خطابت میں تو کوئی کتابوں کی تالیف و ترتیب میں الغرض بہت سے میدانوں میں ان کے لگائے ہوئے اس درخت کے پھل اپنا تعارف کروا رہے ہیں، اور شیخ نے جس نیک نیتی سے جامعہ کا خواب دیکھا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی ہی میں انہیں یہ سارے اعزاز سے سرفراز فرمایا اور ان کا خواب مکمل ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں دیکھنے کا موقع دیا. 
 *کلیہ خدیجۃ الکبریٰ للبنات* :
اسی کی ایک شاخ کہیں یا ایک نوعیت کہیں کہ شیخ نے جہاں قوم کے بچوں کی بہتر تعلیم اور تربیت کا انتظام کیا تو پھر خیال آیا کہ پھر قوم کی بچیاں کیوں اس نعمت سے محروم رہیں اس لیے قوم کی بچیوں کو بہتر زندگی کی تعلیم دینے اور امت کی رہنمائی کے لیے کلیہ خدیجۃ الکبریٰ للبنات کے نام سے خالص بچیوں کا ایک ادارہ قائم کیا اور اس کا بھی مقصد اور مرکزی تصور یہی کہ کسی طرح قوم کی اصلاح کی جائے خواہ بچوں کی رہنمائی میں ہو یا پھر بچیوں کی زیر تربیت.-اللہ تعالیٰ شیخ کو جزائے خیر سے نوازے آمین. 
مختصر یہ کہ شیخ رحمہ اللہ ہمیشہ سادہ زندگی اور بلند سوچ کے حامل رہے اور اسی فکر کے ساتھ اپنا سب کچھ حتی کہ پوری زندگی اسی خواب کو سنوارنے اور اسی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تگ و دو کرتے رہے اور بالآخر بروز جمعرات 05 مارچ 2020م کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے. (انا للہ وانا الیہ راجعون) - اللہ تعالیٰ شیخ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین. 
یا رب العالمین تو ان کی لغزشیں معاف فرما ، ان کی دینی خدمات کو شرف قبولیت عطا فرما ،ان کی اخروی زندگی کے مراحل آسان فرما ، ان کی محنتوں کو حسنات میں شامل کرتے ہوئے ان کے لیے ذریعہ نجات بنا اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما . آمین

الأربعاء، مارس 11، 2020

ڈاکٹر محمد لقمان سلفی : بحیثیت عربی ادیب

صادق جمیل تیمی 
    
اس بوقلمونی دنیا میں بہت سے لوگ آتے ہیں، اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور پھر وقت موعود پر لوٹ جاتے ہیں لیکن انہیں میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے جو دنیا میں اپنی مستعار حیات کو اپنی شخصیت سازی، اپنی ایک الگ شناخت و تشخص قائم کرنے میں صرف کرتے ہیں اور اپنے پیچھے امت کے لیے لازوال خدمات اور عظیم کارنامے چھوڑ جاتے ہیں - انہیں میں سے ایک بڑی شخصیت مفسر قرآن، مایہ ناز سیرت نگار، درجنوں کتاب کے مصنف و مولف،جامعہ ابن تیمیہ کے موسس ڈاکٹر لقمان سلفی کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب جہاں رفاہی و دینی خدمات انجام دیے وہیں پر تصنیفی و تالیفی میدان میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جو آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا ایک اہم پہلو بحیثیت عربی ادیب آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
 اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عربی زبان و ادب دنیا کی ان زندہ زبانوں میں سے ہے جس کے پڑھنے و بولنے اور اس کی وراثت کی حفاظت کرنے والوں کی تعداد شروع ہی سے بہت زیادہ رہی ہے، چوں کہ یہ قرآن کی زبان ہے اور قرآن تاقیامت محفوظ رہے گا تو لامحالہ عربی زبان و ادب بھی تاقیامت محفوظ رہے گی - بلاد عربیہ کے ادبی شخصیات نے جس طرح عربی زبان و ادب کے گیسوں کو سنوارا اور اس کے نوک وپلک کو درست کیا اور اس میں عظیم کارنامہ انجام دیا وہیں پر عرب سے دور سمندر پار برصغیر ہند و پاک کا ادب نواز طبقہ اس میں پیچھے نہیں رہابلکہ اس میں کسی قسم کی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ مولانا ابو الحسن ندوی، ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی، عبد العزیز میمنی، یوسف سورتی اور خلیل عرب وغیرہ نے اپنی عربی تحریر کے ذریعہ سے ایک دنیا کو اسیر کیا - اسی سلسلہ کی اہم کڑی ڈاکٹر لقمان سلفی ہیں جن کی عربی دانی کا معترف عرب بھی ہے خصوصا ادب نواز طبقہ بھی ہے۔

 عربی زبان و ادب میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ رہا کہ انہوں نے حالات حاضرہ کے موافق مدارس اسلامیہ کے عربی زبان و ادب کی تدریس کے لیے ایک اہم سلسلہ '' السلسلۃ الذھبیۃ للقرأۃ العربیۃ '' تیار کیا - یہ خوبصورت سرورق کے ساتھ کتابی شکل میں موجود ہے جس میں ابتدائیہ تا فضیلت کے لیے بارہ جلدیں ہیں - یہ سلسلہ قدیم و جدید کا امتزاج، ادبی شہ پارے، زبان و ادب کی تاریخ و تہذیب، گردش زمانے کے ساتھ زبان و بیان کی تغیرات، قرآن و سنت کے ادبی متون پر مشتمل ایک عمدہ و مفید سلسلہ ہے  - مرحلہ وار اس کی ترتیب و تنسیق قابل ستائش و لائق تعریف  ہے - پاکستان کے بعض ادارے میں بھی یہ کتاب شامل نصاب ہے۔

 اس کے علاوہ بقول استاد محترم شیخ اسد الرحمن تیمی ڈاکٹر صاحب ادب کے کثیر المطالعہ شخص تھے اور عربی زبان و ادب کے اسرار و رموز پر مضبوط گرفت تھی - اس کی عربی دانی اور اس میں مہارت و براعت کا اندازہ سے اسی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک زمانہ میں سعودی عرب سے ایک مجلہ '' الادیب '' شائع ہوتا تھا اور اس میں انہیں اشخاص کی نگارشات شائع ہوتی تھیں جو ادب کے اعلی چوٹی پر فائز تھے اس میں ڈاکٹر لقمان سلفی کے مضامین شائع ہوتے تھے اور آپ اس کے ایک خصوصی کالم نگار تھے۔ایک مستقل کالم آپ کے نام سے شائع ہوتا تھا، بعد میں اس مجلہ کی اشاعت بند ہو گئی - اس کے علاوہ عربی زبان میں ''اہتمام المحدثین بنقد الحدیث سندا و متنا '' اور  مکانۃ السنۃ و حجیتہا فی التشریع الاسلامی،،اور ”الرحمۃ المہداۃ،،جیسی اہم و تحقیقی کتب اپنے اشہب قلم سے لکھ کر دنیا کو یہ بتا دیا کہ عجم محض اپنی زبان کو نہ صرف جانتا ہے بلکہ دنیاکی دوسری زندہ زبان پر بھی عبور رکھتا ہے اور اس میں اپنے اظہار خیال کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

 ڈاکٹر علامہ کی عربی دانی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ شیر اہل حدیث پاکستان علامہ احسان الہی ظہیر کو جب عربی زبان و ادب کی کسی عبارت میں کوئی دقت محسوس ہوتی تو وہ اور کسی کے پاس نہیں بلکہ عرب کو چھوڑ کر تنہا اپنے ساتھیوں سے چھپ کر ڈاکٹر صاحب کے پاس آتے تھے اور زبان کی گتھیوں کو حل کرتے تھے۔اس واقعہ کو ڈاکٹر صاحب نے اپنی خود نوشت سوانح ”کاروان حیات،،کے اندر بیان کیا ہے۔مفتی عام علامہ ابن باز بھی آپ کی علمی شخصیت کا معترف تھے اور انہوں نے کہا کہ اس شخص (ڈاکٹر لقمان سلفی) میں جو علمی جوہر ہے اس کی وجہ سے میں انہیں پر اعتماد سمجھتا ہوں۔

 بحیثیت مجموعی یہ بات سامنے آئی کہ ڈاکٹر صاحب نہ صرف حدیث و تفسیر میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑے بلکہ زبان و ادب خصوصا عربی زبان و ادب کے نوک و پلک  کی درستگی میں اہم رول ادا کیے اور آئندہ آنے والی نسل کے لیے بھی اس میدان میں اپنی قیمتی نگارشات پر مشتمل عمدہ سلسلہ '' القراءۃ العربیۃ '' چھوڑ گئے - یعنی اس میدان اپنی جگر کاوی و جگر سوزی سے عالم عربی کو متاثر کیا اور اس مصرعہ کے مصداق ٹھہرے کہ  ؎

     مجھے مقام نہ دو میں خود مقام لے لوں گا

والدنا العطوف الحنون يُذكر إلى الأبد.


 جمال الدين جلال الدين التيمي. 
الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة.

قد اطلعت على وفاة والدنا العلامة الدكتور محمد لقمان السلفى رحمه الله رحمة واسعة في الساعة الواحدة وعشرين دقيقة ظهرا من ٢٠٢٠/٠٣/٠٥م ،فوقع الخبر علي كالصاعقة التي أطارت لبي وجعلتني أعمى أجد أمامي الظلام الحالك ولا أبصر شيئا، وأخرس لا أسمع شيئا، وأغمي علي تماما وصرت جسما جامدا لا حراك لي، وبعد أن أفقت شيئا أرسلت الخبر إلى بعض أصحابي فصدّقوه، وفتحت فيسبوك فوجدت الأخبار المتوالية المتدفقة من محبيه فتيقنت أن والدنا العطوف تركَنا يتامى وتائهين في ظلام هذه الدنيا وانتقل إلى جوار رحمة الله، رحمه الله رحمة واسعة. 
ماذا أكتب من صفاته المتعددة؟ وماذا أذكر من أخلاقه الكريمة وخصاله الحسنة؟ وماذا أعد من إنجازاته المتنوعة وإسهاماته المختلفة؟ هل أحد من الكتّاب يستطيع أن يستوعب مساعيه العظيمة وجهوده الجبارة في كتاب ضخيم؟ كلا!! فما بال هذه العجالة؟ لأن حياته ماكانت منحصرة بجانب، بل كانت متعددة الأطراف والجوانب، ففي وقت واحد كان أديبا ماهرا، وفقيها باهرا، وخطيبا مصقعا، ومحدثا عظيما، ومفسرا متقنا، وكان متجلدا وقنوعا، وشفيقا وعطوفا، وكريما وحنونا، فهو لا يذكر إلا بالجميل ويكرر الخلف في شأنه هذا البيت الأنيق:
أولئك آبائي فجئني بمثلهم   إذا جمعتنا يا جرير المجامع. 
 *فوالدنا العطوف يُذكر إلى الأبد* لأنه كان متصفا بصفات كريمة ومتحليا بخصال حسنة، فكان متواضعا يخفض جناح الذل لأولاده وعلمائه ولطلبة العلم ولجميع الناس، فلم يقرب إليه قط أي فخر وغرور مع ما حصل ما حصل من الشرف والمجد، ومع ما حظي بهذه المرتبة العليا، ومع ما أُعطي هذه الأموال الطائلة والثروات الحافلة، وكان صابرا ومتجلدا في سبيل إدراكه هذا الفوز والفلاح فلا تعب ولا كسل حتى بلغ ما بلغ من هذا الفوز العظيم والفلاح الجليل الذي لا يمكن لأحد أن يناله إلا يتمناه،وكان حازما متقنا في أعماله، فيقوم بأعماله بالدقة والروية والتثبت والتأني،وكان بحرا في العطاء والسخاء يبعثر اللآلي لذوي الحاجات، فكم من بيوت بناها للفقراء، وكم من يتامى تكفل بكفالاتهم وكم من أموال طائلة أنفقها للمساكين، وكان مصباحا لامعا وسراجا منيرا يهتدي به الناس ليلا ونهارا، يصدق عليه قول من قال:
أغر أبلج تأتم الهداة به    كأنه علم في رأسه نار. 
 *ويُذكر إلى الأبد* لأنه كان مستغلا بأوقاته، فلم يضيّع من أوقاته حتى ثانية من الثواني، كان حريصا على العمل ونشيطا فيه، فهل تظنون أنه بلغ إلى هذا المرام السامي بغير استغلاله الوقت؟ وهل ترون أنه ترك هذا التراث العظيم المذكور إلى قيام الساعة بغير أن يكب على العمل ويلم به؟ كلا!! بل سهر الليالي وتجافى عن المضاجع ووحّد الليل والنهار ثم أنجز هذه الأماني العليا التي لا يدركها إلا من منّ الله عليه بفضله وكرمه،ونحن التيميون لن ننس دروسه القيمة بعد كل فجر في المسجد الجامع لجامعتنا وبعد العصر أو غير ذالك في مسجد جندنباره، فهذه الدروس عند رحلاته إلى جامعته العزيزة ما هي إلا تشير إلى استغلاله الوقت، فكأنه لا يريد تضييع أية دقيقة من أوقاته حتى في رحلاته إلى مكان ما، وهذا مثال واحد، وغيره كثير لا يحصى ولا يعد، وأيضاً يتضح استغلاله الوقت بشعره الجميل الذي كان يكرره في أكثر المجالس:
(مری زندگی ایک مسلسل سفر ہے   جو کسی منزل پہ پہنچی تو منزل بڑھا دی).
 *ويُذكر إلى الأبد لأنه* أسس جامعة الإمام ابن تيمية وأحسن إدارتها وبلّغها إلى هذا الرقي والازدهار الذي يشهده العالم اليوم والذي نشاهده بأم أعيننا، فالجامعة أخذت الشهرة العالمية في وقت قليل من تأسيسها، و إلى الآن تخرج فيها مئون من طلبة العلم واشتغلوا بوظائفهم في أنحاء العالم كمدرسين في المدارس والجامعات، ومؤظفين في الشركات، ومصنفين ومؤلفين في مراكز التأليفات، ودعاة في الحفلات والندوات، وأسس كلية خديجة الكبرى لتعليم البنات، ففيها أيضا يتخرج عدد كبير من الطالبات كل عام ويقمن بدعوة الناشئات المسلمات والإقماع عن الفواحش والمنكرات من المجتمعات، وأقام المكتبة المركزية في الجامعة ووفّر لها الكتب من جميع الفنون حتى منح لها المركز الثاني من مكتبات الولاية، فلا يتخرج متخرج في الجامعة ولا تتخرج متخرجة في الكلية ولا يُقرأ أي كتاب من المكتبة إلا يكون له صدقة جارية بإذن الله. 
 *ويُذكر إلى الأبد لأنه* صنف تصانيف متنوعة وألف تآليف مختلفةً رغم أشغاله المتعددة الأطراف من الدعوة والتبليغ وإدارة الجامعة والتدريس، فألّف خادما للقرآن الكريم ومشعرا بأهمية تعليمه " تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان" وكتب عدة كتب خادما للسنة النبوية فكتب" مكانة السنة في التشريع الإسلامي ودحض مزاعم المنكرين والملحدين" وأيضا كتب للدفاع عن منكري الحديث " اهتمام المحدثين بنقد السند والمتن ودحض مزاعم المستشرقين وأتباعهم" و" تحفة الكرام شرح بلوغ المرام " و" رش البرد شرح الأدب المفرد" وألّف شافيا غلائل عطاش السيرة النبوية" الصادق الأمين " و" سيد المرسلين " وصنّف لملء خلاء الأدب العربي " السلسلة الذهبية للقراءة العربية " اثنتي عشرة جزءا، وفي الفقه ألّف" السعي الحثيث إلى فقه أهل الحديث" فبهذه الكتب القيمة يكون اسمه باقيا إلى يوم الساعة قال القائل:
أخو العلم حي خالد بعد موته    وأوصاله تحت التراب رميم. 
 *ويُذكر رحمه الله إلى الأبد* لأنه كان سلفيا ينهج نهج السلف ويحذو حذوهم، وكان شديدا في هذه المنهجية السلفية ومتمسكا بها، ما حاد عنها قيد أنمولة في دعوته وتصنيفه وتأليفه، بل أفنى حياته كلها في الدعوة إليها ونشرها في عامة الناس، وكان يفتخر بها ويذكرها في شأنه ويكررها مرارا وتكرارا في دروسه وخطبه وجميع كلامه لما لها أهمية كبرى إذ هي سبب نجاة المؤمن فلا ينجو إلا من سار بسيرة السلف الصالح في جميع جوانب حياته، فلذا كان علاّمتنا تمسك بها تمسكا حتى لبّى إلى نداء ربه. 
فوالدنا العطوف الحنون فوق ما يكتب أي كاتب ولو كتب مجلدات في حياته، لا ببلغ مبلغه ولا يمكن أن يجمع جميع ما اتصفه العلامة من أخلاق كريمة وما أنجزه من أسهامات رفيعة. 
أدعو الله أن يغفر له ويرحمه ويرفع درجاته ويدخله فسيح جناته ويسكنه في العليين ويحشره مع الأنبياء والصديقين والشهداء والصالحين. 
آمين يارب العالمين.

العلامة الدكتور محمد لقمان السلفي وجهوده العلمية والدعوية

د. ظل الرحمن لطف الرحمن التيمي
الأستاذ المساعد بجامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية بالرياض

كالعادة أديت  صلاة الظهر  في المسجد الحارثي بمكة المكرمة ، وذلك يوم الخميس، الخامس من مارس 2020، ورجعت إلى شقتي، وجلست مع أمي الحبيبة الكريمة،  إذ وصلني خبر مؤلم  عن وفاة العلامة الدكتور محمد لقمان السلفي، رحمه الله رحمة واسعة وأدخله في فسيح جناته،  فكان الخبر كصاعقة هزّت كياني هزّاً، ولم يكن لي سبيلاً إلا الصبر والاحتساب، فقلت:«إنا لله وإنا إليه راجعون»، واتصلت بالإخوة الأفاضل: الشيخ حفظ الرحمن التيمي والشيخ ثناء الله التيمي، لنرتب السفر إلى الرياض، لتقديم العزاء والمشاركة في الجنازة والتدفين. ومن ثم استفسرت من أسرة الفقيد عن ترتيبات التدفين، فأفادوني أنه حسب وصيته سوف ينقل جثمانه إلى الحرم المكي لصلاة الجنازة  عليه إن شاء الله.
بدأ محبوه يقدمون التعازي للفقيد على وسائل التواصل الاجتماعي حتى صارت كما أنها مليئة بنعيه، فكان ذلك دليلاً -ولله الحمد- على السُّمعة الحسنة والميزة الطـيّبة التي كان يتحلى بها. و إنه كان يملأ حياتي وحياة التيميين والتيميات والدعاة والعلماء بابتسامه المثالي وعطفه الغالي، وكان يستقبل الناس ويرحبهم في جامعة الإمام إبن تيمية في الهند وفي بيته ومكتبة بالرياض طوال حياته ترحيبا حارا. اللهمّ اغفر له وارحمه واجعل قبره روضةً من رياض الجنة. يا حيّ يا قيوم.
فقدت الأمة الإسلامية بوفاة العلامة،  علَماً من أعلام الدعوة الإسلامية، وداعية من الدعاة المعروفين الذين حملوا على كواهلهم مسئولية الحفاظ على تراث هذا الدين و خدموا في مجال الحديث والتفسير والعقيدة والسيرة النبوية والأدب العربي والترجمة والمناهج الدراسية للمدراس والجامعات الإسلامية ونشر العقيدة الحقة.
كان العلامة في الأمة بمثابة مصباح يهتدي به السالكون في الدياجي، ويستضيء به التائهون في الظلمات،وكان نجما هاديا لمن سار في الظلمات المظلمة، وكان كالغيث المدرار يأتي على الأرض الهامدة فتهتز وتربو، ثم تنبت من كل زوج بهيج.
كان طالبا مثاليا مجدا ذكيامنذ دراسته الابتدائية إلى تخرجه في دارالعلوم الأحمدية السلفية بدربنجة حيث أكمل المتوسطة والثانوية العالمية والفضيلة، وإلى التحاقه بالجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة  وغيرها،  وكان أساتذته يقدرونه ويشجعونه على مواظبته في الدروس، واهتمامه بالفصول الدراسية،  واستماعه للمحاضرات وما إلى ذلك،وحصل الشيخ درجة قياسية في نتيجة إختبارات لجنة ولاية بيهار المدرسية، فجاء بهذا الخبر من بتنا جدي لأمي العلامة ظهور الرحماني رحمه الله، ولم يدخل من الباب الرئيسي لدارالعلوم الأحمدية السلفية بدربنجة، إلا أعلن بشرى إنجازه وتميزه وحصوله الدرجة القياسية، وقال بصوت عال: حصل لقمان على درجات في الاختبار الحكومي للجنة المدارس الحكومية لولاية بيهار لم يحصل عليها أي واحد في السنوات العشر السابقة. هذا هو الفقيد، هذا هو العلامة ، هذا هو نبوغه، هذه هي مؤهلاته، نفتخر بك يا شيخنا. تغمده الله بواسع رحمته.
لقد تتلمذ الشيخ على أيدي بعض الأعلام البارزين أمثال العلامة عبدالعزيز بن باز رحمه الله، فدرس عليه العقيدة الطحاوية في الجامعة الإسلامية، وحضر دروسه، ولم يزل يستقي من منهله الصافي المستمد من الكتاب والسنة حتى لقي شيخُه ربَّه، والعلامة ناصر الدين الباني، والعلامة الشيخ محمد الأمين الشنقيطي،والشيخ عبد الرزاق عفيفي،والشيخ تقي الدين الهلال،والشيخ عبد المحسن العباد والعلامة ظهور الرحماني رحمهم الله رحمة واسعة وغيرهم، فصار من فحول العلماء لحركة الكتاب والسنة في الهند.
تتجلى جهود الشيخ العلمية والدعوية في إنجازاته القيمة وأعماله النبيلة التي أتمها عن طريق تأسيس جامعة الإمام إبن تيمية، وكلية خديجة الكبرى لتعليم البنات، ومركز العلامة ابن باز للدراسات الإسلامية، ودارالداعي للنشر والتوزيع، وكل هذه الكليات والمعاهد والمراكز  تعبر عن عمله الدؤوب وإخلاصه البالغ وتؤدي خدمات جبارة في إعداد الجيل الجديد ونشر الإسلام الخالص، وتحافظ على الهوية الإسلامية منذ تأسيسها، فخرجت دفعات من العلماء البارزين من هذه الجامعة، وانتشر خريجوها في أرجاء العالم، وسجلوا رقماً قياسياً في مجال التصنيف والتأليف، وهي لاتزال قائمة مثل منارة نور في الليل الدامس.
ثبت الشيخ على الحق كالجبال الراسيات، وقاوم الخطر المُدلهم على الدين والحديث النبوي والعقيدة السلفية الحقة بكل ما أوتي من قوة ووسيلة، ولم يزعزعه عن أعماله ودفاعه عن السنة أشد المحن وأقوى الأعاصير والمؤامرات الخطيرة، وحينما حدثت قضية رسالة مزورة التي انتسبت إلى العلامة في عام 2002، وكانت فتنة كبرى بين المسلمين، وكانت تلهب نار العداوة بين أهل الحديث والديوبنديين، وكان هدفها الأساسي الحد على مسيرة الجامعة والمركز، ولكن مكروا ومكر الله،ونجاه الله والجامعة من هذه الفتنة، ولم تمنعه هذه المؤامرات من هدفه البناء، وجعل يستمر في إنارة دروب الخير وسبل الصلاح والرقي والازدهار في ظل الإسلام الوارف.
كان الشيخ باحثا كبيرا, ومؤلفا بارعا، وأديبا مؤهلا، وكاتبا قديرا، ومفسرا عملاقا،وكان يتشوق إلى التوعية الإسلامية وإشحاذ الحماس الديني في قلوب عامة الناس وخاصتهم،وتربية النشئ الجديد والطلاب الإسلامية،  ويستخدم وسيلة التأليف والترجمة في هذا المجال بكل إخلاص وتفاني، كانت أمنيته أن يتمكن طلاب المدراس من اللغة العربية ويجيدوها كتابة وتحدثا، فتحقيقا لأمنيتة الخالصة قدم جهودا مثالية لها، وأعد مقررات لدراسة اللغة العربية لطلاب المدارس الهندية والدول الآسيوية، وسماها: السلسلة الذهبية للقراءة العربية، في إثني عشر مجلدا.
 كانت له رغبة أنيقة في مجال الأدب العربي والترجمة، فقام بترجمة المراسلات الشهيرة التي جرت بين العلامة أبي الأعلى المودودي ومريم جميلة، والتي تسببت في اعتناقها بالإسلام، وسماها: رحلة مريم جميلة الأمريكية من الكفر إلى الإسلام،وأشاد بهذه الترجمة العلماء والدعاة والأدباء والأفاضل، وأمر مفتي المملكة العربية السعودية سابقا إلى توزيعها بين الطلاب السعودين الدارسين في الدول الغربية والأوربية، لتوفر لهم معلومات قيمة حول الإسلام وطرق إقناع غير المسلمين، فنال الكتاب قبولا حسنا.
وكان للشيخ شغف كبير في الحديث النبوي الشريف، وكان يختص بهذا المجال المبارك، فخصص بحثه للماجستير والدكتوراه فيه، وأعد بحث الدكتوراه في الحديث النبوي وسماه ب: اهتمام المحدثين بنقد الحديث سندا ومتنا ودحض مزاعم المستشرقين، وأعد بحثه للماجستير وسماه: السنة ومكانتها في التشريع الإسلامي، وله مؤلفات أخرى في الحديث النبوي ومنها:"هَدْيُ الثَّقَلَين في أحاديثِ الصحيحين”، و”تُحفَةُ الكِرَام في شرح بلوغ المرام”، و”فتحُ العلَّام شرح بلوغ المرام”، ورشُّ البردِ شرح الأدبِ المُفرد”، ولايفوتني أن أذكر أنني تشرفت بترجمة هذاالكتاب في اللغة الأردية وسماه شيخنا العلامة ب"أخلاقيات مسلم" ويحتوي على أكثر من ألف صفحة.
وله مؤلفات قيمة في التفسير، ومنها: تيسير الرحمن لبيان القرآن في الأردية و"فُيوضُ العلَّام في أحاديث الأحكام”.و له كتاب قيم في الفقه وهو: "السَّعيُ الحثيثُ في فقهِ أهلِ الحديث”، وألف في السِّيرةِ النَبَويَّة في اللغة العربية والأردية ومنها: "الصَّادقُ الأمين”، و"الرحمة المهداة في سيرة سيِّدُ المرسلين، وكذلك"بياري نبي" باللغة الأردية وغيرها.
كان له رغبة أكيدة في الصحافة الإسلامية، فكان يكتب عمودا خاصا لبعض الصحف العربية في المملكة بعد تخرجه في الجامعة الإسلامية، ومن ثم كان يكتب كلمة التحرير لمجلة الفرقان الشهرية بدون انقطاع لسنوات طويلة، وتشرفت أن أترجم مقالاته المذكورة باللغة الأردية وكانت تنشر في مجلة طوبي الأردية لمدة خمس سنوات أو أكثر.
قضى الشيخ العلامة حياته كلها في التأليف والتصنيف وإدارة جامعة الإمام ابن تيمية وكلية خديجة الكبرى، ورفع مستواها العلمي، حتى إن آخر اتصاله كان عن الجامعة الذي أغمي فيه ومن ثم لم يخرج من هذا الإغماء ولم يعد إليه وعيه تماماحتى لقي الله سبحانه وتعالي راضية مرضية، وبعض الأحيان حينما عاد وعيه، خاصة قبل يومين من موته، فكان يلقن الناس والموجودين عنده عن التوحيد ونشره، والصلاة ومواظبته، ويكررالتلقين عنها مرارا وكرارا بصوت عال.
تقبل الله جهوده الغالية وغفر له وأدخله فسيح جناته وجعل قبره روضة من رياض الجنة. آمين يار ب العالمين.

اچھا مسلمان انتقال کرچکے مسلمان کے محاسن ہی ذکرکرتا ہے

ثناءاللہ صادق تیمی 

مرنے والا مرجاتا ہے اور اپنے ساتھ اپنے اچھے اور برے اعمال لے جاتا ہے ۔کسی ایسے بڑے آدمی کی موت جس نے زندگی میں بہت کچھ کرکے دکھایا ہو ، بہت سے لوگوں کو تکلیف سے دوچار کرتی ہے خاص طور سے وہ لوگ جو اس سے براہ راست  استفادہ کرنےو الے رہے ہیں ۔جذبات میں شدت ہوتی ہے اور انسان کبھی کبھار شدت محبت میں وہ کچھ بھی کہ جاتا ہےجو نہیں کہنا چاہیے اور جسے حقیقت نہیں کہا جاسکتا ۔ محبوب کی موت واقعی ہوتی ہی ایسی ہے ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا حال معلوم ہے ۔
علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ کی موت ہوئی اور یہ تو کوئی آدمی بہ آسانی کہ سکتا ہے کہ ان کی موت ایک عام آدمی کی موت نہیں تھی ۔ جامعہ امام ابن تیمیہ کے کلیۃ خدیجۃ الکبری لتعلیم البنات سے فارغ ہونے والی تیمیات کی تعداد ڈھائی سو سے زیادہ ہے ۔جامعہ امام ابن تیمیہ سے فارغ ہونے والے تیمی نہیں بھی تو ساڑھے چار سو پانچ سو ہوں گے اور ان دونوں اداروں سے نامکمل تعلیم کے ساتھ نکلنے والے تو اور بھی زيادہ ہوں گے ۔ معھد زین بن ثابت لتحفیظ القرآن  الکریم سے سینکڑوں لوگوں نے حفظ مکمل کیا ہوگا ، ابھی جامعہ کے تمام شعبوں میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات نہیں بھی تو دو ہزار سے زیادہ  ہوں گے  اور ان تمام کے پیچھے بلا شبہ اللہ کے فضل وکرم کے بعد  اگر کسی فرد کی محنت تھی تو وہ علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ تھے ۔
کچھ  لوگوں کو تکلیف ہےکہ ان پر اتنا کیوں لکھا جارہا ہے ؟ تیمی اخوان لکھنے میں اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں ، اگر صرف تیمی اخوان ہی لکھیں تو مضامین کا ڈھیر لگ جائے ۔
پھر یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے ادارہ کھول کر نہ صرف یہ کہ  اسے کامیابی سے چلایا بلکہ اسے معیاری ادارہ بناکر دکھایا لیکن اور بہت سے دوسرے بانیان مدارس کی طرح ان کی ساری شہرت ان کے ادارے کی مرہون منت نہیں رہی بلکہ انہوں نے علم وادب کے میدان میں بھی لازوال نقوش چھوڑے ۔ جن لوگوں کو تعصب نے اندھا کردیا ہے ، وہ کبھی اکیلے میں بیٹھ کر سوچیں کہ کتنے لوگ ہوں گے جن کو " تیسیر الرحمن لبیان القرآن " جیسی تفسیر لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی ؟ کتنے ہوں گے جنہوں نے " اھتمام المحدثین بنقد الحدیث سنداومتنا " جیسی اہم کتاب تصنیف کی ہوگی ؟ کتنے ہوں گے جنہوں نے " الصادق الامین " جیسی سیرت کی کتاب لکھی ہوگی ؟ کتنے ہوں گے جنہوں نے " السعی الحثیث الی فقہ اھل الحدیث " جیسا کوئی کام کیا ہوگا ؟ کتنے ہیں جنہوں نے السلسلۃ الذھبیۃ للقرائۃ العربیۃ جیسا سیٹ تیار کیا ہوگا ؟  رحلۃ مریم جمیلہ من الکفر الی الا سلام  کی شکل میں معیاری ترجمہ پیش کیا ہوگا ؟ حدیث  کی کسی کتاب کی کوئی اچھی سی شرح لکھی ہوگی ؟ اسلاف کے مفید سرمایوں کو نئے انداز میں زیور طباعت سے آراستہ کرکے عام کرنے کی کوشش کی ہوگی ؟ اردو عربی میں کامیاب رسالے نکالے ہوں گے ؟
آپ کو ان کے " علامہ " ہونے پر اعتراض ہے لیکن ذرا ارد گرد نظر دوڑا کر دیکھیے کہ کتنے لوگ ان کی طرح ہمہ جہت کام کے آپ کو ملتے ہیں ؟ کبھی ان کی کتاب " کاروان حیات " کے صفحات پلٹ کر دیکھیے اور پھر آپ کو احساس ہوگا کہ وہ صرف خود کو علامہ نہیں سمجھتے بلکہ ان بہت سے  علماء کے لیے وہ " علامہ " ہی لکھتے ہیں جن کو عام طور سے علامہ نہیں کہا جاتا ۔ آپ کو زندگی میں ان سے کوئی اختلاف ہوسکتا تھا ، ہوا ہوگا ، ان کی کوئی چيز آپ کو اچھی نہیں لگی ہوگی ، وہ انسان تھے ، فرشتہ نہیں تھے ، غلطیوں سے مبرا نہيں تھے لیکن مسلمان تھے ، انتقال کرگئے تو آپ کو افسوس ہونا چاہیے تھا ، یہ آپ کے لیے بھی آزمائش تھی کہ کہیں تعصب و تنگ نظری اتنی بھی تو گہری نہیں کہ آپ ایک عالم دین کی موت پر افسوس کرنے کی بجائے اس کی خامیوں کا پٹارہ لے کر بیٹھ گئے اور اس کے محبین کی محبت کو کچھ اور زاویے سے پیش کرنے لگے ۔ 
وہ تو مر گئے ، اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں ہیں ، ہم ان کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں ، لیکن آپ نے تو اپنا اخلاق دکھلادیا ۔ عام مسلمان کی موت بھی ہو جائے تو اس کے محاسن ہی ذکر کرنے چاہیے اور ہمارے شیخ تو بہرحال عام نہیں تھے اور یہ سچائی اگر آپ قبول نہ بھی کریں تو سچائی ہے ۔
ان کی زندگی میں خود خاکسار کا یہ حال رہا کہ بہت سی علمی فکری باتوں میں ان سے اختلاف کیا ، ان کی تالیف کردہ کتابوں پر تبصرہ کیا تو بے لاگ تبصرہ کیا ، محاسن کے ساتھ ان کی خامیوں کو بھی اجاگر کیا ، بعض معاملات میں بات آگے بڑھی تو وہ تھوڑے ناراض بھی ہوئے اور پھرخوش بھی ہوئے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان چيزوں نے ان کی اصل اہمیت کو کم کردیا ہو، ان کے مقام سے غافل کردیا ہو اور ہم خود کو کچھ اور سمجھنے لگے ہوں ۔
میں بڑے بڑے لوگوں کو جانتا ہوں جو ان کی کتابوں کی تعریف کرتے ہیں ، حدیث و تفسیر اور فقہ و ادب کے ماہرین کو جانتا ہوں جو ان کو سراہتے ہیں ایسے میں کسی جیسے تیسے کی باتوں کا کیا اعتبار لیکن اخلاق کی اس گراوٹ پر افسوس ضرور ہوتا ہے ۔ واضح رہے کہ علمی انداز میں کسی علمی کاوش کا جائزہ لینا اور بات ہے اور کسی کی تنقیص اور بات ۔
آپ کی موت پر بعض ان علماء نے بھی اپنے گہرے دکھ درد کا اظہار کیا ، ان کی خدمات کو سراہا اور ان کے حسب حال القاب وآداب استعمال کیے جنہیں زندگی میں بعض معاملات میں ان سے اختلاف رہا لیکن یہی چیز در اصل ذی علم علماء اور چھٹ بھیوں میں تفریق کرتی ہے ۔اس سے خود انہوں نے اپنی عظمت فکر ونظر کا احساس دلادیا ۔ فجزاھم اللہ خیرا ۔
اللہ پاک ہم سب کو صحیح سمجھ دے اور کتاب وسنت کے مطابق چلنے کی توفیق دے اور ہمارے مربی علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ۔ آمین

تعزیتی نشست بروفات مفسر قرآن علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ۔ زیر اہتمام مدرسہ فلاح المسلمین السلفیہ جنگڑوا روتہٹ نیپال۔

 تحریر:- محمد علی السلفی
ناظم مدرسہ فلاح المسلمین السلفیہ جنگڑوا 

یہ بات ہے اکتوبر 1998 کی کہ دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کے اندر جمعیت ابنائے سلفیہ کی سہ روزہ دعوتی واصلاحی اور ابناء کی احتسابی میٹنگ تھی چونکہ ابناء کی حیثیت سے میں بھی اس مجلس میں شریک تھا سامعین ابناءکی پہلی صف میں ایک شخص پر میری نظر پڑی جو بہت متانت وسنجیدگی سے بیٹھے ہوئے تھے اور بغور میٹنگ کی کاروائی کو سن رہے تھے گورا چہرہ چوڑی پیشانی گہری اور متوازن سیاہی مائل آنکھیں قدوقامت ایسا کہ پستہ قد بھی نہیں کہا جاسکتا  بھرا ہوا جسم جسکو موٹاپا کا بھی گمان نہ ہو بلکہ یوں کہا جائے کہ نہ نحیف ولاغر اور نہ ہی لحیم وشحیم پوری مجلس میں الگ ہی نمایا شخصیت کا مالک میرے انجان اور غیر شناسا میں میں نے اپنے ہم نشین سلفی اخوان سے استفسار کیا کہ وہ صاحب کون ہیں تو انہوں نے جوابا عرض کیا کہ انکو نہیں پہچانتے ہیں دارالعلوم احمدیہ سلفیہ کو پورے عالم اسلام میں ان پر فخر حاصل ہے کہ انہوں نے ہی عرب وعجم میں دارالعلوم کا نام روشن کیا ہے وہ مشرقی چمپارن چندنبارہ کے ڈاکٹر محمد لقمان  صاحب سلفی ہیں ۔
ان کا یہ جملہ سننے کے بعد مجھے مزید کسی تعارف کی ضرورت نہیں تھی ظاھر سی بات ہے ان کے بارے میں بہت سنا اور جان رکھا تھا بس کبھی دیکھا نہیں تھا بلکہ دیدار کی تمنا اس دن پوری ہوئی، یہ پہلا موقع تھا جب میں نے ان کو دیکھا اور اسکے بعد پھر دو تین بار ملاقات ہوئی لیکن تفصیل سے بات کرنے موقع اس وقت ملا جب 2013 عیسوی میں مدرسہ فلاح المسلمین السلفیہ جنگڑوا کے زیر اہتمام دوروزہ بنام " پیام انسانیت " کانفرنس منعقد کر رہا تھا اور مجلس استقبالیہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ڈاکٹر محمد لقمان صاحب سلفی کو بھی بحیثت مقرر مدعوکیا جائے اسی مناسبت سے بغرض صلاح ومشورہ جامعہ ابن تیمیہ میں پہونچا اور ڈاکٹر ارشد فہیم الدین صاحب مدنی کو دعوت نامہ پیش کرنے کے بعد مفسر قرآن علامہ موصوف رحمہ اللہ کے بارے میں پوچھا کہ وہاں تک میرا دعوت نامہ کیسے پہونچے گا اور ان سے بات کیسے ہوگی ، شیخ ارشد مدنی صاحب کو اللہ اجر جزیل سے نوازے انہوں نے اچھا مشورہ دیا اور کہاکہ ڈاکٹر صاحب  email I'd  آپ لے لیجئے اور اسی پتے پر آپ دعوت نامہ ارسال کر دیجئے اور ایک روز کے بعد ان سے بات کر لیجئے آپ کو جواب مل جائیگا میں ایسا ہی کیا دعوت بھیج دیا اور اسکے بعد مجھے کسی ایسے آدمی کی جستجو تھی کہ کوئی ایسا آدمی ملے جو ڈاکٹر صاحب سے میری بات کر دے کیونکہ میں سوچ رہا تھا کہ ڈاکٹر محمد لقمان صاحب ایک عظیم شخصیت کے مالک ہیں نا معلوم وہ بات بھی کرینگے یا نہیں پھر ہمت کر کے میں نے ان کو سعودیہ والےنمبر پر فون کیا پھر ان سے جو بات ہوئی وہ میرے تصور سے پرے تھی میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک عالمی شہرت یافتہ شخصیت کا حامل شخص مجھ سے اتنی اخلاق مندی اور خندہ پیشانی سے سنجیدہ گفتگو کرینگے انکی گفتگو سے انکی اعلی ظرفی اور ذھنی بالیدگی کا اندازہ ہوا کسی نے سچ کہا ہے! 
جو اعلی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں 
صراحی سر نگوں ہوکر بھرا کرتی پیمانہ 
جب میں نے کہا کہ جنگڑوا میں جلسہ کر رہا ہوں جس میں آپ کی آمد ھمارے لئے باعث صد افتخار اور جلسے کی کامیابی کی ضمانت ہوگی اسکے بعد انہوں نے جنگڑوا کے اپنے پرانے ساتھیوں کے ایک ایک کر کے حال احوال دریافت کرنے لگے اور میں نے سب کے بارے میں انکو تفصیل سے بتا یا پھر انہوں نے ھماری بستی جنگڑوا اور یہاں پر قائم اس ضلع کی سب سے پرانی سلفی دانشگاہ مدرسہ فلاح المسلمیں السلفیہ سے اپنی محبت اور دلی جذبات اظہار کیا اور مجھ سمیت ادارہ کی ترقی اور جلسے کی کامیابی کے لئے دعائیں بھی دیں اور صحت کی ناسازی کے باوجود کہا کہ میں پہونچنے کی پوری کوشش کرونگا لیکن فون کرتے رہئے گا اور میں نے کئی بار فون بھی کیا لیکن شاید اللہ کو منظور نہیں تھا ان دنوں انکی طبیعت ناساز تھی اسلئے شریک جلسہ نہ ہو سکے نیز یہ بھی عرض کردوں کہ 1992 عیسوی میں مرکزی جمعیت کے زیر اہتمام منعقدہ ایک روزہ جلسہ میں وہ وہ جنگڑوا تشریف لا چکے تھے 
علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ گوناں گوں خوبیوں کے مالک تھے انکج خوبیوں اور خدمات کا یہاں پر احاطہ ممکن نہیں وہ تنہا ایک جہا ں کی حیثیت رکھتے تھے نیپال کی سرحد سے متصل اپنے آبائی وطن وطن چندنبارہ میں ایک چھوٹا سا مدرسہ قائم کیا تھا لیکن ادارہ کی تعمیر وترقی متعلق انکے مخلصانہ جذبوں کو اللہ رب العالمین نے شرف قبولیت بخشا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک قلیل سی مدت میں باری تعالی نے معھد التعلیم کو مرکز العلوم اور جامعۃ الامام ابن تیمیہ بنا دیا جس ایک جہاں نے کسب فیض حاصل کیا اور کر رہا ہے اور ان شاءاللہ کرتا رہے گا اسکے ساتھ تعلیم نسواں کےلئے آپ نے مدرسہ خدیجۃالکبری بھی قائم کیا،  یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان دونوں اداروں نے اپنی تعلیمی تربیتی ودعوتی کوششوں سے بہار کے اکثر حصوں سے تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ شرک وبدعت ضلالت وجہالت گمراہی بے جا رسم ورواج اور معاشرے میں پائے جانے والے بہت سارے واہیات و خرافات کاخاتمہ کر کے ایک صالح پاکیزہ معاشرہ عطا کیا ہے یقینا یہ علامہ رحمہ اللہ کی کوششوں کا ثمرہ ونتیجہ ہے ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کا سانحہُ ارتحال عالم اسلام کا منجملہ علمی خسارہ ہے آپ کے بعد یہ علاقہ علمی اعتبار سے یتیم ہوچکا ہے اور ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا بلکہ یوں کہا جائے کہ آپ بعد یہ تاریکی چھا گئی ہے تو بےجا نہ ہوگا
بچھڑا وہ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی 
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا 
رب العالمین علامہ موصوف کی بشری لغزشوں کو در گزر فرمائے،  ان خدمات ذخیرہُ آخرت بنائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کر لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے جامعہ کو انکا نعم البدل عطا فرمائے
آمین 
                   محمد علی سلفی 
                   11مارچ 2020 

آسمانِ علم وادب کا ماہتاب غروب ہوگیا




عزم وہمت کے کوہ گراں اور عہد ساز شخصیت ،ڈاکٹر محمد لقمان سلفی رحمہ اللہ کی حیات وخدمات  کامختصر سوانحی خاکہ



آسمانِ علم وادب  کا  ماہتاب غروب ہوگیا

 
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ،اما بعد
اللہ  تعالی کے فرمان{کل نفس ذائقۃ الموت} کی روشنی میں ہرذی روح کو اس فانی دنیاسے کوچ کرنا ہے۔اللہ سبحانہ وتعالی کی  لازوال و لافانی ذات کے سوا کسی کو بقا ء ودوام نہیں۔اور کائنات کے اسی ثابت اور غیر متغیر  اصول کی پابند یہ حیات ہے ،جو روح کی شکل میں انسانی جسم سے پرواز کرنے کے بعد دنیوی زندگی کے لیے  لوٹائی نہیں جاتی ۔اب  انسانی ا رواح کے لواحقین و اولیاء  کے لیے اس کے علاوہ کوئی  چارہ کار نہیں کہ وہ  فوت شدگان   پر صبر واستقامت کا مظاہرہ کرے اور دعائے مغفرت فرمائے۔
یہ خبر۵ مارچ،۲۰۲۰ ،برز جمعرات ،شام کے ۴:۵۷ کی ہے ،جب بڑےبھائی شیخ رفیع اللہ مسعود تیمی صاحب کی کال آتی ہے، اور یہ خبر جانکاہ سماعت سے ٹکراتی ہے کہ ہم سب کے مربی ،جامعہ امام ابن تیمیہ کے رئیس وموسس ڈاکٹر لقمان سلفی نہ رہے۔یہ خبر ایسی تھی کہ تھوڑی کے لیے اپنی کانوں پر یقین نہ آیاکہ ابھی خبر ملنے سے  دو سے ڈھائی گھنٹے قبل کی بات ہے ،ہم تیمی اخوان جامعہ الہدی  الاسلامیہ کے کیمپس میں دکتور رحمہ اللہ کی ناسازی طبیعت پر  باتیں کررہے تھے اور طبیعت کی بحالی  کی دعا بھی۔لیکن اللہ تعالی کو کچھ اور ہی منظور تھا ،جس کی خبر قبل از وقت انسان کو نہیں ہوسکتی۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔اللہ تعالی آپ کی مغفرت فرمائے،اور آپ کے لواحقین کو صبر جمیل دے۔موصوف رحمہ اللہ کے حسنات اس قدر ہیں کہ اس کا احاطہ بمشکل ہوپائے۔ذیل کے سطور خلاصہ ہیں آپ کی زندگی کا۔


نسب نامہ:محمد لقمان سلفی بن محمد بارک اللہ بن محمد یاسین بن محمد سلامت اللہ بن عبد العلیم صدیقی [رحمہم اللہ ]
ولادت:آپ کی سوانح عمری کے مطابق آپ کی پیدا ئش تقریبا ۲۳ اپریل ۱۹۴۳ میں ہوئی۔"چندن بارہ"صوبہ بہار،مشرقی چمپارن کا وہ مردم خیز علاقہ ہے جہاں ہندوستان کے اس عظیم اسکالر نے آنکھیں کھولیں ،جنہیں دنیا ئے عرب وعجم ڈاکٹر محمد لقمان سلفی کے نام سے جانتی ہے ۔
ابتدائی تعلیم:جیسا کہ گاوں  اور دیہاتوں کا چلن ہے کہ بچوں کی ابتدائی تعلیم ان کے گاوں میں ہوتی ہے۔ڈاکٹر موصوف نے بھی گاوں کے مکتب سے کسب فیض کیا۔اس کے بعد ضلع پورنیہ میں مولوی محمد الیاس صاحب کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی۔

سند فراغت:تکمیل تعلیم اور سند فراغت کے لیےآپ کا داخلہ   ،ضلع دربھنگہ میں واقع صوبہ بہار کے معروف ومشہور ادارہ "دارلعلوم احمدیہ سلفیہ" میں ہوا۔یہاں آپ نے ۱۹۵۶ تا تکمیل  تعلیم وقت گزارا اور ۶ سال  یہاں زیر تعلیم رہے ،اورممتاز وجید علمائے کرا م ،جیسے:مولانا ظہور احمد رحمانی،مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی،مولانا عین الحق سلفی  وغیرہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔

مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ:دینی وشرعی تعلیم وتعلم  سے شغف رکھنے والا ،ہر فرد یہ تمنا رکھتا ہے کہ اللہ تعالی اسے  اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک شہر میں واقع "جامعہ اسلامیہ" میں داخلہ ملوا دے۔اللہ تعالی نے  آپ  کو یہ زریں ،حسین اور مبارک موقع بھی عطا کیا  اور آپ ۱۴ رمضان المبارک ۱۳۸۲ ھ میں "ابنائے جامعہ اسلامیہ "کا حصہ بن گئے، اور عرب علمائے کرام سے خوب استفادہ کیا،جن میں چند قابل ذکر نام یہ ہیں:سابق مفتی عام  مملکت سعودی عرب  علامہ عبدالعزیز بن باز ،محدث عصر علامہ محمد ناصرالدین البانی،مفسر،فقیہ  علامہ محمد امین شنقیطی رحمہم اللہ اور محدث مدینہ  شیخ محترم علامہ عبدالمحسن عباد حفظہ اللہ ۔موصوف رحمہ اللہ نے ۱۹۶۴ میں"مدینہ یونیورسٹی " سے گریجویشن کیا  ،۱۹۷۰ میں"المعھد العالی للقضاء"سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ۔"السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی"یہ آپ کا ایم اے کارسالہ ہے۔اسی طرح آپ کا علمی  سفر جاری رہا کہ "جامعۃ الامام محمد بن سعود" نے مقالہ "اہتمام المحدثین بنقد الحدیث سندا ومتنا " پر آپ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی ۔

مقر عمل:جامعہ  اسلامیہ سے فراغت کے بعد اللہ تعالی نے آپ کا مقر عمل بھی سعودی عرب  ہی منتخب کیا۔اور مفتی عام مملکت سعودی عرب،علامہ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ کے  مترجم اور باحث  کے بطور آپ کی تقرری ہوئی،جس فرض منصبی کو آپ نے بحسن وخوبی انجام دیا۔سعودی حکومت سے شہریت ملنے کے بعد آپ تاحیات یہیں رہے،لیکن لمحہ بھر کے لیے بھی اپنے وطن سے غافل نہ ہوئے۔سال میں ایک یا دوبار  اپنے ملک ہندوستان ،آپ کا آنا ضرور ہوتا،جس  کی  اہم بڑی وجہ  یہ تھی کہ آپ کے خوابوں کی تعبیر  "جامعہ امام ابن تیمیہ " یہیں واقع  ہے۔

جامعہ امام ابن تیمیہ کی تاسیس:"چندن بارہ"موتیہاری  اور ڈھاکہ  سے متصل مشرقی چمپارن  ،صوبہ بہار کا وہ علاقہ ہے جو کہ علامہ  موصوف کی جائے پیدائش  ہے ،اور جہاں آپ کے حسین خوابوں کی بستی "مدینۃ السلام "واقع ہے۔ سن۱۹۶۵میں اس ادارہ کی بنیاد   "معہد اسلامی "  کے نام سے ڈالی گئی تھی،جسے اللہ تعالی نے  دعوت توحید کی نشرواشاعت کے لیے منتخب کرلیا اور آج یہ تنہ آور درخت  بنام"جامعہ امام ابن تیمیہ" کے  اپنی  منفرد اور امتیازی  پہچان رکھتا ہے۔
اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ بار الہ تو بانی جامعہ کے  اس گہوارہ علم وعمل کو قبول فرما لے اور آخرت میں ان کی نجات کا ذریعہ بنا دے۔

عہد سازشخصیت:اپنی گوناگوں صلاحیتوں کی وجہ سے آپ اپنی ذات میں انجمن تھے۔بقول شیخ اشفاق سلفی حفظہ اللہ :"موصوف کی قد آور اور عہد سازشخصیت  عرب وعجم میں یکساں معروف ومشہور تھی۔زمانہ ان کی گوناگوں خصوصیات سے واقف ہے۔ ماشاء اللہ۔زبان وقلم کی دولت سے مالا مال تھے۔مختلف علوم وفنون میں مہارت حاصل تھی۔ان کی تالیفات  اور تراجم سے ایک عالم فیضیاب ہو رہا ہے۔عزم وہمت کے کوہ گراں تھے۔چنانچہ اپنی جائے پیدائش چندنبارہ،مشرقی چمپارن میں جامعہ امام ابن تیمیہ نام سے ایک  عربی درس گاہ قائم کی اور محض چند سالوں میں اسے ملک کی قدیم اور عظیم درس گاہوں کے صف میں لاکھڑا کیا۔ان کی وفات سے دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ[بہار] اپنے ایک عظیم  اور عالمی شہرت یافتہ فارغ التحصیل سے محروم ہوگیا"۔[ آپ کے سانحہ ارتحال پر شیخ  محترم محمد اشفاق سلفی    حفظہ اللہ   کی تحریر  کا اقتباس]

تالیفات:تالیف وتصنیف کے باب میں علمی ذخائر کا گراں قدر سرمایہ آپ کے نام ہے،جس سے امت تا قیامت مستفید ہوتی  رہے گی۔آپ کی  وہ تالیفات جنہیں عرب وعجم میں یکساں مقبولیت ملی،ان میں چند قابل ذکر یہ ہیں:السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی،اھتمام المحدثین بنقد الحدیث،سندا ومتنا ودحض مزاعم المستشرقین واتباعھم،السعی الحثیث الی فقہ اھل الحدیث،رش البرد شرح الادب المفرد ،تحفۃ الکرام لشرح بلوغ المرام،الرحمۃ المھداۃ فی سیرۃ سیدالمرسلین الھداۃ۔آپ کی مشہور زمانہ تالیفات میں "تیسیر الرحمن لبیان القرآن"  اردو داں طبقہ کے ہر خاص وعام میں یکساں مقبول ہے۔اس کے علاوہ  موصوف نے عربی  درسیات میں تفسیر،حدیث،سیرت اورعربی ادب پر"فیوض العلام تفسیر آیات الاحکام ،ھدی الثقلین،الصادق الامین ،السلسلۃ الذھبیۃ للقراءۃ العربیۃ " کے نام سے  کافی مفید کام کیا ،جو اہل مدارس وطلبہ کے لیے  علمی تراث کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

 ابنائے جامعہ کےساتھ رشتہ:
ڈاکٹر موصوف اپنے ابنا  پر نہایت شفیق ومہربان تھے۔ان کی راحت  کا خیال فرماتے تھے۔جب بھی جامعہ میں ان کی تشریف آوری ہوتی ،تو موصوف اپنے بچوں کو ضرور وقت دیتےاور ان کی باتوں کو سنتے۔مجھے یاد ہے ۲۰۰۸میں جب آپ جامعہ تشریف لائے اور طلبہ نے خاص نشست کی درخواست کی تو ضعیف العمری کے باوجود ہاسٹل تشریف لائے۔آپ کو تعجب ہوگا کہ موصوف کے لیے جہاں پر نشست کا اہتما کیا گیا تھا وہ جگہ“دارالاخبار”کی تھی جو کہ ہاسٹل کی تیسری منزل پر ہے۔چنانچہ آپ نے طلبہ کی محبت میں اس صبر آزما صعود کو بڑے عزم وحوصلہ کے ساتھ قبول کرلیا۔
دوسرا واقعہ ۲۰۰۹ کا ہے،جب میری فراغت ہوئی اور حصول شہادہ کے لیے جامعہ جانا ہوا۔عام طور پر جامعات میں ہوتا یہ ہے کہ قدیم طلبہ جب کسی غرض سے اپنے مادر علمی جاتے ہیں تو انہیں بعض موقع سے کچھ دشواریاں پیش آتی ہیں۔اسی قسم کی دقت کا مجھے بھی سامنا ہوا،جس سے طبیعت تھوڑی کبیدہ ہوگئی۔اتفاق سے میرے پاس بانی جامعہ کا نمبر تھا،میں نے فون ملادیا۔آپ نے دیگر ذمہ داران ،یا ارباب جامعات کی طرح یہ کہہ کر فون نہیں کاٹ دیا کہ اچھا دیکھتا ہوں!یا ابھی رکھو!مشغول ہوں،بعد میں فون کرو۔ان سب سے الگ بڑے ہی متانت وسنجیدگی اور محبت سے میری پریشانیوں کو سنا اور مسئلہ کے حل کی یقین دہانی کرائی۔تھوڑی ہی دیر میں استاذ محترم،نائب رئیس جامعہ ڈاکٹر محمد ارشد مدنی حفظہ اللہ  کے ذریعے قضیہ حل ہوگیا۔

صاحب تیسریر الرحمن لبیان القرآن علامہ ڈاکٹر محمد لقمان  سلفی رحمہ اللہ!آپ بلاشبہ زندہ نہ ہوں، مگر آپ کی دعوتی وسماجی خدمات آپ کو زندہ وجاوید رکھیں گی۔جامعہ امام ابن تیمیہ آپ کا لگایا ہوا وہ پودا ہے جو ہمیشہ بارآور ہوتا رہے گا اور آپ کے میزان حسنات کو بڑھاتا رہے گا۔تا قیامت آپ کو صدقہ جاریوں اور دعاؤں کی کمی نہ ہوگی۔
اللہ  تعالی آپ کی لغزشوں کو درگزر فرمائے اورجنت الفردوس میں  جگہ دے ۔ آپ کے جملہ لواحقین ومنسوبین جامعہ کو صبر  اور جامعہ کو آپ کابہتر بدیل عطاکرے۔

شاکرعادل عباس تیمی

الثلاثاء، مارس 10، 2020

بڑی خوبی تھی مرنے والے میں!



 وسیم اکرم اسماعیل تیمی
 جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
       یقیناً١٠/رجب المرجب ١٤٤١ھ بروز جمعرات موافق ٥/مارچ ٢٠٢٠م ہمارے لیے نہایت ہی افسوسناک اور کربناک دن تھا۔ کلاس سے نکلا اور کھانے سے فارغ ہوکر بستر کی طرف جیسے ہی لیٹنے کے لیے جارہاتھا کہ اچانک نظر موبائل کی اسکرین پر پڑی"تیمی گھر"نامی گروپ پر ہمارے مربی اور مؤسس جامعہ امام ابن تیمیہ کی وفات کی خبر گردش کرنے لگی, کسی کو یقین نہیں ہورہا تھا کہ یہ خبر صحیح ہے یا افواہ, تمام لوگ اس کی تحقیق میں لگےہوئےتھے۔میں نے فوراً رئیس جامعہ عبداللہ محمد السلفی حفظہ اللہ سے اس خبر کی تصدیق کے لیے ان کے واٹساپ میں میسیج کیا تو انہوں نے اس خبر کو صحیح ٹھہرایا،چشم زدن میں یہ خبر بجلی کی طرح پھیل گیی۔اس کے بعد ایسی بےچینی ہونےلگی جس کو بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ہم جامعہ اسلامیہ آنے کے بعد شیخ رحمہ اللہ سے سے ملاقات کرنے کے خواہاں تھے لیکن شیخ کی خرابی صحت کی وجہ سے یہ ارمان پورا نہ ہوسکا!
    اپنی سات سالہ جامعہ کی زندگی میں اپنے مربی کو جو دیکھا تھا وہ بالکل میری نظروں کے سامنے ہویدا ہوگیی۔یقینااس طرح کی شخصیت خال خال ہی نظر آتی ہے!
    بانى جامعہ رحمہ اللہ گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے۔بیک وقت مفسر،ادیب ،سیرت نگار،شارح حدیث فقیہ،اورعلمی دنیا کے ایک روشن چراغ تھے۔اخلاق مند،خدمت خلق کے داعی،مونس وغمخوار،بچوں سے محبت کرنے والے،کتاب وسنت کے علمبردار،ماحی سنت ،قاطع بدعت اور تواضع وخاکساری کے پیکر تھے۔ان کی تحریریں مذکورہ صفات کے غماز ہیں۔
      ان کارہہن سہن اور لباس بالکل سادہ ہواکرتاتھا، سعودی عرب میں ایک لمبی مدت سے مقیم تھے،باوجود اس کےانہوں نے اپنی عام زندگی کو کبھی نہیں چھوڑا۔شروع میں جب میں جامعہ گیا تھا تو شیخ کا نام سناکرتا تھا اور بہت ساری باتیں سوچا کرتا تھا لیکن جب ان کو بالکل قریب سے سادہ اور عام حالت میں یعنی کرتاپاجامہ اور ٹوپی میں  دیکھا تو کافی حیرت ہوئی! 
      اتنی بڑی شخصیت ہونے کے باوجود کبھی ہمیں ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا کہ شیخ رحمہ اللہ کے اندر کبرو غرور نام کی کوئی چیز ہے۔
     آپ کی آمد پر ایک مرتبہ شعبہ تحفیظ میں صرف طلبہ کے ساتھ ایک پروگرام رکھاگیا جس میں کوئی استاد نہیں تھے (غالباً میں ثانیہ ثانویہ میں تھا)جس میں انہوں نے ہم طلبہ کو تعلیم و تعلم پر دھیان دینے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ :"اپنے آپ کو کبھی بھی کسی کے سامنے حقیر نہ سمجھنا،خوب پڑھنا،خوب آگے بڑھنا لیکن اپنی شناخت اور تشخص برقرار رکھنا تاکہ کسی کی انگلی تم پر نہ اٹھ سکے"واقعی یہ بہت بڑی بات تھی!!
   شیخ رحمہ اللہ کبھی بھی ہمیں کالیجیز اور بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکتے تھے بلکہ جب ان کے سامنے جے این یو یونیورسٹی وغیرہ میں تعلیم حاصل کرنے والے تیمی اخوان کا تذکرہ کیا جاتا ،بہت خوش ہوتے تھےلیکن وہ ہمیشہ اس طرح کہ موقع پر نظیر اکبر الہ آبادی کے یہ دو اشعار پڑھتے:
تم شوق سے کالج میں پڑھو ،پارک میں کھیلو
جائز ہے غباروں میں اڑو ،چرخ پہ جھولو
پر ایک سخن بندہ عاجز کی رہےیاد  
 اللہ کو اور اپنی کی حقیقت کو نہ بھولو
      یہ سوچ ہمارے مربی رحمہ اللہ کی تھی ۔ڈی ایم ایل پبلک اسکول کی افتتاح کے موقع پر ان اشعار  کو باربار دہرا رہے تھے،دراصل وہ یہ باور کرانا چاہ رہے تھے کہ ہم دنیا حاصل کرنے کی خاطر اپنے دین کا سودا ہرگز نہ کریں۔
     جامعہ امام ابن تیمیہ کی شکل میں انہوں نے  ایک ایسا گلشن آباد کیا جو ان کی سوچ اور اور فکر کی غماز ہے۔انہوں نے وہاں بودوباش اور رہن سہن کا انتظام کافی نرالا رکھا ہے۔ہم جامعہ جانے سے پہلے جن اداروں میں تعلیم حاصل کررہے تھے وہاں ہمیشہ ڈپریشن میں مبتلا رہتے۔پڑھنے کے بعد کیا ہوگا!! وہی چھوٹا مدرسہ میں پڑھا کر اپنی زندگی بسر کرنا پڑے گا وغیرہ وغیرہ۔لیکن جامعہ جاتے ہی وہاں کی دنیا بالکل الگ پایا،ذہن کے تنگ دریچے وسیع ہوگیے۔یہ کمال ہمارے گلشن کے مالی کا تھا۔ جس کا پرتو وہاں کے ہمارےاساتذہ کرام حفظہم اللہ میں پائے جاتے ہیں۔ غفر اللہ لہ وادخلہ فسیح جناتہ!!!
   شیخ رحمہ اللہ ہمہ وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ میرے بچوں کی علمی لیاقت وقابلیت کیسے بلند ہو،ان کے اندر خوداعتمادی بحال کیسے ہو؟اس کے لیے ایک بہت بڑی مرکزی لائبریری مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کے نام سے موسوم قائم کیا،جو مختلف علوم و فنون پرمشتمل ہے۔جہاں پرمتلاشیان علم اپنی علمی تشنگی بجھاتے ہیں۔مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ ان کے آئیڈیل اور ہیرو تھے۔ ((یہاں پر ضمنا ایک بات عرض کردوں کہ شیخ رحمہ اللہ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کے عاشق تھے،ان کی شان میں ادنی تقصیر برداشت نہیں کرتے تھے۔اس کو میں نے جامعہ کی ایک سیمینار (تحریک آزادی ہند میں مسلمانوں کا کردار) میں مشاہدہ کیا،اس میں تمام مقالہ نگاران ہمارے تیمی اخوان تھے۔ایک مقالہ نگار نے فقط مولانا ابوالکلام آزاد پڑھا،اسی وقت شیخ اسٹیج پر بولے عزیزم"امام الہند"کا اضافہ کریں))اس قدر ان کے مداح اور محب تھے۔
     شیخ رحمہ اللہ ہم طلبہ سے ہمیشہ میرے بچو،میرے بیٹواور تیمی اخوان سےعزیزم جیسے الفاظ سے مخاطب ہوتے تھے ۔یہ ان کی ہم سے محبت کی دلیل تھی۔ 
   شیخ رحمہ اللہ کی ایک ممتاز صفت یہ تھی کہ اپنے فارغین کی بہت زیادہ قدر کرتے تھے،یہی وجہ ہے کہ جامعہ کے فارغین کی ایک بڑی ٹیم جامعہ میں تدریس کافریضہ انجام دے رہے ہے۔شیخ رحمہ اللہ ہمیشہ اپنے فارغین پر نازکرتے تھےاور کہا کرتے تھے، میرے بچے کسی بھی میدان میں بڑے سے بڑےکارنامےانجام دے سکتے ہیں۔حقیقت بھی ہے، پوری دنیا میں ان کے ابناء علمی،تحقیقی،تصنیفی وتالیفی اور دیگر میدانوں میں نمایاں کارنامے انجام دے رہے ہیں۔یہ ان کی دعا،بےلوث محبت اور سعی مسلسل کا نتیجہ ہے۔
       اللہ تعالیٰ شیخ رحمہ اللہ کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور ان کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں انبیاء کرام علیہم السلام،صالحین اور شہداء کے ساتھ اعلی مقام عطا کرے۔آمین یارب العالمین