الثلاثاء، يوليو 31، 2012

سیرت طيبہ کی جھلکیاں 5


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

اللہ کے رسول ﷺزندگی کے بیسویں سال میں قدم رکھ چکے ہیں ۔مہینہ ذی القعدہ کا ہے ،اورجگہ عکاظ کا بازار ہے ، دوفریقوں کے بیچ اچانک جنگ ٹھن جاتی ہے ۔ایک طرف قریش اور کنانہ کے قبائل تھے تو دوسری طرف قیس اورغیلان کے قبائل ، دونوںمیں خوب جنگ ہوئی ،دونوں طرف کے کئی لوگ بھی مارے گئے ،پھر لوگوں نے آپس میں صلح کرلی ۔ اس جنگ میں اللہ کے رسول  ﷺ  بھی تشریف رکھتے تھے ،لیکن کسی پر بذات خود ہاتھ نہیں اٹھایا۔کیونکہ فریقین کافر تھے اورمسلمانوں کو لڑائی کا حکم اس لیے ہے کہ اللہ کا بول بالا ہو۔اِس جنگ کو ”جنگ فجار“ کہا جاتا ہے ۔ اس لیے کہ اس مہینے میں حرام مہینے کی حرمت پامال کی گئی تھی ۔
ابھی یہ جنگ ختم ہی ہوئی تھی کہ کچھ ہی دنوں کے بعد اُسی مہینے میں ایک دوسرا واقعہ پیش آگیا ۔ یمن سے ایک آدمی مکہ میں سامان بیچنے کے لیے آیا ہوا تھا ، عاص بن وائل نے اُس سے سامان خریدلیا لیکن قیمت نہیں دی ۔ اُس نے کئی قبیلوں سے کہا لیکن کسی نے اُس کی طرف دھیان نہ دیا ،تھک ہار کر ابوقبیس پہاڑی پر چڑھ گیا اور اشعارمیں اپنی مظلومیت کو بیان کیا اورآواز لگائی کہ ”ہے کوئی ہمدرد انسان جو مظلوم کو اس کا حق دلائے ‘۔ یہ سن کر اللہ کے رسول ﷺ کے چچا زبیر حرکت میں آئے او رچند قبائل کے لوگوں کو”عبداللہ بن جدعان “کے گھرمیں اکٹھا کرکے باضابطہ میٹنگ کی ۔ جہاں یہ عہد وپیمان لیاگیاکہ مکہ میں جوبھی مظلوم نظر آئے گا چاہے وہ مکہ کا رہنے والا ہویا کہیں اورکا ....یہ سب اُ س کی حمایت کریں گے ۔ پھر اُس کے بعد عاص بن وائل سے یمنی کا حق لے کر اُس کے حوالے کیا ۔ اس معاہدے کو حلف الفضول کہتے ہیں یعنی پاکیزہ لوگوںکا معاہدہ جس میں اللہ کے رسول ﷺنے شرکت کی تھی ،ظلم کے خلاف آواز اٹھایا اورمظلوم کو اُس کا حق دلانا اللہ کے رسول ﷺ کو اتنا محبوب تھا کہ بعثت کے بعد مدنی زندگی میں کہا کرتے تھے :
 ”میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک ہوا کہ مجھے اُس کے بدلے سرخ اونٹ بھی پسند نہیں ۔ اوراگرمجھے اس کےلیے دوراسلام میں بھی بلایاجاتا تو ضرور قبول کرتا “۔
جی ہاں! محسن انسایت سماجی انسان تھے ۔سماج کے کمزور انسان کی خبرگیری اور مددآپ کی زندگی میں کوٹ کوٹ کر پائی جاتی تھی ۔ کہاں ہیں حقوق انسانی کا دعوی کرنے والے کہ آج انسانیت ماری اور کچلی جارہی ہے لیکن ظالم کا ہاتھ پکڑنے کے لیے کوئی تیار نہیں ۔آج دنیا عالمی گاوں بن گئی ہے بلکہ کہاجائے کہ عالمی گھر بن گئی ہے لیکن پھر بھی ظالم دندنارہا ہے ....آخرظالموں کے خلاف حلف الفضول کیوںمنعقدنہیں ہوتا
معزز قارئين !اللہ کے رسول ﷺبچپن ہی سے عملی زندگی میں داخل ہوگئے تھے، آپ ﷺ کو والد سے وراثت میں جو کچھ ملا تھا اس سے کچھ ہونے جانے والا نہیں تھا ۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بنوسعد میں تھے تو رضاعی بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرایاکرتے تھے ، جب مکہ آئے تو وہاں بھی چند قیراط کے عوض مکہ والوںکی بکریاں چرائیں ۔یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ بچپن میں بکریا ں چرانا انبیاءکی سنت ہے ....ایک مرتبہ آپ نے نبوت کے بعد کہاتھا : مامن نبی الا وقد رعی الغنم ”کوئی بھی نبی نہیں گذرا مگراس نے بکری ضرور چرائی ہے “۔
جب آپ جوان ہوگئے تو تجارت کرنے لگے ۔ کیونکہ بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ سائب بن ابی سائب کے ساتھ مل کر تجارت کرتے تھے ۔ آپ بہترین ساجھی تھے ،نہ کسی سے الجھتے اورنہ بحث وتکرار کرتے ۔ معاملات میں امانت داری اور سچائی سے اِس قدر مشہور تھے کہ لوگوں نے آپ کا نام ہی الصادق الامین رکھ دیاتھا ۔عبداللہ بن ابی الحمساءایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ
بعثت سے پہلے میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے خرید وفروخت کا کوئی معاملہ کیاتھا ،کچھ معاملہ ہوچکاتھا ،کچھ باقی تھا ،میں نے وعدہ کیا کہ ابھی آتا ہوں، اورمیں بھول گیا،اتفاق سے تین دن تک مجھ کو اپنا وعدہ یاد نہ آیا۔ تیسرے دن جب اسی جگہ پہنچا تو دیکھتا ہوں کہ محمدﷺاسی جگہ پر انتظار کررہے ہیں۔ مجھے دیکھ کر آپ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا،صرف اس قدر فرمایاکہ تم نے مجھے زحمت دی ،میں اسی مقام پر تین دن سے موجود ہوں۔
 سبحان اللہ ،یہ تھا ہمارے نبی کا وعدہ ۔
یہی شہرت جب خدیجہ ؓ تک پہنچی تو انہوں نے آپ سے گذارش کی کہ آپ میرے مال میں تجارت کریں ،اورہم آپ کو سب سے اچھی اجرت دیں گے ۔ آپ راضی ہوگئے اور مال لے کر خدیجہ ؓ کے غلام میسرہ کے ساتھ ملک شام کا سفر کیا ۔وہاںخرید وفروخت کی ،خوب نفع ہوا ،جب مکہ لوٹے تو پائی پائی کا حساب چکادیا ۔اس سفرمیں خدیجہ کو بھی بہت فائدہ ہوا تھا ۔ میسرہ نے خدیجہ کو اللہ کے رسول کے اخلاق وکردار کے بارے میں بتایا،پھرانہوں نے آپ کی امانت اور برکت کا حال دیکھا توانہوں نے محسوس کیا کہ اُن کو اپنا مطلوب مل چکا ہے ،اس طرح انہوں نے اپنی ایک سہیلی کو آپ کے پاس بھیجا اور اپنی شادی کی خواہش کا اظہار کیا ۔آپ نے تجویز پسند کرلی ، اورکیوں نہ کرتے کہ خدیجہ قریش کی مالدارترین خاتون تھیں اور بڑے بڑے سرداروں کی درخواست نکاح کو رد کرچکی تھیں ۔ آپ نے اپنے چچاو ں سے گفتگو کی ،انہوں نے خدیجہ کے چچا عمروبن اسد کو پیغام بھیجا ،بات طے پاگئی ،اورابوطالب نے نکاح کا خطبہ دیا۔اس طرح شادی ہوگئی ۔اُس وقت آپ ﷺکی عمر 25 سال تھی اور خدیجہ ؓ کی عمر چالیس سال تھی ۔
 حضرت خدیجہ ؓ اللہ کے رسول ﷺ کی پہلی بیوی تھیں ،اُن کی زندگی میں آپ نے کسی اورسے شادی نہیں کی ۔ آپ کی تمام اولاد بھی اُنہیں سے تھی۔ صرف ابراہیم ماریہ قبطیہ سے تھے ۔آپ کی اولاد کے نام پہلے قاسم ،پھر زینب ،پھر رقیہ، پھر ام کلثوم، فاطمہ پھر عبداللہ ۔ آپ کے تمام لڑکے بچپن میں ہی وفات پاگئے ۔البتہ آپ کی بچیوں نے نبوت کا زمانہ پایا ،اسلام لائیں اور ہجرت بھی کیں ۔ اورسب کی سب آپ کی زندگی ہی میں انتقال کرگئیں ۔صرف حضرت فاطمہ ؓ آپ کی وفات کے بعد چھ مہینہ زندہ رہیں ۔
محترم قارئين ! اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی کا 35واں سال ہے ۔خانہ کعبہ تعمیر ہورہی ہے،کیونکہ کعبہ کی دیواریں زوردار سیلاب آنے کی وجہ سے پھٹ گئی تھیں ۔ لوگ اِس کی تعمیر میں اپنی حلال کمائی ہی لگارہے تھے ،اللہ کے رسول ﷺ بھی پتھر ڈھو ڈھو کر لارہے تھے ۔تعمیر کا کام باقوم نام کا ایک رومی معما ر کر رہا تھا ۔ جب دیوار حجراسود تک اٹھ چکی تو ہر سردار کی خواہش تھی کہ حجراسود کو اس کی جگہ رکھنے کا شرف اُسے حاصل ہو ۔ اِس پر سخت اختلاف ہوگیا۔چارپانچ روز تک بحثیں چلتی رہیں لیکن کچھ نتیجہ نہیں نکل رہا تھا اورقریب تھا کہ اسی کے لیے حرم میں خون خرابہ ہوجائے۔لیکن ابوامیہ ....جو سب میں عمردراز آدمی تھا ....اُس نے کہا : چلو : مسجد حرام کے دروازے سے جو شخص سب سے پہلے داخل ہو اُسے ہم اپنا حکم مان لیں گے ۔ وہ جو فیصلہ کرے سب کو قبول کرنا ہوگا ۔لوگوں نے تجویز منظور کرلی ۔اللہ کی میشت دیکھیں کہ سب سے پہلے جو شخص داخل ہوا وہ محمد ﷺتھے : قریش نے آپ کو دیکھتے ہی کہا: ھذا الامین رضیناہ ،ھذا محمد ”یہ محمد ہیں جوکہ امین ہیں ،ہم اُن سے راضی ہیں۔ جب آپ اُن کے پاس پہنچے توآپ کو سارا ماجرا سنایاگیا ۔ آپ ا نے اُس کا یہ حل نکالا کہایک چادر لی ،اُس میں حجراسودکو رکھا اور سب سرداروں سے کہ اُس کا کنارہ پکڑکر اوپر اٹھائیں ۔سب نے ایسا ہی کیا۔جب چادر حجراسود کی جگہ پہنچ گئی تو آپ نے اپنے مبارک ہاتھ سے حجراسودکو اس کی جگہ پر رکھ دیا،یہ فیصلہ اِتنا عمدہ تھا کہ اِس پر سب خوش ہوگئے ....اورجھگڑا ٹل گیا ۔

سیرت طيبہ کی جھلکیاں 4


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

۹ یا بارہ ربیع الاول عام الفیل 571 عیسوی سوموار کے دن فجر کے وقت زمین پر عجیب معاملہ پیش آیا،شیطان کو رجم کیاگیا،آسمان کی نگرانی کی گئی ،کہاجاتاہے(جوصحیح نہیں) ایوان کسری کے 14 کنگرے گرگئے اورفارس کا آتش کدہ بجھ گیا۔صحیح روایت ہے :حسان بن ثابت کہتے ہیں : اللہ کی قسم میں سات یاآٹھ سال کا بچہ تھا ،مجھے اچھی طرح یادہے ،میں نے ایک یہودی کوٹیلے پر بلندآواز سے پکارتے ہوئے سنا : اے یہودیوں کی جماعت!اے یہودیوں کی جماعت!جب سب اکٹھا ہوگئے تواس نے کہا: تیری ہلاکت ہو: طلع اللیلة نجم احمد،آج کی رات احمد کا ستارہ طلوع ہوگیا ۔ جی ہاں! یہ تھی انسانی تاریخ کی سب سے بڑی پیدائش ....کس کی پیدائش ؟ محسن انسانیت رحمة للعالمین کی پیدائش ....آمنہ کہتی ہیں : جب میں امید سے ہوئی تو خواب میں دیکھا کہ میرے اندر سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے ۔ اللہ اکبر .... اس ساعت سے بڑھ کر کونسی ساعت ہوگی جس میں عبداللہ کے یتیم اورآمنہ کے جگرگوشہ پیدا ہوئے اللھم صل وسلم وبارک علی محمدوعلی آلہ وصحبہ وسلم
پیدائش کے فوراً بعد عبدالمطلب کو خبر دی گئی ،عبدالمطلب خوشی سے پھولے نہ سمارہے تھے ،دوڑے دوڑے گھر آئے ، پوتے کو لیااور کعبہ میں گئے ،دعائیں کیں اور لاکر ماں کی گودمیں رکھ دیا ، اورنام رکھا ”محمد“ جی ہاں! محمد! تاکہ ساری انسانیت ان کی تعریف کریں ....سب سے پہلے آنحضرت ﷺ کو.... آپ کی والدہ نے ،اوردوتین روز کے بعد ثویبہ نے دودھ پلایاجو ابولہب کی لونڈی تھیں ۔
شرفائے مکہ کا دستور تھا کہ دودھ پینے والے بچوںکو دیہات وقصبات میں بھیج دیتے تھے تاکہ ان کے پٹھے مضبوط رہیں اور اُن میں فصاحت کا جوہر پیدا ہو ۔ اِسی روایت کے مطابق دودھ پلانے والی عورتوں کی کھوج شروع ہوگئی۔
قبیلہ ہوازن کی چندعورتیںدودھ پیتے بچے ڈھونڈنے کے لیے ....مکہ آئی تھیں ،لیکن کسی نے محمدا کا رخ نہیں کیا کہ بچہ یتیم ہے ....تحفے تحائف کیاخاک ملیںگے ....اس طرح سب کو بچے مل گئے....لیکن حلیمہ سعدیہ کو کوئی بچہ نہ مل سکا .... تھک ہار کرشوہر سے مشورہ کرتی ہیں اور آمنہ کے گھر آکرمحمداکو لے کر چلی جاتی ہیں ....حلیمہ کو کیاپتہ تھا کہ اُس کی گودمیں محسن انسانیت پلنے جارہے ہیں....بچے کو لینے کے بعد اُس پر برکتوںکا ایسا دروازہ کھلا کہ دنیا حیرت زدہ رہ گئی ، حلیمہ کا بیان ہے کہ وہ جب آئی تو قحط سالی کا دورتھا ،اُس کے پاس اِتنی کمزور گدھی تھی کہ قافلے میں سب سے پیچھے رہتے تھی ، ایک اونٹی تھی جو ایک قطرہ دودھ بھی نہ دیتی تھی ،حلیمہ کا اپنا بچہ بھوک سے بلکتا رہتا ،مگرجب آپ ا کو لے کر ڈیرے پر آئیں اور گودمیں رکھا تو سینے دودھ سے بھر گئے ،حتی کہ آپ انے بھر پیٹ پیا اورحلیمہ کے بچے نے بھی پیا ....اور دونوں آرام سے ....سوگئے ،.... ادھر شوہر اونٹنی کے پاس گیا تو دیکھتا ہے کہ اُس کا تھن دودھ سے لبالب ہے ،دونوںنے دودھ دوہااور شکم سیر ہوکر پئے اورآرام سے سوگئے ،۔
مکہ سے واپسی میں حلیمہ اُسی گدہی پر سوار ہوئیں جو اب اِس قدر تیز چلنے لگی کہ قافلہ والے دم بخود تھے ....قافلے کا کوئی گدہا اُس کا ساتھ نہ دے پا رہا تھا۔ حلیمہ کا وطن بنوسعد قحط زدہ تھا ....لیکن حلیمہ کی بکریاں چرنے جاتیں تو ُان کے تھن دودھ سے بھرجاتے جبکہ دوسروں کی بکریوں کے تھن سوکھے ہوتے تھے ۔اِس طرح میاں بیوی خوب برکتوں سے لطف اندوز ہوتے رہے .... اب دوسال ہوچکا تھا .... مدت رضاعت پوری ہوچکی تھی ....حلیمہ نے آپ کا دودھ چھڑا دیا ۔ حلیمہ کا دستور تھا کہ ہر چھ مہینہ بعد محمد اکو مکہ لاتیں اور گھر والوں سے ملاقات کراکر.... پھر لے جاتیں ....جب دوسال مکمل ہوگئے تو لے کر آئیں ....اُس نے جو خیروبرکت دیکھا تھا اِس بنیادپر آمنہ سے گذارش کی کہ دوسال اور ہمارے پاس رہنے دیں ....اصرار کرتی رہیں ،منت سماجت کرتی رہیں یہاں تک کہ آمنہ نے اُن کو اجازت دے دیا ۔
اِسی مدت میں آپ ا کا پیٹ چاک کئے جانے کا واقعہ پیش آتا ہے ....انس ؓ کہتے ہیں : آپ ا بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ حضرت جبریل امین تشریف لائے اورآپ کو لٹاکر سینہ چاک کیا ،پھرآپ کا دل نکالااوراس میں سے ایک لوتھرا نکال کر فرمایاکہ ”یہ تم سے شیطان کا حصہ ہے “ پھر دل کو سونے کی طشت میں زمزم کے پانی سے دھویا اوراسی جگہ پلٹا دیا....اورسلائی کردی ....آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ دنیا کا سب سے پہلا کامیاب آپریشن تھا ۔ادھر بچے جو محمدا کے ساتھ کھیل رہے تھے ....ڈرے ڈرے حلیمہ کے پاس پہنچے اور خبر کی،....وہ لوگ جھٹ پہنچے، ....جب تک سارا معاملہ ختم ہوچکا تھا،چہرے پر دیکھا تو رنگ اُترا ہوا ہے ۔ انس ؓ کا بیان ہے کہ.... میں نبی اکرم اکے سینے پر سلائی کا نشان دیکھا کرتا تھا ۔
اس واقعے سے حلیمہ ڈر گئیں اور فوراً محمدﷺکو ماں کے پاس پہنچادیا۔ آپ اپنی ماں کے سایہ میں پلنے لگے .... دو سال ماں کے ساتھ رہے ،اب چھ سال کے ہوچکے تھے ، آمنہ کو خیال آیا کہ بچے کو یثرب گھما دیاجائے ، جہاں والد کی قبربھی تھی اوردادا کا ننھال بھی ....اس طرح آمنہ ‘ دادا ،اورام ایمن کو ساتھ لے کر ےثرب کا سفر کیا ۔مدینہ میں ایک ماہ رہ کر مکہ کے لیے واپس ہوئے تو راستہ میں آمنہ بیمار ہوگئیں ،اورابوا ءپہنچ کر دنیاسے چل بسیں ....چھ سال کا یتیم بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی باپ کے سایہ سے محروم ہوچکا تھا ....چھ سال کی عمر ہے کہ ماں بھی چل بستی ہیں ....ماں کو اپنے سامنے مرتے ہوئے دیکھتا ہے ....اللہ اکبر! تصورکیجئے ....کیا گذرا ہوگا ننھے محمد پر....ماں ماں سے محروم بچہ مکہ آتا ہے ،بوڑھے عبدالمطلب کو بھی اُس کا بیحد احساس تھا ،آپ کے لیے اُن کے دل میں ایسی رقت پیدا ہوئی کہ خود اپنے بیٹوںکے لیے بھی ویسی رقت نہ تھی ....عبدالمطلب کا خاص فرش بچھایاجاتا جس پر کوئی بچہ بیٹھ نہ سکتا تھا ....اگر بیٹھنے کی اجازت تھی تو ننھے محمد کو ....فداک ابی وامی یا رسول اللہ ....عبدالمطلب آپ کو بہت پیار کرتے ، پیٹ پر ہاتھ پھیرتے اورآپ کی نقل وحرکت دیکھ کر خوش ہوتے اورکہتے :” آئندہ آپ کی ایک نرالی شان ہونے والی ہے “۔ ابھی آپ کی عمر آٹھ سال دومہینے اوردس دن ہوئی تھی کہ عبدالمطلب بھی دنیا سے چل بسے ۔
دادا کی وفات کے بعد آپ کے سگے چچا ابوطالب آپ کی کفالت شروع کردیتے ہیں ۔ دادا ہی کے جیسے ابوطالب آپ کو پیار کرتے اور قریب رکھتے تھے ۔
جب آپ ﷺ12برس کے ہوئے تو ابوطالب نے کاروبارکے لیے شام جانے کا ارادہ کیا،آپ ﷺکو ان کی جدائی برداشت نہ ہوئی تو ساتھ لے لیا، جب ملک شام کے حدود میں پہنچے اوربصرہ کے قریب ٹھہرے تو بحیرا نام کا ایک راہب اپنے گرجا گھر سے نکل کر آیا ،قافلے کے پاس پہنچا اور محمدﷺ کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا : ”یہ دنیا کے سردار ہیں ، اللہ کے رسول ہیں ، اللہ پاک انہیں رحمة للعالمین بناکر بھیجے گا “ ۔لوگوں کو بہت تعجب ہوا....کہ یہ راہب کبھی اپنے گرجاگھر سے نکلتا نہیں ہے آج نکل کر ایسی ایسی باتیں بول رہا ہے ....لوگوں نے پوچھا : آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا ؟ اس نے کہا : دیکھو ! تم لوگ جب گھاٹی سے ظاہر ہوئے تو کوئی پتھر یادرخت ایسا نہ بچا جو سجدہ کے لیے جھک نہ گیاہو،اوریہ دونوں چیزیں نبی کے علاوہ کسی اور کو سجدہ نہیں کیا کرتیں،پھر دوسری بات یہ بھی ہے کہ میں اِنہیں مہر نبوت سے پہچانتا ہوں جو اِن کے کندھے کے نیچے نرم ہڈی کے پاس سیب کی طرح ہے اورہم انہیں اپنی کتابوںمیں بھی پاتے ہیں ۔جی ہاں! اس راہب نے آپ کو پہچانا تھا اپنی کتابوں کے ذریعہ ....الذین آتیناھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون ابنائھم ہم نے جن لوگوں کو کتاب دیا ہے یعنی یہودونصاری وغیرہ یہ آپﷺکو ایسے ہی پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بچوں کو پہچانتے ہیں ۔ اِسی پر بس نہیں اُس نے پورے قافلے کو کھانا کھلایااور ابوطالب سے تنہائی میں کہا: دیکھو!انہیں ملک شام مت لے جاو ، واپس بھیج دو ،مجھے ڈر ہے کہ یہوداِن کو نقصان نہ پہنچائیں ۔ یہ سن کر ابوطالب نے آپ ﷺکو مکہ بھیج دیا ۔

سیرت طيبہ کی جھلکیاں 3


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

اللہ کے رسول ﷺ کی پیدائش سے پچاس یاپچپن دن پہلے مکہ میں ایک ہولناک واقعہ پیش آیا،جانتے ہیں وہ واقعہ کیاہے؟ یہ واقعہ ہاتھی والوں کا ہے.... ابرھہ حبشی ملک حبشہ کی طرف سے یمن کا گورنر تھا، وہ عیسائی تھا، اس نے چاہاکہ مکہ کو جو مرکزیت حاصل ہے اوریہاں دوردور سے لوگ حج کرنے کے لیے آتے ہیں،اِسے یمن کی طرف پھیر دے ۔اِس کے لیے اُس نے یمن میں ایک خوبصورت چرچ بنایااورعربوںکو اُکسایا کہ بجائے مکہ کے وہ یمن کے اِس چرچ کا حج کریں ۔ لیکن اُسے اِس کام میں کامیابی نہ ملی ،بلکہ ایک عرب کو جب اِس کی خبر ہوئی تو اُس نے موقع پاکر رات کے وقت اُس چرچ میں پاخانہ کردیا ،مقصداِس فیصلے کے تئیں اپنی نفرت کا اظہار کرنا تھا ۔ ابرھہ کوپتہ چلا تو بہت غصہ ہوا ، اورمکہ پر حملہ کرکے کعبہ کو ڈھانے کا پلان بنالیا،لیکن اِس مسکین کو کیاپتہ تھا کہ یہ اللہ کا گھر ہے جسے ابراھیم اور اسماعیل علیھما السلام نے اللہ کے حکم سے بنایاتھا ۔ان اول بیت وضع للناس للذی ببکة ۔ دنیا کے بتکدوںمیں پہلا وہ گھر خدا کا ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا۔
اِس طرح ابرھہ انجام سے بے خبر کعبہ کو گرانے کا ناپاک ارادہ لے کر یمن سے نکلا ،اُس کے ساتھ میں ہاتھی بھی تھا ۔ طائف پہنچا ، تو وہاں سے اپنی قوم کے ایک آدمی کو مکہ بھیجا جو مکہ والوں کے اونٹ ہانک کرلے آیا۔ اُس جانورمیں عبدالمطلب کے بھی دو سو اونٹ شامل تھے ۔ عبدالمطلب ابرھہ کے پاس گئے ۔ ....چونکہ یہ اپنی قوم کے سردار تھے ،اس لیے ابرھہ نے ان کی عزت کی اور اپنے پاس بٹھایا۔پوچھا : کس لیے آنا ہوا ؟ عبدالمطلب نے کہا : آپ کی فوج ہمارے دوسو اونٹ ہنکاکر لے آئی ہے .... بس ....اسی اونٹ کے لیے آیا ہوں۔ ابرہہ کہنے لگا:جب میں نے آپ کو دیکھا توآپ سے بہت متاثر ہوا ،لیکن آپ کی بات سنا تو آپ کی عزت ہماری نظر سے جاتی رہی ۔ پوچھا: وہ کیسے ؟ کہا: کیاآپ کو معلوم نہیں کہ ہم کعبہ کو برباد کرنے آئے ہیں .... اِس تعلق سے بات نہ کرکے اپنے اونٹ کے بارے میں بات کررہے ہیں ۔ عبدالمطلب نے برجستہ کہا: انا رب الابل وللبیت رب یمنعہ ” اونٹوں کا....میں مالک ہوں جبکہ اِس گھر کا....میں مالک نہیں....اس گھرکا مالک اللہ تعالی ہے ،وہ خود اس گھر کی حفاظت فرمائے گا “۔
بہرکیف ابرھہ نے عبدالمطلب کے اونٹ واپس کردئیے۔ عبدالمطلب اونٹوںکو لے کر آیا اور سارے لوگوںمیں اعلان کردیا کہ سب لوگ مکہ کو خالی کرکے پہاڑوںاور گھاٹیوںمیں پناہ لے لو کہ ابرھہ کی فوج بہت زیادہ ہے ۔جب یہ لوگ وای محسر پہنچے تو عجب صورتحال پیدا ہوئی ، ہاتھی مکہ کی طرف جانے کے لیے تیار ہی نہیں ، دوسرے کسی بھی سمت لے جایاجاتا ہے تو چلنے لگتا ہے لیکن مکہ کی طرف چلایاجاتا ہے تو بیٹھ جاتا ہے ۔ اورٹس سے مس نہیں ہوتا ۔ سار ی فوج حیران ہے ۔ اب کیاکیاجائے ، اِسی بیچ اللہ پاک نے سمندرکی طرف سے پرندوں کے جھنڈ بھیج دیئے ، ہر پرندے کے پاس تین تین کنکر تھے ،.... ایک چونچ میں .... اور دو پنجومیں ،یہ کنکر چنے اور مسور کے برابر تھے ،پرندے لشکر کے اوپر آتے تو کنکر گرادیتے اور جس کو کنکر لگتا وہ پگھل جاتا،اُس کا گوشت گرنے لگتابالآخروہ مرجاتا ۔.... خود ابرہھ کا یہ حال تھا کہ.... اس کے اعضا کٹ کٹ کر گر رہے تھے ،صنعا پہنچتے پہنچتے اُس کا دل سینے سے باہر نکل آیا،اوروہ ذلیل ہوکر ہلاک ہوا ۔ اِسی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ پاک نے سورہ الفیل نازل فرمائی:
ألم تر کیف فعل ربک باصحاب الفیل ، ألم یجعل کیدھم فی تضلیل ، وارسل علیھم طیرا ا بابیل ،ترمیھم بحجارة من سجیل ، فجعلھم کعصف ماکول ۔
 ”کیا آپ نہیں جانتے کہ آ پ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا....؟ ،کیااللہ تعالی نے ان کی تدبیر کو ناکام نہیں کردیا ۔؟.... اوراللہ تعالی نے اُن پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دئیے ،جو انہیںمٹی اورپتھر کی کنکریاںمار رہے تھے ،پس انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا ۔ اس طرح اللہ پاک نے اپنے گھر کی حفاظت کی او ردشمنوں کو ذلیل کیا۔ آج بھی کعبہ وہی ہے ،اس لیے کعبہ کے دشمنوں کو ابرہھ کے لشکر سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ اُن کا بھی حال ابرہھ کی فوج کا سا نہ ہوجائے ۔
محترم قارئين !آپ نے ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے بارے میں ضرور سنا ہوگا جو اپنے جگرگوشے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار تھے،لیکن کیاآپ کو پتہ ہے کہ محمدﷺ کے پیدا ہونے سے کچھ دنوں پہلے اُن کے باپ عبداللہ کواُن کے دادا عبدالمطلب ذبح کرنے کے لیے تیار تھے ....؟بس دونوںمیںفرق صرف اِتنا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اللہ کے حکم سے اللہ کے نام پر ذبح کرنے کے لیے تیار تھے،جبکہ عبدالمطلب منت مان کربُت کوراضی کرنے کے لیے ایسا کام کرنے جارہے تھے.... لیکن ایسا ہونہ سکا.... کیایہ قصہ معلوم ہے آپ کو .... آئیے سنتے ہیں ۔زمزم جو ننھے اسماعیل اورہاجرہ علیھمالسلام کے لیے جاری ہواتھا۔ہاجرہ علیھا السلام نے اُسے چاروں طرف سے گھیر دیاتھا،ایک زمانہ گذرنے کے بعد کنواں مٹی سے َاٹ گیا،جس کی وجہ سے اُس کا مقام اورجگہ بھی کسی کو معلوم نہ رہی ۔ عبدالمطلب کو اِس کی بہت فکر تھی ،کئی روز اُس نے خواب میں دیکھاکہ وہ زمزم کا کنواں کھود رہا ہے ۔جگہ کی نشاندہی بھی کردی گئی ۔ لیکن عجیب اتفاق کہ اُسی جگہ پر اساف اور نائلہ دو بُت رکھے ہوئے تھے ، عبدالمطلب جب کنواں کھودنے گئے تو قریش مانع ہوئے ،اور لڑنے کے لیے تیار ہوگئے ،عبدالمطلب نے تنہائی محسوس کی تو اُس نے نذر مانی کہ اگر اللہ نے مجھے دس بیٹے دئیے اور پانی کا چشمہ بھی نکل آیا تو ایک بیٹے کو اللہ کے نام پر قربان کردوں گا۔....بہرکیف یہ غالب رہے، زمزم کا کنواں بھی نکل آیا،اوراللہ پاک نے عبدالمطلب کو دس بیٹے بھی دئیے ۔جب سب بیٹے جوان ہوگئے تو عبدالمطلب اپنی منت پوری کرنے کے لیے اپنے سب بیٹوںکو لے کر....کعبہ میں گئے اوربھگوان ہبل کے پاس قرعہ اندازی کی ۔ اتفاق سے قرعہ سب سے چھوٹے بیٹے عبداللہ کے نام نکلا جو عبدالمطلب کو سب سے پیارا تھا ۔عبدالمطلب کو منت تو پوری کرنی ہے ، نہ چاہتے ہوئے بھی عبداللہ کو لے کر قربان گاہ کی طرف چلے ،سارے رشتے دار ایک طرف اور عبدالمطلب ایک طرف .... بالآخرعبدالمطلب کو اِس بات کے لیے راضی کرلیاگیاکہ چلو ہم سجاع نام کی ایک کاہنہ سے رائے لیتے ہیں ۔اِس طرح سب کے سب کاہنہ کے پاس آجاتے ہیں:اوراُس سے سارا ماجرا کہہ سناتے ہیں،اُس نے کہا کہ تمہار ے ہاں ایک آدمی کی دیت دس اونٹ ہے، اِس لیے ایک طرف عبداللہ کو رکھو اور ایک طرف دس اونٹ ....اور قرعہ نکالو،اگر قرعہ عبداللہ پر نکل آئے تو دس اونٹ مزید بڑھاو ،ایسے ہی ....دس دس اونٹ بڑھاتے جاو.... یہاں تک کہ اونٹوں کے نام قرعہ نکل آئے ۔ تجویز عبدالمطلب کوبھی پسندآئی کہ اِس سے عبداللہ کی جان بچ رہی تھی ۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا،لیکن ہربارقرعہ عبداللہ ہی کے نام نکلتا رہا یہاں تک کہ جب اونٹوںکی تعداد سو ہوگئی تب اونٹوں کے نام قرعہ نکل آیا۔ اِس طرح عبدالمطلب نے سو اونٹ ذبح کیے او رعبداللہ کی جان بچ گئی ۔عبداللہ کی جان بچنے کے بعد عبدالمطلب کی خوشی کی انتہا نہ رہی تھی ....عبداللہ چوبیس سال کے ہوچکے ہیں....اُسی وقت عبدالمطلب بنوزہرہ کے سردار وھب کے پاس آتے ہیں،اوراُن سے اپنی بیٹی آمنہ کا اپنے بیٹے عبداللہ کے لیے رشتہ مانگتے ہیں ....اوراتفاق رائے سے شادی بھی ہوجاتی ہے۔ لیکن افسوس.... کہ آمنہ چند مہینے ہی شوہر کے ساتھ رہ سکیں ۔ شادی کے تقریباً ڈھائی تین ماہ گذر چکے ہیں ،آمنہ امید سے ہیں،عبداللہ یثرب کے سفرپر جاتے ہیں توہمیشہ کے لیے وہیںرہ جاتے ہیں،اپنے بیٹے کو بھی دیکھ نہیں پاتے اورآمنہ بیوہ ہوجاتی ہیں ۔ یہی اللہ کی مشیت تھی کہ عبداللہ قربان ہونے سے بچ جائے ،شادی ہو،آمنہ امید سے ہوجائیں ،جب ذمہ داری پوری ہوگئی.... تو اللہ پاک نے.... عبداللہ کو.... اٹھا لیا 

سیرت طيبہ کی جھلکیاں 2


الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

حضرت محمد ﷺ کی پاکیزہ زندگی پرروشنی ڈالنے سے پہلے ....مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم آپ کو اُس دورمیں لے چلیں ....جس میں محمد ﷺ پیداہوئے تھے ، اوراُس وقت عرب کی اور پھر دنیا کی کیا حالت تھی اُس کا ایک ہلکا سا خاکہ آپ کے سامنے رکھیں.... تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ دنیا.... کس حالت کو پہنچ چکی تھی.... اورپھر.... نبی پاک ﷺ کے ذریعہ دنیا میں کیسی تبدیلی آئی ؟۔
ایران کو دیکھیں تو.... اپنی ترقی کے باوجود.... زرتشت کوانہوں نے خدا کا درجہ دے رکھا تھا، وہ بھلائی کا پیدا کرنے والا یزداں کو مانتے تھے اوربُرائی کا پیداکرنے والا اہرمن کو سمجھتے تھے اوران کی پوجا کرتے تھے ، ان کے ہاں آگ کی پوجا بھی ہوتی تھی اوروہ چاند ستاروں کے سامنے بھی جھکتے تھے ۔
روم ویونان کودیکھیں تویہ بہت بڑی تہذیب کے مالک تھے ،اِسی ملک میں سقراط ،بقراط،افلاطون اورارسطو پیداہوچکے تھے لیکن یہ بھی ایران سے کچھ کم نہ تھے ،اپنے بچوںتک کو بیچ ڈالتے اورغلام بنالیتے تھے ۔....عیسائیوں کودیکھیں تو انہوں نے اللہ کی ذات کو تین حصوںمیں بانٹ رکھاتھا، راہبوںاورراہباوں کے بیچ شرمناک حرکتیںتک ہوتی تھیں ۔....یہودیوںکو دیکھیں تو ان کے پیشوا مال کے لالچی بن بیٹھے تھے ، خود کو رب کے درجہ پر بٹھا لیاتھا اورلوگوں پراپنی مرضی چلاتے    تھے ۔
ہندوستان کی طرف جھانک کردیکھیں تو یہاں جتنے کنکر اُتنے شنکر کی بات تھی ،یہ ہرچیز کی پوجا کرتے تھے ،یہاں ستاروں،س یاروں، درختوں، جانوروں، سانپوں، پتھروں اورشرمگاہوںتک کی پوجا ہوتی تھی ۔
جب ہم جزیرہ عرب کی طرف آتے ہیں تودیکھتے ہیں کہ عرب ہر اعتبار سے پستی کے شکارتھے ،دینی حالت کا جائزہ لیں تو عرب ویسے تو اسماعیل علیہ السلام کے خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ابراہیمی دین کے ماننے والے تھے ،ایک اللہ کی عبادت کرتے تھے ،لیکن یہ طریقہ زیادہ دنوں تک نہ چل سکا ،بنوخزاعہ کا ایک سردار.... جس کا نام عمروبن لُحی تھا ،اُس نے عرب میں بُت پرستی کو عام کردیا ۔ایسا کیسے ہوا ؟ وہ ایک بار ملک شام گیا ،وہاں اُس نے دیکھا کہ لوگ اپنے ہاتھوںسے بنائے ہوئے بتوں کی پوجا کرتے ہیں ۔ شروع میں تو اُسے عجیب سا لگا ،لیکن اُ س کے خیال میں شیطان نے یہ بات ڈالی کہ شام پیغمبروں کی زمین ہے ، یہاں کی روایت غلط کیسے ہوسکتی ہے ،اس طرح وہ جب شام سے لوٹا تو اپنے ساتھ ہُبل بُت بھی لے کر آیا ۔ اُسے خانہ کعبہ میں نصب کردیا اورلوگوں کو اُس کی پوجا کی طرف بُلانے لگا ۔ ....ظاہر پرستوں نے اس کی بات مان لی اورہُبل کی پوجا شروع کردی ۔ اب کیاتھا....دیکھتے ہی دیکھتے پورے عرب میں بتوںکی پوجا عام ہوگئی ۔ کعبہ تین سو ساٹھ بتوں سے بھر گیا....اِن بتوں کے تعلق سے اُن کا عقیدہ تھا....کہ یہ ہم کو.... اللہ کے قریب کردیں گے مانعبدھم الا لیقربوھا الی اللہ زلفا” ً ہم اُن کی عباد ت محض اس لیے کررہے ہیں کہ و ہ ہم کو اللہ کے قریب کردیں گے ۔
عربوںمیں بدفالی اور بدشگونی کا عام چلن تھا ۔ پرندے کو بھگاتے ،اگر داہنے جانب بھاگتا تو کام کرتے اوراگر بائیں جانب بھاگتا تو کام سے رُک جاتے ۔ وہ جوا کے بڑے شوقین تھے ،کاہنوں،نجومیوں اور جیوتشیوں کی خبروں پر یقین رکھتے تھے ،کچھ بھی ہوتا جیوتشیوں کے پاس پہنچ جاتے ۔ عربوںکی اجتماعی زندگی بھی ابتر سے ابتر تھی ، عربوں کے نچلے طبقے میں عورتوں کو ....کچھ حیثیت حاصل تھی ،لیکن ....عام عربوںمیں بے حیائی ،بدکاری ،فحش کاری اورزناکاری عام تھی ۔ اُن کی شادیوںمیں بھی بدکاری کے طریقے عام تھے ۔ عربوں کے اندر ایسی سخت دلی تھی کہ اپنی لڑکیوں کو رسوائی کے ڈر سے ....زمین میں ....زندہ ہی دفن کردیتے تھے ۔ اور ذرہ برابربھی اُن پر رحم نہیں کھاتے تھے ۔ قبائلی عصبیت اُن میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی ....وہ یہی جانتے تھے کہ اپنے خاندان کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم ....چاہے وہ حق پر ہو یا باطل پر ....بس اِتنا دیکھ لو کہ وہ خاندان کا ہونا چاہیے ....یہ بڑے لڑاکو بھی تھے ،معمولی معمولی باتوں پر تلوار نکل جاتی اور جنگ چھڑ جاتی تھی ،جو سالوں تک چلتی رہتی ۔
خلاصہ یہ سمجھیں کہ پوری دنیا تاریکی میں بھٹک رہی تھی ،پوری دنیا میں روشنی کا دوردور تک پتہ نہ تھا ۔ دنیا انتظار کر رہی تھی ایسے مسیحا کا جو اُن کو تاریکی سے نکال کرروشنی کی طرف لے جائے ....یہودیوں اور عیسائیوں کو انتظار تھا اُس نبی کا.... جن کی صفتیں وہ اپنی کتابوںمیں لکھاہوا پاتے تھے ۔ ایران والے زرتشت کی رہنمائی کے مطابق ایک رہبر کی تلاش میں تھے ....ہندودھرم کے ماننے والے ویدوںمیں نراشنس کے نام سے 31جگہ پر آخری اوتا ر کی صفتیں پڑھتے تھے اور اورکلکی اوتار کے نام سے آخری اوتار کا انتظار کر رہے تھے ۔ بدھ دھرم کے ماننے والوںکو بھی ایک آخری بدھ کا انتظار تھا جس کا نام میتری ہوگا ۔
جی ہاں ! یہی وقت تھا انسانیت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا ....شروع میں ایسا کرنا ممکن نہیں تھا کہ لوگ الگ الگ ملکوں میں بٹے تھے ،اُن میں آپسی میل جول نہ تھا ،ہر ایک کی زبانیں بھی الگ الگ تھیں ، انسانی عقل بھی محدودتھی ،اِس لیے ....ضرورت بھی تھی.... کہ الگ الگ نبی بھیجے جاتے ....لیکن ساتویں صدی عیسوی میں حالات ساز گار ہوگئے تھے ،آمد ورفت کے ذرائع میسر ہوگئے تھے ،اجنبی زبانوں کے سیکھنے کا رجحان عام ہوگیا تھا ۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیاتھا کہ اسلام کاآخری پیغمبر ساری انسانیت کے لیے بھیج دیاجائے ۔
جب اپنی پوری جوانی پہ آگئی دنیا
جہاں کے واسطے ایک آخری پیام آیا ۔
اب سوال یہ تھا کہ یہ آخری پیغمبر کہاں بھیجے جائیں ؟ تو اِسکے لیے عرب کی سرزمین.... سب سے زیادہ مناسب تھی ....جانتے ہیں کیوں ؟
 اِس لیے کہ یہ سرزمین پوری دنیا کے بیچوںبیچ واقع تھی ....اورآج جغرافیائی تحقیق نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مکہ مکرمہ کرہ ارضی کے سینٹرمیں واقع ہے ۔ظاہر ہے کہ جو نبی پوری دنیا کے لیے آنے والے تھے ،اُن کا پوری دنیا کے سینٹر میں آنا ہی زیادہ مناسب تھا ۔
اِس سرزمین کی دوسری خوبی یہ تھی کہ عرب ہر طرح کی بُرائیوںمیں لت پت ہونے کے باوجود بہادر تھے ،نڈر تھے ، سخی اورداتا تھے ،اُن کی سخاوت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ اگر کسی کے پاس مہمان آجاتا اور اُس کے پاس کھلانے کے لیے کچھ نہ ہوتا سوائے سواری کی اونٹنی کے تو اُسے ہی ذبح کرکے مہمان کی خدمت میں پیش کردیتے ۔ وہ عدہ کے بڑے پکے تھے ،جو بول دیتے وہ پتھر لی لکیر ثابت ہوتی ،وہ کبھی وعدہ خلافی نہ کرتے تھے ، اُن کے اندر خو داری اور عزت نفس کوٹ کوٹ کر پائی جاتی تھی ۔ اورعالمی رہبر کوایسے ہی لوگوںکی ضرورت تھی ۔
ایک تیسری خوبی یہ تھی کہ اس ملک میں کوئی حکومت نہ تھی جو دعوت کے راستے میں رکاوٹ بنتی .... پورے مشرق وسطی میں عرب ہی وہ دیش تھا جہاں کوئی راجہ نہیں تھا ،وہاں ہر قبیلے کی الگ الگ سرداری تھی ،اگر وہاں پر راجا ہوتا جیسا کہ دوسرے ملکوں کاحال تھا تو پوری حکومت آپ ﷺ کی مخالفت پر کمربستہ ہوجاتی ،دوسرے کئی انبیاءکے ساتھ ایسا ہوا بھی ....، یہاں تک کہ کتنوں کو قتل کردیاگیا۔
پھر اُن کی زبان بھی عربی تھی جس کے اندر لطافت اور شیرینی کے ساتھ ساتھ ایسی جامعیت پائی جاتی ہے کہ مختلف معانی کو کم سے کم الفاظ میں سمولے ۔اورآخری کتاب الہی کے لیے ایسی ہی زبان کی ضرورت تھی

محترم قارئين !عربوں کی ہراعتبارسے ابتر حالت ہونے کے باوجوداُن میں بعض اہم خوبیوںکا پایاجانا.... اورپھر مکہ مکرمہ کا محل وقوع اِس بات کا تقاضا کررہا تھا کہ اِسی سرزمین پر ایک عالمی پیغمبر کی بعثت ہو ....چنانچہ اِنہیں حالات میں محمدﷺمکہ کی دھرتی پر پیدا ہوتے ہیں....آپ کی پیدائش سے پہلے دوبڑے اہم اوریادگارواقعات پیش آئے ....وہ کیاہیں ؟ اِنہیں ہم جانیں گے اگلے حلقہ میں۔تب تک کے لیے اجازت دیجئے ....اللہ حافظ 

سیرت طيبہ کی جھلکیاں 1



کیاآپ تاریخ عالم میں کسی ایسی ہستی کوجانتے ہیں ....؟ جس کی پوری زندگی.... پورے اعتماد کے ساتھ محفوظ ہو،.... جس کی سیرت ....انسانی سماج کے ہر فرد کے لیے رہنمائی رکھتی ہو، ....جس کی حیات طیبہ کو ہر شعبہ زندگی کے لیے ایک بہترین آئیڈیل کے طور پر پیش کیا جاسکے، ....جس کانام دنیامیں سب سے زیادہ لیاجاتاہو....جس کو ہم اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز سمجھتے ہوں،.... جس نے انسانوں کو ایک مقصد ،ایک جذبہ اورایک نصب العین پر جمع کیاہو۔....جو 23سال تک انسانوں کی بھلائی کے لیے تڑپتا رہا ہو۔....جس نے پتھروں کے زخم کھاکر بھی دعائیں دی ہوں اورجانی دشمنوں کی عام معافی کا اعلان کیاہو۔ یعنی ایسی ہستی جس میں جامعیت، کاملیت اور تاریخیت اپنے پورے جمال وجلال کے ساتھ جلوہ گر ہو۔یہ ہستی کون ہے ؟ ....آئیے ! اسی عظیم ہستی کی داستان زندگی سنتے ہیں

ایک نئے انداز.... نئے اسلوب ....اورنئے پیرائے میں 
 الحمدللہ رب العالمین والصلاة والسلام علی  قائد الغر المحجلین نبینا محمدوعلی آلہ وصحبہ اجمعین وبعد

اس پروگرام میں ہم دنیا کے سب سے افضل انسان کے بارے میں بات کریں گے ،....اُس انسان کے بارے میں.... جو کل قیامت کے دن ہماری سفارش کرنے والے ہیں،....وقت کا سب سے بہتر استعمال یہی ہے کہ ہم.... اپنے حبیب کے بارے میں سنیں ....جوہمارے نزدیک ....ہمارے ماں باپ سے بھی زیادہ عزیزہیں ،ہماری اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں بلکہ ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں....ہم اپنے حبیب کی ولادت سے لے کر وفات تک گفتگو کریں گے ....ہم بعثت سے پہلے اوربعثت کے بعد کی زندگی پر روشنی ڈالیں گے ،ہم ہجرت سے پہلے اورہجرت کے بیچ اور ہجرت کے بعد کے حالات بیان کریں گے ،وہ ہمارے آقا اورحبیب ہیں ....اگر وہ نہ ہوتے توآج ہم پتھروں کی پوجا کرتے ہوتے ....انسانی تاریخ کی سب سے عظیم ہستی ....جن کے بارے میں گفتگو محض واہ واہی کے لیے نہیں بلکہ اِس لیے تاکہ ُان کی اقتداءکرسکیں....اُن کی اطاعت کرسکیں ....کہ اُن کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے .... اُن کی اطاعت دخول جنت کا سبب ہے ، اوراُن کی نافرمانی جہنم میں لے جانے کا باعث۔
 اُن کے بارے میں کیوں نہ سنیں.... کہ سارادین انہیں تک پہنچتا ہے ....قرآن اگر پیغام ہے توہمارے حبیب کی زندگی اُس کی عملی تطبیق ہے ، قرآن اگر تھیوری ہے تو ہمارے حبیب کی زندگی ایک پریکٹیکل نمونہ ہے ۔تب ہی تو مائی عائشہ صدیقہ ؓنے کہاتھا : کان خلقہ القرآن ....آپ کا اخلاق سراسر قرآن تھا ....یعنی آپ قرآن کے چلتا پھرتا نمونہ تھے ۔ گویاقرآن کوسمجھنے کے لیے سیرت کو سمجھنا ....بیحدضروری ہے ۔
اُن کے بارے میں کیوں نہ سنیں کہ.... اُن کی ساری زندگی ہمارے لیے اسوہ اورنمونہ ہے لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة ۔ تمہارے لیے اللہ کے رسول ا کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔ جی ہاں! ہرانسان اِس دنیا میں.... اپنے لیے ایک آئیڈیل کا ضرورت مند ہوتا ہے اورہمارے حبیب کی زندگی سے بہترآئیڈیل.... نہ دنیامیں ہے اورنہ ہوسکتا ہے ....
اگرآپ دولت مند ہیں تو ہمارے حبیب کی زندگی کو دیکھیں،اگر آپ غریب ہیں توہمارے حبیب کونمونہ بنائیں، اگرآپ بادشاہ ہیں تونبی پاک کی بادشاہت کا حال پڑھیں،اگرآپ رعایاہیں تو قریش کے محکوم کو ایک نظر دیکھیں،اگر آپ استاذاورمعلم ہیں تو صفہ والوں کے معلم کو دیکھیں،اگرشاگردہیں تو جبریل امین کے سامنے بیٹھنے والے نبی کو دیکھیں، اگر آپ داعی ہیں تو مکہ کی گلیوںمیں پھرنے والے نبی سے سبق لیں،اگر آپ دعوت کے راستے میں اکیلے ہیں تو مکہ کے بے یار ومددگارنبی کا اسوہ آپ کے لیے ہے ، اگرآپ فتح پانے کے بعد مخالفوں کو اپنا بناناچاہتے ہیں توفاتح مکہ کا نظارہ کریں،اگر آپ کاروبارکو درست کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے آقا کی تجارت کو دیکھیں،اگرآپ یتیم ہیں تو عبداللہ اورآمنہ کے لعل کو نہ بھولیں،اگرآپ بچہ ہیں تو حلیمہ سعدیہ کے لاڈلے کو دیکھیں،اگرآپ جوان ہیں تو مکہ کے ایک چرواہے کی سیرت کا مطالعہ کریں، اگرآپ قاضی اور جج ہیں تو سورج نکلنے سے پہلے کعبہ میں داخل ہونے والے جج کو دیکھیں جوحجر اسود کو کعبہ کے ایک کونے میں رکھ رہا ہے ۔ اگرآپ شوہر ہیں تو خدیجہ اورعائشہ کے شوہر کی زندگی کا مطالعہ کریں، اگرآپ اولاد والے ہیں تو فاطمہ کے باپ کا حال پوچھیں ، غرضیکہ آپ جو بھی ہوں.... آپ کے لیے ....نبی پاک کی زندگی.... آئڈیل اورنمونہ ہے ۔
 محترم قارئين! کسی کے ذہن میں ایک شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ یہ پروگرام مسلمانوں کے لیے خاص ہے ، ایسی بات ہرگز نہیں ہے ....جس عظیم انسان کی سیرت طیبہ ہم بیان کریں گے وہ صرف مسلمانوں کے میسینجر نہیں بلکہ ساری انسانیت کے لیے بھیجے گئے پیغمبر ہیں ،یہ الگ بات ہے کہ لوگ ان کو پہچان نہیں رہے ہیں، ....آپ خودغورکیجئے کہ اِس دنیا میں جتنے بھی مذاہب کے پیشوا گذرے ہیں اُن کی تعلیم اور اُن کی سیرت ہم تک قابل اعتماد اور اتھینٹک سورس سے نہیں پہنچی ۔ پچھلے انبیاءکی سیرت کو ہی لے لیجئے ....اِس کی معلومات ہمیں بائبل سے مل سکتی تھی ،لیکن تورات ہو ،یا زبور ہو یا انجیل آج اپنی اصلی شکل میں باقی نہیں اُن کے علاوہ دوسرے مذاہب کی طرف جھانک کر دیکھیں تو اُن کی تعلیمات خود اپنی بنائی ہوئی ہیں اوراُن کے پاس بھی کوئی ایسا پیشوا نہیں ہے جس کی زندگی اتھینٹک روپ میں ....ہم تک پہنچی ہو.... اورجو سارے انسانوں کے لیے آئیڈیل بن سکتے ہوں ۔لیکن محمد ا کی زندگی کی طرف آپ جھانک کردیکھیں گے.... توآپ ان کی زندگی میں.... چارامتیازی خصوصیات پائیں گے:
پہلی خصوصیت یہ کہ انہوں نے ایک محفوظ کتاب چھوڑی ، جس کے ایک حرف میں بھی.... الٹ پھیر نہ ہوسکا ہے ،آج یہ کتاب.... اپنی اصلی زبان میں اور اصل الفاظ کے ساتھ ہو بہو محفوظ ہے
دوسری خصوصیت یہ کہ آپ کی لائی ہوئی کتاب کی طرح آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ بھی.... بالکل محفوظ ہے ،آپ کی پیدائش سے لے کر موت تک.... آپ کی ایک ایک بات ، آپ کی ایک ایک حرکت ، اتھینٹک طریقے سے ہم تک پہنچی ہے۔ جن لوگوں نے آپ کی باتیں بیان کی ہیں اُن کی تعداد ....ایک لاکھ تک پہنچتی ہے،جن کی زندگیاں آج اسماءالرجال کی کتابوںمیں محفوظ ہیں۔وہ بیان کرتے وقت کہتے ہیں کہ مجھ سے فلاں نے بیان کیا اورفلاں سے فلاں نے بیان کیا،کہ محمدﷺ نے ایسا فرمایاہے: اس طرح وہ باتیں ہم تک ....اتھینٹک طریقے سے پہنچتی ہیں۔
غرضیکہ محمدﷺ کی باتیں اور آپ کی سیرت اِس سرزمین پر جس قدر احتیاط اور صحت کے ساتھ ہمارے پاس پہنچی ہیں کسی بھی انسان کی زندگی اس قدرصحت اوراحتیاط کے ساتھ نہیں پہنچ سکی.... چاہے وہ کوئی نبی ہو یاکوئی مصلح ۔    
 تیسری خصوصیت یہ کہ آپ کی زندگی کے ہر پہلو کی اتنی تفصیلات ملتی ہیں جو تاریخ کے کسی دوسرے شخص کی زندگی کے بارے میں نہیں ملتی ۔ آپ کا خاندان کیسا تھا ،آپ کی نبوت سے پہلے کی زندگی کیسی تھی ، آپ کو نبوت کس طرح ملی ،آپ پر وحی کیسے اُترتی تھی ،آپ نے اسلام کی دعوت کس طرح پھیلائی ،مخالفتوں کا سامنا کیسے کیا، اپنے ساتھیوں کی تربیت کیسے کی ، آپ کیسے کھڑے ہوتے تھے ،کیسے بیٹھتے تھے ،کیسے چلتے تھے ،کیسے ہنستے تھے ،کیسے غسل کرتے تھے ،کیسے وضوکرتے تھے ، کیسے نماز پڑھتے تھے ،کیسے کھاتے پیتے تھے ،کیسے گفتگو کرتے تھے ،آپ کی خانگی زندگی کیسی تھی ، آپ کے معاملات کیسے تھے ،آپ نے کس چیز کا حکم دیا ،اورکس چیزسے منع کیا ۔آپ کا حلیہ کیسا تھا اورجسمانی ساخت کیسی تھی ،یہ سب کچھ تفصیل کے ساتھ حدیث اورسیرت کی کتابوںمیں موجود ہے ۔
چوتھی خصوصیت یہ کہ محمدﷺکی جو تعلیم تھی اُس کے اندر خود آفاقیت کا سبق دیاگیا ہے -آپ کی پہلی دعوت توحید کی دعوت تھی ،یعنی آپ نے انسانوں کو اُس اللہ کی عبادت اور بندگی کی طرف بلایا جو سارے انسانوںکا رب ہے ،اگرمحمدﷺنے اپنی بندگی کا حکم دیاہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ محمدا عربوں کے پیغمبرہیں ۔ دوسری بات یہ کہ آپ نے رنگ ونسل اور زبان ووطن کے سارے امتیازات کو مٹاکر سارے انسانوں کو ایک ماں باپ کی اولاد قراردیا ۔ اورہر طرح کے چھوت چھات ،اونچ نیچ اور بھید بھاو کو مٹایا۔

  خلاصہ یہ سمجھیں ....کہ محمدﷺکی زندگی ہر انسان کے لیے آئیڈیل اورنمونہ ہے.... چاہے وہ کسی بھی خاندان ،کسی بھی ملک اور کسی بھی سماج سے تعلق رکھتا ہو ۔ 

الأربعاء، يوليو 11، 2012

استقبال رمضان


 سیف الرحمن حفظ الرحمن تیمی
جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی
    saiffatmi@gmail.com              

مبارک ہو مسلمانوں مہ رمضان آیا ہے
خدائے پاک کا بھیجا ہوا مہمان آیا ہے
خدا نے مرتبہ کتنا دیا اس ماہ اقدس کو
ہدایت کے لئے اس ماہ میں قرآن آیا ہے
            ایک بارپھر ماہ رمضان، ماہ رضوان وغفران ،ماہ تلاوت قرآن، ماہ رحمت رحمان اور نیکیوں کا سراپا چمنستان ہمارے اوپر جلوہ فگن ہورہا ہے ،کہ جس کے آتے ہی نیکیوں کا بہار آجاتا ہے ، تقوی وپرہیزگاری ،زہدوقناعت ،خشیت وانابت ،عبادت وتلاوت ،شب بیداری وتہجد گزاری ،رب کی اطاعت وتابعداری ،رب کے حضور گناہوں پر شرمندگی اور الحاح وزاری ،باہمی تعلقات میں استواری اور صدقات وخیرات کی مارا ماری کا ایسا سماں بنتا ہے کہ یہ زمین جنت نشان بن جاتا ہے ، انسان کے اندر ملکوتی صفات کے مناظر جھلکنے لگتے ہیں ، ماہ رمضان صبح وشام روحانی ماحول پیش کرتا ہے ،راتوں کی حالت مزید دیدنی ہوتی ہے، بالخصوص قدر کی راتوں میں آسمانی قمقے، ربانی جلوے اور روحانی جلوہ طرازی کی ایسی روح افزا فضا قائم ہوتی ہے کہ ہر لب کا تبسم ہیرا اور ہر آنکھ کا آنسوبن جاتا ہے۔
            ماہ رمضان رحمت و مغفرت اور رب کی قربت کا ابر باراں لئے ہمارے سروں پہ سایہ فگن ہے، ہر قلب پریشاں اب شاداں ہے کہ ماہ رمضان مبارک ہر غم وہم سے نجات دلانے اور خالق حقیقی سے رشتہ استوار کرانے کے لئے ہمارے سامنے ہے،اس کے دن ا طاعت الہی سے منور اور رات ذکر الہی سے معطر ہوتے ہیں،کیوں نہ ہو کہ اس ماہ کا ہر دن مرد مومن کے صلوة و قیام سے مشرف ہوتا اور ہر رات تہجدوقیام سے سر فراز ہوتی ہے،صحابی رسول عبداللہ بن مسعود ؓ سے دریافت کیا گیا ”کیف کنتم تستقبلون شھر رمضان“ آپ لوگ ماہ رمضان کا استقبال کیسے کیا کرتے تھے؟” قال ما کان احدنا یجر و ان یستقبل الھلال وفی قلبہ مثقال ذرة حقد علی اخیہ المسلم“آپ نے جواب دیا ہم میں سے کوئی آدمی یہ جرات نہیں کرتا تھا کہ وہ ہلال رمضان کو دیکھے او ر اس کے دل میں اپنے مسلمان بھائی کے تئیں ذرہ برابر بھی حقد وحسدہو ۔
            اس ماہ مبارک آتے ہی نارو نیران کے دروازے بند اور بہشت و جنان کے دروازے وا ہوجاتے ہیں، حدیث رسول ہے: اذا کان اول لیلة من رمضان فتحت ابواب الجنة فلم یغلق منھا باب وغلقت ابواب جھنم فلم یفتح منھا باب، وصفدت الشیاطین وینادی مناد یا باغی الخیر اقبل ، ویا باغی الشر اقصر ، وللہ عتقاءمن النار وذالک فی کل لیلة،،
            یعنی جب ما ہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ بند نہیں ہوتا، جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور اس کا کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا،شیاطین جکڑ دئے جاتے ہیں، منا دی یہ نداءلگاتا ہے کہ اے خیر کے خواہاں آگے آ، اور اے بدی کے طلب گار باز آجا،اور اس ماہ کی ہر شب کو اللہ (کچھ بندوں ) کو جہنم سے نجات کا پروانہ عطا کر تا ہے۔
            ہماری خوش قسمتی کہیے کہ ہمیں وہ با بر کت ماہ پھر نصیب ہورہا ہے جس کے گزر جانے پر سال گذشتہ ہمیں سخت صدمہ پہنچا تھا، ہم افسردہ و غمگین اور نالاں وحزیں تھے کہ خدا جانے پھر یہ ذریں موقع نصیب ہوپائے یا نہیں۔
            چنانچہ اس بار ہمیں اپنی کو تا ہیوں سے دامن جھاڑ کر مکمل عزم کے ساتھ اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ ہم سال رواں اس ماہ غنیمت کو اپنے نیک اعمال کا ذخیرہ بنا ئیں گے یا پھر اس بار بھی بدستور اسے رائیگاں جانے دیں گے اور پھر حسرت و ندامت کرنے پر مجبور ہوں گے۔
            رحمت و برکت ، احسان و مغفرت اور انعام و نعمت والے اس مبارک مہینہ کی ایک عظیم ترین خصوصیت یہ کہ ہر ماہ کے بالمقابل اس ماہ میں روزہ ایک ایسی مشروع عبادت ہے جس کا ثواب اللہ نے بے حساب دینے کا وعدہ کیا ہے۔”الا الصوم فانہ لی و انا اجزی بہ یدعی شھوتہ وطعامہ من اجلی“گویا روزہ کا ثواب بے حساب اس لئے ہے کہ انسان روزہ محض اللہ کی خوشنودی اور اسی کی رضا جوئی کے لئے رکھتا ہے ، کھانا پینا تج دیتا ہے، شہوت و عشرت سے باز رہتا ہے اور صرف رضائے الہی کے لئے صبح تا شام بھوک وپیاس کی شدت وحرارت برضا ورغبت برداشت کرتا ہے۔
            اس منا سبت سے ایک اہم سوال یہ ہے کہ وہ کون سے مفید وموثر طریقے ہیں جن کے ذریعہ ہم خوش اسلوبی کے ساتھ اس ماہ کا مکمل فائدہ اٹھا سکتے اور اسے اپنے حق میںبنا سکتے ہیں ؟ تو عرض ہے کہ اس ما مبارک کے پس منظر میں ہر مسلمان کوافراط و تفریط سے بچتے ہوئے اعتدال و مداومت کی راہ اپناتے ہوئے ہر پل نیکی اور رضا جوئی کے کام میں صرف کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ، اور اس راہ میں باہم مسابقت کا جذبہ بھی کار فرما ہونا چاہئے ، اللہ کے اس قول کا یہی مطلوب ہے، ”وفی ذلک فلیتنافس المتنافسون“ باہم سبقت کرنے والوں کو اس راہ میں سبقت کرنا چاہیے۔
حدیث رسول ہے :
            افعلوا الخیردھرکم، وتعرضوا لنفحات رحمة اللہ،فان للہ نفحات من رحمتہ یصیب بھا من یشاءمن عبادہ ،وسلوا اللہ ان یستر عوراتکم و یومن ورعاتکم یعنی کہ بھلائی تو ہمیشہ کرو تاہم رحمت الہی کے حصول کے لئے کوشاں رہو، اس لئے کہ رحمت الہی کے بعض ایسے جھونکے ہیں جن سے اللہ اپنے چنیدہ بندوں کو سرفراز کرتا ہے ،اللہ سے دعا کرو کہ اللہ تیرے گناہوں کی پردہ پوشی کرے اور تمہیں مامون ومحفوظ رکھے۔
            اس نعمت عظمی کی بازیابی پر ہمیں درج ذیل چندامور کا بالخصوص لحاظ رکھنا چاہیے اور انکا اہتمام کرنا چاہیے ۔
۱-        دعا:سلف صالحین کا یہ طریقہ کاررہا ہے کہ اللہ سے دعا کرتے کہ اللہ انہیں ماہ رمضان کی رؤیت نصیب فرمائے ، اور پھر یہ دعا کرتے کہ اللہ اس ماہ کے اعمال وافعال کو قبول فرمائے۔
            چنانچہ ہمیں بھی ہلال رمضان کا استقبال نبوی طریقہ اور سلف کے منہج کے مطابق اس دعا سے کرنا چاہیے کہ :
            اللھم اھلہ علینا بالامن والایمان والسلامة والاسلام ربی ربک اللہ
            اے اللہ ! تو امن وایمان اور سلامتی واسلام کے ساتھ اس چاندکو ہمارے اوپر طلوع فرما، میرا اور تیرا رب اللہ ہی ہے ۔
۲-        حمدوشکر :امام نوی کتاب الاذکار میں رقمطراز ہیں :”اعلم انہ یستحب لمن تجددت لہ نعمة ظاھرة او اندفعت عنہ نقمة ظاھرة انا یسجدشکرا للہ او یثنی بما ھو اھلہ“ جان رکھو کہ جس شخص کو بھی کوئی نعمت نصیب ہوئی یا اس سے کوئی بلاءومصیبت دور ہوگئی تو اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ اللہ کے حضور سجدہ شکر بجالائے یا اس کے شایان اس کی حمدسرائی کرے۔
            نقطہ فکر ہے کہ کتنے ایسے لوگ ہیں جوایک سال قبل اس ماہ مبارک میں صیام وقیام شب بیداری اور تراویح جیسے عبادات میں ہمارے پہلو بپہلو ہوتے تھے لیکن آج وہ قبر کی اندھیرکوٹھری میں اپنے کئے کا انجام حاصل کررہے ہیں۔
۳-       فرح وسرور :نبی کریم ﷺسے ثابت ہے کہ رمضان کی آمدپر آپ صحابہ کرام کو بشارت ومبارکبادی دیاکرتے تھے:
            ”جاءکم شھر رمضان، شھر رمضان شھر مبارک“ ماہ رمضان آگیا ، ماہ رمضان مبارک مہینہ ہے ، صحابہ کرام ، تابعین عظام تبع تابعین اور اسلاف کا بھی یہی طرز عمل رہا ہے کہ ماہ مبارک کا خاص اہتمام کرتے ، اس کی آمد پر خوش ہوتے ایک دوسرے کو مبارکبادکہتے اور بھلارمضان سے زیادہ کون ماہ اس کا مستحق ہوسکتا ہے ۔
۴-       اس مبارک مہینہ کو غنیمت جان کر نیک اعمال سے اسے آبادرکھنے کا عزم صادق :جو شخص اللہ کے وعدہ کو پورا کرتا ہے اللہ بھی اس سے اپنے وعدہ کی تکمیل کرتا اور نیک اعمال میں اس کی مددکرتا ہے ”فلوصدقوا اللہ لکان خیرالھم“ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم رمضان کا استقبال کرتے ہوئے اپنے دل میں یہ عزم وارادہ رکھیں کہ معاصی سے ہم اجتناب کریں، ہر قسم کے گناہوں سے توبہ کر کے دوبارہ ان کے ارتکاب کی جرات نہیں کریں گے ، اس لئے کہ یہ مہینہ ہی توبہ وانابت اور عفو ومغفرت کا مہینہ ہے اگر اس میں بھی ہم تائب نہیں ہوئے تو بھلا توبہ کا اور کون ذریں موقع ہوسکتا ہے :”وتوبوا لی اللہ جمیعا ایھا المومنون لعلکم تفلحون“اے مومنوں تم سب ملکر اللہ سے توبہ کروشاید کہ تم کامیاب ہوجاؤ
            ”ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرین“گویا محبوب الہی بننے کے لئے توبہ وانابت اور قربت وعبادت از بس زیادہ ضروری ہے 
            مختصر یہ کہ اخلاص نیت کے بعداللہ کی رضا جوئی کی خاطر عبادت وریاضت ،تہجد وتلاوت اور دیگر نیک اعمال وحسنات کے دست بدست مسلمانوں کے ساتھ شرح صدر،بشاشت طبع، خوش روئی اور نرم مزاجی کے ساتھ حسن معاملات کرنا ہے، ان کی ضروریات میں انکا شریک ہونا اور عبادت خالق کے ہمراہ خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہو کر مبارک مہینہ کے مبارک ساعات کو گزار لینا ہی مرد مؤمن کی کامیابی ہے۔

وہ دیکھ چراغوں کے شعلے منزل سے اشارہ کرتے ہیں
تو ہمت ہارے جاتا ہے ہمت کہیں ہارے جاتے ہیں

برماکے مسلمانوں کی حالت زاراور ہماری ذمہ داریاں

صفات عالم محمدزبیرتیمی


ملک شام اورفلسطین کے مسلمانوں کے ساتھ درندگی کے مظاہر ے ہوہی رہے ہیں کہ اسی بیچ ایک دوسرا زخم ہرا ہوگیا یعنی اراکان کے مسلمان بودھسٹوں کے ظلم وستم کی چکی میں بُری طرح پسنے لگے ، اوربرماحکومت اوربدھ مت کی دہشت گردانہ کاروائی میں3جون سے 12جون تک پچاس ہزارسے زائد مسلمان جان بحق ہوگئے ۔ 
اراکان وہ سرزمین ہے جہاں خلیفہ ہارون رشید کے عہد خلافت میں مسلم تاجروں کے ذریعہ اسلام پہنچا ، اس ملک میں مسلمان بغرض تجارت آئے تھے اور اسلام کی تبلیغ شروع کردی تھی،اسلام کی فطری تعلیمات سے متاثرہوکر وہاں کی کثیر آبادی نے اسلام قبول کرلیا اورایسی قوت کے مالک بن بیٹھے کہ 1430ءمیں سلیمان شاہ کے ہاتھو ں اسلامی حکومت کی تشکیل کرلی، اس ملک پر ساڑھے تین صدیوں تک مسلمانوں کی حکومت رہی ، مسجدیں بنائی گئیں ،قرآنی حلقے قائم کئے گئے ، مدارس وجامعات کھولے گئے ، ان کی کرنسی پر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کندہ ہوتا تھا اور اس کے نیچے ابوبکر عمرعثمان اور علی نام درج ہوتا تھا ۔ اس ملک کے پڑوس میں برما تھا جہاں بدھسٹوں کی حکومت تھی ، مسلم حکمرانی بودھسٹوں کو ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے 1784ء میں اراکان پر حملہ کردیا بالاخر اراکان کی اینٹ سے اینٹ بجادی ، اسے برما میں ضم کرلیا اوراس کا نام بدل کر میانمار رکھ دیا۔
1824ءمیں برما برطانیہ کی غلامی میں چلا گیا، سوسال سے زائدعرصہ غلامی کی زندگی گذارنے کے بعد1938ءمیں انگریزوں سے خودمختاری حاصل کرلی، آزادی کے بعد انہوں نے پہلی فرصت میں مسلم مٹاو پالیسی کے تحت اسلامی شناخت کو مٹانے کی بھرپور کوشش کی ، دعاة پر حملے کئے ، مسلمانوں کو نقل مکانی پر مجبورکیا ،چنانچہ پانچ لاکھ مسلمان برما چھوڑنے پر مجبورہوئے، کتنے لوگ پڑوسی ملک بنگلادیش ہجرت کرگئے ، مسلمانوں کی حالت زاردیکھ کر ملک فہد نے ان کے لیے ہجرت کا دروازہ کھول دیا اس طرح ان کی اچھی خاصی تعداد نے مکہ میں بودوباش اختیارکرلی ،آج مکہ کے باشندگان میں 25 فیصد اراکان کے مسلمان ہیں ۔ اس طرح مختلف اوقات میں مسلمانوں کو نقل مکانی پر مجبورکیا گیا،جولوگ ہجرت نہ کرسکے ان کی ناکہ بندی شروع کردی گئی،دعوت پر پابندی ڈال دی گئی ،دعاة کی سرگرمیوں پرروک لگادی گئی،مسلمانوں کے اوقاف چراگاہوں میں بدل دئیے گئے ، برماکی فوج نے بڑی ڈھٹائی سے ان کی مسجدوں کی بے حرمتی کی ، مساجد ومدارس کی تعمیر پر قدغن لگادیا ،لاؤڈسپیکر سے اذان ممنوع قرار دی گئی ، مسلم بچے سرکاری تعلیم سے محروم کیے گیے، ان پرملازمت کے دروازے بندکردئیے گئے ،1982 میں اراکان کے مسلمانوں کو حق شہریت سے بھی محروم کردیاگیا، اس طرح ان کی نسبت کسی ملک سے نہ رہی ، ان کی لڑکیوں کی شادی کے لیے 25 سال اورلڑکوں کی شادی کے لیے30 سال عمر کی تحدید کی گئی ، شادی کی کاروائی کے لیے بھی سرحدی سیکوریٹی فورسیز سے اجازت نامہ کا حصول ناگزیر قراردیاگیا ، خانگی زندگی سے متعلقہ سخت سے سخت قانون بنائے گئے۔ساٹھ سالوں سے اراکان کے مسلمان ظلم وستم کی چکی میں پس رہے ہیں،ان کے بچے ننگے بدن ، ننگے پیر، بوسیدہ کپڑے زیب تن کئے قابل رحم حالت میں دکھائی دیتے ہیں، ان کی عورتیں مردوں کے ہمراہ کھیتوں میں رزاعت کا کام کرکے گذربسر کرتی ہیں۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسے سنگین اورروح فرسا حالات میں بھی مسلمان اپنے دینی شعائر سے جڑے ہیں اور کسی ایک کے تعلق سے بھی یہ رپورٹ نہ ملی کہ دنیا کی لالچ میں اپنے ایمان کا سودا کیاہو۔
جون کے اوائل میں10دعاة مسلم بستیوں میں دعوت کے لیے گھوم رہے تھے اور مسلمانوں میں تبلیغ کررہے تھے کہ بودھسٹوں کا ایک دہشت گردگروپ ان کے پاس آیا اور ان کے ساتھ زیادتی شروع کردی ،انہیں ماراپیٹا ، درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے جسموں پر چھری مارنے لگے ،ان کی زبانوں کو رسیوں سے باندھ کر ان کی زبانیں کھینچ لیں یہاں تک کہ دسیوں تڑپ تڑپ کر مرگئے ، مسلمانوں نے اپنے دعاة کی ایسی بے حرمتی دیکھی تومظاہرہ کیا، پھر کیاتھا، انسانیت سوز درندگی کا مظاہرہ شروع ہوگیا، انسان نما درندوں نے مسلمانوں کی ایک مکمل بستی کو جلادیا ،جس میں آٹھ سو گھر تھے ، پھر دوسری بستی کا رخ کیا جس میں700 گھر تھے اسے بھی جلاکر خاکستر کردیا، پھر تیسری بستی کا رخ کیا جہاں 1600گھروں کو نذرآتش کردیا۔ جان کے خوف سے 9 ہزار لوگوں نے جب بری اور بحری راستوں سے بنگلادیش کا رخ کیا تو بنگلادیشی حکومت نے انہیں پناہ دینے سے انکار کردیا ۔ 
یہ ہیں وہ حالات جن سے اراکان کے مسلمان حالیہ دنوں گذر رہے ہیں، مظلوموں کی آہیں، یتیموں اور بیواؤں کی چینخ وپکار،اورخانہ بدوش مسلمانوں کی سسکیاں آنکھوں کو اشکبار کردیتی ہیں اورضمیر کو کچوکے لگاتی ہیں کہ کہاں ہے غیرت مسلم ....؟ کہاں ہے ہمارے مسلم حکمراں کا سیاسی رول.... ؟ کہاں ہے رفاہی اداروں اورعالمی تنظیموں کی دادرسی ....؟ 
ہماری بات اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ سکتی ،عالمی تنظیموں کوجھنجھوڑنہیں سکتی لیکن آپ کے سمندغیرت کو تازیانہ ضرورلگاسکتی ہے ، آپ کے احساس کوضرور بیدار کرسکتی ہے،کہ آپ تک مظلوم مسلمانوں کی حالت زارپہنچ چکی ہے ۔
 توآئیے !رحمت ومغفرت اورمواسات وغم خواری کے اس ماہ مبارک میں اراکان کے مظلوم مسلمانوں کے لیے گڑگڑاکراللہ کے حضور دعائیں کریں ، اوراپنے پاکیزہ مالوں کی زکاة وصدقات سے ان کی داد رسی کریں کہ یہ دینی اخوت کا ادنی تقاضا ہے۔