الأربعاء، فبراير 18، 2015

صحراؤں کا حسن


ثناءاللہ صادق تیمی
 اسسٹنٹ پروفیسر امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی ، ریاض ، سعودی عرب

   سعودی عرب کے دارالسلطنت ریاض آئے ہمیں کئی دن ہوگئے تھے لیکن ابھی شہر سے باہر نکلنا نصیب  نہيں ہوا تھا ۔ ہم ، عزیزم حفظ الرحمن تیمی اور مامو جناب عاصم سلفی صاحبان فیس بک پر ایک متنازع ایشو پر چل رہے مناقشات پر باتیں کررہے تھے کہ حفظ الرحمن صاحب نے جناب ندیم اختر سلفی کی ایک تحریربآواز بلند پڑھ کر سنایا اور ہم سب نے کمال دلچسپی سے  اسے سنا بھی ۔ حفظ الرحمن صاحب اپنی پسندیدگی کا اظہار کررہے تھے کہ مامو نے کہا کہ لائیے آپ کی ان سے بات کراتے ہیں ۔ اور انہوں نے کال لگادی ۔ ہماری باتيں ہوئیں ۔ خوشی ہوئی ، اچھا لگا اور انہوں نے اپنے یہاں آنے کی یہ کہتے ہوئے دعوت دے دی کہ ٹیلی فون پر کیا بات ہوگی ۔ آئیں کچھ باتيں واتیں ہوں ۔ تبادلہ خیال ہو ، تو مزہ آئے ۔ پتہ چلا کہ مامو اور ان کے مابین گہرے رشتے ہيں اور دونوں مدرسے کے زمانے میں کلاس میٹ رہ چکے ہیں ۔

   دوسرے دن ہم ابھی دن کا کھانا کھانے کی تیاری کررہے تھے کہ مامو نے اپنی آفس سے فون کیا کہ آپ لوگ تیار رہیں ندیم کے یہاں چلنا ہے ۔ رات کا کھانا وہيں ہوگا ۔ ہم نے جلدی جلدی کھانا کھایا اور ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی ، حفظ الرحمن تیمی ، میں (ثناءاللہ صادق تیمی ) اور مامو جناب عاصم سلفی مامو کی گاڑی سے حوطہ سدیر کے لیے روانہ ہوگئے ۔ شہر میں کافی بھیڑ تھی ۔ مامو کے مطابق دس منٹ کا راستہ پورے پونا گھنٹے میں طے ہوا ۔ شہر سے گاڑی نکلی تو 120 کے رفتار سے بھاگنے لگی ۔ مامو نے کہا کہ صحراؤں کو دیکھیے اور ہم دور تک پھیلے صحرائی خلا کے حسن میں کھو گئے ۔ آج پہلی مرتبہ یہ منظر دیھکنے کو ملا تھا ۔ چلتی گاڑی میں یہ کچھ اور بھی حسین لگ رہا تھا ۔ جہاں تہاں چرتی ہوئی بکریاں اور  راعی کے کیمپ کے ساتھ ساتھ اونٹوں کا جھنڈ ہمیں اس زندگی سے روشناس کرارہا تھا جس کی بابت ہم نے کتابوں میں بہت پڑھ رکھا تھا ۔ اردو داستانوں میں دلچسپی رکھنے والوں کو ہماری باتوں کی صداقت سمجھ میں آئےگی ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سیرت کی کتابوں کے بعض صفحے پھر سے کھل گئے ہیں ۔

  راستہ بھی تو ایکدم صاف صاف ستھرا اور ساری اہم ٹیکنالوجی سے ہمکنارتھا  ۔ دوسو کیلو میٹردور کا راستہ طے کرکے بھی کوئی تھکاوٹ نہيں ہوئی ۔ حوطہ سدیر گاؤں ہے لیکن کیا کوئی شہر اس کا مقابلہ کرے ۔ صفائی ستھرائی سے لے کر مینٹیننس کے ہر ایک معاملے میں ۔ کہیں کوئي ندی نالہ نہيں ، کوئی بدبو کا گزر بسر نہيں ۔ بالکل ہی مزہ آگیا ۔ اوپر سے مولانا ندیم اختر سلفی کے حسن استقبال اور ضیافت نے سونے پر سہاگا کا کام کیا ۔ جاتے ہی انہوں نے بالکل ہندوستانی( آپ چاہيں تو بہاری بھی پڑھ سکتے ہيں ) طرز کے شام والے ناشتے سے تواضع کیا ۔ چنا، چورا ، دھنیا پتا ، کھیرے کے سلاد کے ساتھ آلو کے سموسے ، مٹھائی اور اوپر سے چائے ۔ اور اس سب کے اوپر میزبان کا خلوص اور محبتوں بھرا اصرار ۔ طبیعت مست ہوگئی۔ اپنا ایک مطلع یاد آگیا
طشتری میں چائے چہرے پر تبسم رکھ دیا
میزباں نے موج الفت میں تلاطم رکھ دیا
 معا بعد ہم نے نمازیں ادا کيں اور پھر اپنے میزبان جناب ندیم اختر سلفی کی گاڑی سے قابل تفریح مقامات کی سیر کو نکل گئے ۔ اب جو شام کے وقت نکلے ہیں تو ہائے اللہ کیا ہوا ہے ۔ کیا فضا ہے ۔ کیا حسن ہے اور کیا دلکشی ہے ۔ ڈاکٹر لقمان السلفی کا جملہ یاد آگیا کہ کسی کو جنت دیکھنی ہو تو سعودی عرب آجائے ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے بقول ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی  ہم کسی پہاڑی علاقے  میں آگئے ہوں ۔ تروتازہ اور غیر ملوث ہوا جس میں اتنی خنکی کہ آپ کو ایسی ٹھنڈک سے مالا مال کرے جو آپ کی روح تک کو سرشار کردے ۔ ڈیم پر پہنچے تو وہاں کے منظر نے ہمیں جیسے خیرہ ہی کردیا ۔ عرب کو بدو کہنے والے آکر دیکھیں کہ اللہ کی مہربانی اور حسن تنظیم نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچادیا ہے ۔ ہم نے فطری حسن کا بھرپور آنند لیا ۔ عزیزم حفظ الرحمن تیمی نے اس حسین  پل کو ضائع نہيں جانے دیا اور کئی خوب صورت تصویریں کیمرے میں قید کرلی گئیں ۔ وہاں سے لوٹ کر ہم عزاب (غیر شادی شدہ حضرات ) کے لیے مختص پارک میں آئے ۔ ہم سب نے خوب تفریح کی ، جھولے ٹنگے تھے سو موقع کا فائدہ اٹھایا خوب جھولے ، دلچسپ باتیں کیں ، ایک دوسرے سے لطف لیا اور پھراپنے میزبان کے ہاں لوٹ آئے ۔
    ہاں اس سے پہلے شاپنگ کمپلیکس گئے ۔ وہاں ایک سوڈانی شاپ کیپر سے باتیں ہوئیں ۔ ہم ( حفظ الرحن ، ثناءاللہ )نے جب انہيں طیب صالح کے ناول موسم الھجرۃ الی الشمال کی بابت بتلایا تو خوب خوش ہوئے ۔ ہمارا تجربہ رہا کہ بالعموم سوڈانی نیک طبیعت کے اچھے لوگ ہوتے ہیں ۔ اپنے میزبان کے یہاں لوٹے تو پر تکلف کھانے کا نظم رہا اور بالکل روایتی شمالی بہار کے مسلمانوں کی مانند مولانا نے ہمیں اصرار کرکے خوب خوب کھلایا ۔ اللہ انہيں بہتر بدلہ دے ۔ مولانا ندیم اختر سلفی کی بابت اپنی بستی کے صاحب ذوق چچا جناب آصف حسین کیفی سے سنا کرتا تھا اور ان سے ملے تو حسن اتفاق دیکھیے اسی بیچ ان کے بھائی جناب کاشف حسین کا ٹیلی فون آگیا اور وہ بول پڑے کہ وہ تو آصف کے دوست ہيں ۔ اور یوں میرے سامنے ماضی کی کئی تصویریں پھر گئیں ۔ ان کی بابت آصف صاحب نے کئي بار ہمارے گاؤں کے اس سالانہ پروگرام کے مواقع سے بتایا تھا جو نئے فارغین کو نوازنے اور تعلیم کو پروان چڑھانے کے لیے منعقد کیا جاتا ہے اور جس کی شروعات میں دوستوں کے ہمراہ اس خاکسار کی اپنی حصہ داری رہی ہے ۔ مولانا یہاں جالیات سے جڑے ہیں ۔ دعوتی کام کرتے ہیں اور اس معاملے میں کافی متحمس اور سرگرم ہيں ۔   آنے لگے تو انہوں نے اپنے دوست جناب عاصم سلفی صاحب کو پانیوں کے دو کارٹون سے بھی نوازا ۔ واضح رہے کہ یہاں پٹرول سے کہیں زیادہ پانی مہنگا ہے ۔
  شاہراہ عام سے پہلے بھی چاروں طرف کا حسن دیدہ زیب تھا ۔ لیکن چاندنی رات نے تو جیسے صحرا کو باغیچہ میں بدل دیا تھا ۔ دور دور چل رہی گاڑیاں کیا منظر خلق کررہی تھیں، بیان سے باہر ہے اور کہیں کہيں پر بسی ہوئی بستیوں میں قمقوں سے پیدا ہونے والی روشنی اس طرح کی صورت گری کررہی تھی جیسے نیلے آسمان میں بہت سارے ستارے اپنے اپنے انداز میں سلیقے سے جمع ہوکر بات چیت کررہے ہوں ۔ راستے میں تعاون علی غیر الخیر کی بڑی اچھی صورت دیکھنے کو ملی ۔ شاہراہ عام پر 120 کی رفتار میکسیمم اسپیڈ ہے ۔ آٹومیٹک کیمرے لگے ہوئے ہیں کہ اگر کوئی اس کی مخالفت کرے تو جرمانہ لگادیا جائے ۔ اب لوگ کرتے یہ ہيں کہ اس سے کہیں زیادہ رفتار سے چلتے ہیں اور جب کیمرا یا پولیس چیک پوسٹ آنے والا ہوتا ہے رفتار کو میکسیمم اسپیڈ کے مطابق کرلیتے ہیں اور اس معاملے میں ہر آگے والا اپنے پیچھے والے کو انڈیکیٹ ( اشارہ ) کردیتا ہے اور یوں پیچھے والا ہوشیار ہو جاتا ہے ۔

      

ليست هناك تعليقات: