الأربعاء، ديسمبر 28، 2011

افسوس میری قوم بدلتی نہیں کروٹ


اسلام ساری انسانیت کے لیے رحمت کا پیغام بن کرآیاہے ، اس کی آفاقی تعلیمات میں انسانی زندگی میں پیش آنے والے سارے مسائل کا مکمل حل موجودہے ، اس میں انسانی فطرت اوراس کے تقاضے کی پوری رعایت رکھی گئی ہے تاکہ انسان چاہے وہ جس ملک، جس زمانے اورجس قبیلے سے تعلق رکھتا ہو‘اس کے گہوارہ میں امن وسکون اورسعادت کی زندگی گذار سکے۔ لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سامان گوکہ بیش قیمت اورگراںمایہ ہو اگراس کی تشہیر مطلوبہ طریقے سے نہ کی گئی توصارفین کی نظروں میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ، بلکہ رفتارِ زمانہ کے ساتھ لوگ اسے فرسودہ اورازکاررفتہ سمجھنے لگتے ہیں۔ صد حیف آج یہی صورتحال تقریباً اسلام کی ہے، چنانچہ ایک طرف عالمی میڈیا جہالت اور مذہبی تعصب کی بنیاد پر اسلام پرمختلف قسم کے اعتراضات کئے جارہاہے، تودوسری طرف خودہماری نئی نسل کے ذہنوں میں اسلام کے خلاف بھانت بھانت کے سوالات پیدا ہورہے ہیں، ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہورہا ہوکہ ہم شاید اپنی قوم سے بدظنی کے شکار ہیں یا ان کی کوششوں کی ناقدری کررہے ہیں،ایسا ہرگز نہیں ہے،ہمیں اپنی قوم کے باہمت نوجوانوں پرفخر ہے، تاہم جس حدتک ہمارے پاس افراد ہونے چاہیے تھے نہیں ہیں، جب ہم اپنے حلقے میں ہوتے ہیں تو خوش فہمی کے شکار ہونے لگتے ہیں کہ ماشاءاللہ ہمارے پاس دین کی خدمت کرنے والے احباب کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے لیکن جب ملکی اورعالمی سطح پراہل باطل کی چستی ، اورباطل کے فروغ کے لیے منصوبہ بندی کے سامنے اہل حق کی سستی اورحق کے فروغ میںبے حسی پر غورکرتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے ۔ اورہمیں اپنی کوتاہی کاپورا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ اگرہمارے پاس کسی چیز کی کمی ہے تو بلند ہمت ، اولوالعزم اورفولادی ارادہ کے مالک افراد کی ، جواسلام کوعملاً اپنی زندگی میں نافذ کرکے گھرگھراس کی تشہیرکرتے ۔ اسلامیات کاگہرا مطالعہ کرنے والا ایک مستشرق جب اس نکتہ پر پہنچتا ہے توبے لاگ یہ تبصرہ کرنے پر مجبورہوتا ہے کہ :
 یا لہ من دین لوکان لہ رجال”کیاہی عمدہ دین ہے کاش کہ اسے ویسے افراد مل جاتے“۔ شاید امیرالمؤمنین عمرفاروق رضى الله عنه نے ایسی ہی نازک حالت کے لیے یہ دعا کی تھی اللھم انی أعوذ بک من جلد الفاجروعجزالثقة ”اے اللہ ! میں تجھ سے فاجرکی ہمت وقوت اورثقہ کی پست ہمتی وکوتاہی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ “
جی ہاں! اگرایک مسلم کوتاہ ہے تواس سے اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا گوکہ اس کے ایمان کی گواہی پوری زمین دیتی ہو، وہ معاشرے کے لیے مفید نہیں بن سکتا ،بلکہ بسا اوقات اس کی کوتاہی باطل کومعاشرے میں پروان چڑھنے کا موقع فراہم کرے گی ۔ ایک انسان جو اپنی ذات تک محدود ہووہ معاشرے کے لیے عضومعطل ہے ، کتنے لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم نے نماز روزے کی پابندی کرلی تواپنی ذمہ داری سے عہدہ برآہوگئے ، حالانکہ ایک مسلمان کی ذمہ داری محض یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کی اصلاح کرلے اوربس بلکہ اسے’ خیرامت‘ کا لقب اس بنیادپر دیاگیا ہے کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہے ،وہ خیر کا ہرکارہ ہے۔آج انسانی معاشرے کو غفلت کیش اورپست ہمت عابد وزاہد کی ضرورت نہیںبلکہ بیدارمغزاوربلند ہمت داعی کی ضرورت ہے جو خود کی اصلاح کے ساتھ کفروشرک کی شب تاریک میں ایمان وعمل کی قندیل روشن کرسکے ۔اس
کی ذات سے دوسروں کو فیض پہنچ سکے ،اس کا وجود انسانیت کے لیے نیک فال بن سکے ۔ اللہ کے رسول  صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ شخص وہ ہے جو لوگوںکے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہو،اوراللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل یہ ہے کہ کسی مسلمان کے دل میں خوشی کی لہر دوڑا دو ، یا اس کی کسی پریشانی کودور کردو،یا اس کا       قر ض ادا کردو ،یا اس کی بھوک مٹادو، میں کسی مسلمان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے چلوں‘ یہ میرے لیے مسجد (نبوی ) میں ایک مہینہ اعتکاف میں بیٹھنے سے بہتر ہے “۔     (رواہ الطبرانی فی الکبیرو حسنہ الالبانی فی الصحیحة 906)
 یہ ہے ایک سچے مسلمان کا حقیقی خدوخال جو ہمیشہ حرکت میں ہوتا ہے ، جوشجرسایہ دار ہوتا ہے جس کے سایہ سے خاص وعام سب کویکساں فائدہ پہنچتا ہے ۔ لیکن جب ہم قوم مسلم کا عمومی تجزیہ کرتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ آج ہماری اکثریت اپنی ذات کے خول میں گم ہے ، ہمیں دوسروں کی کوئی پرواہ نہیں ، اورجہاں اسلامی تشخص کا مسئلہ ہو وہاں ہماری بے حسی اس قدربڑھ جاتی ہے کہ ہم اپنی پہچان تک کھوبیٹھتے ہیں بالخصوص جب کثیرمذہبی معاشرے میں کسی منصب اورعہدے پر فائز کردئیے جائیں توہماری بے حسی مزید دوآتشہ ہوجاتی ہے،بسااوقات روشن خیالی اوررواداری کے نام پر اپنے دین وایمان تک کا سودا کربیٹھتے ہیں۔ ہماری ذات سے اپنی قوم کو فائدہ کم پہنچتا اوردوسروں کو زیادہ پہنچتا ہے ۔
 دوسری جانب کفارومشرکین قوم پروری میں پیش پیش اوراپنے باطل مذہب کے فروغ میں تن من دھن کی بازی لگاتے ہوئے دکھائی دیں گے ۔عالمی سطح پراہل باطل ذرائع ابلاغ کے ذریعہ شہوات اورشبہات کو ہوادینے کے لیے ان سارے وسائل کوبروئے کار لا ہی رہے ہیں جو ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکیں۔جب ملکی اورقومی سطح پر ان کی کوششوں کا جائزہ لیں توشہر، قصبہ اوربستی کا وہ کو ن سا علاقہ نہیں ہے جہاں عیسائی مشینریز اورقادیانیت کی ارتدادی سرگرمیاں جاری نہ ہوں۔ ایک عیسائی کو اس کا باطل مذہب اتنا پیار اہے کہ ملازمت سے فارغ ہوتے ہی کلیسا کی ایما ء پربائبل بغل میں دبائے عوامی مقامات پرپہنچتا ہے ، اورجہاں موقع ملا بائبل کی تعلیم شروع کردیتا ہے ،گھر گھر عیسائی لٹریچر پہنچاتا ہے ، کمپنیوں میں اپنے افراد پر کڑی نظر رکھتا ہے ۔ ایک پاکستانی نومسلم نے ہمارے سامنے اعتراف کیا کہ وہ وفرہ کے علاقے میں ہرہفتہ غذائی اشیاء کے ساتھ بائبل تقسیم کیا کرتا تھا ۔ قوم پروری کی طرف دھیان دیں توایک غیرمسلم جب کہیں برسرروزگارہوتا ہے تو اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہاں اس کے ہم مذہب زیادہ سے زیادہ تعداد میں پہنچ سکیں۔
کویت میں راقم سطورنے ہندوستان کے ہندوؤں کو بھی قریب سے دیکھا ہے ، وہ اپنی اجتماعیت بحال رکھنے کے لیے خاص علاقے میں رہنا پسند کرتے ہیں، مذہبی شعارکی ادائیگی کے لیے روزانہ اکٹھا ہوتے ہیں ، اپنی قوم کے تنگ دستوں کے لیے ماہانہ رقم جمع کرتے ہیں۔
اب ذرا دل کو ٹٹولیں اورمن سے پوچھیں کہ ان کے مقابلہ میں ہم نے کیا کیا ہے ؟ کس حدتک ہم نے اپنی قوم کے بارے میں سوچا ہے؟ کس حدتک ہم نے انسانیت کی رہنمائی کا فریضہ ادا کیا ہے؟ آخر ہم کیسے خود کوآفاقی پیام کا علمبردار کہہ سکتے ہیں؟ ؟؟

         بیدارہوئی جاتی ہے دنیا کی ہرایک قوم     
افسوس میری قوم بدلتی نہیں کروٹ     

الثلاثاء، ديسمبر 20، 2011

نماذج لهمم كالجبال في طلب العلم


الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وآله وصحبه ومن اتبع هداه

اما بعد :

فنظروا يرحمكم الله الى ههم هؤلاء الرجال في طلب العلم فهي والله كقمم الجبال الرواسي او قل كهجر رغم امواج البحر راسي وكيف اصبح حال بعض طلابنا اليوم الذين توفرت لهم اسباب الدراسة وطلب العلم وهم رغم ذالك متكاسلون وفي طرق الغش يبدعون تعالوا معي اخوتي وسمعوا الى هؤلاء الرجال :

الأحد، ديسمبر 04، 2011

”مسدس شاہراہ دعوت “شاعری میں اسلامی دعوت کا بہترین نمونہ

تبصرہ نگار:   ثناءاللہ صادق تیمی
ریسرچ اسکالر جواہر لال نہرویونیورسٹی

علمی دنیا میں صلاح الدین مقبول احمد کا نام محتاج تعارف نہیں: زوابع فی وجہ السنۃ، نامی علمی کتاب سے اپنی پہچان بنانے والے مولانا صلاح الدین مقبول احمد نے دراسات اسلامیہ میں گراں بہا اضافہ کیا ہے، علمی حلقوں میں ان کے مقالات شوق سے پڑھے جاتے ہیں، “السيد ابوالحسن علی الندوی: “الوجه الآخر من کتاباته” سے لے کر “دعوة شيخ الإسلام وأثرها فى الحركات المعاصرة” سے ہوتے ہوئے  المرأۃ بين ھداية الإسلام وغواية الإعلام” بشمول ان کے سینکڑوں علمی، دعوتی اور فکری مقالات جو ہندو بیرون ہند کے معیاری عربی اردو رسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں، ان کے فکر اور دعوتی تڑپ کی بحسن وخوبی غمازی کرتے ہیں۔

مولانا کی تحریروں سے جن لوگوں کو استفادہ کا موقع ملا ہے وہ جانتے ہیں کہ مولانا کا اول وآخر مطمحِ نظر صحیح اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت ہے، وہ ہمیشہ عقیدے کے بگاڑ کی اصلاح چاہتے ہیں، غیر اسلامی افکار وخیالات کی پر زور علمی تغلیط کرتے ہیں، سنت کے رسیا ہیں اور اس کے خلاف کسی بھی قسم کی زیادتی برداشت کرنے کے روادار نہیں ہوتے، اللہ نے تقریر کا بھی بہتر ملکہ عطا کیا ہے اور دین متین کی توضیح وتشریح میں مولانا اس کا بہتر استعمال کرتے ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے اسلاف کی بہت سی علمی کتابوں کی تحقیق بھی کی ہے، جیسے “مسألة العلو والنزول لإبن طاھر”، إرشاد النقاد للأميرالصنعانی”، تحفة الأنام لمحمد حياۃ السندی”، “تحفة المودود بأحکام المولود لابن القيم”، وغیرہ ساتھ ہی کچھ کتابوں کو آپ نے عربی کا قالب بھی دیا ہے ، جیسے “موقف الجماعة الإسلامية من الحديث محمد إسماعيل السلفی”، اور“مذھب الإمام البخاری فی صحيحه”۔ (له أيضا)

سردست خاکسار مولانا کی جس کتاب سے متعلق گفتگو کرنے جارہا ہے، یا یہ کہیے کہ اردو قارئین بطور خاص سلفی الفکر حضرات کے سامنے اس کتاب کا قدرے تفصیلی تعارف کرانے جارہا ہے، وہ حسب معمول مولانا کی کوئی عربی تصنیف نہیں ، بلکہ اردو کتاب ہے اور یہ جان کرمسرت بھرا تعجب ہونا چاہیئے کہ وہ نثری سرمایہ نہیں شعری شاہکار ہے۔
      
سب سے پہلے توا سلامی اسکالر صلاح الدین مقبول احمد کو اس بات کی مبارکباد کہ انھوں نے تَرک شاعری کے طویل مدتی روزہ کو توڑ دیا اور نامور اسلامی سوانح نگار جناب اسحاق بھٹی ؔ کی ایک تحریر سے تحریک پاکر پھر سے شاعری کی طرف متوجہ ہوئے اور اتنی اہم کتاب   سامنے آئی ، پوری اردو برادری کو بطورعام اور سلفی برادری کو بطور خاص جناب اسحاق بھٹیؔ صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے کہ انھوں نے بقول ابن احمد نقویؔ  “وہی کام کیا جو پروفیسر آرنلڈ نے اقبال کے حق میں کیا” (زیرتعارف کتاب ص:۳۷)

کتاب کے اندر جماعت اہل حدیث کے چند بڑے علمی اور ادبی شخصیات کے تاثرات شامل ہیں، علامہ محمد اسحاق بھٹی، علامہ ابن احمد نقوی اور مولانا عبدالعلیم ماہرؔ تمام لوگوں نے اچھی اور بہتر رائے دی ہے، ساتھ ہی پیش لفط کا قدرے تفصیلی بیان خود صلاح الدین مقبول احمد کے قلم سے بہت اہم ہے۔ مولانا نے شعروشاعری سے متعلق نہایت ہی مدلل گفتگو کی ہے، ساتھ ہی اپنی شاعری کا پس منظر بھی بیان کیا ہے۔ مولانا کو خود اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کی بہت سی باتوں سے لوگوں کو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن بہر حال ان کا اپنا ماننا یہی ہے کہ شاعری کو بھی نشراسلام اور صحیح دعوت کی تبلیغ کا ذریعہ ہونا چاہیئے۔
اس مسدس کو مولانا الطاف حسین حالیؔ کی مشہور زمانہ “مدوجزر اسلام” (مسدّس حالی) کے طرز پر لکھا گیا ہے اورا س کے اندر علامہ اقبال کے “ شکوہ جواب شکوہ”  کی زمین اپنائی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر حالی اور اقبال زندہ ہوتے تواس کی داد ضرور دیتے۔ میری معلومات کی حد تک اب تک اس قدر محتاط اور صحیح اسلامی تعلیمات پر مبنی کوئی شاعرانہ کاوش کم ازکم اردو میں دستیاب نہیں۔ کلیات اقبال، کلام شبلی، کلیات اکبر الہ آبادی، شاہنامۂ اسلام، مسدس حالی اور دیوانِ گلشن تمام کے تمام اپنی حد درجہ اہمیت کے باوصف صحت فکر اور صحت پیغام میں اس مقام کو نہیں پہنچتے جس مقام کو “مسدس شاہراہ دعوت” کی رسائی ہے۔ وجہ ظاہر کہ وہ شبلی ہوں، اقبال ہوں، اکبرؔالہ آبادی ہوں، حالی ؔہوں یا کوئی اور'شاعر تو یقینا بہت بڑے تھے لیکن وہ علمی، تحقیقی اور فکری صحت کی سعادت( جو مولانا صلاح الدین مقبول احمد کو حاصل ہے،) سے اس درجہ فیضیاب نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کے یہاں ہمیں رطب ویابس بھی مل جاتے ہیں۔ “مسدس شاہراہ ِدعوت” کی یہ سب سے امتیازی خصوصیت ہے۔

 “مسدس شاہراہِ دعوت” مرقع ہے ایمانیات، رسالت، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مساعیِ جمیلہ، آئین اسلام، محاسن اسلام، اسلام پر مخالفین کے اعتراضات اور ان کے جوابات، محدثین کرام کی کاوشیں، اہلِ حدیث کے فضائل ومحاسن، فقہائےکرام کی مساعیِ جمیلہ، اور مسلکِ اہل حدیث کی جامعیت کا۔

 نہایت ہی مہذّب انداز میں مولانا نے تفصیل سے وجودِ باری تعالیٰ، الوہیت ِباری تعالیٰ اور خالقِ کائنات کی صفتِ خالقیت اور معبودیت کو ثابت کیا ہے، ملاحدہ کے انکارِ وجود ِخدائے واحد کی تردید کی ہے، ایمان، احسان اور توحید کو بیان کیا ہے، اللہ کے نبی ﷺ کی رسالت، آپ کے داعیانہ اوصاف، آپ کی دعوت کے اثرات، آپ کے فضائل ومناقب اور آپ کے مراتب کو بہترخراج تحسین پیش کیا ہے، آپ ﷺ کی رسالت اورذات سے متعلق مسلمانوں کو ان کی ذمہ داری یاد دلائی ہے، پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل ومساعی کاذکر کیا ہے، آئین ِاسلام میں قرآن وحدیث کی اہمیت بڑی خوبصورتی سے واضح کی ہے، محاسن اسلام کا قدرے تفصیلی ذکر ہے، دشمنان اسلام کے اعتراضات کے مسکت جوابات دیئے گئے ہیں، اسلام بزورشمشیر پھیلا، اسلام میں قصاص وحدود اور تعزیرات کے ظالم احکامات پائے جاتے ہیں، تعددزوجات کا عیب اسلام میں موجود ہے، اسلام عورتوں کو پابند کرتا ہے، یہ اور اس قسم کے مسائل کا علمی دلائل کے ساتھ نہایت جاذبِِ توجہ شاعری سے جائزہ لیا گیا ہے، پھر محدثین کرام کی کوششوں کو پیش کیا گیا ہے کہ انہوں نے کس طرح صحیح دین کی حفاظت کی اور کس طرح صحیح اور ضعیف حدیثوں کو تمیز کرکے دکھلایا اور اخیر میں مسلک اہل حدیث کی حقانیت اور اس کی جامعیت کے گیت گائے ہیں لیکن بہر حال فقہائے کرام کی کاوشوں کو نظر انداز کرنے کی غلطی نہیں کی گئی ہے اور بڑے والہانہ انداز میں ان کا ذکر خیر آیا ہے۔

اس طرح  “مسدس شاہراہِ دعوت”  ایک طرح سے پورے اسلام کو پیش کرنے کی مولانا صلاح الدین مقبول احمد کے زندگی بھر کے مطالعہ، علمی کاوش اور دعوتی تگ وتاز کا اظہار ہے ۔ پوری کتاب میں ان کی مختلف علمی کتابیں بولتی نظر آتی ہیں۔ بلفط دیگر اس مسدس کے اندر جہاں مولانا کی ساری علمی کاوشوں کی جھلک ہے وہیں خود مولانا بھی اس مسدس میں ظاہر ہوگئے ہیں۔

اس کتاب کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے اندر حواشی کے تحت قرآنی آیات، احادیث، اسلامی واقعات، مختلف علمی کتابوں کے حوالوں کے ساتھ، اور مشکل عربی الفاظ کی تشریح بھی شامل کردی گئی ہے ، جو کتاب کی معنویت میں اضافہ کا باعث ہے۔ یہ کتاب،الکتاب انٹرنیشنل نئی دہلی  سے شائع ہوئی ہے ۔ چھپائی اچھی ہے، کاغذ عمدہ ہے اور اس کے اندر کل ۱۵۵ صفحات ہیں۔ کتاب پر قیمت درج نہیں ہے۔
 “مسدس شاہراہ ِدعوت” اپنی مشمولات کے اعتبار سے بلاشبہ ایک حسین ترین تحفہ ہے پوری اردو برادری کے لئے اور اہل حدیثوں کے لئے تو اسے نعمتِ غیر مترقبہ ہی کہا جانا چاہئے البتہ اس کے فنی کمال سے متعلق جہاں مولانا اسحاق بھٹی صاحب نے یہ کہہ کر “ ایک عرصے سے چوں کہ انھوں نے اس طرف توجہ نہیں کی، اس لئے ذہن کچھ ہچکولے کھاتا دکھائی دیتا ہے ” اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے وہیں جناب ابن احمد نقوی صاحب نے بھی کچھ اسی قسم کا راستہ اپنایا ہے۔

وہ لکھتے ہیں:
“جو لوگ اس “مسدس ” میں فنی محاسن تلاش کرنے کی کوشش کریں گے انہیں تو مایوسی ہوگی، لیکن جن لوگوں کی نظر پاکیزگئ فکر ، جذبہ کے سوزوساز اور لہجہ کی سلاست پر ہے وہ یقینا اس “مسدس” کو پسند کریں گے”۔(شاہراہ مسدس دعوت ص:۳۹)

ذاتی طور پر میں جماعت اہل حدیث کے ان دونوں بزرگوں کا احترام کرتا ہوں، ان کے علمی اور ادبی قدوقامت کا اعتراف کرتا ہوں اور الحمدللہ ان کی تحریروں سے خوب خوب استفادہ کرتا ہوں، ان تمام کے باوصف یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ “مسدس شاہراہ ِدعوت” فنی محاسن سے یکسر خالی بھی نہیں ہے، فنی خوبیوں کے متلاشی مایوس نہیں ہوں گے، ہاں بعض غیر مانوس عربی الفاظ اُنہیں کھٹکیں گے ضرور ،لیکن موضوعات کے تقاضوں کو جب سامنے رکھا جائے گا تو اس احساس کی رو بھی مدھم پڑجائے گی۔ اس کے باوجود یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر مولانا موصوف نے اس طرف تھوڑی اور توجہ دی ہوتی اور بھی اچھی بات ہوتی۔

عام خیالاتِ عشق وعاشقی، جذبات دل کو نظم کرنا آسان ہوتا ہے لیکن علمی، فکری، تحقیقی موضوعات کو شعری پیکر میں ڈھال کر اس کی سلاست وروانی اور تاثیریت کی حفاظت کرلینا ہی بڑی بات ہے۔ “مسدس شاہراہ دعوت” کے اس پہلو کو نظر میں رکھا جائے تو اس کی اہمیت کا احساس مزید گہرا ہوجائے گا۔

اپنی بات ختم کرنے سے پہلے نمونے کے طور پر “مسدّس” کے چند بند کا قارئین کے سامنے پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے تاکہ خود قارئین بھی پتہ لگاسکیں کہ واقعتا یہ ہے کیا:


“ایمان ایک فطری تقاضا ” کے تحت مرقوم ہے:

رب پر ایماں ہے تقاضائے دلِ انسانی 
 رب کا عرفان ہے تزئین رہِ ایمانی
دین فطرت پہ ہے تخلیقِ جہانیِ فانی  
    نسل آدم ہے “اَلَستُ” کی سدا زندانی
طفل نوزادہ ہے اسلام کی فطرت کا امیں
منحرف کرتے ہیں ا س راہ سے خود گھر کے مکیں

دلائلِ وجود باری تعالیٰ کے تحت مولانا لکھتے  ہیں:

پُر فضا قصر ہے، جس کے ہیں حَسیں نقش ونگار    
اس کی تعمیر میں پوشیدہ ہے فنِّ معمار
بحروبر، ارض وسما، دشت وجبل، لیل ونہار     
 ان کی تنظیم کا نگراں نہیں کوئی فنکار؟
نظمِ عالم سے ہے، خود عقل پہ دہشت طاری
کیسے جھٹلائے گی آثار ِوجودِ باری

دیکھئے“ ڈارون ”کے نظریۂ  ارتقاء کی کیا خوبصورت پیرایے میں قلعی کھولی گئی ہے  :

اصلِ انسان “حقیقت میں یہ” بندر ہوگا
 پھر بتدریج وہی آج کا رہبر ہوگا
 “نظریہ” کیا ہے؟ یہ اِک  طفل کا دفتر ہوگا 
   اس “نظریہ” سے کوئی نظریہ بدتر ہوگا؟
“ارتقا” ختم ہوا، نسل کی آئی باری
وہ حقیقت نہ رہی آج کیوں جاری ساری؟

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے وجود پر کیا دلیل دی گئی ہے!!

دونوں ہی جنس کا ہوتا ہے حمل میں امکان 
       جنسِ تذکیر کی کرتا ہے تمنا انسان
ہوتی ہے پھر بھی ولادت یہ، خلافِ ارماں
  جاری تانیث میں ، تذکیر میں کس کا فرمان
کام خواہش کے جو برعکس ہوا کرتا ہے
رب کی قدرت کا ہی وہ عکس ہوا کرتا ہے

بعثت نبوی صلى الله عليه وسلم پر دیکھئے کیا اچھا بند آیا ہے    :

 تھی  یہی بعثت نبوی وہ تمنّائے خلیل  
       ہوگئی آشنا دربار گہ ِربِّ جلیل
ان کی آمد کے لئے موسیٰ وعیسیٰ ہیں دلیل
 اس پہ توریت جو ناطق ہے ، تو شاہد انجیل
عالم ِ کون ومکاں ماہی ِ بے آب رہا
بعثتِ پاک کو سارا جہاں بے تاب رہا

صحابہ کرام ؓ کا والہانہ ذکر ہے، ایک بند آپ بھی ملاحظہ کریں  :    

یہ سعادت تھی، نبوت کے وہ ہم راز رہے  
خود فراموش رہے، گوش بہ آواز رہے
عمر بھر دیں کے لئے محوِ تگ وتاز  رہے    
    مرضی ِ رب سے وہ ہر خیر کا آغاز رہے
ان کی ہر سمت ترقی نے قدم بوسی کی
اور قدرت نے بھی ان کے لئے جاسوسی کی

منکرینِ حدیثِ نبوی پر ،حجیت ِحدیث کے دلائل وبراہین کے بعد، کیا دلچسپ چوٹ کرتے ہیں :

سنتِ پاک معطّل ہو، یہ ارمان اس کا      
 مصدرِ دین ہو مشکوک ہو، یہ ایمان اس کا
دین لمبا ہوا سنت سے، یہ فرمان اس کا      
مختصر دین کا حامل ہے یہ قرآن اس کا
ہے ہدف، خود ہی وہ قرآن کی تفسیر کرے
اپنی آوارگیِ فکر کو تحریر کرے

اسلام کی جامعیت ووضاحت کا بیان ملاحظہ فرمائیں  :   
دین ودنیا کے مقاصد کی صراحت اس میں
جملہ اسرار ِشریعت کی وضاحت اس میں
طرز ِتعلیم بھی، اخلاق وعباد ت اس میں        
  اس میں آدابِ معیشت بھی ، سیاست اس میں
سہل ہے حضرتِ انسان کو اس کی تعمیل
شرعِ اسلام کی تنفیذ خرد کی ہے دلیل
آزادئ نسواں ، کرامتِ نسواں اور مغرب کے نعروں کی حقیقت کا بیان دیکھئے  : 
اپنے آفس میں رہے، صبح سے وہ شام کرے 
     بوس راضی رہے، وہ خود کو تہہ دام کرے
حالتِ حمل ورضاعت میں نہ آرام کرے
      اپنا بھی کام کرے، مرد کا بھی کام کرے
وہ کیا سمجھیں گے بھلا حمل ورضاعت کا مقام؟
یہ نہ ہوں کام ، تو دنیا میں نہیں کوئی کام!

مسلک اہل حدیث کی وضاحت کیا خوب فرمائی گئی ہے    :
سیرت وسنت وقرآن کی تفسیر ہے یہ  
   دین ودنیا کے مسائل کی بھی تحریر ہے یہ
خودعبادات وعقائد کی بھی تعبیر ہے یہ 
       دین اسلام کی اک دائمی تصویر ہے یہ
اس میں موجود ہے انسان کی فطرت کا نشاں
اس میں مضمر ہے میری قوم کی عزت کا نشاں

اللہ رب العزت سے اس عاجزی میں آئیے ہم سب شریک ہوجائیں    :
ظاہری باطنی ہر قسم کی حالت معلوم
    زندگی بھر کی تجھے پوری جہالت معلوم
چشم ودل کی تجھے ہر ایک رذالت معلوم  
تجھ سے مخفی نہیں کچھ، پوری وکالت معلوم

آسرا کچھ بھی نہیں، تیری وکالت کے سوا
کوئی چارہ بھی نہیں، تیری کفالت کے سوا
الغرض پوری کی پوری کتاب انتخاب ہے، کم ازکم ہر ایک اہل حدیث مسلمان کے پا س اسے تو ضرور ہی ہونا چاہیئے، پوری کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کے بعد صلاح الدین مقبول احمد مصلح ؔ نوشہروی کو مبارکباد دینے کو دل کرتا ہے   :
اللہ کرے زور بیاں اور زیادہ     
کتاب کے اندر “املا ” کی بعض غلطیاں راہ پاگئی ہیں، امید ہے کہ آئندہ ایڈیشنوں میں ان کی طرف توجہ دی جائے گی ،جیسے “ان کی” کو“ انکی ” لکھنا اور اس طرح کی دوسری املا کی غلطیاں ، کبھی کبھار ان سے بھی مطلب الجھ جاتا ہے۔


شعلوں سے محبت اُس نے کيا

 
                                                                     صفات عالم محمد زبير تيمي

وہ ايک سليم الفطرت انسان تھا.... اپنے معاشرے کی بُرائيوں سے بےزار ہوکر کسی پہاڑی گوشہ ميں تنہائی اختيار کئے ہوا تھا ....شايد کسی غيبی ہدايت کا منتظر تھا جو اُسے منزل کا پتہ دے سکے .... اس نے اپنی پيشانی کی آنکھوں سے انسانيت کو سسکتے بلکتے اور وحشيانہ زندگی گزارتے ہوئے ديکھا تھا ....اس نے اپنے سامنے انسانيت کی کشتی کو بيچ بھنور ميں ہچکولے کھاتے ہوئے ديکھا تھا ....اس سے رہا نہ جا رہا تھا....اس کا دل تڑپ رہا تھا .... مچل رہا تھا کہ کوئی نا خدا مل جائے جو اس نَيا کو ساحل سمندر لگائے .... اچانک بنی نوع انسان پر رحم وکرم کی بارش ہوئی اور اسی انسان کو مسيحابنا ديا گيا ۔ اب کيا تھا ؟ کراہتی انسانيت کو مسيحا مل چکا تھا ....وہ زخموں پر مرہم ڈالنے کا بيڑا اٹھا ليتا ہے ، دہکتی اور سلگتی ہوئی آگ ميں کودنے والوں کا کمر پکڑ پکڑ کر نکال رہا ہے ، کيا دن اور کيا رات ہروقت اُسے انسانيت کی فکر ستا رہی ہے ، اچھے اخلاق کی تعليم ديتا ہے ، بُرے اخلاق سے روکتا ہے ،گلی، کوچہ اور بازار ہر جگہ ہانکے پکارے بولتا جا رہا ہے ” اے لوگو! اللہ والے بن جاؤ کامياب ہوجاؤگے .... “۔ پاکيزہ نفوس اس کی دعوت پر لبيک کہتی ہيں ، لوگ ساتھ آتے جا رہے ہيں اور قافلہ بنتا جا رہا ہے .... ليکن بُرا ہو جاہلی تعصب اور اندھی تقليد کا جس نے اکثريت کو راہ حق کا مزاحم بنا ديا، وہ ہاتھ دھوکر اس کے پيچھے پڑجاتے ہيں ، اس کے کاز کو ناکام بنانے کے ليے ہر حربہ استعمال کرتے ہيں ....
يہ ايک دن اور دو دن کا معاملہ نہ تھا .... مسلسل اکيس سال تک اُسے مشق ستم بنايا، اُسے پاگل ،کاہن اور ساحر کہہ کر مطعون کيا ، اس کے گردن پر اونٹ کی اوجھڑياں ڈالیں ، اس کے راستے ميں کانٹے بچھائے ، اس کے گھر کے دروازے پر عفونتيں پھينکیں ، اس کے ماننے والوں کو روح فرسا تکليفيں دیں ،اس کا معاشرتی بائيکاٹ کيا ، ايک موقع سے آواروں نے اس پر ايسی سنگ باری کی کہ پورا بدن لہولہان ہوگيا اور بيہوش ہوکرگرپڑا ، اس کے قتل کی سازشيں کیں، اسے اپنے جانثاروںسميت وطن عزيز کو خيربادکہنے پرمجبورکيا ، ملک بدرکرنے اورانکی جائدادوں کو ہڑپ لينے کے باوجود انہيں چين سے رہنے نہ ديا اور مسلسل آٹھ سال تک انکے خلاف محاذآرائیاںقائم رکھیں۔اب تک اکيس سال کا طويل عرصہ گذر چکا ہے اور حالات بدستور پُرآشوب ہيں ، ليکن اکيس سال کے بعد وہی انسان جب اپنے دس ہزار جانثاروں کے ہمراہ اپنے مادر وطن ميں فاتح کی حيثيت سے داخل ہوتا ہے تو سارے دشمنوں کو اپنے سامنے پاتا ہے ، اکيس سال تک دہشت گردی مچانے والوں ، امن وامان کا خون کرنے والوں اور اپنے جانثاروں کے قاتلوں کو اپنے قبضہ ميں پاتا ہے ، اگروہ چاہتا تو اُن مجرمين کو کيفرکردار تک پہنچا سکتا تھا ليکن قربان جاؤ اس انسان کے رحم وکرم پرجس نے اپنے جانی دشمنوں کے حق ميں عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمايا : کسی سے کوئی شکايت نہيں آج تم سب آزاد ہوسبحان اللہ ! يہ کيسا انسان ہے جو گالياں سن کر دعائيں دے رہا ہے، پتھر کھا کر گلدستہ پيش کررہاہے ، خون کے پياسوں کو جام حيات پلارہاہے ؟ جی ہاں! يہ ہيں ہمارے نبی رحمت عالم ، تاجدارمدينہ اورمحسن انسانيت کی ذات مبارکہ مطہرہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّم وَبَارِک عَلَيہِ جو اپنے سينے ميں سارے جہاں کا درد رکھتے تھے۔ جن کا فيض انسان تو کجاحيوان و نباتات اور جمادات تک کے ليے عام تھا ۔ يہی وہ رحم وکرم تھا جس نے اسلام کے ليے پوری دنيا ميں جگہ بنايا چنانچہ فتح مکہ جس ميں آپ کے جانثاروں کی تعدادمحض دس ہزار تھی‘ دو سال کے بعد آپ حجة الوداع کے ليے نکلتے ہيں توشمع اسلام کے پروانوں کی تعداد ڈيڑھ لاکھ تک پہنچ جاتی ہے ۔ پھر وہ دن آيا کہ ساری تاريکياں کافور ہو گئيں ، ہدايت کا چراغ جلنے لگا ، انسانيت اسلام کے سايہ ميں پناہ لينے لگی اور چند ہی سالوں ميں اسلام کا پرچم مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک لہرانے لگا ۔آج انسانيت جس پُرفتن دور سے گذر رہی ہے ،جس طرح معاشرے سے امن وامان رخصت ہوتا جا رہا ہے اورہرسُودہشت گردی کی فضا چھائی ہوئی ہے ايسے کشيدہ حالات ميں شديد ضرورت ہے کہ ہم بحيثيت مسلمان رحمت عالم صلي الله عليه وسلم کی زندگی کا مطالعہ کريں کيونکہ اللہ تعالی نے آپ کی پوری زندگی کو ہمارے ليے اسوہ حسنہ قرار ديا ہے اورہميں ساری مخلوق کے ليے رحمت کا پرتوبناياہے ۔ پھرعام انسانی نقطہ نظرسے بھی سيرت نبوی کے مطالعہ کی سخت ضرورت ہے کيونکہ آج دنيا جن عالمی مسائل ميں گھری ہوئی ہے اُن کا علاج بھی نظامِ مصطفوی ميں پوشيدہ ہے ۔ جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے محمد صلي الله عليه وسلم نے محض تئيس سال کی مختصر مدت ميں مردہ انسانوں کے اندر زندگی کی روح پھونک دی تھی اور زندگی کی کاياپلٹ دی تھی آج بھی وہ دورآسکتاہے بشرطيکہ ہم شريعت محمدی کی بالا دستی کو قبول کرنے کے ليے تيار ہوجائيں ۔