الأربعاء، فبراير 18، 2015

ہم سا بھی کوئي درد کا مارا نہيں ہوگا __ کلیم عاجز


ثناءاللہ صادق تیمی
 اسسٹنٹ پروفیسر ، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ ، ریاض

   ٹھیک سے یاد نہيں کہ پہلے پہل کلیم عاجز کا نام کس کی زبانی اور کب سنا تھا ۔ لیکن ایک شعر تھا جو زبان پر جاری رہتا تھا اور وقتا فوقتا  دوستوں کی محفلوں میں اس کا استعمال میں بڑی ہوشیاری سے کیا کرتا تھا ۔ شعر کچھ یوں تھا
ان کی وہ بات کہ دوں اگر سب کے سامنے
سر میرے مہرباں سے اٹھایا نہ جائے گا
یہ راز بعد میں منکشف ہوا کہ اتنے معروف اور زبان زد خاص و عام شعر کے خالق جناب کلیم عاجز ہيں ۔ جامعۃ الامام ابن تیمیہ کے اندر میں ثالثہ فضیلہ کا طالب علم تھا ۔ شعر وادب سے دلچسپی تھی ۔ تھوڑی بہت جانکاری بھی تھی لیکن جونئیر طلبہ تھوڑا زیادہ ہی سمجھتے تھے ۔ ان دنوں متوسطہ ثانویہ میں کچھ طلبہ خاص طور سے غیر دینی  کتابوں ، مناقشوں اور ادبی چھیڑ چھاڑ میں روچی رکھتے تھے ۔ ان میں خاص طور سے اخلاص احمد ابو طلحہ ، مناظر ارشد امواوی ، جمیل اختر شفیق ، جاوید اکرام اور صھیب صدری کے نام یاد آتے ہيں ۔ وہ ادبی کتابوں پربحثيں کرتے ، لڑتے جھگڑتے اور بعض سیدھے سادھے ان  اساتذہ پر اپنی دھونس جمانے کی بھی کوشش کرتے تھے جن کے اندر ادبی دلچسپی نہيں کے برابر تھی ۔ فراغت کے بعد جب تدریسی مصروفیت کی وجہ  جامعہ امام ابن تیمیہ ہی میں رہنا پڑا تو اس ماحول کو اور بھی آگے بڑھنے کا موقع ملا ۔ ان دنوں حلقہ ادب جامعہ امام ابن تیمیہ کی ماہانہ نشستیں بھی بڑی پابندی سے منعقد ہوا کرتی تھیں ۔ لوگوں کا ماننا تھا کہ اس میں ہماری بھی حصہ داری تھی ۔ جے این یو میں داخلہ پانے کے لیے جب ہم دہلی آگئے کہ تو حلقہ ادب کے سرگرم رکن استاذ محترم جناب امحد جوہر سلفی نے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے سر ایک خون کا الزام ہے اور اس سے پہلے کہ میں گبھراتا انہوں نے جامعہ چھوڑ کر حلقہ ادب کو مار دینے کا قصہ چھیڑ دیا ۔ الغرض بڑے ادبی معرکے رہا کرتے تھے ۔ ان دنوں جامعہ میں  جن ادباء شعرا کا زیادہ ہی چرچا تھا ان میں پروین شاکر ، قرۃ العین حیدر یعنی عینی آپا ‌ اورکلیم احمد عاجز  سب سے آگے تھے ۔ مجھے اس اعتراف میں کوئی باک نہيں کہ اس پورے ہوڑ ہنگامے سے طلبہ کا فائدہ ہوا ہو یا نہيں ، یہ تو وہی بتائینگے  لیکن میں نے اس موقع سے ان تینوں ادباء کو اپنے طور پر پڑھنے کی کوشش ضرور کی ۔ ایک مدت تک ان کا مجموعہ  " وہ جو شاعری کا سبب ہوا " میرے سرہانے رہا کیا ۔ کئی غزلیں یاد کرڈالیں ۔ اچھے اشعار کو نشان زد کیا اور یادداشت کے صندوقچے کے حوالے کردیا ۔
    اسی بیچ غالبا 2007 میں دربھنگہ میں ایک مشاعرہ ہوا ۔ ہمیں خبر ہوئي کہ کلیم عاجز آنے والے ہیں اور ہم جمیل اختر شفیق کے ہمراہ روانہ ہو گئے ۔ وہاں گئے تو حفظ الرحمن سے بھی ملاقات ہوگئی ۔ مشاعرے میں انہوں نے اپنی پر سوز آواز میں اپنی دو غزلیں سنائیں ۔کچھ اشعار یاد آرہے ہیں
عاجز یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو
تم ہو بھی تو ایسا نہیں لگتا ہے کہ تم ہو
یہ پچھلے پہر کس کے کہکنے کی صدا ہے
کوئل ہے ، کبوتر ہے ، پپہیا ہے کہ تم ہو
گوکل کی ہے  کوئی بانسری یا اردو غزل ہے
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا کوئی کرشن کنہیا ہے کہ تم ہو 
کلام میں معنویت کے ساتھ آوازمیں وہ سوز تھا کہ کنہیا لال کپور کی بات ذہن میں سچائی کی پوری روح کے ساتھ سرایت کرگئی کہ " کلیم جب پڑھتے ہیں کہ تو ایسا لگتا ہے کہ کوئي زخمی فرشتہ فریاد کررہا ہے " ۔
    مشاعرے کے بعد ہم نے بھائی حفظ الرحمن کی مدد سے ان سے آٹو گراف لیا ۔ انہوں نے اپنا ایک شعر لکھا اور نیچے اپنے دستخط ثبت کردیے ۔
  دہلی آکر ان کی کئی نثری کتابیں پڑھنے کو ملیں ۔ معلوم ہوا کہ ان کی شاعری سے کہیں زیادہ دم تو ان کی نثرمیں ہے ۔ ہم اپنے محدود مطالعے کی روشنی میں یہ بات کہ سکتے ہیں کہ اس طرف اتنی البیلی ، شوخ اور کلاسیکی روح سے مالامال اور کسی ادیب کی نثر نہيں ہے ۔ اس کا اندازہ تو " وہ جو شاعری کا سبب ہوا " کے طول طویل مقدمے سے بھی ہو تا ہے لیکن یہ قضیہ اس وقت اور متحقق ہو جاتا ہے جب آدمی ان کی دوسری نثریں کتابیں پڑھتا ہے ۔ البتہ ایک بات ضرور ہے کہ ان کی تنقید میں ایک قسم کا غصہ اور جھنجھلاہٹ کا احساس ہوتا ہے ۔
  کلیم صاحب کی شاعری کو میر کی بازگشت اور درد و الم کی تصویر کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ خود انہوں نے بھی کہا ہے
کون یہ نغمہ سرا میر کے انداز میں ہے
  اور ایک خاص واقعے کو جس طرح انہوں نے اپنی شاعری کا محور بنا لیا اس نے بھی اس تاثر کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ۔ ایسے بہر حال کلیم صاحب کا یہ کمال ضرور ہے کہ وہ غم ذات کو غم کائنات بنانے میں کامیاب رہے ہیں ۔ ان کی شاعری کو ان کی زندگی سے الگ کرکے بھی پڑھا جائے تو بھی لطف کم نہيں ہوتا ۔ غم کو آفاقیت کی اس سطح سے انہوں نے برتا ہے کہ غم شخصی ہونے کی بجائے انسانی احساسات کا ایسا حصہ بن جاتا ہے جو دلآویز نہ بھی ہو تو مانوس ضرور ہے ۔ عام انسانی برتا‎ؤ اور مجلسی زندگی کے لیے جتنے بر محل اشعار کلیم کے یہاں ملینگے اور کسی شاعر کے یہاں مشکل سے مل پائینگے ۔ شاید اسی لیے ان کے بہت سے اشعار ضرب المثل کی حیثيت اختیار کرگئے ۔ طنزکی شدت اور تجربات کی گہرائی کی وجہ سے ان کی شاعری جیسے ہر انسان کی اپنی ہی حکایت ہو ۔   میں یہاں کلیم  کے وہ اشعار نقل کرنا چاہونگا جو مجھے پسند ہيں اور جو ضرورت کے وقت بہت کام آتے ہیں ۔
اپنا یہ کام ہے کہ جلاتے چلو چراغ
رستے میں خواہ دوست یا دشمن کا گھرملے
بات گرچہ بے سلیقہ ہو کلیم
بات کرنے کا سلیقہ چاہیے
لپٹ لپٹ کے گلے مل رہے تھے خنجر سے
بڑے غضب کا کلیجہ تھا مرنے والوں کا
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
کلیجہ تھام کے سنتے ہیں لیکن سن ہی لیتے ہیں
میرے یاروں کو میرے غم کی تلخی بھی مزہ دے ہے
بڑی ہی چالبازي آئے ہے اس آفت جاں کو
شرارت خود کرے ہے اور ہمیں تہمت لگادے ہے
تمہاری انجمن ہے جس کو چاہو بے وفا کہ لو
تمہاری انجمن میں تم کو جھوٹا کون سمجھے گا
پہلو نہ دکھے گا تو گوارہ نہیں ہوگا
ہم سا بھی کوئی درد کا مارا نہيں ہوگا

  آج صبح جب کلیم صاحب کی موت کی خبر ملی ۔ بہت افسوس ہوا ۔ اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ۔ اناللہ و انا الیہ راجعون 

ليست هناك تعليقات: