الخميس، فبراير 12، 2015

ہندوستانی پارلیمنٹ سے اسلامی پارلیمنٹ تك

ڈاکٹر ظل الرحمن لطف الرحمن التیمی 


سات جولائی 2014 كو میری تقرری ہندوستانی پارلمینٹ كے راجیہ سبھا میں بطور ترجمان simultaneous interpreter)) ہوئی۔ راجیہ سبھا اور لوك سبھا میں ہندی وانگریزی سمیت متعدد زبانوں میں فوری ترجمہ وترجمانی (simultaneous interpretation) كی خدمات پیش كی جاتی ہیں۔ میں اردو سے انگریزی زبان میں فوری ترجمہ وترجمانی كرنے پر مامور ہوا تھا۔ عام طریقہ سے مسلم نمائندگان پارلیمنٹ جو بہار، یوپی، دلہی، كاشمیر، اندھرا پردیش اور مہاراشٹر وغیرہ سے تعلق ركھتے ہیں ،وہ اردو زبان میں اپنے خیالات كا اظہار كرتے ہیں۔راجیہ سبھا میں مجھے جناب محمد ادیب صاحب(ایم پي) كی سليس ورواں اردو سننے كو ملی۔ جناب محمد سلیم (ایم پي) كا انداز بھی نرالا تھا۔ جناب غلام نبی آزاد (ایم پي)كی زبان دانی كا اعتراف كیے بغیر نہیں رہ سكتے۔ جناب غلام رسول بلیاوی(ایم پي) اپنی لچھے دار تقریروں كی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ جناب علی انور (ایم پي) كا پوچھنا ہی كیا ہے، وہ سماجی كاركن اور اچھے مقرر ہونے كے ساتھ كافی ملنسار بھی ہیں۔ محترمہ كہكشاں پروین صاحبہ(ایم پي) نے تو راجیہ سبھا میں اپنی پہلی تقریر میں ہی سب كو قائل كرلیا۔ البتہ جناب مختار عباس نقوی صاحب (ایم پي)كی پارلیمنٹ كے سرمائی اجلاس میں ہونے والی تمام تقریروں كے ترجمہ كا جو كام مجھے ملا، وہ میرے لیے كوئی آسان نہیں تھا۔ كیونكہ ان كی تقریروں میں اردو كے الفاظ كم اور ہندی كے زیادہ ہوا كرتے تھے۔ البتہ ان تقریروں سے مجھے ہندی كے الفاظ سیكھنے اور سمجھنے كا سنہری موقع ملا۔ میں نے ان كی جن تقریروں كے ترجمے كیے وہ پارلیمانی ڈبیٹ میں ہندی واردو كے ساتھ انگریزی میں شائع بھی ہوئے۔


تقرری كے سلسلے میں مجھے سب سے پہلے جناب ڈی بي سنگھ صاحب، ایڈیشنل سكریٹری ، راجیہ سبھا نے فون كركے اطلاع دی ۔ انہوں نے بتایا كے تین مرحلوں میں ہونے والے امتحان میں آپ نے اول مقام حاصل كیا ہے، اور چونكہ راجیہ سبھا میں اردو سے انگریزی میں ترجمانی كے لیے ایك ہی اسامی تھی ، اس لیے آپ كا( كنٹریكچول )تقرر كیا جاتا ہے۔ انہوں 4 جولائی كو فون كیا تھا ، اور بتایا كہ آپ جلدی تقرری كی كارروائی مكمل كرلیں ، تاكہ 7جولائی سے شروع ہونے والے پارلیمانی اجلاس میں خدمات انجام دیں سكیں۔ تقرری كی كارروائی مكمل كرنے كے بعد میری ملاقات شعبہ ترجمانی كے سربراہ شری راماكانت داس صاحب، جوائنٹ سكریٹری، راجیہ سبھا سے ہوئی۔ انہوں نے پرجوش استقبال كیا اور سروس كی نزاكتوں سے مطلع كیا۔ انہوں نے بلا كسی تاخیر لوك سبھا كے اردو-انگریزی ترجمان جناب نفیس احمد صاحب كو فون كركے تشریف لانے كو كہا۔ ان كے تجربات اور اس سروس كی باریكیوں كے متعلق ان كی آرا بھی ایك نئے ترجمان كے لیے مشعل راہ كی حیثیت ركھتے تھے۔ پھر انہوں اس سروس كی ڈائركٹر محترمہ نیشي چڈھا كو بھی فون كركے بلوایا۔ انہوں نے محترمہ كو مكلف كیا كہ مجھے سروس كے افسران سے متعارف كروائیں اور سروس كی ساری تفصیلات اور كام كرنے كی نوعیت سے آگاہ كردیں۔ انہوں نے نہایت خوبصورتی كے ساتھ سب سے اس انداز سے متعارف كرایا كہ كہیں بھی اجنبیت كا احساس تك نہیں ہوا۔ پارلمینٹ كے روم نمبر 122 میں مجھے بیٹھنے كی جگہ دی گئی۔ پھر كیا تھا میں نےاپنے كام كوسمجھنا اور اپنی ذمہ داریوں كو ادا كرنا شروع كردیا۔

راجیہ سبھا كی اس سروس سے مجھے بہت ساری نئی چیزیں سیكھنے اور اپنے علمی افق كو فزوں تر كرنے كا موقع ملا۔یہا ں كے ٹریننگ سیشن سے بھی میں نے كافی استفادہ كیا۔ اس ٹریننگ سیشن میں جنا ب منجل كمار پانڈے ، جناب كرشنن مینن، جناب جوائے ماتھیو، جناب منوج كمار اور سوربھ شیكھر(مذكورہ تمام افسران راجیہ سبھا میں جوائنٹ ڈائركٹر كے عہدہ پر فائز ہيں) كی رہنمائیاں كافی اہم رہیں۔

ایك دن راجیہ سبھا كے سكریٹری جنرل جناب شمشیر كے شریف صاحب نے كسی اہم دستاویز كے ترجمہ كے لیے بلوایا۔انہوں نے اس موقع كو غنیمت جانتے ہوئے اردو اور اس كی بقاء وتحفظ كے متعلق كئی ساری باتیں بتائیں اور مناسب رہنمائی بھی كی۔ چونكہ بڑے افسران كو بھی ان سے ملنے كے لیے پہلے سے ہی وقت لینا پڑتا ہے، اور مجھے كسی دستاویز نے ترجمہ كے بہانے خود وہاں پہونچا دیا، تو مجھے اندازہ ہوا كے سڑك سے پارلیمنٹ تك كسی نہ كسی شكل میں یہ زبان اپنا وجود ركھتی ہے۔

نائب صدر جمہوریہ جناب حامد انصاری صاحب كو دارالمصنفین ، اعظم گڑھ كے صد سالہ تقریب میں بطور مہمان خصوصی دعوت دی گئی تھی۔ اس موقع سے ان كی تقریر انگریزی زبان میں تیار ہوئی تھی۔ البتہ انہیں وہاں اپنا مقالہ اردو میں پڑھنا تھا ، كیونكہ پروگرام میں زیادہ تر اردو داں طبقہ كے شركت كرنے كی امید تھی ۔ چنانچہ وہ تقریر میرے پاس آئی اور میں نے اپنی بساط بھر اسے اردو كا جامہ پہنا كر ان كی خدمت میں پیش كیا۔انہوں نے ترجمے كو پسند فرمایا، اور وہ تقریر اردوو انگریزی دونوں زبانوں میں شائع بھی كی گئی اور اردو زبان میں پیش كی گئی۔ نائب صدر جمہوریہ كی ویب سائٹ پر اس كا مطالعے بھی كیا جاسكتاہے۔

ابھی میں نے پارلمینٹ كی چہار دیواری میں چند ہی مہینےگذارے تھے كہ ائمہ حرمین كی ترجمانی اور امام محمد بن سعود اسلامك یونیورسٹی ، ریاض میں كالج برائے السنہ وترجمہ میں تدریسی اسامیوں كاپتہ چلا۔ مملكت سعودی عرب كےوفد كی ،ان اسامیوں كی تقرری كے سلسلے میں ہندوستان كے دورہ پر آنے كی خبر جیسے ہی مجھے لگی، میں نےفورا اس میں شریك ہونے كا ارادہ كیا۔ میں نےاس سلسلے میں اپنے چھوٹے بھائی عزیزم حفظ الرحمن اور عزیزم ثناء اللہ صادق تیمی كو فون كركے بتایا ، اور اس میں شریك ہونے كے لیے كہا۔ میں نے عزیزم ثناء اللہ كو بھائی نور عالم سلفی كو بھی فون كركے خبر دینے كے لیے كہا اور الحمد للہ میرا اور ان تینوں حضرات كا اس مقابلہ میں انتخاب ہوگیا۔ وللہ الفضل من قبل ومن بعد

ائمہ حرمین كی ترجمانی كے سلسلے میں تقرری كے بعد میں نے اس شرف واعزاز كو اپنے لیے دنیا كی دوسری تمام مشغولیتوں سے زیادہ اہم سمجھا اور یہاں آنے كا فیصلہ كرلیا۔ اس سلسلے میں جیسے ہی میں نے تحریر ی اطلاع راجیہ سبھا میں دی ، تو سب نےاچھی جگہ جانے پر خوشی اور بچھڑنے پرافسوس كا اظہار كیا، كچھ مخلصین تو دور ہونے اور بچھڑنے پر كچھ زیادہ ہی غمزدہ ہوئے ۔ ان میں سے بعض نے آخری دنوں میں پرتكلف دعوتیں بھی كیں۔ روم نمبر 96 كے افسران نے ایك ساتھ مل كر كمرے میں ہی الوداعیہ دیا۔ سروس كی ڈائركٹر محترمہ نیشی چڈھا صاحبہ نے انڈیا ہیبٹیٹ سینٹر میں الوادعیہ دیا۔ جوائنٹ ڈائركٹر جناب منجل كمار پانڈے نے كے ایف سی، كناٹ پلیس میں مدعو كیا۔ جناب سوربھ شیكھر، جوائنٹ ڈائركٹر، جناب كرشنن مینن، جوائنٹ ڈائركٹر اور جناب رنجن جھا نے ہماچل بھون كی كینٹین میں الوداعیہ پارٹی دی۔ ان تمام ساتھیوں كی محبتوں اور عنایتوں كو فراموش نہیں كیا جاسكتا جو مذہب اور علاقائیت سے اوپر اٹھ كر تھی۔ فجزاہم اللہ وہداہم اللہ

ليست هناك تعليقات: