الأربعاء، فبراير 18، 2015

بہت لگتا ہے جی صحبت میں ان کی 3

ثناءاللہ صادق تیمی
 جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ ، ریاض

   ہم ابھی اقامہ کے انتظار میں ریاض ہی میں ہیں ۔  اور ہمارے مربی جامعۃ الامام ابن تیمیہ کے مؤسس علامہ ڈاکٹرمحمد لقمان السلفی اپنے تعمیر کردہ گلشن علم و آگہی کا دیدار کرکے  حظ وکیف کی دنیا لیے  واپس بھی آگئے ۔ وہاں سے آنے کے بعد آپ نے ہمیں پھر اپنے یہاں رات کے کھانے پر بلا لیا ۔ اس بار ہم تیمیوں  ( ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی ، حفظ الرحمن تیمی اور ثناءاللہ صادق تیمی ) کے علاوہ ہمارے کلیگ جناب نور عالم سلفی بھی ہمارے ساتھ  تھے ۔ بعد نماز عشاء شیخ کی بھیجی ہوئي گاڑی سے ہم شیخ کے یہاں حاضر ہوئے ۔ آپ نے مخصوص پیار بھرے انداز میں ہمارا استقبال کیا ۔

   علماء اور ان میں بھی خاص طور سے وہ علماء جن کی زندگیاں مختلف میدانوں میں اپنے نقوش ثبت کرتی ہوئی نظر آئے ان سے ملنے کا مطلب ہمارے ذاتی خیال سے یہ نہيں ہونا چاہیے کہ آپ ان کی صورت دیکھ لیں ، ہونا یہ چاہیے کہ ان سے تجربات حاصل کریں ، سیکھیں اور اپنے دامن مراد کو ان کے تجربات و نصا‏ئح کے لعل و گہر سے بھر لیں ۔ میں آپ سے لگاتار یہ باتيں اس لیے شيئر کررہا ہوں کہ افادہ عام ہو اور روشنی کا دائرہ جتنا پھیل سکتا ہو پھیلے ۔ خیر تو ہم نے شيخ سے خبر خیریت دریافت کی ۔ جامعہ الامام ابن تیمیہ کی کے بارے میں پوچھا اور آپ نے سارے امور کے فٹ درست ہونے پر اللہ کا شکر ادا کیا ۔ پھر مختلف موضوعات اور شخصیات پر باتوں کا سلسلہ چل پڑا ۔

    علامہ احسان الہی ظہیر سے اپنے دوستانہ مراسم اور یارانہ بے تکلفی کا ذکر کیا ۔ آپ نے بتایا کہ علامہ بڑے جلالی آدمی تھے ۔ ایک مرتبہ ایک آفیشیل کام کی وجہ سے مجھے لائن میں لگنا پڑا اور دیر ہوگئی ۔ جب ان کی آواز گرجی تو سارے کارکنان جلدی جلدی کرنے لگے ۔ حالانکہ میں نے کہا کہ کوئی بات نہيں لیکن ان کا رویہ اپنی جگہ پر قائم رہا ۔ حرم شریف میں پاکستانی حکمراں ضیاءالحق نے ان سے ملاقات کی اور کہا کہ میں تو دین کا کام کررہا ہوں ، آپ میری مخالفت کیوں کرتے ہیں ۔ اس نے انہيں شیشے میں اتارنے کی کوشش کی لیکن علامہ نے صاف کہ دیا کہ آپ دین کا نام لینا چھوڑ دیجیے اور ہم آپ کی مخالفت کرنا چھوڑ دینگے ۔ آپ دین کا نام لے کر منافقانہ رویہ کیوں اپناتے ہيں ۔ دین کا سیاسی استعمال کرکے اپنا الو کیوں سیدھا کرتے ہیں ۔ آپ نے  علامہ احسان الہی ظہیر کا مزید  ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ میں ان کے ساتھ تھا ۔ کسی بات پر انہوں نے پنے ڈرائیور کو سخت سست کہا ۔ جب وہ اندر چلے گئے ۔ ان کے ڈرائیور نے مجھے مخاطب کیا اور کہا کہ آپ ان کی ظاہری ترشی سے ان کے بارے میں کوئی غلط رائے مت قائم کیجیے گا ۔ یہ بڑے نرم دل ہيں ۔ ان کے دم سے ہی ہمارا پورا پریوار چلتا ہے ۔ ایک دلچسپ بات علامہ کی یہ بتلائی کہ جامعہ اسلامیہ کے دنوں میں ایک مرتبہ ہم ایک ریسٹورنٹ میں گئے اور جب کھانے کا آرڈر کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ اپنے لیے ایک لیکن ہمارے لیے دو منگوائیے ۔ قد کاٹھی کے مضبوط آدمی تھے ۔ مردانہ وجاہت کی مثال ۔ اس کے بعد میں ہمیشہ ان کے لیے دو ڈش آرڈر کرتا تھا ۔ وہیں آپ نے ان کے علمی ، دعوتی اور اصلاحی کارناموں کو سراہتے ہوئے کہا کہ اللہ نے عمر کم مقدر کی تھی ورنہ وہ کیا آدمی تھے ۔ عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی نے بیان کیا کہ میں جہاں کہیں گیا لوگ جھک کر ملے سوائے احسان الہی ظہیر کے وہ پورے اعتماد اور وقار سے سر اٹھائے ملتے تھے ۔  ڈاکٹر صاحب نے بتلایا کہ  اخیر دنوں میں ملاقات ہوئی تو کہنے لگے یار ذرا ہماری کتابوں پر ایک نظر ڈال لو ۔ شیعوں کو کچھ نہيں ملا تو اب ہماری عربی میں خامی تلاش کرنے لگے ہيں ۔

  علامہ البانی رحمہ اللہ کا ذکر آیا تو کافی والہانہ انداز میں بتانے لگے ۔ میں نے محمد المجذوب کی کتاب "علماء و مفکرین عرفتھم " کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی اس کتاب کے اندر علامہ البانی رحمہ اللہ کے ترش اورسخت رویے کی شکایت کی ہے ۔ آپ نے بتلایا کہ شیخ محمد المجذوب بھی ہمارے استاد ہیں ۔ لیکن استاد محترم علامہ البانی رحمہ اللہ کے اندر کوئی ترشی نہیں پائی جاتی تھی ۔ انہيں سازش کرکے ورغلانے کی کوشش کی جاتی تھی لیکن وہ ہمیشہ اپنے خاص سنجیدہ اور علمی انداز کو برقرار رکھتے تھے ۔ اللہ نے تو ان کے ذریعہ وہ کام لیا جو صدیوں میں کبھی کسی کے حصہ میں آتا ہے ۔ آپ نے بتلایا کہ جامعہ الامام ابن تیمیہ کے اندر جو صالۃ العلامہ البانی ہے ، میں نے اس کے لیے علامہ سے باضابطہ اجازت لی ۔ میں بیروت گيا ۔ ان کے داماد سے ٹیلی فون پر بات ہوئي اور جب ہم نے بتلایا کہ ہم ان کے شاگرد ہيں ۔ انہوں نے کہا کہ سب تو یہی کہتے ہیں کہ ان کے شاگرد ہيں ۔ ہم نے کہا کوئي بات نہيں، اپنا نام بتلایا اور کہا کہ  آپ یہ کریں کہ شیخ سے اجازت طلب کریں ۔ اگر اجازت دیں تو ٹھیک ورنہ کوئی بات نہيں ۔ دوسرے دن جب ہم نے ٹیلی فون کیا تو انہوں نے السلام علیکم کے جواب میں وعلیکم السلام یا فضیلۃ الشیخ کہا اور دوسرے دن دس بجے ملنے کو بلایا ۔ میں اپنے استاذ اور علامہ البانی رحمہ اللہ کے کبار تلامذہ میں سے ایک شیخ شقرۃ کے ہمراہ علامہ سے ملنے گیا اور وہیں صالۃ العلامۃ البانی کی اجازت طلب کی ۔ پہلے تو آپ نے کہا کہ اس کی کیا ضرورت ہے ؟  لیکن جب شیخ شقرۃ نے بتلایا کہ یہ آپ کے شاگرد ہيں ، آپ سے محبت کرتے ہیں اور آپ سے منسوب کرکے اپنے ادارے کے اندر ایک ہال کا نام رکھنا چاہتے ہیں تو پھرآپ نے اجازت دے دی ۔  ڈاکٹر صاحب نے بتلایا کہ ہم شاگردان تو علامہ البانی رحمہ اللہ سے محبت کرتے ہيں ۔ ان کے بارے میں کوئي غلط بات بولے  لکھے تو ہم لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے ۔

    آپ نے جامعہ امام ابن تیمیہ کی وجہ سے آنے والی پریشانیوں ، ابتلاء و آزمائش کا بھی ذکر کیا لیکن صبر کرنے اور جمے رہنے کو اللہ کی توفیق قرار دیتے ہوئے بتلایا کہ انہيں بھلا دینے ہی میں بھلائی ہے ورنہ آنے والی پریشانیوں کا تعلق صرف ان سے نہيں رہا جو ہمارے مخالفین تھے ، ان میں وہ بھی تھے جنہیں ہم اپنا سمجھتے ہیں ۔ ایسے اللہ نے عزت بھی اس راستے سے خوب دی ۔ بہار کے سابق گورنر جناب اخلاق الرحمن قدوائی کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ نے بتایا کہ وہ بڑی محبتوں سے ملتے اور بہت عزت کرتے تھے ۔ ہم نے ایک مرتبہ کہا کہ آپ تو اتنے بڑے آدمی ہیں ۔ ہم لوگ تو معمولی لوگ ہیں اور آپ اتنی عزت ا‌فزائی کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے جو کام کردکھلایا ہے وہ بڑے بڑوں کے بس کا نہيں ہے ۔ آپ معمولی کیسے ہوسکتے ہیں ۔

  آپ نے ہمیں خوب محنت کرنے کی تلقین کی ۔ اپنی لیاقت ثابت کرنے پر ابھارا اور یاد دلایا کہ عرب اتنی آسانی سے کسی کا لوہا نہيں مانتے ۔ بہت محنت کرنے کے بعد وہ مرحلہ آتا ہے جب آپ کے حصے میں تھوڑی بہت تعریف آتی ہے ۔ آپ نے بتلایا کہ ابھی عمر ہے خوب پڑھیں ، آگے بڑھیں ، کتابوں سے تعلق مضبوط رکھیں ، کبروغرور کو نزدیک نہ پھٹکنے دیں ۔ ہم نے شکایت کی کہ آج ہمارے درمیان اعتراف کا جذبہ کم پایا جاتا ہے ۔ آپ نےکہا کہ معاصرت سے لے کر اور دوسرے اسباب ہیں جو کارفرما ہوتے ہیں ۔ ان چیزوں کے پیچھے پڑنے کی بجائے اپنے حصے کا کام کرتے جانا چاہیے ۔

   سعودی عرب کی اس اسلامی حکومت کو اللہ کا خاص فضل قرار دیتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں قرآن وسنت کی دعوت کو عام کرنے کا جو عمل یہاں سے غیر شعوری طور پر اور شعوری طور پر انجام پایا ہے وہ اپنے آپ  میں ایک تاریخ ہے ۔ قرآن وسنت کی بنیاد پر بیعت لینا اور قرآن وسنت کو اپنا دستور قرار دینا آج کے اس فتنہ پرور دور میں قابل ذکر کارنامہ ہے ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ اس ملک کو اس حکومت کو تادیر قائم رکھے اور اپنے دین کا کام لیتا رہے ۔

رات زیادہ ہو رہی تھی ۔ ہم نے شیخ سے اجازت لی ۔ آپ نے ڈرائیور کو آواز دیا ۔ مین گیٹ کے باہر تک ہمیں چھوڑنے آئے اور ہم ان کی محبتوں ، کرم فرمائیوں اور ذرہ نوازیوں کے پھول اپنے دامن میں بھرتے ہوئے اپنے ٹھکانے کی طرف لوٹ آئے ۔ میر کا شعر یاد آرہا تھا ۔
پیدا کہاں ہیں ہم سے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی




ليست هناك تعليقات: