الأربعاء، فبراير 18، 2015

شخصیت کی تعمیر ، مغرب اور ہم


ثناءاللہ صادق تیمی
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی موبائل : 9560878759

اس طرف آکر مغرب میں خاص طور سے شخصیت کی تعمیر، طریقے اور وسائل  پر کافی کچھ لکھا گیا ہے ۔ اس طرح کی کتابوں کو بالعموم لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور نئي نسل کے درمیان ایسے لوگوں کو بڑی مقبولیت ملی ۔ مغرب میں تو کچھ پڑھے لکھے لوگوں نے اسے باضابطہ اپنا پیشہ بنا لیا اور انسپریشنل اسپیکر ( ہمت بڑھانے والے مقررین ) کے طور پر انہیں بڑی کامیابی بھی ملی ۔ اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں کو نئی نسل نے بڑی توجہ سے پڑھا اور یہ کتابیں عالمی سطح پر زیادہ سے زیادہ بکنے والی کتابوں کی فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب رہيں ۔ ایسے مصنفین میں شیو کھیرا اور ڈیل کارنیگی کا نام بطور خاص لیا جا سکتا ہے ۔

      ہندوستان میں اروندم چودھری نے
Count your chicken before they hatch
کے زیر عنوان پوری کتاب ہی لکھ دی ۔ اس کتاب کو بھی بڑی مقبولیت حاصل ہوئي ۔ حالیہ دنوں میں انگریزی ناول نگار اور پاپولر لیٹیریچر میں کافی اہم نام کی حیثيت رکھنے والے چیتن بھگت بھی اس موضوع پر لگاتار لکھ رہے ہیں اور بول رہے ہیں ۔ اس طرح کی کتابیں بالعموم ان ناموں سے بک اسٹالوں پر مل جائينگیں ۔
You can win, power of positive thinking, how to stop worrying and start living, how to make friends and Influence people.

اسی طرح انہیں موضوعات پر ہندوستان کے سابق صدر جمہوریہ اور نامور سائنسداں اے پی جے عبدالکلام کی کتابیں بھی بہت اہمیت کی حامل ہیں ان میں ان کی آپ بیتی ونگس آف فائر اور اگنائیٹیڈ مائنڈس کافی اہم ہیں ۔

      شخصیت کی تعمیر کے اوپر لکھی گئی کتابوں میں عرب عالم دین اور اسکالر عائض القرنی کی کتاب "لاتحزن " (غم نہ کریں) اور عبدالرحمن العریفی کی کتاب " استمتع بحیاتک "( زندگی کا لطف لیجیے ) بطور خاص کافی د لچسپ اور مفید ہیں ۔ یہاں اس بات کا ذکر شاید فائدے سے خالی نہ ہو کہ لگ بھگ ان تمام مذکورہ کتابوں کا اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے اور یہ کتابیں مختلف ٹائٹل کے ساتھ مارکیٹ میں اویلیبل بھی ہيں ۔

   پہلے پہل تعمیر شخصیت سے متعلق ان کتابوں سے ہمارا رابطہ اس وقت ہوا جب ہم اعلا تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ امام ابن تیمیہ کی تدریسی مشغولیت سے مستعفی ہوکر جواہرلال نہرو یونیورسٹی میں داخل ہوئے ۔ ہمارا داخلہ گریجویشن کے سال دوم میں ہوا تھا ۔ عربی تو ہمیں آتی بھی تھی لیکن انگریزی میں ہم بہت حد تک کمزور تھے ۔ ہمارے چند سینیئرز نے جہاں انگريزی اخـبارات کے مطالعے پر زور دیا وہیں شخصیت کی تعمیر سے متعلق لکھی گئی ان کتابوں سے بھی استفادے کی بات کہی ۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اس سے ہماری سوچ کو وسعت بھی ملے گی اور انگریزی بھی اچھی ہو جائے گی ۔ ہم نے اپنے سینیئر دوستوں کی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کتابوں کو پڑھنا شروع کیا اور ہمیں اس اعتراف میں کوئی جھجھک نہيں کہ واقعی ان کتابوں نے انگریزی ٹھیک کرنے میں بڑی مدد دی ، فکری سطح پر بھی ان کتابوں نے بڑا ساتھ دیا لیکن ان کتابوں کے پڑھنے کے بعد اسلام کی واقعیت اور حقانیت پر ہمارا ایمان اور بھی مضبوط ہوگیا ۔ ہمیں  ایسا لگا جیسے شیو کھیرا ، ڈیل کارنيگی اور تمام دوسرے مصنفین نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو سامنے رکھ کر اور احادیث کے اندر کتاب الآداب کے ابواب پڑھ کر بس نئے حالات اور اپنے یہاں کے واقعات کی روشنی میں انہیں لکھ دیا ہے ۔ ان تمام احساسات کو اس وقت اور بھی تقویت ملی جب عبدالرحمن العریفی کی " استمتع بحیاتک " اور عائض القرنی کی " لاتحزن " نگاہوں سے گزری ۔ ان کتابوں میں بالعموم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی شخصیات کی زندگی سے حوالے لیے گئے ہيں ۔  ملک کی ایک مایہ ناز یونیورسٹی کے اندر مجھے قوم و ملت کی تعمیر میں مسلم نوجوانوں کے کردار پر بولنا تھا ۔ میں نے سیرت رسول کی روشنی میں ان کا کردار طے کرنا چاہا ۔ بیچ بیچ میں میں نے اپنی باتوں کو مضبوط اور مؤثر بنانے کی غرض سے انگریزی مصنفین اور ان کے اقوال کا حوالہ بھی دیا ۔ میں نے پایا کہ لوگ انگریزی مصنفین کے اقوال پر زيادہ دھیان دے رہے ہيں ۔ در اصل ہم علماء نے دین کو جس طرح ماورائی بنا کر پیش کیا ہے اس سے عام مسلمان یہی سمجھتا ہے کہ یہ تو بس عبادتوں کا مجموعہ ہے اور سیرت رسول کا مطلب ہے کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آئے ہاتھ چوم لو اور زیادہ سے زیادہ درود پڑھ لو ۔  اسے اگر فکری زوال سے تعبیر نہ بھی کیا جائے تو بھی یہ ہماری مرعوبیت کا اشاریہ ضرور ہے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ یورپ بہت سارے معاملات میں ہم سے بہتر ہے اور ان سے استفادہ کرنا بھی ضروری ہے لیکن جو چیزیں ہمارے پاس ہیں اور زيادہ بہتر صورت میں موجود ہیں اگر ہم ان کو پانے کے لیے بھی یورپ کی طرف نگاہ دوڑائیں تو بہرحال اسے بہت اچھی صورت حال سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا ۔
   شخصیت کی تعمیر سے متعلق یورپ کے اندر ان کتابوں کی مانگ اس لیے بھی زيادہ بڑھی کہ وہاں کے سماجی اور تمدنی حالات اس کا تقاضہ کررہے تھے ۔ نئی نسل شراب نوشی ، عیاشی ، بد مستی اور بے مطلب کی مٹرگشتی سے تنگ آکر تنہائیوں کا اسیر ہورہی تھی اور مختلف قسم کے امراض ان کا مقدر تھے ایسے میں ان کتابوں نے جیسے انہیں امید کی کرن دکھائی اور جینے پر ابھارا ۔ اس لیے وہ بہت تیزي سے ان کتابوں کی طرف لپکے ۔ دراصل یہ امراض بھی یورپ کے پیدا کردہ تھے اور دوا کی تلاش بھی انہیں ہی کرنی تھی سو انہوں نے کیا ۔ آج پوری دنیا میں یورپ اپنے انہیں امراض کو پھیلانے کی کوشش کررہا ہے ۔ اس کی بھرپور کوشش ہے کہ ہر جگہ کے تمدنی اور معاشرتی حالات ویسے ہی ہو جائيں جیسے ان کے یہاں کے ہيں تاکہ ان کے ذریعہ تیار کردہ یہ سارے نسخے کارآمد ہو سکیں اور ان کے مفاد کی دکان کساد بازاری کا شکار نہ ہو ۔ ہم مسلمانوں کے لیے سوچنے کا پہلو یہ ہے کہ الحمد للہ ہمارے دین نے ہمیں جو اصول دیئے ہيں ، جو تعلیمات دی ہيں اور جس طرح سے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا اسوہ چھوڑا ہے ان تمام پر اگر ہم عمل پیراں ہو جائیں تو خود ہماری معاشرتی زندگی لوگوں کے لیے نسخہ شفا ہو جائے ۔

   یہ بات جان کر آپ کو تعجب ہو تو ہو لیکن یہ سچ ہےکہ ان کتابوں کے اندر وہی باتیں بتلائی گئی ہیں جو خود ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور ان کی تعلیمات کا خلاصہ ہے جیسے اچھی نیت ، سچ پر اصرار ، مثبت فکر ، صبر ، مسکراہٹ ، ایمانداری ، ایثار، نفع رسانی  اور اس طرح کے دوسرے اوصاف حمیدہ ۔ اب پوری دنیا ان تمام باتوں کو اس لیے قبول کرنے کو بے قابو ہے کہ ان باتوں کو کامیابی کی ضمانت کے طور پر دلکش انداز میں پیش کیا جارہا ہے ورنہ بھلا ہم میں کون ایسا آدمی ہوگا جو ان تمام حقائق کو اسلامی اصول و اخلاقیات کا باضابطہ حصہ نہ سمجھتا ہو ۔ ہم نے جب انہیں خیالات کا اظہار اپنے ایک تعلیم یافتہ دوست سے کیا تو ان کی آنکھوں میں چمک آگئی اور وہ بھی میری ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بولے کہ خود میرا ذاتی تجزیہ یہی ہے ۔ ایسے میں کیا ضرورت اس بات کی نہيں ہے کہ سیرت ، قرآن حکیم اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں باضابطہ پلاننگ کے تحت اس طرح کی کتابوں کی سیريز تیار کی جائے ۔ محمد الغزالی کی فقہ السیرۃ اس سلسلے میں ایک قابل ذکر کتاب ہے ۔ ہر چند کہ ان کے بعض نتائج سے اختلاف کی بھر پور گنجائش ہے لیکن صحیح الفکر علماء کے کرنے کا کام یہ ضرور ہے کہ اس طرح کے موضوعات پر کتاب وسنت کی روشنی میں خامہ فرسائی کریں ۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں بہتر توفیق سے نوازے آمین ۔

   

ليست هناك تعليقات: