الثلاثاء، أكتوبر 19، 2010

الشيخ أصغر علي إمام السلفي الأمين العام لجمعية أهل الحديث بالهند في اجتماع الهيئة العليا لجائزة سمو الأمير نايف العالمية مع سموه الأسبوع المقبل!!!!

يرأس صاحب السمو الملكي الأمير نايف بن عبد العزيز النائب الثاني لرئيس مجلس الوزراء وزير الداخلية رئيس الهيئة العليا لجائزة نايف بن عبد العزيز العالمية للسنة النبوية والدراسات الإسلامية المعاصرة، مساء السبت 22/ 11/ 1431هـ، اجتماع الهيئة العليا للجائزة بالرياض.
وأوضح صاحب السمو الملكي الأمير سعود بن نايف نائب الرئيس، المشرف العام على الجائزة، أن الهيئة العليا ستنظر في الموضوعات المرشحة للجائزة في دورتها الثامنة، التي اختيرت في اجتماع لجان الجائزة في شهر رجب الماضي، حيث رشحت ثمانية موضوعات لفرعي الجائزة "للسنة النبوية، والدراسات الإسلامية المعاصرة" من بين 188 موضوعاً، منها 80 موضوعاً في مجال السنة النبوية، و 108 موضوعات في مجال الدراسات الإسلامية المعاصرة، وقد حرصت الأمانة العامة في اختيار الموضوعات على أن تكون ذات أهمية، وأن تتناسب مع قضايا العصر كما كانت موضوعات الجائزة في الدورات السابقة.
وأبان سموه أن الهيئة العليا ستنظر في تقرير اللجنة العلمية لأبحاث الدورة الخامسة، وسيعلن صاحب السمو الملكي الأمير نايف بن عبد العزيز راعي الجائزة عن الفائزين بجائزة نايف بن عبد العزيز العالمية للسنة النبوية والدراسات الإسلامية المعاصرة في دورتها الخامسة. وموضوعات الجائزة في هذه الدورة هي: فرع (السنة النبوية):
الموضوع الأول: مكانة الصحابة وأثرهم في حفظ السنة النبوية وواجب الأمة نحوهم.
الموضوع الثاني: التعامل مع غير المسلمين في السنة النبوية.
فرع (الدراسات الإسلامية المعاصرة):
الموضوع الأول: الاستثمار المالي في الإسلام.
الموضوع الثاني: الجهاد في الإسلام (مفهومه وضوابطه وأنواعه وأهدافه).
يذكر أن الهيئة العليا للجائزة التي يرأسها صاحب السمو الملكي الأمير نايف بن عبد العزيز، تضم في عضويتها كلاً من صاحب السمو الملكي الأمير سعود بن نايف: نائب الرئيس، المشرف العام على الجائزة، وصاحب السمو الملكي الأمير محمد بن نايف: نائب المشرف العام على الجائزة، وعضوية كل من صاحب السمو الملكي الأمير عبد العزيز بن سعود، وصاحب السمو الملكي الأمير نواف بن نايف، وصاحب السمو الملكي الأمير فهد بن نايف، وصاحب السمو الملكي الأمير محمد بن سعود بن نايف، إضافة إلى نخبة من العلماء البارزين من داخل المملكة وخارجها من الشخصيات العلمية التي لها مكانة مرموقة وثقل علمي متميز في العالم الإسلامي، وهم: الدكتور صالح بن حميد رئيس المجلس الأعلى للقضاء، والشيخ عبد الله المنيع المستشار بالديوان الملكي، والدكتور عبد الله نصيف نائب رئيس مجلس الشورى سابقاً، والدكتور أكمل الدين إحسان أوغلو رئيس منظمة المؤتمر الإسلامي، والشيخ أصغر علي إمام، الأمين العام لجمعية أهل الحديث بالهند، والدكتور أبو بكر دكوري مستشار رئيس جمهورية بوركينا فاسو الإسلامية، والدكتور عادل المعاودة عضو مجلس النواب البحريني، والدكتور ساعد العرابي مستشار النائب الثاني لرئيس مجلس الوزراء وزير الداخلية الأمين العام للجائزة، والدكتور محمد العقلا مدير الجامعة الإسلامية.

الاثنين، أكتوبر 11، 2010

بابری مسجد اراضی ملکیت : حقائق اور ہماری ذمہ داریاں

تحرير: صفات عالم تيمي ایڈیٹر ماہنامہ مصباح
شدت سے انتظار کرتے کرتے بالاخر وہ دن آہی گیا جس دن بابر کی تاریخی یادگاربابری مسجد کی قسمت کا فیصلہ سنادیا گیا ، اورمسجد کی اراضی قانون ،اصول اورتاریخی حقائق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض آستھا کی بنیاد پر تین حصوں میں بانٹ دی گئی ،دوحصہ کے مالک ہندو ٹھہرائے گئے تو ایک حصہ مسلمانوں کی تحویل میں کیا گیا گویا یہ کسی جائیدادکی تقسیم کا معاملہ تھا جس کے ذریعہ دوفریق کو منانا مقصود ہو ،حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں عدلیہ کے جانبدارانہ فیصلہ نے سیکولرزم کی دھجیاں بکھیر دی ہیں،ایک عام آدمی کو نفسیاتی کرب اور ذہنی الجھن میں مبتلا کردیا ہے،مسلمان تومسلمان انصاف پسند ہندومؤرخین اور دانشور بھی اس فیصلہ پر انگشت بدنداں ہیں،ہندوستان کی مشہور مؤرخ رومیلا تھاپر نے اس فیصلہ کو سیاسی نوعیت کا قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ اس قدر خطرناک ہے کہ اس کے دور رس نتائج ہوسکتے ہیں،جب کسی زمین کو ہڑپ لینا ہوتو فسطائی تنظیمیں اسے کسی مقدس شخصیت کا جنم استھان قرار دیں گی ، اس طرح فیصلہ ان کے حق میں چلا جائے گا۔

یہ تبصرہ ہے ایک غیرمسلم مؤرخ کا ،اب ذرا زمینی حقائق پر نظر ڈال کر دیکھئے، توسیعی ذہنیت کے علمبردار یہ فرقہ پرست عناصر اسلام اور اہل اسلام کوایک لمحہ کے لیے دیکھنا نہیں چاہتے ،کیونکہ ان کی جڑ یہودیت سے ملنے لگی ہے ، یہ صرف ایک بابری مسجد کا مسئلہ نہیں ہے‘ وشوہندوپریشد نے کاشی اور متھراسمیت تین ہزار مسجدوں کی لسٹ تیار کررکھی ہے جن کے بارے میں وہ ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ تمام مساجد مندر توڑ کر بنائی گئی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ 3 اکتوبر کے اخبارات میںمذکورہ تنظیم نے بیان دیا ہے کہ مسلمان متھرا اور بنارس کی مساجد سے دستبردار ہوجائیں۔ اس کے لیے انہوں نے باضابطہ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اورادھر ہمارے بعض بھولے بھالے دانشور ہیں جوہندومسلم اتحاد، قومی یکجہتی اور نام نہاد حب الوطنی کے نام پر مسجد سے دست برداری کا راگ الاپ رہے ہیں، کچھ منافقین نے تو رام مندر کی تعمیر کے لیے پندرہ لاکھ روپئے کے عطیہ کا اعلان بھی کرڈالا تھا، مسلمانوں کے آستین میں چھپے ہوئے یہ سانپ ہیں جو اس طرح کی ہذیان گوئی کرتے رہتے ہیں،ہمیں کہنے دیا جائے کہ اگر ہم نے فرقہ پرست عناصر کی بروقت نوٹس نہ لی ، اوران کے ہر فیصلے پر ایسے ہی سر جھکاتے گئے تو ہندوستان میں ہمارا عرصہءحیات تنگ کردیا جائے گا ، صرف ایک بابری مسجد کا مسئلہ رہتا تو ہم اسے انگیز کرلیتے لیکن اب مسائل پہ مسائل اٹھیں گے ،یہ ہندوستان میں ہمارے مستقبل کا مسئلہ ہے،ہمارے تشخص کا سوال ہے، مسلمان عزت کی زندگی گزارتا ہے ذلت کی نہیں ، اور اس سے بڑھ کر ذلت کیا ہوگی کہ ہم اپنے مقدسات کو غیروں کے حوالے کردیں ،اورہم کون ہوتے ہیں ان کے حوالے کرنے والے ،یہ تو اللہ کے گھر ہیں ،یہ توحید اور شر ک کا مسئلہ ہے ۔ حالات بہت نازک ہیں،یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہمارے ارباب حل وعقد مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں اوردانشمندانہ طریقے سے معاملہ سپریم کورٹ تک لے جائیں،انصاف پسند غیرمسلم ماہرین قانون سے بھی مشورہ کریں کیونکہ وہ ہمارے ساتھ ہیں۔

پھراگراس دستبرداری کی کوئی قانونی حیثیت ہو تی تو ایک بات تھی، جس رام کی جائے پیدائش کے نام پر فسطائی طاقتوں نے 6دسمبر1992ء میں بابری مسجد کوشہید کیا تاریخی حقائق سے کہیں اس کا ثبوت نہیں ملتا کہ بابری مسجد کی جگہ پر رام کی کوئی نشانی تھی۔ گذشتہ دنوں جب بابری مسجد کا معاملہ الہ آباد ہائی کورٹ میں تھا مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حفظہ اللہ نے روزنامہ منصف میں ایک مضمون لکھا تھا ”ایک مظلوم عدالت کے کٹہرے میں “ جس میں انہوں نے تاریخی شواہد اور حقائق کی روشنی میں ثابت کیا تھا کہ بابری مسجد کا رام کی جائے پیدائش سے کوئی تعلق نہیں،اور بابر کو ظالم وجابر ٹھہرانا تاریخ کے ساتھ زیادتی ہے ، وہ کیسے ؟ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ رام جی کا صحیح معنوں میں وجود بھی تھا یا نہیں، تو بڑے بڑے ہندو دانشوروں نے کہا ہے کہ رام جی دراصل ایک افسانوی اور دیومالائی کردار ہے کسی حقیقی شخصیت کانام نہیں ہے ، اگرمان لیاجائے کہ رام جی کا صحیح معنوں میں وجود تھا اور وہ اجودھیا میں پیدا ہوئے تو سوال یہ ہے کہ اجودھیا سے کون سا علاقہ مراد ہے، آثارقدیمہ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ایم وی کرشنا راؤ نے ثبوتوں کی بنیاد پر دعوی کیا ہے کہ اصل اجودھیا ہریانہ کا مقام ”بناؤلی“ ہے جبکہ دوسری طرف رامپور کے ایک پنڈت جی نے ثبوتوں کی بنیاد پر یہ دعوی کیا ہے کہ رام جی کی پیدائش کی اصل جگہ رام پور ہے،بعض مؤرخین کا یہ بھی ماننا ہے کہ رام کی سلطنت کی جگہ اجودھیا کے بجائے بنارس ہے ،ہندوؤں کی مذہبی کتاب رامائن میں اجودھیا کا ذکر ملتا ہے لیکن اجودھیا کس مقام پر تھی اور رام جی کہاں پیدا ہوئے بالمیکی کے رامائن کے مطابق اجودھیا ساڑھے تیرہ میل کے فاصلے پر تھی اور مشرقی سمت میں تھی جبکہ آج کا اجودھیا لب سمندر اور مغربی سمت میں واقع ہے ۔ پروفیسر سری واستو نے لکھا ہے کہ1902 ء میں رام جی کی جائے پیدائش کی تحقیق کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے کافی تحقیق کے بعد دو مقامات کے بارے میں اندازہ لگایاکہ شاید یہ رام جی کی جائے پیدائش ہو ، ان میں سے ایک کانام رام جنم استھل اور دوسرے کا نام رام جنم بھومی ہے اور یہ دونوں جگہیں بابری مسجد کے علاوہ ہیں ۔ بابری مسجد پانچ سو سال سے وہاں موجود ہے ،تاریخ کے مختلف ادوار میں بڑے بڑے مؤرخین گذرے ہیں ،بڑے بڑے رام بھکت پیداہوئے لیکن کسی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ رام کی جائے پیدائش پر مسجد کی تعمیر عمل میں آئی ہے ۔ پھرجس کے بارے میں یہ دعوی کیا جارہا ہے اس کا مزاج بھی تو ویسا ہونا چاہیے جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ بابر مذہبی رواداری کا قائل تھا ،ہندو پنڈتوں سے بہت عقیدت سے پیش آتاتھا ،یہاں تک کہ بابر نے اپنے وصیت نامہ میں گاؤکشی سے منع کیا ہے تاکہ ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں ۔ پروفیسر سری واستو نے اپنی پوری تحقیق کے بعد لکھا ہے کہ بابر پر الزامات اس کی شخصیت اور کردار سے قطعی میل نہیں کھاتے ۔ یہاں تک کہ برطانوی سامراج کادور آیاجنہوں نے پھوٹ ڈالوحکومت کروکی پالیسی کے تحت جہاں اپنے بطن سے مرزاغلام احمد قادیانی کو جنم دیا تودوسری طرف تاریخی حقائق کو توڑمروڑکر پیش کیا جس میں مسلم سلاطین پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے ہندوقوموں کو جبراً مسلمان بنایا اور ان کی مذہبی یادگاروں کومسجد میں تبدیل کردی تاکہ ایک طرف دنیا کوباور کرایا جاسکے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا تو دوسری طرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ پھوٹ ڈال کر سیاست کی کرسی پر براجمان رہیں۔

بہرکیف یہ چند حقائق تھے جنہیں اس مناسبت سے پیش کرنا نہایت ناگزیر تھا تاکہ ہماری نئی نسل تاریخی شواہد اور موجودہ حالات سے باخبر رہے ،جہاں تک پیش آمدہ مسئلے سے نمٹنے کا سوال ہے تو اس کے لیے ملت کے قائدین موجود ہیں جو اپنی دور اندیشی سے مناسب فیصلہ کریں گے البتہ انفرادی طور پر ہرمسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ موجودہ حالات سے سبق سیکھے اور مساجد سے ہماری اکثریت کاجو تعلق ٹوٹ چکا ہے اسے مستحکم کرے تاکہ ہم اپنے دعوی میں سچے ثابت ہوسکیں ۔اسی طرح غیرمسلموں میں دعوت كا كام کرنے کے لیے خود کو تیار کریں تاکہ گم کردہ راہ انسانیت کو بتایا جاسکے کہ انہوں نے جس شاخ نازک پراپنا آشیانہ بنارکھا ہے ہوا کا ایک جھونکا اسے زمین بوس کرنے کے لیے کافی ہے ۔

الاثنين، أكتوبر 04، 2010

بہار اسمبلی انتخابات مسلمانوں كے شعور كا فقدان

تحرير: ظل الرحمن تيمي / ايڈيٹرمجلہ طوبى

بہار اسمبلی انتخاب دن بدن قریب آتا جارہا ہے۔ اس مہینے اور اگلے مہینے کی مختلف تاریخوں میں یہاں چھ مرحلوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ریاست کے پانچ کروڑ 44لاکھ عوام کے ذریعہ 243 اسمبلی حلقوں میں سیاسی طالع آزماﺅں کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس مرتبہ کا اسمبلی انتخاب کافی دلچسپ اور اہم ہے۔ کون سی پارٹی واضح اکثریت سے ہمکنار ہوگی اس سلسلے میں یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی تبصرہ نگاروں اور انتخابی نتائج کے سلسلے میں پیش گوئی کرنے والوں کی مشکلوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ وہ اگلی حکومت کے سلسلے میں کسی نتیجے تک پہنچنے کے بجائے شس وپنج کا شکار ہیں۔ بہار کی 20 سالہ تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ نتائج کے تئیں اس قدر بے یقینی کی کیفیت ہے۔ اس الیکشن میں تينوں بڑے محاذ اپنی اپنی کامیابی اور حکومت سازی کے بلند وبانگ دعوے کر رہے ہیں۔ مرکز میں برسرِ اقتدار کانگریس پارٹی کا ماننا ہے کہ راہل گاندھی کا کرشمہ اور ان کی انتخابی مہم کانگریس سے لوگوں کو جوڑنے میں اہم رول ادا کرے گی۔ جبکہ لالو- پاسوان اتحاد مسلم يادو اور دلت ومہادلت ووٹوں کے بل بوتے واضح اکثریت حاصل کر کے حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ اس اتحاد کے ذریعہ لالوپرساد کو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے۔ بہار میں برسرِاقتدار جے ڈی یو بی جے پی اتحاد بھی اپنی حوصلہ افزا کاميابی اور حکومت سازی کے تئیں متيقن ہے۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا ماننا ہے کہ انہوں نے جس محنت ومشقت سے پچھڑاپن کے دلدل میں پھنسے ہوئے بہار کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کاتاریخی کارنامہ انجام دیا ہے ،اس سے بہار کی شان اور آن بان میں اضافہ ہوا ہے۔ سڑک، اسپتال، نظم ونسق اور قانون وانتظامیہ وغیرہ ہر سطح پر اصلاح کی شبانہ روز کوششوں کے بعد گویا بہار کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ نتیش کمار کا ماننا ہے کہ انہوں نے جامع حکمتِ عملی کے ذریعہ سماج کے ہر طبقے کی ترقی اور بلا تفریق مسلک ومذہب اور ذات پات ہرگروپ کے مفاد کے لئے مساوی کام کیا ہے، اور یہ کوششیں ضرور رنگ لائیں گی۔موجودہ اپوزیشن راشٹریہ جنتادل اور اس کے اتحادی ایل جے پی نتیش حکومت کی کارکردگی کے سلسلے میں اس کے دعووں کو لگاتار رد کرتے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ نتیش کمار میڈیا کے ذریعہ اپنے کاموں کو زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ بہار کے عوام ذات برادری کے نام پر ووٹ کرتے ہیں۔ اور ان کو چونکہ یادو، دلت اور مسلمانوں کی حمایت حاصل ہے ،اس لئے اسے حکومت سازی میں ضرور کامیابی ملے گی۔ بہرحال حقیقت تو یہ ہے کہ 15سالوں تک بہار کو تنزلی وپچھڑاپن کا شکار بنانے اور ووٹنگ میں دھاندلی کرنے پر ضلع انتظامیہ کو مجبور کرنے والے لالو پرساد آج بھی ترقی کے بجائے ذات پات کی بنیاد پر ووٹ کی امید کر کے غلط فہمی کے شکار بنے ہوئے ہیں۔ بہار کے عوام اب جاگ چکے ہیں۔ مذہبی جذبات کے نام پر وہ بار بار دھوکہ نہیں کھا سکتے۔ وہ انتخابی اعلانات،جذباتی بیان بازیوں اور ووٹ کی سیاست کرنے والے سیکولرزم کے علمبرداروں کو بھی پہچان چکے ہیں،اس لیے وہ اس مرتبہ انتخاب میں پورے شعور کا مظاہرہ کرناچاہتے ہیں۔نتیش کمار کی سربراہی والی حکومت کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود بہار لالو کے 15 سالہ پچھڑاپن کے دور کو نہیں بھلاپایا ہے۔ فی کس مجموعی آمدنی (GDP) کے معاملے میں بہار ملک کی سب سے پچھڑی ریاست ہے۔ یہاں 55 فیصد سے زیادہ آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اس ریاست کا جنسی تناسب دوسری ریاستوں کے بہ نسبت بہت کم ہے۔ بجلی کا استعمال ملک کی ساری ریاستوں میں سب سے کم یہیں ہوتا ہے۔ لیکن ان کمیوں کے باوجود نتیش کے ترقیاتی کاموں کو دیکھ کر بہار کے عوام کو حوصلہ ملا ہے۔ اور وہ اس سلسلے کو لگاتار جاری رہتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ پری میٹرک، پوسٹ میٹرک اور پروفیشنل وٹیکنیکل کورسزمیں زیادہ سے زیادہ اقلیتی طلباءکو اسکالرشب دی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں کی گئی ہے۔ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے ملحق مدارس کے اساتذہ کی تنخواہوں میں300 فیصد کا تاریخی اضافہ کرکے گویا نتیش کمار نے ایک نیا اقدام کیاہے۔ یہاں پوری ریاست میں سڑک کا نقشہ ہی گویا تبدیل ہوچکا ہے۔ اب گھنٹوں کی دوریاں منٹوں میں طے کی جاسکتی ہيں۔ اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور دواﺅں کی مفت تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پروفیشنل وٹیکنیکل کورسز میں مسلم بچوں کے داخلے میں بھی غیرجانبداری وحق پسندی کا ثبوت دیا گیا ہے۔راقم الحروف نے خود دربھنگہ میڈیکل کالج ميں سال 2010-11 ميں داخلہ لينے والوں کا سروے کیا تو پتہ چلا کہ 90طلباءمیں 7 مسلم طلباءکو داخلہ ملا ہے۔ یہ تناسب ملکی سطح پر ایک ماڈل اور کافی حوصلہ افزا ہے۔ بہار میں جہاں میڈیکل میں داخلہ دھاندلی کا اڈہ بنا ہوا تھا۔ جہاں حکومتی میڈیکل اداروں میں ڈاکٹروں کے بچوں یا وزیروں کے رشتہ داروں یا رشوت خور گروپ کے مافیاﺅں تک رسائی حاصل کرنے والوں کے بچوں کو داخلہ مل پاتا تھا ،آج یہاں غریب ، مزدور اور کسانوں کے لعل بھی اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں، یہ ریاست میں رونما ہونے والی اہم تبدیلی ہے اور اس کے لئے نتیش کمار قابل صد مبارکباد ہیں۔ ریاست میں اغوا کے واردات میں زبردست کمی آئی ہے۔ قانون وانتظامیہ کو بھی کافی چست درست بنا دیا گیا ہے۔ لوگ آزادانہ طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ آیا جایا کرتے ہیں۔ تعلیمی نظام کو بھی درست کيا گیا ہے ۔لالو کے زمانے میں بہار کے تقریباً 99 فیصد کالجوں ويونيورسیٹیوں ميں 5 یا 6 سال میں گریجویشن مکمل ہوتا تھا جواب صرف تین سال میں ہو رہاہے۔ نتیش حکومت نے سارے مؤخر سيشنوں کا امتحان کرا کر تعلیمی نظام کو ملکی نظام سے جوڑ دیا تاکہ بچوں کا سال برباد نہ ہونے پائے۔ نتیش حکومت نے کچھ ایسے فیصلے بھی کیے جن کی بنیاد پر عوام میں انہیں کافی مقبوليت نصيب ہوئی۔ انہوں نے خواتین ، زیادہ پچھڑے طبقات (MBCs) اور مہا دلتوں کو ریاست کے علاقائی انتخابات ميں ریزرویشن سے نوازا۔ نتیش کمار کی سلجھی ہوئی کرشماتی شخصیت کے باوجود انہیں اپنے اتحادی بی جے پی سے ہندتوا کے مسئلے پرجنگ چھڑنے کا خطرہ ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ خصوصاً ایسے وقت میں جبکہ بابری مسجد کا فیصلہ آنے والا ہے، فیصلہ کے بعد بی جےپی کا تیور کیسا ہوتا ہے، اور ان حالات میں نتیش کمار کس راہ پر چلتے ہیں، یہ بہار کے انتخابی مرحلے کے لئے بہت اہم ہوگا۔حاليہ اسمبلی انتخاب میں مسلمانوں کو بڑی منصوبہ بندی، حکمت عملی اور شعور وآگہی سے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ نہ تو ہند توا وادی طاقتوں کو فائدہ پہنچے اور نہ ہی جذباتی استحصال کرنے والوں کو سر اٹھانے کا موقع مل سکے۔ جب تک مسلمان اپنی تعلیمی واقتصادی اور سیاسی وسماجی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے کوئی منظم اقدام نہیں کریں گے اور اس کے لئے سیاسی شعور کا مظاہرہ نہیں ہوگا، اس وقت تک وہ اپنی عظمت رفتہ اور شوکتِ گذشتہ کو نہیں پاسکتے۔

الأحد، أكتوبر 03، 2010

تهئنةللأمين العام لجمعية أهل الحديث المركزية لعموم الهندالشيخ أصغر علي السلفي!!!!!

لقد وافق سمو النائب الثاني لرئيس مجلس الوزراء وزير الدخلية بالمملكة على ترشيح الشيخ أصغر علي إمام مهدي السلفي ليكون أحد أعضاء الهيئة العليا لجائزة سمو الأمير نايف بن عبد العزيز العالمية للسنة النبوية والدراسات الإسلاميةفي دورتها الثالثة وفيما يلي الخبر من جريدة "سبق" الإلكترونية:
صدرت موافقة صاحب السمو الملكي الأمير نايف بن عبد العزيز النائب الثاني لرئيس مجلس الوزراء
وزير الداخلية رئيس الهيئة العليا لجائزة نايف بن عبد العزيز العالمية للسنة النبوية والدراسات الإسلامية المعاصرة، باعتماد التشكيل الجديد للهيئة العليا للجائزة برئاسة سموه في دورتها الثالثة، وذلك على النحو التالي:
صاحب السمو الملكي الأمير سعود بن نايف بن عبد العزيز ـ نائباً للرئيس ومشرفاً عاماً على الجائزة.
صاحب السمو الملكي الأمير محمد بن نايف بن عبد العزيز ـ نائباً للمشرف العام.
صاحب السمو الملكي الأمير عبد العزيز بن سعود بن نايف بن عبد العزيز ـ عضواً.
صاحب السمو الملكي الأمير نواف بن نايف بن عبد العزيز ـ عضواً.
صاحب السمو الملكي الأمير محمد بن سعود بن نايف بن عبد العزيز ـ عضواً.
صاحب السمو الملكي الأمير فهد بن نايف بن عبد العزيز ـ عضواً.
إضافة إلى عضوية عدد من أبرز العلماء والشخصيات الإسلامية، وهم:
الدكتور صالح بن عبد الله بن حميد ـ إمام الحرم المكي الشريف رئيس المجلس الأعلى للقضاء.
الشيخ عبد الله بن منيع ـ المستشار بالديوان الملكي عضو هيئة كبار العلماء.
الدكتور عبد الله نصيف ـ نائب رئيس مجلس الشورى سابقاً.
الدكتور أكمل الدين إحسان أوغلو ـ رئيس منظمة المؤتمر الإسلامي.
الشيخ أصغر علي إمام ـ الأمين العام لجمعية أهل الحديث بالهند.
الدكتور أبو بكر عبد الله دكوري ـ مستشار رئيس جمهورية بوركينا فاسو الإسلامية.
الدكتور عادل المعاودة ـ عضو مجلس النواب البحريني.
الدكتور ساعد العرابي الحارثي ـ مستشار سمو النائب الثاني لرئيس مجلس الوزراء وزير الداخلية الأمين العام للجائزة.
الدكتور محمد بن علي العقلا ـ مدير الجامعة الإسلامية.
الدكتور زين العابدين الركابي ـ الباحث والمفكر الإسلامي.
وقد وجه صاحب السمو الملكي الأمير نايف بن عبد العزيز شكره وتقديره لأعضاء الهيئة العليا للجائزة الذين انتهت عضويتهم بانتهاء الدورة الثانية للجائزة التي استمرت أربعة أعوام على ما بذلوه من جهود مخلصة أسهمت بعد توفيق الله في نجاح مسيرة الجائزة وبلوغ أهدافها، مهنئاً من تم اختيارهم لعضوية الهيئة العليا للجائزة في دورتها الثالثة بما أتيح لهم من فرصة المساهمة في أعمال الجائزة تجاه خدمة السنة النبوية المطهرة، متمنياً لهم سموه التوفيق والسداد فيما سيقومون به من جهود في هذا الشأن الإسلامي المهم. صرح بذلك مستشار سمو النائب الثاني لرئيس مجلس الوزراء وزير الداخلية الأمين العام للجائزة الدكتور ساعد الحارثي.
ونوه الحارثي بما حققته جائزة نايف بن عبد العزيز العالمية للسنة النبوية والدراسات الإسلامية المعاصرة من نجاح في مسيرتها تجاه بلوغ الأهداف السامية التي أنشئت من أجلها، وهي خدمة السنة النبوية المطهرة باعتبارها المصدر التشريعي الثاني بعد كتاب الله سبحانه وتعالى، وذلك من خلال دعم البحث العلمي وإذكاء روح التنافس بين الباحثين والمفكرين والمهتمين بهذا الشأن الإسلامي العظيم، وصولاً إلى تبيان محاسن الدين الإسلامي الحنيف ومقاصده السامية الرامية لسعادة الإنسان في الدنيا والآخرة، وتجلية ما اعترى فهم البعض عن هذا الدين على نحو خاطئ، وتعميق فهم المسلمين لهذا المصدر التشريعي المهم في حياتهم وكافة شؤونهم.
واختتم تصريحه راجياً لسمو راعي هذه الجائزة جزيل الأجر والمثوبة من الله، وأن يجعل هذا العمل خالصاً لوجهه الكريم، وأن يسدد بالتوفيق جهود من أسهم ويسهم في نجاح هذا الجهد الإسلامي الرفيع، والله ولي التوفيق.
وبهذه المناسبة أهنئ الشيخ أصغر على نيله الثقة الغالية من قبل سمو النائب الثاني وزير الداخليةرئيس الهيئة العلياللجائزةداعياً الله عز وجل أن يوفقه لما فيه الخير والصلاح للإسلام والمسلمين،وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم تسليما كثيرا.
كتبه/معراج عالم محمد إنفاق التيمي

السبت، أكتوبر 02، 2010

منارة مسجد فى نيبال

تصفحت كثيرا من المنتديات والشبكات الإخبارية عن القصة التي إشتهرت عن منارة مسجد فى نيبال حيث إرتفعت وصعدت حين عجز المتولى و رفض أحد الكفار عن رفعها كما هي مذكورة فى إحدى المنتديات
" في النيبال بنى بعض المسلمين مسجداً ليصلوا فيه على نفقتهم الخاصة و عندما أرادوا أن يضعوا القبة العلوية للمنارة و لم يكن لديهم رافعة ليرفعوها ذهبوا إلى مالك رافعة ليس على الدين الاسلامي ليساعدهم و يقرضهم رافعته رفض مساعدتهم و نهرهم بقوله أنتم مسلمون وتقولون ان الله قادر على كل شي هيا فاذهبوا اليه لكي يساعدكم ويرفعها لكم .. و بعد وقت قصير فوجئ الحاضرون بأن القبة بدأت في الصعود وحدها و هي ملفوفة بقطعة قماش حيث استمرت في الصعود إلى أن استقرت في مكانها وسط ذهول كل الحاضرين الذين أخذوا يكبرون الله و يذكرونه ."

لاشك أن الله سبحانه تعالى قادر على كل شيء يفعل مايشآء لاراد لقضائه ولكن يبقي الأمر عن صحة القصة فأنا من سكان نيبال وقبل شهر كنت فى البلاد ولكن ما سمعت مثل هذه القصة من أى شخص،
والسوال الموجه إلى إخوتي :
متى وقعت هذه القصة ؟ وأين وقعت ؟ وأى مسجد هذا ؟ وأين يقع فى البلاد؟ وما اسم رجل ذهب إلى الكفار لطلب المساعدة؟ والصورالمنشورة من أى منطقة فى نيبال؟ أوجه أسئلتى هذه إلى الإخوة النيباليين لعلي أجد عندهم الإجابة مع الشكر والتقدير .