الاثنين، أكتوبر 30، 2017

بوجھ
ساگر تیمی
کلیم : رحیمہ مجھے لگتا ہے اس بار ضرور بیٹا ہوگا ۔ دو دو بیٹیوں کا بوجھ تو ہم پہلے ہی ڈھو رہے ہیں ۔ اب تیسرا بیٹا تو ہونا ہی چاہیے ۔
رحیمہ : "ہاں ، دعا تو میری بھی یہی ہے لیکن حکم تو اللہ ہی کا چلتا ہے " ۔ یہ الفاظ بھی بہت مشکل سے رحیمہ ادا کرپائی ۔ شوہر کی اس بات کا مطلب اسے معلوم تھا اور وہ جانتی تھی کہ دونوں بیٹیوں کے تئیں اس کے شوہر کا کیا رویہ ہے ۔ ڈر اور خوف کی عجیب نفسیات نے اسے جکڑ لیا جب کلیم نے یہ باتیں دہرائیں ۔ شادی کی پہلی رات سے کلیم کو بیٹے کی جستجو تھی ، معاملہ رحیمہ کا بھی یکساں ہی تھا لیکن ولادت کے بعد وہ اپنی بیٹیوں سے بے انتہا محبت کرتی تھی جو محبت اسے اپنے شوہر کی آنکھوں میں نظر نہيں آتی تھی ۔ پہلی بچی دس سال کی اور دوسری چار پانچ سال کی تھی اور اب یہ تیسری اولاد ہونے والی تھی ۔ رحیمہ کا دھیان جب کبھی اپنے شکم کی طرف جاتا وہ سہم جاتی ۔ نہ جانے کیوں اسے لگتا کہ اس بار بھی بیٹی ہوگی اور بچیوں کے ساتھ ساتھ خود اس کا مستقبل بھی اندھیروں میں چلا جائے گا ۔
  اسے وہ رات اچھی طرح یاد تھی جب کلیم نے اسے اپنے خاص انداز میں سمجھایا تھا : دیکھو رحیمہ ! میں ایسا نہیں کہ بچیوں سے پیار نہیں کرتا لیکن یار بچوں کی تو ہمیں ضرورت ہے نا ، ہماری نسل کیسے آگے بڑھے گی ، ہمارے بڑھاپے کا سہارا کون ہوگا ، ہمارا خواب کیسے پورا ہوگا ، بیٹیوں کو تو ایک دن کسی اور کے گھر جانا ہے اور پھر وہ تو ہمارے اوپر بوجھ ہی ہیں ، ان سے ہمارا بوجھ کم کب ہوگا ۔ آج کے زمانے میں بغیر لاکھوں لاکھ خرچ کیے بیٹیوں کی شادی ہوتی کب ہے ؟
  رحیمہ کو معلوم تھا کہ اس کے شوہر کے اندرون تک بیٹے کی خواہش ہے جس میں اس کی شفقت پدری سے کہیں زيادہ مادی ہوس کا عمل دخل ہے لیکن عورت کی کمزور ذات کرے تو کیا کرے۔ کبھی کبھی اپنی کلی کی مانند کھلتی ہوئی بیٹیوں کو دیکھتی اور اداس ہو جاتی ۔ بات ایسی بھی نہیں تھی کہ یہ جذبات ان معصوم کلیوں تک نہيں پہنچے ہوں ۔ کبھی کبھی وہ بھی اپنی ماں کی اداسیوں کو الفاظ دے دیتیں ۔ "اماں ! آپ ہماری وجہ سے پریشان رہتی ہیں نا ؟ کیا پتہ ہمیں موت بھی کیوں نہیں آتی ۔" دس سالہ معصوم عصمت کی زبان سے یہ الفاظ نکلتے تو رحیمہ کا کلیجہ چھلنی چھلنی ہوجاتا اور وہ دلار پیار کرکے اپنی جان سے عزیز بیٹی کو اس طرح کے خیالات سے روکتی لیکن خود جیسے ایسے ہی خیالات کی دنیا میں کھو جاتی جہاں اسے لگتا کہ اس کے شوہر اس سے بیٹیاں چھین کر کسی خونخوار جانور کے حوالے کررہے ہیں اور وہ لاحول پڑھنے لگتی ۔
    اللہ کا کرنا دیکھیے کہ تیسری مرتبہ بھی رحیمہ کے بطن سے بیٹی ہی پیدا ہوئی ۔ نرس نے جب اس کی گود میں اس کی بیٹی کو ڈالا تو وہ اس کے حسین آنکھوں میں کھو گئی لیکن معا بعد جب اسے اس کے بیٹی ہونے کا خیال آیا تو اس کے ہاتھ کانپنے لگے ۔ شوہر تب کہیں اور تھا ۔ جب اسے اس کی اطلاع ملی تو جیسے کسی نے اس پر سرد پانی کی صراحی انڈیل دی ہو ۔ گھر آنے پر اس نے نہ صرف یہ کہ بچی کو گود نہيں لیا بلکہ رحیمہ کا حال احوال لینا بھی  ضروری نہیں  سمجھا ۔ رحیمہ کو چوں کہ اس قسم کی صورت حال کی توقع تھی اس لیے وہ خون کے آنسو پی جانے میں کامیاب رہی ۔
  لیکن یہ نفرت کلیم کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی تھی ۔ وہ ایک پر ایک شیطانی منصوبے بنا رہا تھا لیکن پھر جیسے کچھ سوچ کر رک جارہا تھا یا جیسے کوئی خوف اسے دامنگیر ہو جارہا تھا ۔ کبھی پانی میں ڈبونے کا خیال آتا تو کبھی چاقو سے ذبح کردینے کا اور کبھی کہیں کسی اونچی جگہ سے نیچے پھینک دینے کا لیکن اس طرح کے ہر خیال کے بعد جیسے وہ خود ہی ڈر جاتا اور خیال ارادہ کی منزل تک پہنچتے پہنچتے دم توڑ دیتا لیکن برے خیالات اگر جھٹکے نہیں جاتے تو کسی نہ کسی شکل میں عملی پیکر میں نمودار ہو ہی جاتے ہیں ۔ شیطان اپنا کام کر ہی جاتا ہے ۔
  گاؤں سے ممبئی کا سفر ریل گاڑی سے کافی لمبا تھا ۔ رات کا وہی کوئی دس بج رہا ہوگا ۔ رحیمہ نیچے والی سیٹ پر سوئی ہوئی تھی ۔ دونوں بیٹیاں اوپر والی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھیں لیکن وہ باربار نیچے دیکھ رہی تھیں جیسے انہیں کھڑکی سے باہر کا نظارہ کرنا ہو ۔ کلیم نے بیٹیوں کی جب یہ کیفیت دیکھی تو اس کے دماغ میں ایک شیطانی خیال آیا اور اس نے بیٹیوں کو پیار سے نیچے اتار لیا ۔ ان کے ہاتھ پکڑے اور کہا : آؤ گیٹ کے پاس سے ٹھیک سے باہر کا نظارہ کراتے ہیں ۔ بیٹیاں بہت خوش ہوئيں اور باپ کا ہاتھ پکڑے گیٹ پر آگئیں ۔ وہ انہیں باہر کے مناظر دکھاتا رہا ، بعض دفعہ جب وہ کچھ پوچھتیں تو انہیں پیار سے بتاتا بھی رہا ، کچھ دیر گزرنے کے بعد جب بچیاں پوری طرح منظروں میں کھو گئیں ، ہنسنے مسکرانے لگیں ، دونوں بہنیں ایک دوسرے سے چھیڑ کرنے لگیں تو اس نے سناٹا دیکھ اپنا شیطانی ارادہ پورا کیا اور دونوں بچيوں کو تیز دھکے سے ٹرین کے باہر کردیا ۔
    تیز رفتار ٹرین آگے نکل گئی لیکن بوجھ اتنی آسانی سے اترتا کب ہے ۔ بچیاں جہاں گریں وہیں سے ایک قافلہ گزر رہا تھا ، انہوں نے بچیوں کو اس حالت میں دیکھ کر جلدی جلدی ہاسپیٹل پہنچایا ۔ گھنٹوں بعد جب بڑی بچی کو ہوش آيا تو ساری حقیقت سامنے آئی لیکن پولیس سے لے کر ہاسپیٹل کے سارے عملہ کی آنکھوں میں اس وقت آنسو تیرنے لگے جب بچی نے کہا : لیکن میرے پاپا کو کچھ مت بولیے گا ۔ انہیں جیل میں مت ڈالیے گا ۔ وہ بہت اچھے پاپا ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔ اور ایک بار پھر اس کا ہوش جاتا رہا ۔۔۔۔۔