الثلاثاء، ديسمبر 31، 2013

نبذة عن فقيد جماعة أهل الحديث أستاذ اﻷساتذه الشيخ عبدالسلام الرحماني رحمه الله


د. معراج عالم محمد انفاق المدني 

إسمه :
هو الداعية الكبير والعالم الجليل الشيخ أبوعبدالله عبدالسلام الرحماني بن محمدعباس بن حبيب الله بن جمائي بن كريم بخش .

ولادته:
ولد في جمادى اﻵخرة1357-أغسطس1938 في قرية كوندؤ لمديرية غونده (بلرامفور حاليا ) في وﻻية أترابراديش في أسرة معروفة بالعلم والتدين.

تعليمه:
حصل على الدراسة اﻻبتدائية في مدرسة عريقة معروفة جامعة سراج العلوم بونديهار لمدةأربع سنوات.ثم ارتحل للطلب إلى دلهي مع عمه الشيخ محمدعابدالرحماني والتحق في الجامعة الرحمانية وذلك في أغسطس1947 والتحق في السنةاﻷولى المتوسطة إﻻ أنه رجع إلى قريته في نوفمبر1947 بسبب اﻻضطرابات التي حصلت وقت تقسيم الهند إلى دولتين الهند وباكستان. والتحق مرة أخرى في جامعة سراج العلوم ودرس حتى الثانوية اﻷولى ثم سافرإلى بنارس والتحق بالجامعة الرحمانية في الثالثة المتوسطة. كما أنه سافر في هذه اﻷيام على إيعاز من جده إلى لكناؤ والتحق بكلية الطب لكنه رجع إلى بنارس بعد شهرين أو ثلاثة أشهر. وأكمل الدراسة الشرعية في الجامعة الرحمانية وتخرج فيها عام 1958 وباﻹضافة إلى دراسته النظامية قد اختبرباﻻنتساب للإختبارات الحكومية الثانوية والعالمية والفضيلة العالية.

في ميدان العمل:
ومنذ تخرجه بدأ يزاول المهمة التعليمية والدعوية فدرس ثلاثة أشهر في الصفوف اﻷولية في وﻻية مدهيه براديش . ثم انتقل إلى المعهد اﻹسلامي في أكرهرا بوﻻية أترابراديش فدرس فيه سنة فقط. ثم انتقل إلى جامعة سراج العلوم بونديهارفدرس فيها منذ 1960 حتى1963 وفي عام1964انتقل إلى معهد رئيس دي بهمري ودرس فيه المواد الشرعية لمدة سنة فقط. ثم انتقل إلى الجامعة الرحمانية بنارس ودرس فيها حتى 1972. وتولى منصب نائب اﻷمين العام لجمعية أهل الحديث المركزية لعموم الهند في 1972وظل في هذا المنصب داعيا وموجها حتى1975 ثم أختيرلمنصب اﻷمين العام في يوليو1975م وكان رئيس التحرير لجريدة ترجمان أيضا وقد كتب مقاﻻت وبحوث نافعة ومفيدة. ثم استقال في يونيو 1978 من منصب اﻷمين العام وارتحل إلى فيجي داعية ناجحا ومعلما بارعا وموجها ومربيا وبقي فيها حتى 1985 ففي مارس1985 رجع من فيجي. وفي مايو 1985 أقيم مؤتمر عام فحمل عليه منصب اﻷمين العام للجمعية مرةً أخرى إﻻ أنه استقال في 1987 لظروف أحاطت به.  والتحق بجامعة سراج العلوم بونديهار مدرسا و وكيلا للجامعة وظل فيها حتى آخرحياته. كما أنه أختيرلمنصب نائب أميرالجمعية في 1990م وظل في هذا المنصب قرابة عشرسنوات. وكان رحمه الله داعية ناصحا ومدرسا ناجحا ومحباً للخير ومتفانيا في نشر الدعوة والعلم و قد قضى حياته كلها في الدعوة والتدريس والتعليم والتوجيه. ودرس قرابة أربعين سنة واستفاد منه خلق كثيرمنهم: د.عبدالعليم عبدالعظيم البستوي و د.جمال أختر وهما بمكة ود.عبدالرحمن عبدالجبار الفريوائي الأستاذ بجامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية بالرياض ود.صغيرأحمد حنيف ود.محمد إقبال بسكوهري والشيخ المحقق عزير شمس بمكة والشيخ شاهد جنيد رئيس الجامعة السلفية بنارس وغيرهم كثيرون.

مؤلفاته:
عمل على إيعاز وترشيح من الشيخ العلامة عبيد الله الرحماني في تحقيق وتعليق تحفة اﻹشراف بمعرفة اﻷطراف في ممبئي. له قرابة عشرين مؤلفا بعضها مطبوع واﻵخرمخطوط فمن مؤلفاته:
1: القصص اﻹسلامية 3 مجلدات
2- حسن بصري حاﻻت وملفوظات
3- المنكرات في العقائد واﻷعمال والعادات
4-محرم الحرام ومسألة حسن ويزيد
5-ماه ربيع اﻷول اورحب الرسول صلى الله عليه وسلم.
6- تزئين مساجد كي شرعي حيثيت
7-خضاب كي شرعي حيثيت
8-اتباع سنت كامفهوم
9- تزئين وتجميل كي شرعي حيثيت
10- فريضة اﻷمربالمعروف والنهي عن المنكر.وغيرها.

عضويته في الهيئات:
اختاره الشيخ العلامة أبوالحسن علي الندوي رحمه الله عضوا في هيئة اﻷحوال الشخصية للمسلمين. كمااختيرعضوا في الهيئة الملية الهندية (ALL INDIA MILLI COUNCIL) من قبل الشيخ مجاهد اﻹسلام القاسمي رحمه الله.

أسفاره الدعوية:
لقد سافر الشيخ رحمه الله في أنحاء الهند وأرجائها لأغراض سامية دعوية وتنظيمية وألقى محاضرات قيمة قبل أن يتولى منصب الأمين العام للجمعية وثم أثناء توليه هذا المنصب وبعد تركه الجمعية أيضاً إضافة إلى ذلك فقد شارك مناسبات دعوية عديدة وألقى محاضرات علمية ودعوية وتوبوية في عدة دول منها المملكة العربية السعودية وباكستان ونيبال وماليزيا وسدني وسنغافور ونيوزي ليند وأمريكا وأستراليا ويابان وإطاليا وأبوظبي والصين وإنجلترا وفرنسا ومصر والكويت ودوبئي والبحرين وعمان والدوحة والشام والأردن وإندونيسيا وكنيدا وجنيف ودنمارك وغيرها. باﻹضافة إلى أعماله الدعوية ومناشطه العلمية والإدارية وكالة الجامعة فقد كان عضوا في مختلف المجالس اﻻستشارية والتنفيذية لمختلف الجامعات اﻹسلامية بالهند منها: - الجامعة السلفية في بنارس. - وجامعة اﻹمام ابن تيمية في بيهار - والجامعة المحمدية منصوره ماليغاؤن.

وفاته :
وقد وافته المنية يوم اﻷحد 29 ديسمبر2013م وله 75سنة. وقد خلف 3 أبناء و3 بنات وزوجة. وبموته رحمه الله وقعت فجوة وثغرة في جماعة أهل الحديث بالهند ونيبال وحدثت ثلمة في اﻷوساط العلمية والدعوية. غفرالله لفقيدنا وأفاض عليه شآبيب الرحمة والرضوان وأدخله الفردوس اﻷعلى من الجنان وألهم ذويه وجميع محبيه الصبر والسلوان. ومالنا إﻻ أن نقول ما يرضي ربنا فإنالله وإنا إليه راجعون. لله ما أخذ وله ما أعطى ولكل أجل كتاب. والحمدلله على قضائه وقدره. 

إعداد: معراج عالم التيمي

الاثنين، ديسمبر 30، 2013

فرصة لإبتعاث خريجي الجامعات السعودية

تعلن إدارة جامعة الإمام ابن تيمية بمدينة السلام عن حاجتها لأعضاء هيئة التدريس على أن يكونوا من خريجي الجامعات السعودية والأولوية لحاملي الماجستير والدكتورة ويتم ابتعاثهم من قبل وزارة الشئون الإسلامية والأوقاف، و المقاعد محدودة فعلى الراغبين التقدم بأسرع وقت ممكن،  للإستفسار يمكن الإتصال على رقم مؤسس الجامعة الدكتورمحمد لقمان السلفي مباشرة : 
00966502714594

الأحد، ديسمبر 15، 2013

بڑے بول کا سر نیچا

رحمت کلیم امواوی (جے این یو)

رحمت کلیم امواوی 
ایک انسان جب شعور و آگہی کی دولت سے سرفراز ہوتا ہے اور دوڑتی بھاگتی دنیا کو ہر لمحہ سرگرداں دیکھتا ہے تو اس کے دل میں بھی ایک طرح کی بیداری پیدا ہوتی ہے اوروہ بیداری صرف اور صرف کامیابی حاصل کرنے کیلئے ہوتی ہے ،ہر انسان اپنے طورپر یہ کوشش کرتا ہے کہ اسکی زندگی انتہائی خوشگوار ہو ،کامیابی کے اعلی سے اعلی مقام تک پہنچ جائے،دنیامیں اس کا نام روشن ہواور ایک الگ پہچان بنے،اپنی عزت و عظمت ہر کسی کے دل میں بیٹھا دے،ہر کوئی اسے حسرت بھری نگاہ سے دیکھے،اور دنیااس کے مقام و مرتبہ ،شہرت و مقبولیت اور خدمات کو سراہے۔تاریخ شاہد ہے کہ ازآدم تا ایں دم نہ جانے ایسے کتنی ہستیوں کا وجود مسعود ہوا ہے جنہوںنے اپنی بساط بھر جد و جہد کرکے اپنی الگ شناخت پیدا کیں ہیں ،اور لوگوں کے دلوں میں اپنا مقام بنایا ہے،ہم ارسطو،سیکسپیئر،افلاطون،ملٹن،ابو ریحان،جابر ،رابندر ناتھ ٹیگور ،علامہ اقبال،نہرو،آزاداور مہاتما گاندھی جیسے عظیم المرتبت شخصیتوں کو ان کے گذر جانے کے سالوں سال بعد آج بھی محبت و عقیدت کے ساتھ صرف اس لیے یاد کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے کارناموں سے دنیا کو مبہوت کردیا ،سبھوںکی نظروں کو خیرہ کردیا ،اور ایسا کار خیر انجام دیا کہ دنیا کا ہر ہرکس و ناکس ان کا گرویدہ ہو گیا ،آج بھی انہیں وہی عزت و شہرت اوراحترام حاصل ہے جو کل تک حاصل تھیں،یعنی ان نابغہ روزگاروں کو مقبولیت دوام حاصل ہے،لیکن تاریخ کا ایک ایسا بھی صفحہ ہے جہاں ہمیں ایسے لوگوں کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے کمال کی مقبولیت حاصل کیں،دولت وثروت کا پہاڑ حاصل کیا،شہرت کے آسمان تک پہنچے،دنیا انہیں ہدیہ صدتبریک پیش کرنے لگی،بلندی کا نام ان کے نام سے جوڑا جا نے لگا،طاقت و ہمت اور دانشمندی کے حوالے سے پہلے پہل انہیں حضرات کا نام لیا جانے لگا،عوام الناس کے دلوں پر رعب و دبدبہ قائم ہو گیا،ان کا اپنا سکہ چلتا تھا،ہر طرف ان کی طوطی بولتی تھی،اور ہر کوئی انہیں بڑا تسلیم کیا کرتا تھا لیکن ایک ایسا بھی وقت آیا جب ان نامور شخصیتوں کی اہمیت گرد پاکے برابر بھی نہ رہی،ایک آن میں ساری عزت خاک میں مل گئی،اور دیکھتے ہی دیکھتے عظمت کا شیش محل چکنا چور ہوگیا،اس کی مثال ہم نہ فرعون کے عبرت آموز حشر سے دینا چاہیں گے اور ناہی شداد کی فضیحت سے،ہم نہ نمرود کے واقعے کوپیش کریںگے نا ہی ابو جہل کی ہزیمت کو،چونکہ یہ سارے واقعے دقیانوس ہیں ،ہم اکیسویںصدی میںسانس لے رہے ہیں،ہم اسی صدی کے حوالے سے یہ بتانا چاہیں گے کہ کیسی کیسی نامورو شہرت یافتہ ہستیاں ذلیل و خوار ہوگئیں،اور کتنے بڑے بڑے طاقتور شیر ایک ہی جھٹکے میں ڈھیر ہوگئے،اور کتنے قد آور شخصیتوں کا سر نگوں ہو گیا ۔
اکیسویں صدی کا نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ آغازہوتا ہے،امریکہ میں بل کلنٹن صدارتی کرسی پر گذشتہ کئی سالوں سے قابض ہوتا ہے،لیکن جب 2001میں صدارتی انتخاب ہوتا ہے تو پھر بل کلنٹن کو شکست فاش ہوتی ہے،اور جارج ڈبلیو بش زمام صدارت سنبھالتا ہے اور امریکہ کا تینتالیسواں صدر بن کر 20جنوری 2001کو صدارتی آفس میں داخل ہوجاتاہے،اس کے بعد سے امریکہ میں جو ترقی ہوتی ہے وہ یقینا محیر العقول ہے،دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ دنیا کا سوپر پاور ملک بن جاتا ہے،اور اس کی طاقت کا غلبہ دنیا کی تمام ملکوں پر ہوتا ہے،دریں اثنا صدارت کی کرسی پر بیٹھ کر جارج ڈبلیو بش کبھی عراق کی سرزمین کو عراقی باشندگان کے خون سے سیراب کرتا ہے تو کبھی افغانستان کے معصوموں کا قتل کر تا ہے،الغرض طاقت کا بہت حد تک غلط استعمال بھی کرتا ہے،صدارتی دور کا پہلا ٹرم مکمل ہوتا ہے 2005میں پھر صدارتی انتخاب ہوتا ہے اور بش کے مقابلے میں سیاہ فام براک حسین اوبامہ آتا ہے مگر ناکامی ہاتھ لگتی ہے اور دوبارہ امریکہ کا صدر جارج ڈبلیو بش ہی بنتا ہے،اس کے بعد امریکہ کی معاشی اور سیاسی حالت کو مزید مستحکم کر کے امریکہ کو دنیا کا سب سے طاقت ور ملک بنا دیتا ہے،اور اس کا سہرہ اسی جارج ڈبلیو بش کے سر جاتا ہے جس کے ہاتھ عراقی بچوں کے خون سے رنگے ہو ئے ہیں ،جس کے پاں کے نیچے بغداد کے عوام کی لاشیں ہیں، اخیر کار صدارتی دور کا آخری وقت آتا ہے،دسمبر کا مہینہ چل رہا ہوتا ہے،اوراسی مہینے تک اس کی حکومت بھی ہوتی ہے،چونکہ2009میں پھر انتخاب ہوناہوتا ہے، اتفاقیہ طور پر جارج ڈبلیو بش کا آخری صدارتی خطاب عراق کی راجدھانی بغداد میں ہونا طے پاتا ہے جہاں کا ہر یتیم بچہ بش کو اپنے باپ کا قاتل اور ہر ماں اپنے نوجوان بیٹے کا جانی دشمن مانتی ہیں ،14دسمبر2008کو جارج ڈبلیو بش اپنے آخری دورہ کیلئے نکل پڑتا ہے،بغداد میں ان کے لئے ایک تہنیتی پروگرام کا انعقاد عمل میں آتا ہے،پروگرام میں بش کی شان میں قصیدے پڑھے جارہے تھے،بش کا سر اعلی و بالا کیا جا رہا تھا،لیکن جب ڈائس پر خطاب کرنے کیلئے بش کھڑا ہواتو ایک صحافی نے اس کی ساری عظمت و بڑائی کو محض دو چند سکنڈ کے اندر خاک میں ملا دیا،جارج ڈبلیو بش نے جب خطاب کے دوران یہ کہا کہ”یہ ایک حتمی راستہ تھا فتح یاب ہونے کا“تو منتظر زیدی نامی البغدادیہ ٹی وی رپورٹر اپنے پاں کے دونوں جوتوں سے بش پر حملہ بول دیتا ہے،اوریہ کہتا ہے کہ یہ تمھارا اختتامیہ ہے۔یہ صرف چند سکنڈ کے اندر کی بات تھی جب زیدی نے جوتے سے حملہ کیا ،لیکن اسی دو سکنڈ نے بش کی گذشتہ نو سالوں میں حاصل کی گئی ساری عزت و شہرت اورعظمت و بڑکپن کو خاک میں ملا دیا اور پوری دنیا کے سامنے بش کا سر شرم سے ہمیشہ کیلئے جھک گیا۔
تاریخ کا ایک اور صفحہ پلٹیے ،اور دیکھیے کہ معمر قذافی کی کیا آن با ن و شان تھی،کیا الگ مست دنیا تھی،اورکیا طاقت و ہمت ،مگر حشر آخر کار کیا ہوا؟تاریخ کا مطالعہ کرنے والے حضرات اس سے بخوبی واقف ہیں کہ 1964ءسے 2011ءتک مسلسل چالیس سال تک معمر قذافی نے لیبیا کے عوام پر حکومت کی،انہوں نے لیبیا کی عوامی دولت و ثروت کو ذاتی مال سمجھ کر اس قدر عوام کا استحصال کیا کہ لیبیائی باشندے دل کے آنسو رو پڑے،درندگی بنام عیاشی اس طرح ہو رہی تھی کہ کہا جاتا ہے کہ قذافی کے کمرے سے رات بھر میں کئی کئی لڑکیاں اسٹریچر پر نکالی جاتی تھیں،لیبیا کا سونا(GOLD)باپ بیٹا مل کر لٹا رہاتھا،اور عوام بے چاری سوکھی روٹی تور رہی تھی،مذہبی مذاق اس کا عام شیوہ تھا،البتہ ایک خاصیت ضرور تھی کہ یہ کبھی امریکہ کی منہ بھرائی نہیں کرتا تھا،اقوام متحدہ میں بھی اپنی زبان بولا کرتا تھا،کسی سے خوف نہیں کھاتا تھا،امریکہ کی جی حضوری کبھی دیکھنے کو نہیں ملی،اور یہی ایک چیز قذافی کوبڑا بنا دیتی ہے،دولت وثروت کی کمی کسی بھی ناحیے سے نہیں تھی،عالمی پیمانے پر ایک الگ پہچان بھی تھی،لیبیا کے باہر بھی عوام اچھی نگاہ سے دیکھتے تھے،ایک بڑا و کامیاب رہنما تسلیم کرتے تھے،لیکن ایک ایسا وقت بھی آیا جب پورے مشرق وسطی میں آگ لگی تھی،حکومت کا تختہ پلٹا جا رہا تھا،عوام پوری طرح اپنی طاقت کا استعمال کرنے لگی تھی،درد و کرب اور مسائل سے بے چین عوام سڑک پر نکل کر حاکم وقت کے خون کی پیاسی ہوگئی تھی،دیکھتے ہی دیکھتے اردن ،مصر اور بحرین کاکام تمام ہو گیا ،اور وہان کی عوام کامیاب ہوگئی،اور پھر یہ آگ جب لیبیا تک پہنچی تو پھر قذافی کے گھنگھڑیلے بال میں بھی لگ گئی،عوام کے ہاتھ جب قذافی کے گریبان تک پہنچے تو پھر بھاگنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں تھا،قذافی فوراً اپنے آبائی وطن سرت میں جاکر زمین کے اندر ایک گوفہ میں چھپ گیا،لیکن درد کی ماری لیبیائی عوام کو چین نہیں آرہا تھا،وہ چاہتی تھی کہ قذافی ان کے ہاتھ لگ جائے،بالآخر ایسا ہی ہوا،نیشنل ٹرانجیشنل کونسل فورسیز (NTCF)نے قذافی کو زمین کے نیچے سے بھی ڈھونڈ نکالا ،اور سڑک پر گھسیٹتے ہوئے سرے عام گولی مار دی،اور قذافی امان امان چلاتے ہوئے 20اکتوبر2011کو ہمیشہ کیلئے امان پا گیا۔
بیرون ہند کے بعد جب ہم جب ہم اپنے وطن کی طرف رخ کرتے ہیں اور اکیسویں صدی کا جائزہ جب ہم ہندوستانی پس منظر میں لیتے ہیں تو ہمارے سامنے دو اہم نام جلوہ گر ہو جاتا ہے،جنہیں کل تک ہندوستانی عوام محبتوں اور عقیدتوں کا گل دستہ پیش کرتی تھیں لیکن آج ان کے نام پر طعن وتشنیع کرتی ہیں ۔باپو آشا رام کو شاید ہی کوئی نہیں جانتا ہو ،خصوصاً غیر مسلم طبقہ میں ان کی مقبولیت اور ان کا جو مقام و مرتبہ کل تک تھا وہ یقینا قابل رشک ہے،انہیں جو عزت و شہرت اور جتنی عقید ت ملی وہ یقینا لائق ستائش ہے،آشام رام کامقام اتنا بلند ہوگیا تھا کہ ایک خاص طبقہ انہیں اپنا معبود ماننے لگا تھا،مرادیں پوری کرنے کیلئے ان کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگے تھے،رکشہ چالک اپنی سلامتی کیلئے انکا نام لیکر گاڑی چلانا شروع کرتا تھا ،دوکاندار منافے کیلئے انہیں کا نام لیکر دوکان کھولا کرتے تھے،الغرض ان کو خدا کا درجہ حاصل تھا ،لوگ ایک جھلک دیکھنے کیلئے میلوں کی مسافت طے کرتے تھے،لیکن کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ ولی کے لباس میں شیطان ہے،بابا کے نام پر عزت و عصمت کا لٹیرا ہے ،اور مذہبی پیشوا کی شکل میں ایک زانی ہے،لیکن اس سچائی سے کس کو انکار ہے کہ حقیقت ایک نہ ایک دن کھل کر سامنے آہی جاتی ہے،اور جب آشا رام کی حقیقی شکل دنیاکے سامنے کھل کر آئی تو پوری دنیا ناطقہ سر بہ گریباں ہوگئی۔کہا جاتا ہے کہ آشارام نے اپنے مادر وطن گجرات میں1970ءمیں پہلا آشرم بنوایا ،اور اب تک پورے ہندوستان میں چار سو سے زائد چھوٹے بڑے آشرم بنائے جا چکے ہیں،البتہ ان آشرموں کے اندر کیا ہو رہا تھا یہ اب دنیا کے سامنے عیاں ہو چکا ہے،اور فی الوقت آشارام کو کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے او رکون سا دفعہ لگایا گیا ہے یہ بھی سب کے سامنے واضح ہو چکا ہے،مگر ان تمام معاملات میں گذشتہ چھ اکتوبر کو جو ایف آئی آر درج کرائی گئی وہ کچھ زیادہ ہی خطرناک ہے،اس میں لکھا گیا ہے کہ آشارام نے اپنی بڑی بہن کا ریپ احمد آباد آشرم میں کیا ،اور 2002سے2004 تک سورت میں آشارام کے بیٹے سائی رام نے آشارام کی چھوٹی بہن کی مسلسل عصمت دری کی(نعوذباللہ)
کہنے کی بات یہ کہ آشارام جو کل تک خدا بنا بیٹھاتھا،بلندیاں ان کے قدموں میں تھیں،ان کا سر مذہبی و روحانی پیشوا کی فہرست میں سب سے اونچا تھا لیکن کیا کسی کو یہ بھی پتا تھا کہ ایک دن آشارام کو ذلت کے اس مقام تک آنا پر جائے گاکہ لوگ ان کے نام پر تھوکنے لگیں گے،اور یہاں تک جگ ہنسائی و رسوائی ہو گی جہاں سے ایک انسان خودکشی کرنے میں اپنے لیے عافیت سمجھتا ہو۔علاوہ ازیں ہندوستان کی سرزمین پر ایک اور نام کا تہلکہ مچا ہوا ہے،جن کا مقام و مرتبہ کل تک عوج ثریا پرتھا لیکن آج خاک میں ہے،جن کی عزت ہر چھوٹا بڑا کیا کرتا تھا لیکن اب ہر کوئی الٹے زبان سے اس کا نام لیتا ہے، تہلکہ نیوز پیپر کے فانڈر و ایڈیٹر تیج پال سنگھ آج انتہائی گھنونی حرکت کے پاداش میں سلاخ کے پیچھے ہے کیا کسی کے وہم و گمان میں بھی تیج پال سنگھ کیلئے ایسا تصور تھا ؟تیز پال سنگھ کے ساتھ کیا معاملہ ہے اور کیا جرم ہے سبھوں کے سامنے پوری طرح واضح ہو چکا ہے۔لیکن دل کے نہاں خانے میں ایک سوال یہ بار بار پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ عرش پر کمند ڈال چکے اور دلوں کو جیت چکے بڑے بڑے لوگوں کا ایسا حشر کیوں ہوتا ہے؟
خلاصہ کلام یہ کہ انسان جب تک انسانیت کا علمبردار ہوتا ہے،اور انسانیت کا پوری طرح لحاظ و خیال رکھتا ہے،تب تک وہ انتہائی با وقار ہوتا ہے،اور دنیا اسے پیار و محبت اور عزت و شہرت کے دولت سے بھی خوب نوازتی ہے،لیکن جب وہی انسان انسانیت سے ذرا برابر بھی ہٹتا ہے تو پھر وہی عوام جو کل تک آپ کو محترم سمجھتی تھی آج حقیر و بدترین انسان سمجھ کر اس قدر ذلیل کرتی ہے کہ انسان خود اپنی نظر میں بھی گر جاتا ہے،جارج ڈبلیو بش سے لیکر ترون تیج پال سنگھ تک سبھوں کا حشر ایسا اس لیے ہوا اور ہورہا ہے کہ انہوں نے انسانیت اور انسانی اصولوں سے بغاوت کیں ہیں ، حیوانیت کا روپ دھاڑ لیا تھا اور یہ تو بہت بڑی سچائی ہے کہ حیوانیت کو بقاءنہیں ہے۔
اللہ ہم سب کو ذلت آمیز حرکات و سکنات سے محفوظ رکھے ۔آمین 

الاثنين، نوفمبر 18، 2013

شرح النصوص الدینیۃ فیما بین العلماء و المفکرین

ثناءاللہ صادق تیمی

هناك مبادرات وتطورات تحمل فى طياتها أسباب السرور والسعادة فيما يبدو غير أنها تسبب مشاكل وفواجع لا تكون فى الحسبان وذلك لأن هذه المبادرات تتجاوز حدودها والتطورات تخرج من دائرتها شوتصل إلى مالا يجدر بها الوصول إليه. وحينئذ يندم الإنسان على ما شعر بتواجده السرور والتذ السعادة بمجرد إحساسه. ويتمثل هذا في المفكرين المسلمين الذين عنوا بالتعليم والثقافة وأحرزوا الفوز الباهر في ميادينهم الخاصة ثم إنهم تبادروا إلى العناية بالدين فهما وعملا. حملت هذه المبادرة إلى المسلمين أشعة جديدة وغمرهم الفرح ولكنها مالبثت ان انقلبت إلى الأسف و الحيرة. لأنهم جعلوا يتجاوزون الحدود فبدلا من أن يعتمدوا على العلماء فى شرح النصوص الدينية من القرآن والسنة, أنهم مالوا إلى الأخذ بناصية الأمر, فجعلوا يشرحونها حسب فهمهم وكثيرا ما يخطئ الفهم إذا لم يكن مقيداً بفهم السلف الصالح وعارفا بأصول الشرح ومبادئه.
ومما لاشك فيه أن هولاء المفكرين يملكون بعض المهارة فى العلوم الحديثة من التكنالوجيا و الهندسة والطب وما إليها و أنهم يعشون حياة رغيدة هنيئة, يسبقون العلماء الإسلاميين فى بعض الأمور ولاسيما الشئون الدنيوية ولهم رسوخ فى السياسة واعتبار فى المجتمع. فكلما تميل هذه الطبقة المثقفة إلى الدين عملا به و فهما يسر به المجتمع المسلم ويمرح به مرحا. يجلها ويكرمها و يكثرمن ذكرها و يرجومنها خيرا كثيرا على مستويات الدين والدنيا و هذا بديهى ولاشك فى أنه أمر يجلب الفرح والسرور.

ولكن المشكلة التى تقلق بال المخلصين وتكدر صفو حياتهم هى تجاوزهم حدودهم وظنهم فى أنفسهم ظنونا تدفعهم إلى أن يشرحوا الدين بما يبدو لهم وأنما يشرحونه لابد من أن يعتبربه. ابتلئ بهذه الطبقة المثقفة العالم الإسلامى كله غير أن شبه القارة الهندية ابتليت بها أكثر. ولأجل ذلك تكثرهنا الانحرافات التعبيرية والمشوشات الفكرية وحماقات ظاهرها الشعور وباطنها السفاهة.
فهل لهذه الظاهرة أسباب أم أنها بدون أسباب؟؟؟ إذن تقتضى المشكلة أن نأخذها بعدة جوانب تفتح حقيقتها ويمكن الوصول إلى الحل.
العلماء وشرح الدين: العلماء ورثة الأنبياء يعرفون الكتاب والسنة. بالإضافة إلى إلمامهم بجهود المحدثين والفقهاء وفهمهم مبادئ الدين وأسراره, فهم يستحقون شرح الدين وتوضيح النصوص ومازالت الأمة المسلمة تعتمد على العلماء بهذا الخصوص ولكنهم لما يخالفون النصوص القرآنية و السنن النبوية الواضحة للحفاظ على هويتهم الفقهية وانتماءاتهم السياسية فى شرح الدين وأحكامه وكثيرا ما يحدث هذا. فإن هذه الطبقة المثقفة تفقد الاعتماد على العلماء وصورتهم الصافية تشوه لديها شيئا فشيئا وحينئذ يجترؤن على أن يشرحوا الدين بأنفسهم بدون أن يسئلوا العلماء ويرجعوا إليهم.
كذلك يخطئ العلماء حينما لا يلتفتون إلى الآراء الصائبة والرؤية العلمية المفيدة والإشارات ذات الجذور العميقة يتقدم بها هولاء المثقفون إليهم, فهم يظنون فى العلماء ظنونا سيئة من اللاعقلانية إلى الرجعية وما إليها ويفهمون خطأ بأنهم أجدر من العلماء بشرح الدين و توضيح النصوص. ثم إنه كل من يتفرغ فى المدرسة العلمية يظن أنه عالم يقدر على شرح الدين وتوضيح الأحكام مهما كانت مقدرته العلمية و فهمه للنصوص !!!
فلا بد للعلماء من محاسبة أنفسهم وتحسين سلوكياتهم وفتح أذهانهم وقبول الآراء الصائبة, كذلك إن الطبقة المثقفة فى حاجة ماسة إلى الاعتراف بقصورها وتجاوز حدووها ويجب عليها أن تفهم بأن شرح الدين وتفسير النصوص ليس أمرا سهلا, أنه يتطلب عمقا وصلاحيات ودراسات متأنية لمبادئ الدين وأصوله وما يتفرع منه, وذلك لا يوجد إلا لدى العلماء الأكفاء. فإنهم إن رؤوا بعض الزلات عند العلماء فعليهم أن ينبهوهم على أخطاءهم كشأننا مع المهند سين يخطئون بعض الأحيان فى العمارة. فهل يعقل أن نسلب من المهندس منصبه ونقوم بالهندسة بأنفسنامع أننا لسنا من مهرة الهندسة؟؟؟
المفكرون و شرح الدين: هناك رجال فى هذه الطبقة عرفوا مبادئ الدين وأصوله وطرق استخراج المسائل بالإضافة إلى شعورهم بالقضايا المتجددة الحديثة وهم رحمة للمجتمع المسلم ومتاع كريم لايستهان به, ولكن معظمهم كسبوا المهارة فى ميادينهم الخاصة, لايعرفون الدين فى مبادئه وطرق استخراج مسائله وأصول التشريع وهم عرفوا ما عرفوا من الدين عن طريق الترجمة لا بالمصادر الأولوية من القرآن والسنة. ولهذه الطبقة فرقتان. فرقة حسنت نيتها وهى مخلصة فى خدمة الدين والمجتمع, تريد أن تعطى المجتمع المسلم خيرا وتجنبه شرا. فإنه من الضرورى أن يمد إليها يد العون والمساعدة وأن تشجع جهودها بالإضافة إلى تصحيح خطأها وإرشادها إلى الطريق السوي المستقيم بالحكمة والموعظة الحسنة واستخدامها ضد العقول المنحرفة المضلة التى لاتسمع إلا لأصحاب العلوم الحديثة المثقفين. وعلى هذه الفرقة المثقفة أن تبذل قصارى مجهوداتها لتعرف أصل الدين وتقوم بنشره وذلك بواسطة العلماء المخلصين والاستفادة من مناهجهم الوسطى بالإضافة إلى الدراسة العميقة للقرآن والسنة وإلا فإن زلة فى هذا الطريق تدفع بالإنسان إلى مالا يحمد عقباه.
وهناك فرقة أخرى لهذه الطبقة المثقفة وهى ماكرة مستأجرة. باعت دينها وإيمانها وتتبحر بعقلها وعلمها.
كل مالديها من المعرفة والشعور إنما هو جهل وكبرياء وغرور. أنها تريد أن تتلاعب بالنصوص الشرعية فتقوم باختبار الأحكام الدينية حسب عقولهم الرهينة وتجترأ على شرح النصوص وتوضيح الأحكام بطرق غريبة لا تلاءم مع مواقف السلف من الصحابة والتابعين. إنها فرقة ماكرة واهية. تنقب المجتمع المسلم مستمدة برخاءها فى الحياة وتطوراتها فى التسهيلات الدنيوية. فلا بد من اتخاذ الحذر ضدها ولكن العاطفية أو الشدة لاتغنى من الأمر شيئا. إننا نحتاج إلى أن نشعر بواجبنا تجاه هذه الفرقة وأعمالها التخريبية وذلك يتطلب منا التركيز على عدة أمور. أولها أن نحسن نظامنا التربوى لكى لا تفسد على جيلنا هذه المحاولات الضالة وثانيها أن نستخدم الطلبة المثقفة المخلصة للرد على هذه المجهودات بالإضافة إلى تأهيل العلماء بالمواهب العلمية حتى يستطيعوا بها الرد على هذه الأفاعيل الماكرة متخذين وسايل ممكنة متوافرة فلو أننا قمنا بواجبنا, فإن الله سيقوم بوفاء وعده. إن تنصرواالله ينصركم ويثبت أقدامكم.


السبت، نوفمبر 16، 2013

سیر دلی کی سرکاری بس سے



ثناءاللہ صادق تیمی ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی
9560878759
بے نام خاں کا ماننا یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی سہولت ملے تو اس کا فائدہ بھر پور انداز میں اٹھانا چاہیے ۔ اور اگر نہ ملے تو اسے حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دینا چاہیے ۔ وہ اکثر اقبال کا یہ شعر گنگناتے رہتے ہیں کہ 
دمادم رواں ہے یم زندگی
ہر اک شی سے پیدا رم زندگی

وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ بیٹا اگر اقبال کی شاعری سمجھناہے تو بس ایک شعر سمجھ لے ان کا پورا فلسفہ اور ان کی پوری شاعری سمجھ میں آجائیگی ۔ اور جانتے ہو وہ شعر کیا ہے ۔ یہی کہ
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوق پرواز ہے زندگی
اس لیے وہ ہمیشہ پرواز بھرنے کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چلتے رہنا چاہیے ۔ حرکت میں برکت ہے ۔ اقبال کا شاہین اسی لیے لپٹتا اور پلٹتا رہتا ہے ۔ یہ ذوق پرواز زندہ رہنا چاہیے ۔ آگے بڑھنے کی ہوس اور پیچھے نہ ہو پانے کی کوشش ہی انسان کی اصل روح ہے اور اسی میں اس کے کما ل کا راز پوشیدہ ہے ۔ ہمارے دوست کی باتیں گہری لگتی ہیں لیکن جب اس کا عملی مظاہرہ سامنے آتا ہے تو اقبال کی شاعری شرمندہ ہوجاتی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے خوبصورت دلہن کی تعریف کرتے ہوئے کوئی کہے کہ اس کی آنکھ  خراب نہيں ہے !  در اصل ہمارے دوست اقبال کی پوری شاعری کا یہ سارا فلسفہ بگھارنے کے بعد گویا ہوئے کہ چلو ڈی ٹی سی بسوں پر دہلی کی سیر کرتے ہيں ۔ بھائی اگر جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں داخلہ ملنے سے پاس کی سہولت میسر ہے تو کیوں نہ دہلی دیکھ لی جائے ۔ ہم نے پوچھا لیکن اس کے پیچھے کوئی مقصد؟ کوئی پلان ؟ بگڑ کربولے تبھی تو بیٹے مولانا لوگوں نے کوئی کارنامہ انجام نہيں دیا ۔ پہلے نکلو ، دنیا دیکھو ، لوگوں سے ملو ، کائنات کا مطالعہ کرو ، اپنے خول سے نکلو اور پھر تمہیں سمجھ میں آجائے کہ یہ دنیا کیا ہے ؟ اور مقصد خود کس طرح تمہارے پاس آجاتا ہے ۔ اقبال کہتے ہیں
خودی کو کربلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اور ہمیں اپنے دوست کی شعرفہمی اور اقبال شناسی کا قائل ہوجانا پڑا ! خیر ان کے کہنے پر نہیں بلکہ اتنے زیادہ اعلا افکار و خیالات سننے کے بعد ہم نے یہ فیصلہ لیا کہ بھائي نکلنا ہی پڑے گا ورنہ بے نام خاں ہمیں کچھ بھی ثابت کرسکتے ہیں! جاہل ، بے وقوف ،نادان، کم فہم اور ناعاقبت اندیش !!!

          جہاں سے پاس بنوایا تھا وہیں سے دس قدم دور بس اسٹاپ پر آکر آدھا گھنٹے کے انتظار کے بعد 615 نمبر کی بس آئی ۔ اب جو دیکھتا ہوں تو آگے پیچھے انسان ہی انسان ہیں ۔ وہی یونیورسٹی کہ جب پہلی مرتبہ اندر آئیے تو ایساسناٹا نظر آئے کہ جیسے یہاں کوئی رہتا ہی نہ ہو اور اسی دانش کدہ جواہر لال نہرو میں بس ایسے کھچاکھچ بھری ہوئی ہے کہ جیسے انسانوں کا سارا قافلہ یہیں آکر ڈیرے ڈالے ہوا ہو ۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ چڑھوں نہ چڑھوں کہ بے نام خاں کمال ہوشیاری اور دانشمندی سے سب سے پہلے سوار ہوگئے اور اندر جاکر خوب زور سے آواز دی کہ میں  بھی چڑھ جاؤں ۔ بے نام خاں کے آواز دینے کے انداز سے لوگ ڈر گئے اور اندر والے بھی باہر آگئے ۔ فائدہ بس یہ ہوا کہ ہم آسانی سے داخل ہی نہيں ہوئے بلکہ ہمیں سیٹ بھی مل گئی ۔ بعد میں جب ہم نے ان سے ادب و احترام کے ساتھ کہا کہ بھائی یہ تم نے کیا کیا تھا تو بولے بیٹا میری وجہ سے جگہ بھی ملی اور مجھے ہی سمجھا رہے ہو ۔ اب میں کیا بولتا !
            بھائی پھر ہم نے کہا کہ یہ بتلايے جانا کہاں ہے ؟ بولے ارے بھائی کونسا پیسہ خرچ ہورہا ہے ۔  جہاں پر کوئی دوسری سرکاری بس نظر آئیگی اسے چھوڑ کر اسے پکڑ لیںگے جہاں جائے گی چلینگے ۔ مختلف بسوں پر بیٹھین گے مختلف جگہوں کو دیکھینگے اور اس طرح پورا فائدہ اٹھائینگے پاس کا ۔ میں نے ایک بار پھر کہاکہ یار کچھ تو مقصد ہونا ہی چاہیے تو بولے اگر ایسی بات ہے تو یہ کرو کہ تم چلے جاؤ واپس اور میں گھومتاہوں بس میں ۔
         کیا کرتے بھائی ہم بھی بے نام خاں کے ساتھ لگے رہے ۔ زندگی کے سارے تجربات ایک ہی دن میں حاصل کرلینے کے ارادے سے نکلے تھے خان صاحب ۔ بسوں کی صورت حال کو دیکھ کر ساغر خیامی کی نظم بار بار یاد آرہی تھی ۔ ایسے بھی ہمیں بسوں میں' وہ' آتی ہے ۔ نہ معلوم کیوں اس دن تھوڑا زیادہ ہی آرہی تھی۔ ہماری بغل میں ایک محترمہ بیٹھیں تھیں ۔ ہم نے ان سے درخواست کیا کہ ہمیں کھڑکی کی  طرف جانے دیں اس لیے کہ ہمیں وہ آتی ہے اور محترمہ ناراض ہوکر بولنے لگیں ، صرف تمہیں ہی نہیں ہمیں بھی آتی ہے ۔ اور جب تھوڑی دیر بعد ان کے لباس فاخرہ پر ہمارے' وہ ' کی نظر کرم پڑی تو کیا منظر تھا بیان سے باہر ۔ ارے پہلے بھی تو بتا سکتے تھے ۔ کتنے غیر مہذب ہوتے ہیں یہ ۔ بسوں میں سفر بھی کرنے نہیں آتا ۔ اگر یہ سلیقہ نہیں تو بسوں میں چڑھتے ہی کیوں ہیں ۔ میں نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا کہ میڈم لیکن 'وہ' تو آپ نے کہا تھا کہ آپ کو بھی آتی ہے ۔ مجھے کیا خبر تھی کہ تمہاری 'وہ ' اتنی تباہ کن ہوگی ۔ میں نے تو سوچا تھا کہ تمہیں بھی میری طرح نیند آتی ہوگی ۔ اس درمیان بے نام خاں ہم سے اس طرح لاتعلق رہے جیسے ہمارا ان کا کوئی رابطہ ہی نہ ہو ۔ ہم نے شکایت کی تو بولے کون سا تم کمزور پڑرہے تھے کہ میں بیچ میں آتا اور یوں بھی جو کام اکیلے کر سکتے ہو ، اس میں مدد کی ذہنیت نہیں رکھنی چاہیے ۔ لیکن اصل مزہ تو تب آیا جب بے نام خاں ایک خاتونی سیٹ پر بیٹھ گئے اور ایک محترمہ نے انہیں اٹھ جانے کا اشارہ کیا اور بے نام خاں یہ کہ کر اڑ گئے کہ میں پہلے آیا تھا اس لیے سیٹ پر بیٹھنے کا حق ہمارا ہے ۔ اس درمیان ہم نے دیکھ لیا تھا کہ اوپر طرف جلی حروف میں ' مہیلائیں ' لکھا ہوا ہے ۔ ہم نے اشارے سے بے نام خاں سے گزارش کی کہ بھائی اٹھ جاؤ ۔ بے نام خاں کو لگا کہ میں اس سے اپنی مدد نہ کرنے کا بدلہ لے رہاہوں اور وہ مجھے بھی غصیلی نگاہوں سے دیکھنے لگے ۔ اب جو ان محترمہ نے ہمارے دوست کو جاہل ، بے وقوف ، بہاری ، گدھے اور ایک پر ایک اعلا القاب کی سوغات دینی شروع کی تو بقیہ دوسرے تمام سواری ہی نہیں ڈرائیور تک ان محترمہ کے ساتھ ہوگئے ۔ ڈرائیور نے یہاں تک کہ دیا کہ یہ لفنگے بے مطلب گھوم رہے ہيں ۔ پاس لیے ہوئے ہیں اور لوگوں کو پریشان کررہے ہیں ۔ پتہ چلا اس بس میں ہم لوگ دوسری مرتبہ سوار ہوئے ہیں اور ڈرائیور ہمیں پہچان گیاہے ۔ اب بے نام خاں کیا کرتے ۔ سیٹ تو انہیں چھوڑنی ہی تھی ۔ اگلے اسٹاپ پر بس سے اتر گئے اور دوسری بس آئی تو بغیر نمبر دیکھے سوار ہوگئے ۔ اور کیا بتایاجائے کہ وہ بس ہمیں کہاں لے گئی ؟؟؟

           رات کا گیارہ بج گيا اور ہم ادھر ادھر مارے مارے پھرتے رہے ۔ اب جہاں تھے وہاں سے کوئي بس نہيں تھی ۔ چارو ناچار آٹو رکشا لینا پڑا اور اس سے پہلے کہ  ہم  بے نام خاں کو لعن طعن کرتے بے نام خاں الٹے ہمارے اوپر شروع ہوگئے اور کیا کچھ سخت سست نہيں کہا ۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ آخر بے نام خاں کے بتائے ہوئے سارے راستے غلط کیوں نکلتے تھے ۔ در اصل جب بے نام خاں کو پتہ نہیں ہوتا تھا تو وہ اور بھی زیادہ اعتماد سے بولتےتھے اور اس طرح ہم بھٹک جاتے تھے ۔ اس دن ہمیں پتہ چلا کہ صرف اعتماد ضروری نہیں ہے بلکہ اعتماد تب فائدہ مند ہوگا جب اس کے ساتھ دولت علم بھی ہو ۔

        ہم آج بھی جب جب پاس بنواتے ہیں تو وہ واقعہ یاد آجاتا ہے اور بے نام خاں ہم سے ناراض ہو جاتے ہیں ۔ دلی دیکھنا حالانکہ اپنے  آپ میں ایک خوشگوار تجربہ ہوتا ہے لیکن سرکاری بس میں یہ تھوڑا زیادہ ہی خوشگوار ہوجاتا ہے ۔ اور خاص طور سے جب آپ کے ہمراہ بے نام خاں ہوں ۔ ایک مرتبہ تو بھیڑ ایسی تھی کہ ہم نے ایک بزرگ کا ہاتھ یہ سمجھ کر پکڑ لیا کہ یہ بے نام خاں کا ہاتھ ہے اور اس پر جناب کیا بتلائیں کہ کیا ہنگامہ ہوا ۔ اس کے بعد تو ہم نے بس میں کسی کا بھی ہاتھ پکڑنے سے توبہ ہی کر لیا ۔ ایسے اگر دلی دیکھنا ہو تو اس سے اچھی اور کوئی شکل ہماری نظر میں ہے بھی نہيں ۔بے نام خاں کا ماننا ہے کہ سرکاری بس میں آدمی کی اہمیت گھٹتی ہو تو گھٹتی ہو لیکن پیسے کا بچاؤ ضرور ہوتا ہے ۔
            ہمارے دوست اسے اسلامی نقطہ نظر سے بھی ثابت کرتے ہيں اور کہتے ہیں کہ قل سیروا فی الارض تو کہا ہی گیا ہے ۔ لاتسرفوا اور ان المبذرین کا نوا اخوان الشیاطین بھی کہا گیا ہے ۔ اتنا ہی نہيں بلکہ اسلامی اعتبار سے دنیا کا مطالعہ بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے ۔ ایسے بھی سفر وسیلہ ظفر ہے ۔ اور اگر انسان تھوڑی مشکلوں کا سامنا نہ کرے تو اس کی عادت بگڑ جائیگی اور وہ آرام پسند ہوجائیگا ۔  اصغر گونڈوی کا شعر ہے ۔
                    چلاجاتاہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
                    اگر آسانیاں ہوں ، زندگی دشوار ہو جائے
وہ مجھے میرا ہی شعر یاد دلاتے ہیں کہ
                   کٹھن حالات میں دنیا سمجھ میں اور آئی
                 مزہ سفینے کا اصلا بھنور میں رہتا  ہے
ہمارے دوست ہم سے اکثر کہا کرتے ہیں کہ تم یہ مت دیکھو کہ دنیا کیا کہے گی بلکہ یہ دیکھو کہ تم جو کچھ کر رہے ہو وہ تمہارے رب کے مطابق اور تمارے اپنے اصولوں کے اعتبار سے درست ہے یا نہيں ۔ بس میں اس لیے سفر نہ کرنا کہ اس سے آپ کو لوگ کمتر خیال کرینگے ، انتہائی درجے میں کمتر ہونے کی دلیل ہے ۔ اگر اللہ نے صلاحیت دی ہے تو موٹر کار پہ گھومیے نہیں تو بس میں سفر کرنا کوئي خراب بات نہیں ۔ میرا بس چلے تو سارے لوگوں کے لیے بس کی سواری کو لازم کردوں کہ ٹریفک کا سارا معاملہ درست ہوجائے ۔ لیکن کیاکروں ۔ اپنے بس میں ہے ہی کیا۔ بے نام خاں کی حسرت دیکھنے کے لائق ہوتی ہے ۔

الخميس، أكتوبر 31، 2013

سعودی عرب ، عالم اسلام اور ہندوستانی مسلمان



ثناءاللہ صادق تیمی  ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی 
110067

     یوں تو پوری دنیا ہی افواہوں اور خوش فہمیوں کے زیر اثر جیتی ہے لیکن اس معاملے میں بر صغیر ہندو پاک کے اندر جینے والے مسلمانوں کو خصوصیت حاصل ہے ۔ یہی وجہ  ہے کہ یہاں کا مسلمان زیادہ تر اپنے دینی معاملات میں خرافات کا شکار ہے اسے تحقیق سے مطلب نہیں ۔ سیاسی معاملات میں افواہوں کے پیچھے بھاگتا ہے اور قاتل تک کو مسیحا اس لیے سمجھ لیتا ہے کہ کچھ ضمیر فروش قسم کے لوگ اسے مسیحا بنا کر پیش کردیتے ہیں ۔ اور بین الاقوامی امور کو سمجھے بغیر خوش فہمیوں کے سہارے اپنی نہ صرف یہ کہ رائے قائم کرلیتا ہے بلکہ اس پر اصرار بھی کرنے لگتا ہے۔ سعودی عرب ایک موحد اور کامیاب حکومت ہے ۔ اس نظام کی اپنی خصوصیات اور اپنے امتیازات ہیں ۔ حکموت کی اپنی ترجیحات اور اپنے دینی و دعوتی مقاصد ہیں اور اسے پتہ ہے کب کون سا موقف اس کے دور بیں مقاصد کو بہتر طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اس کے معاون ثابت ہوںگے ۔ اور اب تک کی تاریخ بتلاتی ہے کہ سعودی عرب کا سیاسی موقف نہ صرف یہ کہ اسے مضبوطی فراہم کرتا ہے بلکہ پورے عالم اسلام کے حق میں فوائد کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے ۔ لیکن معاملہ لچر فکر کے مالکوں کو سمجھ میں نہیں آتا ۔ اندھے عقیدت مندوں کو صدام حسین کا ہر اقدام بہادری لگتا ہے ۔ ایران کی ہر بے وقوفی شجاعت کی تاریخ مرتب کرتی ہے لیکن سعودی عرب کا خالص دانشمندانہ قدم بھی بے وقوفی اور جہالت کا آئینہ دار ۔ بات اصل یہ ہے کہ ہم ہر ایک چیز کو وابستگی یا پھر ناوابستگی کی نظرسے دیھکتے ہیں اور وہیں سے فیصلے بھی لیتے ہیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ در اصل حقائق کی بجائے فسانوں کی اس دنیا میں جیتے ہیں جو اگر حقیقت بن جائیں تو خود وہ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جائیں ۔
            مصر کی تاریخ پر نظر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ مصر عالم اسلام کا وہ واحد ایسا ملک ہے جہاں نام نہاد دانشوران کی تعداد ہمیشہ زیادہ رہی ہے ۔ اخوان المسلمین کی تاریخ قربانیوں سے عبارت ضرور ہے لیکن اس  تاریخ کے  بہت سے صفحے تشدد اور اپنے قائم کیے ہوئے خاص نظریے پر حماقت آمیز اصرار سے بھی عبارت ہيں ۔ مصر کے اندر جہاں نئی تعلیم سے آراستہ نام نہاد دانشوران کا وہ طبقہ ہے جو سوائے لبرل ، سیکولر اور لادین حکومت کے سوا کچھ نہيں چاہتا وہيں ایک بڑا طبقہ وہ بھی ہے جو خرافاتی دین کے علاوہ اور کسی دینی جماعت کے حق میں جانے کوتیار نہیں ۔ جو لوگ مصری اخبارت کا مطالعہ کرتے ہیں ان کے لیے صورت حال کی سچائی سے واقف ہونا بعید بات نہيں ۔ ایسے میں جب کسی ملک کا فوجی نظام اپنے ہاتھ میں اختیارات لے لے اور وہ بھی تب جب  عوام سڑکوں پر آکر حکومت کے خلاف نعرہ بازیاں کررہے ہوں کون سا موقف درست ہو سکتا ہے وہ یقینا قابل تفکیر معاملہ ہو جاتا ہے ۔ یہاں پر بلاشبہ اس بات پر غور کیا جاسکتا ہے کہ سڑکوں پر اترے لوگ اسپانسرڈ تو نہیں ہیں لیکن کون سا موقف درست ہو سکتا ہے اس پر سوچنا اس سے بھی زیادہ اہم ہوجاتا ہے ۔ یہاں اس بات کا ذہن میں رکھنا ضروری بھی ہے کہ فوج کے ہاتھ میں جب نظام آجا ئے تو اسے واپس لے پانا آسان نہیں ہوتا ۔ اور جب اس رسہ کشی میں ہزاروں جانیں تلف ہوچکیں ہوں تو یہ مسئلہ اور بھی گمبھیر ہوجاتا ہے کہ کیا کیا جائے ۔ اگر انسانی جانوں کی قیمت ہے اور انتشار سے ملک کمزور ہوتا ہے اور دشمنوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں  تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ سعودی عرب کا موقف در اصل نہ صرف یہ دانشمندانہ اور مضبوط ہے بلکہ اس سے کئی سارے مفاسد کے راستے بند ہو جاتے ہیں ۔                  
         عالم اسلام کے حالات سے واقف لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ اہل تشیع ہمیشہ اہل سنت والجماعت کے خلاف صف آراء رہتے ہیں اور انہیں جہاں کہیں بھی موقع ملتا ہے مسلمانوں کو کمزور کرنے کی کوشش سے نہيں چوکتے ۔ مصر ، لبنان اور دوسری جگہوں پر ان کے جو سیاہ کارنامے رہے ہیں ان کے پیش نظر بھی سعودی عرب کا یہ اقدام اس تناظر میں عالم اسلام کے لیے رحمت ہے کہ اس سے کم ازکم تشیع کے ناپاک عزائم کی تکمیل نہيں ہوپائیگی ۔  اب اگر ہندوستانی شیعوں کارونا دیکھا جائے یا پھر قبوریوں کی آہیں سنی جائیں تو سمجھ میں آنے والی بات لگتی ہے کہ ان کا دینی، سیاسی ہر طرح کا موقف یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی طرح موحد حکومت کمزور ہو لیکن سمجھداری کے دعویداران بعض پڑھے لکھے حضرات کی چیخ و پکار خود ان کی دانشورانہ حیثیت پر سوالیہ نشان بن جاتی ہے اور ان کے درون کے پردے بھی کھول دیتی ہے ۔ 
              بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سعودی حکومت کا یہ موقف ناسمجھی یا پھر موقع پرستی کی مثال ہے لیکن ذرا سمجھداری سے سوچا جائے تو پتہ چلے کہ در اصل یہی دانشمندی کی مثال ہے ۔ جمہوریت کا رونا رونے والے نہیں جانتے کہ جہاں جہاں نام نہاد جمہوریت نے عالم اسلام میں پر پھیلایا وہاں کا سب کجھ داؤ پر لگ گیا ۔ اخوان المسلمین کو اس پورے معاملے سے سبق سیکھنے کی بھی ضرورت ہے ۔ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بے وجہ کا تشدد نقصاندہ ہوتا ہے اور پھر یہ بھی کہ ایک قائم دائم موحد حکموت کے خلاف زمین ہموار کرنے کی کوشش حماقت آمیز ہوتی ہے ۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ سعودی عرب کی اندرونی یورشوں کے پیچھے یا تو شیعہ ہوتے ہیں  یا پھر یہی تحریکی حضرات ۔ در اصل ہندوستانی تحریکی حضرات کی مانند مصری تحریکیوں کا معاملہ بھی یہی ہے کہ انہیں شورش برپا کرنے کا اتنا شوق ہو تا ہے کہ اس کے علاوہ انہیں اور کچھ سوجھتا ہی  نہیں ۔ اور انہیں اپنی دینی ذمہ داری لگتی ہے کہ کسی بھی طرح حکموت ہاتھ آئے تاکہ وہ اپنے قائم کردہ معیاری نظام کو نافذ کرسکیں ۔ ہندوستان میں لگ بھگ ستر سال بعد ان کی سمجھ میں اب آیا ہے کہ صحیح موقف کیا ہو سکتا ہے اور ادھر جاکر انہوں نے سیاسی طور پر اپنے آپ کو یہاں کی ضرورتوں کے مطابق ڈھالا ہے ۔ اللہ کرے کہ سمجھداری کی روش ان کے ہم فکر افراد کو مصر وغیرہ میں بھی اپنانے کی توفیق ملے ۔  ذرا اس پہلو سے سوچیے تو پتہ چلے کہ جو لوگ اپنی لچر فکر کی وجہ سے بڑا نقصان کر سکتے ہوں ، ان کے پے در پے حماقتوں پر پردہ ڈال کر ان کے ساتھ ہونا کتنا بڑا احمقانہ رویہ ہو سکتا ہے ۔ اور خاص طور سے اس وقت جب اس کے ساتھ جانا خود اس کے حق میں بہتر نہ ہو اور ملک داخلی انتشار کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے ۔ پھر دنیا جانتی ہے کہ اس آشوب زدہ دور میں سعودی عرب وہ واحد نظام ہے جس نے اسلام کے نفاذ کو عملا برت کر دکھلایا ہے اور پوری دنیا میں اسلام کو متعارف کرانے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس نظام کی یہ کامیابیاں ایسے ہی نہيں حاصل ہوگئی ہیں بلکہ اس کے پیچھے دانشمندیوں کی لمبی چوڑی تاریخ ہے لیکن یہ بات ان لوگوں کو کیسے سمجھ میں آئيگی جو تقریر کی لذتوں کے تو اسیر ہیں لیکن جنہیں عملی اقدامات کی اہمیت کا احساس نہیں یا پھر جو بڑی بڑی بولیاں بول لینے کو دانشمندی اور اظہار رائے کی معراج سمجھتے ہیں ۔ رہی بات سعودی عرب کے اس مضبوط سیاسی موقف پر بعض کم سوادوں کا سلفی الفکر حضرات کو مشق نشانہ بنانا تو اس سے دل برداشتہ ہونے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ ان بے چاروں کا حال تو یہ ہے کہ ادھر اپنی جرات رندانہ کا شور بھی مچاتے ہیں اور جب سعودی عرب کا کوئی وفد آجائے تو پھر جھوٹ سچ بول کر اپنی وفاداریوں کی داستان بھی جھوم جھوم کر سناتے ہیں  ۔ اس پورے معاملے میں جناب سلمان حسنی ندوی صاحب کی شجاعت کا شور تھوڑا زیادہ ہی ہے اور عالی جناب کا عالم یہ ہے امام حرم شیخ عبدالرحمن السدیس کی آمد کے موقعے پر حضرت نے اس  طرح جھوٹ سچ کا  کھیل کھیلا کہ ان کے اپنے بھی چیخے بغیر نہ رہ سکے ۔ اہل حدیثوں پر ان دنوں ستم اس لیے بھی زیادہ ہے کہ نئی نسل جوق در جوق حق و صداقت کی اس راہ پر بڑھ رہی ہے جس سے  ایوان اندھی  تقلید اور خرافات میں زلزلہ برپا ہے ۔ اللہ سے دعا کرنا چاہیے کہ اللہ اس صداقت کو اور بھی عام کرے ۔
         یہاں اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ سعودی حکومت سے غلطی ہو سکتی ہے جس پر اس کی ناصحانہ تنبیہ ضروری بھی ہے لیکن اسے اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع سمجھنا لینا یا پھر ایک خاص فکر کے لوگوں پر نشانہ سادھ لینا انصاف کا راستہ نہیں ۔ ہمارا سعودی عرب کے ساتھ رشتہ یہ ہے کہ وہ ایک موحد حکومت ہے جو صحیح دین پھیلانے کی کوشش کرتی ہے اس لیے ہم اس کی مضبوطی کی دعا کرتے ہیں ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز یہ نکالا جائے کہ اس کی غلطیوں کو ہم اندھی محبت میں صحیح سمجھتے ہیں  لیکن اگر اس کا موقف دانشمندانہ ہو تو اس صرف اس لیے اس کا ساتھ نہ دینا کہ کچھ لچر فکر کے حاملین اس کے خلاف ہیں ہماری کمزوری کو درشاتا ہے ۔ اللہ ہمیں ایسی کمزوری سے بچائے ۔

الخميس، أكتوبر 03، 2013

حقیقت



ساگر تیمی
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی ،9560878759 نئی دہلی 
110067

تم ملی ہو تو جی میں آیا ہے
آج کہدوں جو بات ہے دل میں
تیرا چہرہ گلاب ہو جیسے
اور آنکھیں شراب کی مانند
زلف جیسے کہ ایک کالی رات
ہونٹ گل کے حسین دو پتے
مسکراؤ تو ایسا لگتا ہے
جیسے جنت زمین پر آئی
حور اتری ہو میر ے آنگن میں
تم کو دیکھوں تو ایسا لگتا ہے
نانی اماں کی سب کہانی میں
جس پری رو کا ذکر آتا تھا
وہ حسیں داستانوں کی ملکہ
حسن کو جس پہ ناز ہوتا تھا
تیری صورت میں ہے اتر آئی
یاد پھر دادا جی بھی آتے ہیں
ان کے کومل حسین قصوں میں
ایک چنچل سی شوخ شہزادی
سارے قصے پہ چھائی رہتی تھی
دل میں آتا ہے وہ تمہیں تو نہیں
پھر یہ خواہش بھی ساتھ آتی ہے
میں کہوں ساری دنیا سے یہ بات
میری جاناں تو شاہزادی ہے
سلطنت دل کی ہے وہی ملکہ
اور وہی روح ہے خیالوں کی
پھر مجھے میرا دل بتاتا ہے
یہ محبت نہیں ہے دھوکہ ہے
یہ تو  شبدوں کا کھیل ہے شاید
اور تم جھوٹ کے بیوپاری ہو
اس لیے اے میرے خیال کی روح
تم سے کہدوں جو ہے حقیقت میں
پھاڑ ڈالوں نقاب شبدوں  کا
تو پری ہے نہ کوئی شہزادی
نہ کوئی حور آئی جنت سے
تم تو الھڑ سی اک حسینہ ہو
 ایک لڑکی سیدھی سادھی سی
اور میں تجھ سے پیار کرتا ہوں
کیا تمہیں یہ پسند آئے گا ؟

الثلاثاء، سبتمبر 03، 2013

عقیدت اندھی ہوتی ہے

ثناءاللہ صادق تیمی
جواہر لال نہرویونیورسٹی ، نئی دہلی -67

پچھلے دنوں محلے کی ایک مسجد میں ہماری بحث ایک خاص مسلک کے متبع عالم دین سے ہورہی تھی ۔ بات در اصل اس بات پر ہو رہی تھی کہ پورے اسلام پر عمل کرنے کا مطلب کیاہے ؟ اللہ اور رسول کے مطابق چلنا ہی اصل اسلام ہے ، یہ  ہمارا ماننا تھا اور اس کے لیے ہم قرآن و سنت کے دلائل فراہم کررہے تھے ۔ ان کا ماننا تھا کہ ایک نہ ایک امام کی تقلید ضروری ہے ۔ ہم نے کہا بھائی لیکن چوتھی صدی ہجری تک تو اس قسم کی تقلید کا کوئی رواج نہ تھا جیسا کہ مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے ۔ پھر جب ہم نے ان سے یہ کہا کہ آپ کے امام صاحب کے دو زیادہ بڑے اورمحترم شاگردان نے خود مسائل میں  ان سے اختلاف کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے اور ہم خود بھی امام صاحب کی ان ہی باتوں کو مانتے ہیں جو قرآن و سنت کے مطابق ہوں ۔ ہم نے کہا کہ اگر بات ایسی ہے تو ہمارے اور آپ کے درمیان فرق کہاں رہا ۔ ہماری تو پوری دعوت ہی یہ ہے کہ اصل مرجع قرآن و سنت کو بنایا جائے ۔ علماء ، بزرگ اور فقہاء کرام کی کوششوں سے استفادہ اور ان کا احترام ضروری ہے لیکن ان کو قرآن و سنت کا درجہ دے دینا در اصل ایک طرح سے دین کی اصل اساس کو ختم کردینے جیسا ہے ۔ لیکن بحث میں تو بات سے بات نکلتی ہے انہوں نے ایک عالم دین کا حوالہ دے کر ہم سے کہا کہ دیکھیے آپ کے گروپ کے عالم صحابہ کے ساتھ گستاخی کرتے ہیں ۔ ہم نے کہا کہ بشرطیکہ یہ بات درست ہو جو آپ بیان کررہے ہیں تو ہم اپنی برائت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے حق میں عفو و درگذر کی دعا کرتے ہیں ۔اس لیے کہ غلط اس لیے صحیح نہیں ہو سکتا کہ ہماری جماعت یا گروپ کے کسی آدمی نے کہا ہے ۔ ہم نے پھر ان سے کہا کہ میرے بھائی اگر یہی رویہ ہم میں سے ہر آدمی اپنا لے کہ آگر کسی کی بھی بات ہوگی اور وہ قرآن وسنت کے خلاف ہوگی تو ہم اسے تسلیم نہیں کرینگے بلکہ ان کا احترام کرتے ہوئے اس لیے مسترد کردینگے کہ وہ اللہ کے رسول کے لائے ہوئے دین کے مطابق نہیں ہے ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس سے ان کی اہمیت کم ہو جائیگی یا ان کا رتبہ گھٹ جائیگا ۔ پھر ہم نے ان کو ایک بزرگ کا واقعہ سنایا اور کہا کہ دیکھیے جب ان کے مرید نے ان سے یہ کہا کہ رات کو خواب میں وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ رہے تھے تو محمد رسول اللہ کی جگہ حضرت کا نام آجارہا تھا ۔  صبح بیدار ہو کر بھی جب کوشش کی تو رات والا ہی معاملہ سامنے آیا ۔ اس پر بزرگ نے کہا کہ اشتیاق و محبت میں ایسا ہوجاتا ہے ۔ بھلا بتلائیے حضرت کو ایسا کہنا چاہیے تھا ؟ جناب عالی : ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ان صاحب نے یہ کہا کہ اس سے ان کا نبی ہونے کا دعوی کرنا تو ثابت نہیں ہوتا ! وہ بڑے عالم اور بزرگ تھے انہوں نے ایسا کہا تو ضرور کچھ سوچ کر کہا ہوگا!!! ہم نے کہا میرے بھائی ہم تو خود ان کی دینی کوششوں اور خدمات کے معترف ہیں اور الحمد للہ ان کو نبوت کا دعویدار نہيں مانتے ہم تو صرف یہ کہ رہے ہیں  کہ دیھکیے یہاں پر حضرت سے چوک ہوگئی ۔ انہيں کہنا چاہیے تھا اپنے مرید سے کہ تم ایک مرتبہ پھر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھو ، توبہ کرو اور شیطانی وسوسے سے پناہ طلب کرو اللہ کی ۔لیکن انہوں نےایسا نہیں کیا ۔ آپ کو پتہ ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو آپ کی آمد پر چھوٹی چھوٹی لڑکیوں نے خوشیاں مناتے ہوئے گانا گایا اور اس میں کہا کہ ہمارے درمیان ایسے نبی ہیں جو کل کی بات بھی جانتے ہیں آپ نے فورا منع کیا اور کہا اس سے پہلے جو کچھ گارہیں تھیں وہی گائیے ایسا مت کہیے ۔ اسی طرح آپ نے اس صحابی کی تنبیہ کی جنہوں نے یہ کہا کہ جو اللہ چاہے گا اور آپ چاہیںگے وہی ہوگا آپ نے فرمایا نہیں بلکہ وہ ہوگا جو صرف اللہ چاہے گا ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اللہ نے بھی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت وفضیلت کو بیان کیا اور آپ کا مرتبہ بیان کیا وہیں اگر آپ سے کہیں پر چوک ہوئی یا آپ سے بتقاضے بشریت کہیں کوئی غلطی ہوئی تو آپ کی اصلاح کی گئی۔ نابینا صحابی کے مقابلے میں صنادید قریش کو ترجیح دینے کا معاملہ ہو یا بیویوں کے کہنے پر شہد نہ کھانے کا عہد کرنے کا معاملہ ہو یا بغیر ان شاءاللہ کہے مسئلہ کل بتانے کا وعدہ کرنے کا معاملہ ہو ہر جگہ اللہ نے آپ کی اصلاح کی اور آپ کو غلطی پر باقی نہ رہنے دیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلطی شریعت نہیں بنائی گئی تو اور لوگوں کی غلطی شریعت کیسے بن سکتی ہے ؟
            ہم نے مولانا سے کہا میرے بھائی ! آپ اگر حدیث پر اس لیے عمل کرتے ہیں کہ یہ حدیث آپ کے مسلک کے مطابق ہے تو سوچیے آپ حدیث کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں ۔ اس پر انہوں نے کہا ایسی بات نہیں اور جب ہم نے ایک بڑے فقیہ کی بات نقل کی تو پھر سے اس کی الٹی سیدھی تاویل کرنے لگے ۔ ہم نے کہا کہ دیکھیے اگر یہ بات ایک ادنی مسلمان سے کہی جائے کہ آپ اللہ رسول کی بات مانیںگے یا کسی اور کی ان کے مقابلے میں تو وہ یہی کہے گا کہ وہ اللہ رسول کی بات مانے گا ۔ حضرت فقیہ سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے امام صاحب کی بات کو اصل حیثیت دے دی اور کہا کہ اگر قرآنی آیت یا حدیث امام صاحب کے قول سے ٹکرائے تو امام صاحب کے قول کی بجائے آیت یا حدیث کی تاویل کی جائے گی یا اسے منسوخ سمجھا جائیگا ۔ مولانا نے یہاں بھی کہا تو یہ کہا کہ اس کا اور بھی مطلب ہو سکتا ہے ۔ ہم نے انہیں علامہ ارشد القادری کی لکھی ہوئی کتاب' زلزلہ ' اور اس پر مولانا عامر عثمانی صاحب کا یہ تبصرہ بھی سنایا  کہ یاتو ان مشمولات کو غلط ثابت کیا جائے یا پھر ساری کتابوں میں بیچ چوراہے پر آگ لگائی جائے ۔
                    ہم نے مولانا سے بتلایا کہ دراصل اس رویے سے سارا اسلام خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔ ہم نے ان سے از راہ تذکرہ جے این یو کے اپنے ایک دوست کی اس بات کو بھی نقل کیا کہ عاملین بالحدیث کے اس گروہ نے ہندوستان میں زیادہ تر ٹانگ کھینچنے کا کام کیا ہے ۔ ہر چند کہ اس میں صرف جزوی سچائی پائی جاتی ہے لیکن   ہم نے  کہا کہ اگر ان لوگوں  کی یہ تنقیدی کاوشیں نہ ہوتیں تو نہ جانے یہاں کا سواد اعظم عقیدت کے راستے کن گمراہیوں میں جا گرا ہوتا اور ہمارے جے این یو کے دوست نے ہماری بات سے اتفاق کیا ۔ جو ظاہر ہے ان کی انصاف پسندی اور اعلی ظرفی کی دلیل تھی ۔
            ہوتا یہ ہے کہ جب ہم یا آپ کسی کی عظمت دل میں بٹھالیتے ہیں تو پھر اس کی ہر صحیح غلط بات ہمیں اچھی اور بھلی معلوم ہونے لگتی ہے ۔ ہم ایک خاص تناظر میں ہی چیزوں کو دیکھتے ہیں ۔ ہمارا سارا زور اپنے محبوب و معتقد کو سب سے اعلی ثابت کرنے پر ہوتا ہے ۔ اور اس چکر میں ہم سارے حدود پھلانگ دیتے ہیں ۔ اس کی کئی سطحوں پر مثالیں مل جائینگی ۔
            ہماری عقیدت کے سب سے بڑے مرکز رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس لیے سب سے زیادہ گمراہی بھی اسی راستے سے امت میں آئی لوگوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ سے بھی زیادہ درجہ دے دیا اوریہاں تک کہا گیا کہ اللہ کی جھولی میں وحدت کے سوا کچھ نہیں جو کچھ لینا ہوگا محمد سے لے لینگے ۔ بعضوں نے پوری کائنات کا خلاصہ آپ کو گردانا، کسی نے یہ سمجھا کہ اگر آپ نہ ہوتے تو کائنات کی تخلیق نہ   کی جاتی اور نہ جانے کیا کیا خرافات آپ سے جوڑے گیے ۔ اسی طرح اولیا ء کرام سے عقیدت میں لوگوں نے انہیں انبیاء سے بھی اونچا اٹھا دیا اور یہاں تک کہا گیا کہ معراج میں جب رسول چھوٹے پر رہے تھے تو پیران پیر نے انہیں سہارادیا اور اس طرح رسول معراج سے سرفراز ہوئے ۔ یہی نہیں بلکہ ان سے وہ تمام خدائی صفات منسوب کیے گیے جن پر اللہ کے علاوہ کوئی قادر نہیں۔ اسی لیے اسلام میں دین کی بنیاد عقیدت کی بجائے اصولوں پر رکھی گئی اور اس قسم کے سارے دروازوں کو بند کردیا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد جب حضرت عمررضی اللہ عنہ  جیسے صحابہ نے یہ کہا کہ اگرکوئی یہ کہے گا کہ محمد انتقال کرگيے ہیں تو میں اس کی گردن اڑادونگا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بہت اعتماد کے ساتھ قرآنی آیت پیش کرتے ہوئے بتلایا کہ جو کوئی محمد کی عبادت کیا کرتا تھا تو محمد البتہ مر چکے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ حی قیوم ہے ۔ صحابہ نے اصول ، علم اور حق کی بنیاد پر ایک دوسرے کو ناکارا بھی اور ایک دوسرے سے استفادہ بھی کیا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک کے معاملے میں صحابہ اصول کے مطابق عمل کرتے تھے ۔ اللہ کے رسول نے جب حضرت بریرہ سے کہا کہ وہ مغیث کو لوٹالیں تو بریرہ رضی اللہ عنھا نے پوچھا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے یا صرف مشورہ یعنی آپ یہ بات بحیثیت رسول ارشاد فرماتے ہیں یا بحیثیت محمد ابن عبد اللہ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا یہ ایک مشورہ ہے اور ہم عبداللہ کے بیٹے کی حیثیت سے فرمارہے ہیں اللہ کے رسول کی حیثیت سے نہيں تو بریرہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ کو قبول نہیں کیا اور اسے ان کی جرائت بے جا بھی نہ سمجھا گیا ۔ جب کہ وہی صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک حکم پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کوتیار رہا کرتے تھے ۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ خاص طور سے برصغیر ہندوپاک کے اندر عقیدت کا یہ مرض تھوڑا زیادہ ہی پایا جاتاہے ۔جہاں یہ برادران وطن کے یہاں بہت ہے وہیں مسلمانوں کی اکثریت بھی غلط طور سے اس عقیدت کے ہتھے چڑھی ہوئی ہے ۔ اور صحیح اور واقعی دین سے کوسوں دور ہے ۔ اسلام کی بنیا د کھرے اور واضح اصولوں پر ہے جب بھی اور جہاں بھی اس کی جگہ عقیدت لے ليگي سمجھ لیجے کہ گمراہی کا دروازہ کھل جائيگا ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہ نکالاجائے کہ وہ محبت و وابستگی جس کی بنیاد قرآن وسنت میں موجود ہے ہم اس کے خلاف ہیں کہ اس کے بغیر تو دین کا تصور ہی غلط ہوجائیگا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کی گمراہی کی بھی اصل وجہ یہ عقیدت ہی تھی اور اسی کا فائدہ اٹھاکر شیطان نے ان کو حق سے منحرف کردیا ۔ آج بھی جہاں جہاں مذہب کے نام پر مختلف دکانیں سجی ہوئی ہیں ان میں اس عقیدت کی اپنی کارفرمائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔لیکن کیا کیجیے کہ معاملہ اتنا آسان بھی نہیں ایک طرف تو مسلمانان ہند کا وہ طبقہ ہے جو علماء کو خدا کا درجہ دینے پر تلاہوا ہے اور رسولوں کے منصب پر نقب زنی کرنے کو تیار ہے وہیں دوسرا ایک طبقہ وہ بھی ہے جو سرے سے علماء کی کسی حیثیت کا قائل ہی نہيں بلکہ تمام طرح کی خرابیوں کا اسے ہی مرجع سمجھتا ہے ۔ یہ بلاشبہ افسوسنا ک بات ہے اور اس سے خرابیوں کی کئی سبیلیں نکلتی ہيں ۔ ہر دوصورت میں در اصل معاملہ اسی اصول سے انحراف کا ہے ۔ اللہ ہمیں بہتر توفیق عنایت کرے آمین ۔