الأربعاء، ديسمبر 28، 2016

نکاح ثانی
ساگر تیمی
دالان میں وہی دس بارہ لوگ رہے ہوں گے ۔ گاؤں کے چودھری، مولوی ، کسان اور مزدور سب کی نمائندگی کسی نہ کسی طرح ہورہی تھی ۔ سب اپنی اپنی حیثيت کے مطابق ہی بیٹھے ہوئے تھے ۔ مزدوروں کا ٹھکانہ وہی زمین کا فرش تھا ، کسان چوکی پر ، مولوی کے لیے کرسی تھی اور چودھری جی مسند پر ٹیک لگائے حقہ گڑگڑا رہے تھے ۔ بات امیرالاسلام کی ہی ہورہی تھی ، چودھری صاحب مزہ لے رہے تھے اور مولوی مرچ مصالحہ ملا رہا تھا ۔
چودھری : ویسے امیر صاحب  اتنے بھی بوڑھے تو نہیں ہوگئے ہیں کہ دوسری شادی نہیں کرسکتے ۔
مولوی : چودھری صاحب ! اس عمر میں نئی عمر کی لڑکی سے شادی کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے !
چودھری : اگر ایسی ہی بات ہے مولانا ! تو آپ اپنے اور ہمارے لیے بھی کوئی کمسن حسینہ کیوں نہیں دیکھتے ۔۔۔۔ اور دیر تک ٹھہاکے لگتے رہے ۔
چودھری : امیرالاسلام کو کم از کم یہ تو سمجھنا چاہیے کہ اس کے بچوں پر اس کا کیا اثر پڑے گا ؟
مولوی : صرف بچوں پر نہيں جناب ! اثر تو سماج پر بھی پڑتا ہے ، اس عمر میں کیا شیطنت سوجھی ہے ان کو ، اب تو چھوٹی عمر کی بچیاں چاچا دادا کی عمر کے لوگوں سے گھبرا کر ہی رہیں گیں ۔
اب جیسے مزدوروں اور کسانوں کو بھی موقع ملا ۔ پلٹو کسان نے اپنی منطق رکھی ، بات یہ ہے مولوی صاحب کہ آپ جیسے ہی لوگ تو نکاح بھی پڑھائيں گے اور یہ بھی کہیں گے کہ شریعت کب منع کرتی ہے ؟ آپ تو خیر سے سمجھدار مولانا ہیں !! اس پر چودھری نے " سمجھدار" کو زرا زور دے کر ادا کیا اور پھر ٹھہاکے ہی ٹھہاکے تھے ۔ مولوی صاحب نے پہلے تو ذرا منہہ بنایا اور پھر خود بھی ٹھہاکے کا حصہ ہوگئے ۔ نتھنی مزدور نے اور بھی تگڑا دیا : بات یہ ہے حجور! کہ ہم مجدوروں کی حیشیت ہی نہیں ، امیر الاسلام ساحب کے پاش شلاحیت ہے تو وہ کررہے ہیں ، ویسے ہونے دیجیے تب پتہ چلے گا کہ کیا بیتتا ہے ان پر ۔۔۔
باتیں ہورہی تھیں ، اس بیچ چودھری صاحب کے یہاں سے چائے بھی آگئی اور اب تو جیسے اس محفل کو کم از کم ایک گھنٹہ اور کھنچ ہی جانا تھا ۔ اسی درمیان دالان سے امیرالاسلام کے منجھلے بیٹے شوکت کا گزرنا ہوا ، چودھری صاحب نے آواز دی ۔
شوکت بابو ! ارے سنیے ! مٹھائی کھلائیے ، پتہ چلا ہے کہ ایک دم سے جوان ماں آرہی ہے آپ کے گھر ! صاحب ! ہر ایک کو ایسی قسمت تھوڑی ہی ملتی ہے ! پھر سے ٹھہاکے تھے اور شوکت تیز قدموں سے سر نیچا کیے نکل بھاگے ۔
   برکت کا غصہ زیادہ خراب تھا ، ابو کو اب شادی کرنے کی کیا ضرورت ہے ، یار! اب تو ہمارے بچے بڑے ہورہے ہیں ، کون سا امی مرگئی ہوئی ہیں ، یہ کس قسم کا شوق چرارہا ہے انہیں ؟
شوکت : بھیا ! گاؤں والے بھی مذاق اڑا رہے ہیں ، چودھری صاحب ، مولوی صاحب اور سب لوگ دالان میں تھے اور مزے لے رہے تھے ، ابو کو تو کسی نہ کسی طرح روکنا ہی پڑے گا ۔
برکت : وہ مانتے کب ہیں ، تمہاری بھابھی نے تو باضابطہ منع کیا لیکن پھربھی وہ نہیں مانے ۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ امی ہنگامہ کیوں نہیں کرتیں  اور نعمت ان کا ساتھ کیوں دے رہا ہے ؟
     شوکت : کیا معلوم ! امی اداس تو ضرور ہیں لیکن وہ کچھ بول نہیں رہی ہیں شاید وہ صدمے میں ہیں ۔
    ان کی باتیں جاری ہی تھیں کہ نعمت پہنچ گئے اور باتوں میں وہ بھی شامل ہوگئے ، پہلے تو انہوں نے ان کی بات سنی اور پھر کہنا شروع کیا ۔
نعمت : بات یہ ہے کہ اگر انہیں ایک اور شادی کی ضرورت ہے تو ہم انہیں روکنے والے کون ہوتے ہیں ، یہ ان کی زندگی ہے ، وہ اپنے حساب سے گزاریں ، اگروہ شادی کریں گے تو انہیں خوشی ہوگی اور ہم ان کی اولاد ہیں تو ہمیں بھی خوش ہونا چاہیے ، ہماری پرورش میں انہوں نے کون سی کمی کی ہے ؟ ہم ان کے جذبات کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں ، پہلے تو میں بھی آپ کی ہی طرح سوچتا تھا لیکن پھر مجھے لگا کہ اگر ابو کو ضرورت ہے تو ہم کون ہوتے ہيں روکنےو الے ؟
 دونوں بھائیوں نے برا سا منہہ بنایا ، نعمت کو الٹا سیدھا کوسا اور اٹھ کھڑے ہوئے ۔ چرچا پوری بستی میں ہوتا رہا ۔ جتنے منہہ اتنی باتیں ۔ ایک پر ایک لطیفے اور ایک پر ایک مسخراپن ۔ ہر محفل کی ایک ہی بات ، امیر الاسلام کی دوسری شادی !
          امیرالاسلام جانتے تھے کہ شادی ان کی مجبوری ہے ورنہ وہ گناہ میں بھی پڑسکتے ہیں ، وہ اپنی اہلیہ کو سمجھا بھی چکے تھے ، اہلیہ سمجھ بھی چکی تھیں اور چاہ بھی رہی تھیں کہ وہ ایک اور نکاح کرلیں ، جس سے نکاح ہونا تھا وہ کوئی اور نہیں ، ان کی اپنی پھوپھا زاد بیوہ بہن تھیں ، شادی کے تیسرے سال ہی زاہدہ کے شوہر کا انتقال ہوگيا تھا ، کوئی اولاد بھی نہیں تھی اور تب سے وہ ایسے ہی پڑی ہوئی تھیں ، وہ سوچ رہے تھے کہ ان کی ضرورت بھی پوری ہو جائے گی ، کسی گناہ میں بھی نہیں پڑیں گے اور بیوہ کی کفالت بھی ہوجائے گی ، ان کے چہرے کی چمک بھی لوٹ آئے گی ۔ انہیں یہ بھی پتہ تھا کہ لوگ آسانی سے نہیں مانیں گے لیکن وہ بڑے پر عزم تھے ۔ بیٹے تو آہستہ آہستہ مان بھی گئے لیکن اصل مرحلہ تب آیا جب خبر بیٹیوں کو پہنچی ۔ بڑی بیٹی تمنا نے تو گھر پر آکر دھرنا ہی دے دیا اور وہ اودھم مچایا کہ مت پوچھیے ، منجھلی کو تو اس سے کوئی خاص مطلب نہیں تھا لیکن چھوٹی بیٹی رخسار کا رویہ بڑی والی سے بھی کہیں دھماکہ خیز تھا ، وہ ایسے بھی باپ سے تھوڑی بے تکلف تھی ، آتے ہی اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا
ابو ! آپ کو تھوڑا تو ہمارا خیال کرنا چاہیے ، سب مذاق اڑا رہے ہيں ہمارا ! آپ کی عمر اب شادی کرنے کی نہیں ، اللہ اللہ کرنے کی ہے ، نماز روزہ کیجیے ، اعتکاف میں بیٹھیے ، حج کرنے جائیے ، تبلیغ میں نکلیے لیکن اللہ کے واسطے ہماری رسوائی کا یہ سب سامان تو مت کیجیے ۔ لوگ کیا کیا باتیں بنا رہے ہیں ، ہماری تو ناک میں دم ہے ۔ ہم کسی بھی صورت میں یہ شادی نہیں ہونے دیں گے ۔ یہ کیا ہوگیا ہے آپ کو ! آپ تو کتنے سمجھدار تھے ! ہمیں کتنے پیار سے پالا پوسا ہے آپ نے! اب آپ کو خراب نہیں لگتا کہ ہم پر کیا کیا تیر طعنے کے برس رہے ہيں ، خود آپ کے بارے میں کیاکیا باتیں ہورہی ہیں ؟؟؟
   امیرالاسلام رخسار کی باتیں سن رہے تھے ، ان کی آنکھیں تو خاموش تھیں لیکن دل رورہا تھا ، اپنے کمرے میں آکر وہ اپنی بیوی کو دیکھتے تو وہ نیچے نگاہ کرکے رہ جاتی ، ایک بیٹا ، ایک بیوی کی خاموش رضامندی اور اپنا ارادہ اور بقیہ سب کے سب لوگوں کی مخالفت ۔ انہوں نے پھربھی نکاح کرنے کا ارادہ باندھے رکھا اور اپنا آخری فیصلہ پوری قوت سے یہ سنایا کہ جسے اعتراض ہے وہ اپنا راستہ لے سکتا ہے ، میں یہ شادی کروں گا ، چاہے جسے جو کہنا ہے کہے کہ یہ میں جانتا ہوں کہ یہ شادی کیوں ضروری ہے ۔

  بیٹیاں روپیٹ کر لوٹ گئیں ، بیٹے خاموش ہوگئے ، سماج البتہ چہ ميگوئی کرتا رہا ۔ لیکن امیر الاسلام کو جب یہ معلوم ہوا کہ زاہدہ اس شادی کے لیے تیار نہیں ہیں ، انہوں نےاب ارادہ ملتوی کردیا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ اللہ کے واسطے وہ شادی کی بات کو بالکلیہ ختم کردیں تو ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی کھسک گئی ۔ وہ زير لب بدبدا رہے تھے : بے چاری کمزور بیوہ عورت ! گھٹیا سماج کے گھٹیا طنز میں آگئی !!! اور ان کی چہرے پر تفکرات کی لکیریں پھیل گئیں ۔۔۔

السبت، ديسمبر 17، 2016

غزل
ساگر تیمی
کدھر گیا وہ ملاقات میں نہیں آیا
عجیب خواب تھا کہ رات میں نہیں آيا
مجھے وہ کب سے نئی زندگی کا کہتا تھا
ہوا نکاح  تو بارات میں نہيں آیا
اسے ایمان کی دولت ملی تھی کچھ اتنی  
ستا بہت مگر حالات میں نہیں آيا
یہ کیسی مار پڑی موسموں کی قسمت پر
کہ پانی پھر سے کیوں برسات میں نہیں آیا
"فقیر " کھا گیا کتنے غریب لوگوں کو
عذاب کیوں اسی کی گھات میں نہیں آیا
 زبان اس کی کہ قینچی سے تیز چلتی تھی
زہے نصیب کہ تو بات میں نہیں آیا
مجھے بھی عشق نے ساگر بہت بلایا مگر
میں بے وقوف  خیالات میں نہیں آيا


الأحد، نوفمبر 20، 2016

درد کی سوداگری
ثناءاللہ صادق تیمی
ہمارے دوست بے نام خاں کو کئی چیزيں پریشان کرتی ہیں اور ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جو چیزیں انہیں پریشان کرتی ہیں ، وہ بالواسطہ ہمیں بھی نہیں چھوڑتیں کہ بہر حال بے نام خاں ہم سے تبادلہ خیال کرتے ہی ہیں ۔ ان کے حساب سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دنیا سیدھے طریقے سے نہیں چلتی ، کچھ نہ کچھ گڑبڑ کرتی ہی رہتی ہے ۔ سچ نہيں بولتی جھوٹ بولنے پر آمادہ رہتی ہے ، ایمانداری نہیں برتتی ، بے ایمانی سے کام لیتی رہتی ہے بلکہ المیہ تو یہ ہے کہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرتی ہے، روتی ہے تو اصلا ہنس رہی ہوتی ہے ، آنسو کے پیچھے مفاد کی دنیا آباد رہتی ہے ، چیخ کے پیچھے سودے رہتے ہیں ، ہنگامہ کے پیچھے سیاست رہتی ہے اور تو اور لوگوں کی موتوں پر بھی دنیا اس لیے روتی ہے کہ رونے سے فائدہ ہونے والا ہوتا ہے ۔
ہم نے کہا : خان صاحب ! کہیں آپ حد سے تو نہیں نکل رہے ، اس پر وہ ہنسے اور کہا کہ اے کاش ایسا ہی ہوتا ! لیکن کیا کہا جائے میرے سیدھے سادھے مولانا دوست ! دنیا ویسی ہے جیسی میں بتا رہا ہوں ۔ اب دیکھو ایران کہاں تو اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹانا چاہتا تھا اور کہاں سچائی یہ تھی کہ دونوں ملکوں کے آپسی گہرے رشتے ہیں ، یہودیوں کے بڑے بڑے مراکز ہیں ایران میں ، امریکہ بہادر دہشت گردی کو دنیا سے مٹانا چاہتاتھا ، دینا کو ڈیموکریسی سکھانا چاہ رہاتھا اور کہاں صورت حال یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ جیسا آدمی صدر منتخب کیا گیا جسے بولنے تک کی تمیز نہیں۔ زبان سے بدتمیزی اور بدتہذیبی دونوں نکلتی ہے اور نفرت تو خیر کہنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ ہمارے ملک کے وزیر اعظم کو بھی ملک کا بہت درد ہے ، وقت بے وقت روتے ہیں اور عام جنتا کو لائن میں ایسا کھڑا کرتے ہیں کہ بے چاروں کی موت بھی آجاتی ہے ، درد اتنا ہے کہ ان کے لفظ لفظ سے نکلتا ہے لیکن وہ سجتے دھجتے ہیں کہ لاکھوں کڑوڑوں روپیہ صرف اپنے لباس پر خرچ کردیتے ہیں ۔ ویسے انہیں لوگوں کا خیال بہت ہے تبھی تو لوگ انہیں چاہتے بھی بہت ہیں !!
مسلمانوں کے بہت سے قلمکار، شاعر اور لیڈر قومی زوال پر آنسو بہاتے رہتے ہیں ، ہم ان کے آنسو کے اتنے قدران تھے کہ اکثر ان کے ساتھ خود بھی رونے لگتے تھے بلکہ عام جنتا کی مانند ہم ان سے کہیں زیادہ روتے تھے اور دل ہی دل ان کی سلامتی کی دعا کرتے تھے اور ان کی بے باکی پر رشک بھی آتا تھا ۔ یہ تو بعد میں جاکر کھلا کہ یہ زیادہ تر رونے والے تو مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں ، رونے کا پیسہ لیتے ہیں ، آہیں بھرنے کی فیس مقرر ہے ، چیخنے کا سودا کیا ہوا ہے ، ایک شاعر صاحب کہ اسٹیج پر قوم کی محبت اور زبوں حالی پر وہ وہ آنسو بہا رہے ہیں کہ یا اللہ ! خود بھی بے حال ہیں اور سامعین کا بھی رو رو کر برا حال ہے اور عالم یہ ہے کہ انہیں اس رونے کے لیے اسی غریب اور بد حال قوم کی طرف سے ایک لاکھ روپے دیے گئے ہیں ۔ ایک صاحب قلم کار ہیں ، لکھتے کیا ہیں کلیجہ نکال کر رکھ دیتے ہیں، ایک ایک لفظ سے درد پھوٹتا ہے ، آنسو رواں ہوتے ہیں ، حرف حرف غم و اندوہ کا اشاریہ نہیں اعلانیہ ہے لیکن جب اندر جائیے تو معلوم ہو کہ صاحب کی ساری شہرت اسی جذباتیت ، برانگیختگی اور درد انگیزی پر ٹکی ہے اور قوم کے درد سے ماشاءاللہ گھر اچھا خاصا آباد ہوگیا ہے ۔ حضور والا ! ایک بڑے صحافی ہیں ، اردو میں اپنا رسالہ نکالتے ہیں ، خوب چھپتا اور بکتا ہے عالی جناب کا اخبار ، زرد صحافت کی اس سے عمدہ مثال شاید ڈھونڈنے سے نہ ملے ، وہی صاحب انگریزی میں بھی لکھتے ہیں اور جب انگریزی میں لکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے کیا سنجیدہ آدمی ہیں ۔ اردو میں سنجیدگی سے لکھیں گے تو ملی درد کا اظہار کیسے ہوگا !!
لیڈران ہیں کہ ملت کی زبوں حالی پر ہی ان کی لیڈری قائم ہے ، اس لیے آنسو خوب بہاتے ہیں لیکن ملی کسی خدمت کے لیے کبھی کوشاں دکھائی نہیں دیتے ۔ یہ سوداگری کا وقت ہے ، کرایے پر عربوں کے یہاں رونے کے لیے لوگ بلائے جاتے تھے ، یہاں مختلف پیشہ کے لوگ ہیں لیکن اصلا ان کا پیشہ وہی ملی درد ہے ، اس درد میں اتنا خسارہ ضرور ہے کہ انجمن میں رونا پڑتا ہے لیکن فائدے اتنے ہیں کہ آنسو خود بخود جاری ہو جاتے ہیں ۔ ویسے صرف درد کی نہیں حوصلے کی بھی سوداگری ہوتی ہے ، ایک عالم باکمال جب بولتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ برپا ہو جائے گا اور جب اسٹیج سے اترتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی ہیئت بدلتے ہیں کہ کہیں کوئی پہچان نہ لے ، قوم کو وہ حوصلہ دیتے ہیں کہ پورا پنڈال نعرہ تکبیر سے گونج جاتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی ابھی کفرستان میں اسلامستان کی فضا پیدا ہو جائے گی ۔

مولوی صاحب ! آپ گدھے ہیں ، آپ کو رونا آتا ہی نہیں ، جوش دلانا بھی نہیں جانتے ، دعویداری بھی نہیں آتی ، چیخنے چلانے کی پریکٹس کافی کمزور ہے اور پھر سوچتے ہیں کہ اس میدان میں کریئر بنے گا تو آپ کیا سچ مچ میں گدھے نہیں ہیں ؟ یہ قوم مسلمان ہے ، گوشت خور قوم ہے ، جذبات اس کے سرد نہیں ، بھڑکائیے اور اونچائی پر پہنچتے جائیے ۔ علم ، سنجیدگی ، حکمت ، شعور، اخلاص اور صفائی لے کر نکلیے گا بے موت مر جائیے گا ۔ 

الخميس، نوفمبر 17، 2016

خانہ كعبہ پر حوثيوں كانا كام حملہ، منظر اورپس ومنظر


بسم الله الرحمن الرحيم
خانہ كعبہ پر حوثيوں كانا كام حملہ
 منظر اورپس ومنظر
ازقلم:       ڈاكٹر محمد يوسف حافظ ابوطلحہ                      

استاذ جامعہ محمديہ منصوره، ماليگاؤں

۲۶محرم الحرام ۱۴۳۸ھ  مطابق ۲۷  اكتوبر ۲۰۱۶ء بروز جمعرات  پورا عالم اسلام لرز اٹها ، جب يہ ہوش ربا، سنسنى خيز خبر پہنچى كہ رات نو بجے حوثى باغيوں نے يمن كے صعده نامى شہر سے خانہ كعبہ پر بيليسٹك ميزائيل سے حملہ كيا ہے۔ جسے الله رب العالمين كى توفيق سے سعودى انبازوں نے مكہ سے ۶۵ كلوميٹر كى دورى پر فضا ميں تباه كرديا ہے، اور الله كے فضل وكرم سے كوئى نقصان  نہيں ہوا۔ حادثہ ہوتے ہى "قومى كونسل برائے مزاحمت ايران" كے صدارتى  بيان ميں كہا گيا كہ يہ حملہ خامنئى كے حكم سے ايرانى فوجى ونگ "القدس " كى نگرانى ميں يمن كى سرزمين سے انجام پايا ہے۔
اس حملہ نے عالم اسلام كے سامنے حوثيوں اور ان كے ہمنواؤں كى بد نيتى كو آشكارا كرديا، خطرناك حوثى ايرانى سازشوں كى قلعى  كھول دى،   ان كے پر فريب نعروں كى حقيقت سے پرده   اٹهاديا،  اور بالكل صاف كهل كر  يہ سامنے آ گيا كہ مشرق وسطى ميں امن وامان كى بحالى اور رافضى امتداد كى روك تهام كيلئے "فيصلہ كن طوفان" كے سلسلے ميں شاه سلمان بن عبد العزيز –حفظہ الله-  كا فيصلہ غايت درجہ دور انديشى پرمبنى تها،  اور يہ ثابت  ہوگيا كہ حوثى باغى ہر طرح كے اخلاق واقدار سے عارى ہيں، جن كى نگاه ميں نہ اسلامى احكامات كى عظمت ہے،   نہ عالمى قوانين كا پاس ولحاظ ، اور نہ صلح كى راه ميں  كى جانے والى كوششوں كا اعتبار۔
يقينا يہ نہايت  گهٹيا درجے كاگهناؤنا جرم ہے جسے كوئى  عام عقل مند آدمى  بهى گوارا نہيں كر سكتا  چہ جائيكہ ايك مسلمان جس كے دل ميں رتى برابربهى ايمان ہے  اسے گوارا كر لے. يہ گهناؤنا حملہ ہر اس آدمى كے لئے كهلا چيلنج ہے جوخانہ كعبہ كا رخ كركے دن ورات نمازيں ادا كرتا ہے،  بلكہ پورى امت اسلاميہ سے اعلان جنگ كے مترادف ہے، يہى وجہ ہے كہ اس واقعے كے بعد پورے عالم اسلام ميں غم وغصہ كى لہر دوڑ گئى۔ اسلامى ممالك، تنظيميں، مراكز، علمائے امت، قائدين ملت بلكہ تمام مسلمانوں نے نہايت سختى كے ساتھ اس نا پاك حملے اور ناپاك ايرانى منصوبوں كى مذمت كى ،  كيونكہ مكہ مكرمہ الله كے نزديك سب سے بہترين اور محبوب ترين شہر ہے، اسى شہر كو سب سے پہلے اور سب سے عظيم مسجد كے ليے الله نے منتخب فرمايا  جو سارے مسلمانوں كا قبلہ ہے، جس ميں نماز پڑھنے كا ثواب عام مساجد (سوائے مسجد نبوى ) كے مقابلے ميں لاكھ گنا ہے۔ اس كا حج كرنا ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے،  اور حج كرنے والوں كے لئے مغفرت اور جنت كى بشارت ہے،  الله تعالى نے اس شہر كو ابتدائے آفرينش سے قيامت تك حرمت اور امن والا شہر قرار ديا ، جہاں نہ خون بہايا جائے،  نہ جانوروں كا شكار كيا جائے، بلكہ بِدكايا بهى نہ جائے، جہاں از خود اُگے پيڑ پودے بهى نہ كاٹے جائيں،  اور  نہ  اِذْخِر نامى گهاس كے علاوه كوئى گهاس اكهاڑى جائے،  اس عظيم شہر كو الله نے اپنے سب سے عظيم اور افضل نبى محمد رسول الله r كى ولادت، نشوونما اور بعثت كے لئے منتخب فرمايا ، يہ سارى تفصيلات  صحيح حديثوں ميں موجود ہيں.
ليكن سوال يہ ہے كہ حوثى باغيوں نے اس ناپاك حملے كى جرأت كيوں كر كى جس سے ديڑھ  ارب مسلمانوں كے جذبات بهڑك اٹهے؟؟   جواب واضح ہے كہ حوثى قائدين نے ايرانى خمينى انقلاب كے سايہ تلے ذہنى وفكرى تربيت پائى ہے  اور  فوجى ٹريننگ حاصل كى ہے،  اور ايران ہى  انهيں جنگى ساز وسامان مہيا كرتا ہے تا كہ يہ لوگ رافضى  خمينى منصوبوں كو ايران كے زير سرپرستى عملى جامہ پہنا سكيں،   اور ان  منصوبوں كى بنياد   رافضى عقيدے پر ہے.
رافضہ كا عقيده  يہ ہے كہ كربلاء كى سرزمين مكہ سے افضل ہے اور مكہ كى فضيلت كربلاء كے مقابلے ميں اتنى ہى ہے جتنا پانى  سمندر ميں سوئى  ڈبونے كے بعد سوئى سے لگا ره جائے،  بلكہ الله نے كعبہ كو حكم ديا كہ تم كربلاء كے
ذليل  دُمچهلے بن كر رہو، ورنہ تمهيں جہنم رسيد  كر  دونگا۔ الله تعالى نے مكہ كو حرم بنانے سے چوبيس ہزار سال پہلے سر زمين كربلاء  كو حرمت وعظمت اور تقدس وبركت والا شہر قرارديا.  اسى پر بس  نہيں بلكہ رافضہ كربلاء  ميں قبر حسين كى زيارت كو حج سے افضل مانتے ہيں،  ان كى كتابوں ميں ہے:  جو قبر حسين كى زيارت عام دنوں ميں كرے گا  الله تعالى اسے بيس مقبول حج اور بيس مقبول عمرے  كا ثواب دے گا،  اور جو عيد كے دن زيارت كرے گا الله اسے سو مقبول حج اور سو مقبول عمرے كا ثواب دے گا،  اور جو عرفہ كے دن زيارت كرے گا   تو الله اسے ايك ہزار مقبول حج ،  ايك ہزار عمرے اور ايك ہزار عزوات  ميں  شركت كا ثواب دے گا.  الله تعالى عرفہ ميں وقوف كرنے والے حجاج سے پہلے قبر حسين كى زيارت كرنے والوں پر نظر كرم فرماتا ہے،  جو قبر حسين كى زيارت كے ليے نكلتا ہے تو ہر قدم پر اسے ايك نيكى ملتى ہے، اور جب فارغ ہوتا ہے تو رب العالمين كا فرشتہ اسے سارے گناہوں كى مغفرت كى بشارت ديتا ہے۔  اسى پر  بس نہيں بلكہ  رافضہ كا عقيده ہے كہ ان كا  امام غائب جب ظاہر ہوگا تو كعبہ اور مسجدِ نبوى كو منہدم كرے گا،   اور خانہ كعبہ كے كليد بردار   بنى شيبہ كے ہاتھ  كاٹ كر كعبہ ميں لٹكا ئے گا،  اور ابو بكر وعمر y كو ان كى قبروں سے نكال كر نذرِ آتش كرے گا۔ يہ سارى خرافات ان كى كتابوں ميں بهرى پڑى ہيں جيسے كلينى كى "فروع الكافى"، طوسى كى " تہذيب الأحكام"، ابن بابويہ كى "من لا يحضره الفقيه" ،  ابن قولويہ كى "كامل الزيارات" ، مجلسى كى  "بحار الأنوار"،   اور حُر عاملى كى "وسائل الشيعة" وغيره وغيره.
اس طرح كے عقيدے كا بنيادى نتيجہ لوگوں كو خانۂكعبہ كے حج سے روكنا ہے۔ اور رافضہ  نے اپنے بعض ائمہ سے نقل بهى كيا ہے كہ اگر ميں قبر حسين كى زيارت كى فضيلت  بيان كردوں تو تم لوگ يقينى طور پر حج كرنا چهوڑدوگے.  اور ان خرافات كو نقل كرنے والے بعض راويوں نے يہتمنا بهى ظاہر كى ہے كاش ! ميں نے قبر حسين كى زيارت كى ہوتى،  اور حج نہ كيا ہوتا۔  يہى وجہ ہے كہ خمينى، خامنئى اور سيستانى نے كبهىحج وعمره  نہيں كيا۔
اسى عقيدے پر خمينى انقلاب قائم ہے،جسكى پورى كوشش ہے كہ ايران مذہبى اور سياسى حيثيت سے عالم اسلام كا مركز بن جائے، اور شيعى مقدس مقامات امت اسلاميہ كا قلبى مركز بن جائيں.
يہ تو اس واقعہ كا اعتقادى پہلو ہے۔ اور سياسى  پہلو يہ ہے كہ حوثى باغى عالمِاسلام كو يہ دكهانا چاہتے ہيں كہ سعودى عرب كے پاس  مقدس مقامات كى حفاظت اور امن وامان  بحال ركهنے كى صلاحيت نہيں ہے۔ لہذا  اسے ايسے ملك كو سونپ دينا چاہيے جو ان كى حفاظت كر سكتا ہو  اور امن  وامان بحال ركھ سكتا ہو. ليكن قابل مباركباد ہيں سعودى عرب كے جانباز جنہوں نے اللہ كى توفيق سے اس حملے كوناكام بنا ديا ،  اور يہ ثابت كرديا كہ سعودى عرب اس كى پورى صلاحيت ركهتا ہے۔ اور يہ سب كچھ الله كى توفيق اور اس كا فضل وكرم ہے۔
جب ان مجرموں نے ديكها كہ اپنے ناپاك مقصد ميں برى طرح نا كام ہوگئے اور پورا عالمِ اسلام سعودى عرب كے ساتھ متحد ہو كر كهڑا ہوچكا ہے،  اور اس گهناؤنے حملے كى مذمت كا جو سلسلہ شروع ہوا  وه تهمنے كا نام نہيں لے رہا ہے،تو ان حوثيوں نے  دعوى كيا كہ نشانہ مكہ نہيں بلكہ جده  كا انٹرنيشنل ايئرپورٹ تها جہاں سے جنگجو جہاز يمن روانہ كئے جاتے ہيں۔ ليكن ہر عقلمند انسان يہ سمجهتا ہے كہ يہ سياسى كهيل ہے، اگر نشانہ فوجى ايئر بيس كو بنانا تها تو يمن سے قريب سعودى سرحدوں پر فوجى  ايئر بيس موجود ہيں، ليكن ان كا مقصد مسلمانوں كے كعبہ وقبلہ كو نشانہ بنانا تها تاكہ عالم اسلام  كے سامنے يہ واضح ہوجائےكہ ايران كا جو دعوى ہے كہ سعودى عرب اسلامى مقدس مقامات كى حفاظت نہيں كرسكتا   وه بالكل درست ہے. مگر الله تعالى نے ان كے ناپاك ارادے كو ناكام بنا ديا.  اور اگر يہ مان بهى ليا جائے كہ نشانہ جده كا انٹرنيشنل ايئرپورٹ تها تو آخر كيوں؟ يہ تو كوئى فوجى ايئرپورٹ نہيں  بلكہ  يہاں كے اكثر مسافرين خانۂ كعبہ كے زائرين ہوتے ہيں، اور يہ سعودى عرب كا سب سے زياده ازدحام والا ايئرپورٹ ہے،  تو پهر  كونسى عقل ياكونسا دين اس بات كى اجازت ديتا ہے كہ اس شديد  ازدحام والى جگہ پر ميزائيل داغا جائے، جہاں بے گناه لوگوں كى جانيں ضائع ہوں،يہ تو نائن اليون كے حملے سے كسى طرح كم نہيں.
يہ حادثہ  اس بات كا  تقاضا كرتا ہے كہ اسلامى حكومتوں اور عام مسلمانوں ميں مكمل بيدارى  پيدا ہو،  اور وه صفوى مجوسى منصوبوں كى خطرناكيوں كو اچهى طرح سمجهيں  اور بالكل متحد ہوكر اس راه ميں پختہ منصوبہ بندى  اور ضرورى  تدابير كے ساتھ ان خطرات سے نمٹيں،  ورنہ حالات خراب سے خراب تر  ہوسكتے ہيں۔ الله ہم سب كا حامى وناصر ہو.
حوثى دہشت گردوں كا يہ حملہ شيعى تاريخ ميں كوئى نئى چيز نہيں، بلكہ تاريخ شاہد ہے كہ قرامطہ اور رافضہ اور ان كے اعوان وانصار نے مكہ مكرمہ كى حرمت اور قداست پامال كرنے ميں كوئى كسر نہيں چهوڑى ہے۔
۳۱۷ھ ميں شيعى قرامطہ نے يوم الترويہ (۸  ذى الحجہ) كو ايسى قتل وغارت گرى مچائى كہ كعبہ سے ليكر مكہ كى گليوں تك انسانى لاشوں كا انبار تها۔ طواف كرنے والے، خانہ كعبہ كا پرده پكڑنے والے سب تہ تيغ كر ديئے گئے۔ تيس ہزار سے زياده لوگ مارے گئے،  پهر انہيں مكہ كى مختلف جگہوں ميں اور مسجد حرام ميں دفن كرديا گيا،  بلكہ زمزم كا كنواں انسانى لاشوں سے پاٹ ديا گيا،  ان بد بختوں نے خانہ كعبہ كا دروازه اكهاڑ ديا،  اور حجر اسود اكهاڑ لے گئے جو ان كے پاس بائيس سال تك رہا،  مختلف تدبيروں كے بعد  ۳۳۹ھ ميں واپس كيا گيا،  إنا لله وإنا إليه راجعون۔
۱۹۷۹ء ميں ايران  كى زمين پر خمينى انقلاب آيا، جس كى اہم خارجہ پاليسيوں ميں سےيہ ہے كہ خمينى فكر كو پڑوسى ممالك اور پهر پورى دنيا ميں عام كيا جائے، اسى مقصد كى خاطر ايران نے خليجى ممالك ميں شيعى اقليتوں كو ورغلايا،  ايران اور ايران سے باہر دہشت گرد تنظيموں كى بنياد ڈالى جيسے القدس فورس، پاسداران انقلاب، حزب اللات وغيره۔ اور بہت سارے اقليتى گروہوں كى ذہنى اور عسكرى تربيت كى اور انہيں ہتهياروں سےمسلح كيا۔ جيسے يمن كے حوثى باغى وغيره،   تاكہ  حسب ضرورت انہيں  دعوتى، سياسى، اور جنگى سرگرميوں ميں استعمال كيا جاسكے. 
 ايران اور اس كى مسلح تنظيموں نے مكہ ميں بہت سارى مجرمانہ حركتيں كى ہيں، ان ميں سے چند سپرد  تحرير كى جاتى ہيں:·   
* ۱۴۰۶ھ مطابق ۱۹۸۶ء ميں حرمين شريفين ميں بارودى مواد   داخل كرنے كى نا كام كوشش  كا گهناؤنا منظر  سامنے آيا ، ۳/۱۲/۱۴۰۶ھ كو  جده انٹرنيشنل ايئرپورٹ پر ايرانى جہاز پہنچا،  عام سسٹم كے مطابق سامانوں كى تفتيش كى گئى، پچانوے ايسے سوٹ كيس پكڑے گئے، جن كے اندرونى طبق ميں بارود ركهے ہوئے تھے،  بارود  كا ٹوٹل وزن اكاون (51)  كيلوگرام تها،  اور  تحقيق كے دوران اس گروپ كےبڑے ذمہ دار نے اعتراف كيا كہ ہمارے مجموعے كو ايرانى قيادت نے حرمين شريفين اور مقدس مقامات پر بلاسٹ كرنے كے لئے مكلف كيا تها۔
*   ۵/۱۲/۱۴۰۷ھ مطابق  ۳۱/جولائى ۱۹۸۷ء  كو ايرانى حاجيوں نے مكہ ميں مسجد حرام سے قريب بہت بڑا ہنگامى جلوس نكالا،  انھوں نےاپنے كپڑوں كے اندر چاقو  اور خنجرچھپا ركها تها،    خمينى كى تصويريں اور مسجد اقصى كا مجسمہ اٹهائے ہوئے خمينى انقلاب كے نعرے لگا رہے تہے،  سارے راستوں اور گذر گاہوں كو بند كرديا تها جس كے نتيجے ميں ايسى زبردست بهگدڑ  مچى كہ چار سو دو (402)  لوگوں نے  اپنى جانيں گنواديں۔
*    ۶/ ذى الحجہ ۱۴۰۹ھ مطابق ۱۰/جولائى ۱۹۸۹ء كو  مكہ ميں دو بم  بلاسٹ ہوئے،  ايك مسجد حرام كے راستے ميں،  اور دوسرا مسجد سے قريب والے بريج  پر،  الله نے رحم وكرم كيا، صرف  ايك آدمى كى وفات  ہوئى ، اور۱۶  لوگ زخمى ہوئے، يہ دونوں بلاسٹ كويت ميں مقيم  بعض ايرانى سفارت كاروں كى منصوبہ بند سازش كے تحت كويت كے كئى رافضہ اور احساء كے ايك سعودى رافضى نے مل كر انجام ديا تها،  ۲۱/ ستمبر ۱۹۸۹ء  كو شاه فہد رحمة الله عليہ كے حكم سے ۱۶ مجرموں كو پهانسى دى گئى، جنہيں آج تك رافضہ شہدائے حرم مكى كے نام سے ياد كرتے ہيں۔
*    ۱۰/ ذى الحجہ ۱۴۱۰ھ مطابق ۲/جولائى ۱۹۹۰ء كو  مكہ كى معيصم سرنگ ميں بهگدڑ مچى جس ميں ہزاروں حاجيوں كى جانيں گئيں، اس كا  سبب وه  زہريلى گيس تهى جسے كويت كے حزب اللات كے ٹرينڈ نوجوانوں نے سرنگ ميں چهوڑا  تها۔
*    ۱۰/ذى الحجہ ۱۴۳۶ھ مطابق ۲۴/ ستمبر ۲۰۱۵ء كو منىٰ ميں زبردست بهگدڑ مچى، جس ميں لگ بهگ ايك ہزار جانيں گئيں، اس حادثے كا سبب ايرانى  حاجيوں كى ايك بڑى جماعت تهى، بلكہ معروف ايرانى سياستداں فرزاد فرہنگيان نے انكشاف كيا تها كہ يہ حادثہ پاسداران انقلاب كے چھ كمانڈروں كے زير سرپرستى انجام پايا ہے۔
تعجب ہے ايران اور اس كے بازوؤں پر !  يہ سارے جرائم امن وحرمت والے  مقدس شہر ميں انجام دے رہے ہيں، اور نعره لگاتے ہيں:مرگ بر امريكہ، مرگ بر اسرائيل!  ان گهناؤنے جرائم كى  بهينٹ مسلمان چڑھ رہے ہيں يا امريكہ اور اسرائيل؟! ليكن رافضہ كے پاس ايك ظاہرى كامياب ہتهيار ہے، وه  ہے تقِيَّہ جس كا مطلب يہ ہے كہ انسان كے دل ميں كچھ اور ہو مگر  زبان سے كسى اور چيز كا اظہار كرے، يہ عقيده رافضى دين ميں نھايت اہميت كا حامل ہے، بلكہ رافضى دين  كے دس حصوںميں  صرف يہ عقيده نو حصہ ہے، اس لئے علماء كرام كہتے ہيں كہ رافضہ الله كى سب سے جهوٹى مخلوق ہے۔
بہرحال خانہ كعبہ كى عظمت وفضيلت پر جن كا دل حسد وبغض سے پاش پاش ہو رہا ہے  وه يہ جان ليں كہ الله تعالى اپنے گهر كى حفاظت كرنے والا ہے، جيساكہ ابرہہ كے حملوں سے اس كى حفاظت كى ہے،  اور جس كے دل ميں اس كےتئيں برا   اراده ہوگا الله تعالى اسے رسوا كرے گا، دنيا ميں بهى اور آخرت ميں بهى ۔ )ومن يرد فيه بإلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم( (سوره حج: 25)
الله تعالى اسلام اور مسلمانوں كى عزت وعظمت كى حفاظت فرمائے. آمين



الثلاثاء، نوفمبر 15، 2016

استهداف الحوثيين لقبلة المسلمين جريمة نكراء استنكرتها الأمة جمعاء

بسم الله الرحمن الرحيم
استهداف الحوثيين لقبلة المسلمين جريمة نكراء استنكرتها الأمة جمعاء
إعداد: الدكتور محمد يوسف حافظ أبو طلحة
عضو هيئة التدريس بالجامعة المحمدية ماليغاون، الهند
فجع المسلمون بما قامت به الطائفة الباغية المجرمة المتطرفة المليشيات الحوثية اليمنية المدعومة من إيران من استهداف قبلة المسلمين حيث أطلقت صاروخاً باليستيا من محافظة صعدة اليمنية الحدودية جنوب المملكة العربية السعودية نحو مكة المكرمة في الساعة التاسعة مساء الخميس 26 محرم 1438هـ الموافق 27/اكتوبر 2016م. وقد تمكنت قوات التحالف التي تقودها المملكة العربية السعودية بتوفيق رب الكعبة من اعتراضه وتدميره في الجو قبل أن يصيب هدفه على بعد 65 كم من مكة المكرمة من دون أي أضرار. وجاء في تصريحات رئيسة المجلس الوطني للمقاومة الإيرانية بأن الهجوم تم بأمر من خامنئي وتحت إشراف قوة القدس من داخل الأراضي اليمنية. وهي جريمة نكراء لا يرتضيها أي عاقل فضلا عن مسلم في قلبه مثقال ذرة من إيمان، وهي تؤذن بزوال تلكم النبتة الفاسدة ونهايتها بإذن الله. وقد كشفت عن خطر المشروع الصفوي على العالم الإسلامي وعن النوايا الخبيثة للحوثيين وأعوانهم وعن شعاراتهم الزائفة، كما أكدت أن عاصفة الحزم لا مناص منها للحفاظ على الأمن في الشرق الأوسط وللقضاء على الاعتداء الشيعي والحد من المد الصفوي. وأبانت أن الميليشيات الحوثية لا تقيم وزنا لقرارات المجتمع الدولي والمساعي القائمة لحل سلمي للأزمة اليمنية. وهذه الفاجعة تحدٍ واضح لكل من يتوجه إلى الكعبة في صلواتهم، بل بمثابة إعلان حرب على الأمة الإسلامية بأسرها، فتوالت عقبها ردود واستنكار وتنديد وإدانة لهذا العدوان الإرهابي الإجرامي وللمشروع الفارسي الإيراني من الدول والمنظمات والجمعيات والمراكز والمؤسسات الإسلامية والقادة والعلماء بل من كل مسلم في قلبه مثقال ذرة من إيمان، كل بحسبه؛ لأن مكة المكرمة خير أرض الله وأحب أرض الله إلى الله، فاختارها لأول مسجد وضع في الأرض، وجعله قبلة للمسلمين، وجعل الصلاة فيه أفضل من مائة ألف صلاة فيما سواه من المساجد إلا المسجد النبوي، وفرض حجه على من استطاع إليه سبيلا، ووعد حجاجه بغفران الذنوب والفوز بالجنة، وحرم الله مكة منذ خلق السموات والأرض، فهي حرم آمن إلى يوم القيامة، لا يسفك فيها دم، ولا تعضد شجرها، ولا يختلى خلاها غير الإذخر، ولا ينفر صيدها، ولا تحل لقطتها إلا لمنشدها على الدوام، واختارها الله لخاتم النبيين وأفضل المرسلين مولدا ومنشأ ومبعثا ومسرى، كما نطقت الأحاديث الصحيحة، فصارت مكة مهوى أفئدة الأمة الإسلامية جمعاء. ولكن الناس يتساءلون: ما الذي جعل المليشيات الحوثية تقدم على هذه الجريمة الشنعاء التي استفزت مشاعر مليار وثلاثمائة مليون مسلم؟ والجواب أن المليشيات الحوثية تربت قادتها في كنف قادة الثورة الخمينية تربية فكرية، وتدربت في أحضانها تدريبا عسكريا، وتدعمها إيران بأسلحة ومعدات حربية ومساعدات مالية، حتى تقوم هذه المليشيات بتنفيذ وتحقيق الخطط الصفوية والمشاريع الرافضية. والرافضة تعتقد أن كربلاء أفضل من مكة، وليس فضل مكة في جنب فضل كربلاء إلا بمنزلة الإبرة غرست في البحر فحملت من ماء البحر، بل أمر الله تعالى الكعبة أن تكوني ذنبًا متواضعًا ذليلاً مهينًا لأرض كربلاء وإلا هويت بك في نار جهنم. وتذكر مصادر الرافضة أن الله قد اتخذ أرض كربلاء حرما آمنا مقدسا مباركا قبل أن يخلق الله أرض الكعبة ويتخذها حرما بأربعة وعشرين ألف عام، فما زالت قبل خلق الله الخلق مقدسة مباركة، ولا تزال كذلك حتى يجعلها الله أفضل أرض في الجنة، وأفضل منزل ومسكن يسكن فيه أولياءه في الجنة. وكذلك تجعل الرافضة زيارة قبر الحسين منسكا أفضل من مناسك الحج، فإن كتبهم تنص أن من أتى قبر الحسين عارفا بحقه في غير يوم عيد كتب الله له عشرين حجة وعشرين عمرة مبرورات مقبولات. ومن أتاه في يوم عيد كتب الله له مائة حجة ومائة عمرة. ومن أتاه يوم عرفة عارفا بحقه كتب الله له ألف حجة وألف عمرة مبرورات متقبلات وألف غزوة مع نبي مرسل أو إمام عادل. وإن الله تعالى يبدأ بالنظر إلى زوار قبر الحسين عشية عرفة قبل نظره إلى أهل الموقف، ومن خرج من منزله يريد زيارة الحسين كتب الله له بكل خطوة حسنة. وإذا قضى مناسكه أتاه ملك فقال له: أنا رسول الله، ربك يقرئك السلام، ويقول لك: استأنف فقد غفر لك ما مضى. ويعتقدون أيضا أن إمامهم الغائب إذا ظهر يهدم الكعبة والمسجد النبوي، ويقطع أيدي بني شيبة حجبة الكعبة، ويعلقها على الكعبة، ويخرج أبا بكر وعمر من قبريهما، ويحرقهما، إلى غير ذلك من الخرافات التي طفحت بها كتب الرافضة، كفروع الكافي للكليني وتهذيب الأحكام للطوسي ومن لا يحضره الفقيه لابن بابويه وكامل الزيارات لابن قولويه وبحار الأنوار للمجلسي ووسائل الشيعة للحر العاملي. تعالى الله عما يقولون علوا كبيرا. والهدف من ذلك صد الناس عن حج بيت الله الحرام؛ فقد ذكروا عن بعض أئمتهم أنه قال: "لو أني حدثتكم بفضل زيارة الحسين وبفضل قبره لتركتم الحج رأسا". وقال بعض رواة هذه الأساطير: "والله لقد تمنيت أني زرت الحسين ولم أحج". وفعلا لم يحج المراجع الشيعية المعاصرة: الخميني وخامنئي والسيستاني مع استطاعتهم القيام بتلك الفريضة. فسبحان من يطمس على القلوب. وعلى هذا المعتقد قامت الثورة الخمينية، وهي تسعى أن تكون إيران مركز العالم الإسلامي سياسيا ودينيا، وأن تكون المقدسات الشيعة مثابة للأمة الإسلامية، فلا حول ولا قوة إلا بالله. ومن الجانب الآخر أرادت المليشيات الحوثية أن تبرهن أمام العالم الإسلامي أن المملكة العربية السعودية ليست عندها كفاءة ومقدرة على توفير الأمن في الحرمين، فيجب تسليمهما للدولة التي عندها مقدرة أو تدويلهما. ولكن رد الله كيدهم في نحورهم، وقيض له القوات الباسلة التي تصدت لهذا العدوان السافر، ونجحت في إفشاله، وأثبتت قدرة المملكة على حفظ المقدسات الإسلامية، فطوبى لهم. وكل ذلك بفضل الله وتوفيقه، فله الحمد أولا وآخرا وظاهرا وباطنا. ولما رأى هؤلاء المجرمون أنهم فشلوا في هدفهم الخبيث البغيض، ووقف العالم الإسلامي صفا واحدا إلى جانب المملكة العربية السعودية تضامنا ونصرا وتأييدا بكل صلابة وحزم، وتتابعت ردود وإدانات شديدة تترى لا تتوقف، قالوا: إن المستهدف ليس مكة، بل مطار الملك عبد العزيز الدولي في جدة؛ لأنه يضم القاعدة الجوية السعودية التي تنطلق منها الطائرات للقصف في اليمن. ولكن كل من له عقل وبصيرة على يقين بأنها لعبة سياسية؛ فإن كان الهدف ضرب القواعد العسكرية فثمة قواعد على مقربة من الحدود مع اليمن، ولكنهم قصدوا استهداف مكة حتى يبرهنوا أمام العالم لما ادعته إيران من أن السعودية لا تستطيع توفير الأمن في المدينة المقدسة. وعلى فرض أن المستهدف مطار جدة فهو ليس بمطار عسكري، بل أغلب ركابه من المعتمرين وزوار بيت الله الحرام، وهو أكثر مطار المملكة ازدحاما، فأي دين وعقل يرضى استهداف أبرياء في مثل هذه الأماكن، وهذا لا يقل فظاعة عن الهجمة الإرهابية التأريخية التي استهدفت نيو يورك في 11 سبتمبر 2001م. وهذه الفاجعة تطالب الحكومات والشعوب الإسلامية أن تستشعر بالخطر المحدق بالأمة في ظل التحديات المجوسية الصفوية، وأن تقف صفا واحدا للتصدي لها، وأن تتخذ تدابير لازمة وخططا محكمة في سبيل مواجهة هذا الخطر الذي ينذر بشر مستطير. والله غالب على أمره. وما قامت به المليشيات الحوثية ليس بغريب في تاريخ الشيعة؛ فإن التاريخ يشهد أن الشيعة رافضتهم وقرامطتهم وإخوانهم وأعوانهم لم يراعوا حرمة البلد الحرام، بل قاموا فيه بأعمال إجرامية بشعة تقشعر لها الأبدان، وتنخلع من هولها القلوب: ففي سنة سبع عشرة وثلاثمائة (317ه) خرج الشيعة القرامطة على الحجاج بسيوفهم يوم التروية، فقتلوا في الشهر الحرام في رحاب مكة وشعابها حتى في المسجد الحرام من الحجاج خلقًا كثيرًا، قتلوهم وهم يطوفون، قتلوهم وهم متعلقون بأستار الكعبة، وقد بلغ عدد القتلى زهاء ثلاثين ألفا من أهل البلد ومن الحجاج، ثم دفنوهم في أماكنهم من الحرم وفي المسجد الحرام وفي بئر زمزم، وقلعوا باب الكعبة، ونزعوا كسوتها، وقلعوا الحجر الأسود، وأخذوه إلى بلادهم، فمكث عندهم ثنتين وعشرين سنة حتى ردوه في سنة تسع وثلاثين وثلاثمائة. فإنا لله وإنا إليه راجعون. (انظر: البداية والنهاية 15/37-39). وقامت الثورة الخمينية في إيران عام 1979م، وكان من أهم الأسس التي قامت عليها سياستها الخارجية مبدأ تصدير الثورة للمناطق المجاورة، فقامت بإثارة الأقليات الشيعية في دول الخليج، وأسست العديد من المنظمات الإرهابية الشيعية في داخل إيران كفيلق القدس وغيره، وفي خارجها، كحزب الله في لبنان، وحزب الله الحجاز، ودربت وجندت العديد من الميليشيات الطائفية في عدد من الدول، كالحوثيين في اليمن. وقد قامت إيران ومنظماتها المجندة بأعمال إجرامية كثيرة في البلد الحرام والأماكن المقدسة، من أهمها: في عام 1406ھ/1986م حاولوا إدخال المواد المتفجرة إلى الحرمين الشريفين والمشاعر المقدسة، فقد وصلت طائرة إيرانية على مطار الملك عبد العزيز الدولي بجدة 3/12/1406ھ، واكتشف رجال الجمارك والأمن خمسا وتسعين حقيبة ذات مخازن سفلية ملبسة بمادة شديدة الانفجار، وقد بلغ وزن المواد المتفجرة واحدا وخمسين كيلو غراما، وأثناء التحقيق اعترف كبير ركاب هذه الطائرة بأن مجموعته كلفت من قبل القيادة الإيرانية باستخدام تلك المتفجرات في الحرمين الشريفين والمشاعر المقدسة.  وفي 5/12/1407ھ الموافق 31/يوليو 1987م أقام الحجاج الإيرانيون في مكة قرب المسجد الحرام مسيرة صاخبة رافعين شعارات الثورة الإسلامية في إيران وصور الخميني ومجسما كبيرا للمسجد الأقصى، وكانوا يحملون السكاكين والأسلحة البيضاء داخل ملابسهم، وأغلقوا منافذ الطرقات، وعرقلوا الممرات، وأخذوا يدافعون الحجاج والمدنيين بقوة وعنف، فوقعت اضطرابات وفوضى أسفرت عن مقتل أربع مائة واثنين.  وفي 6/ذي الحجة 1409ھ الموافق 10/يوليو 1989 وقع انفجاران، الأول في أحد الطرق المؤدية للمسجد الحرام والآخر فوق الجسر المجاور للمسجد، ونتج عن ذلك وفاة شخص واحد وإصابة ستة عشر آخرين، وكان ذلك على يد عدد من رافضة الكويت وواحد من السعودية من الأحساء بالتنسيق مع دبلوماسيين في السفارة الإيرانية بالكويت، وتم إعدام ستة عشر متهما في 21/سبتمبر 1989م بأمر من الملك فهد. ويعتبرهم الرافضة شهداء الحرم المكي، فإلى الله المشتكى.  وفي 10 ذي الحجة 1410 هـ الموافق 2/يوليو 1990م وقع تدافع عنيف واختناق شديد في نفق المعيصم بمكة مما أدى إلى مقتل ألاف ضيوف الرحمن. وكان ذلك بسبب الغاز السام الذي أطلقته عصابة من حزب الله الحجاز في الكويت بالتنسيق مع السلطات الإيرانية. وفي 10/ذي الحجة 1436ھ الموافق 24/سبتمبر 2015م وقع تدافع شديد أدى إلى مقتل آلف حاج تقريبا، وكان وراء هذا الحادث حشد كبير من الحجاج الإيرانيين، بل كشف الخبير السياسي الإيراني المعروف فرزاد فرهنكيان أن هذه الحادثة افتعلها ستة ضباط من الحرس الثوري الإيراني، وذكرهم بأسمائهم. فلا حول ولا قوة إلا بالله. فواعجبا لإيران وأجنحتها تفعل هذه الأفاعيل الإجرامية في البلد الحرام، وتهتف بشعارات زائفة: الموت لأمريكا، والموت لإسرائيل؛ لاستمالة قلوب عامة المسلمين، فياترى هل هذه الأضرار الفادحة وقعت بالمسلمين؟ أو وقعت بأمريكان وإسرائيل؟ ولكن السلاح الفعال الناجح –فيما يبدو- الذي يملكه الرافضة سلاح التقية، وهي تسعة أعشار الدين الرافضي، وتعني أن يظهر الإنسان خلاف ما يبطنه تدينا. ولذلك وصفهم أهل العلم بأنهم أكذب خلق الله.     هذا، وليعلم كل من يتشقق قلبه حقدا على المكانة التي تحظى بها الكعبة المشرفة أن الله تعالى يحفظها بحفظه، كما حفظها من هجمات أبرهة وجنوده، وأنه يذيق الخزي والندامة كل من يريد به سوءا. ﴿وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴾ [سورة الحج:25]. والله أسأل أن يعز الإسلام والمسلمين، ويحفظ الحرمين الشريفين من كيد الأعداء وشر الأشرار، وأن يديم على الأمة مجدها وعزها، وأن يجعل كيد أعدائها في نحورهم. آمين.