الثلاثاء، أغسطس 24، 2021

مفسر قرآن علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی رحمہ اللہ- حیات و خدمات پر دو روزہ سیمینار



مایہ ناز سیرت نگار ومفسر قرآن اور معروف دینی دانش گاہ جامعہ امام ابن تیمیہ کے بانی علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی رحمہ اللہ تاریخ ساز شخصیت كے مالک تھے ۔آپ نے 23 اپریل 1943 میں اس دنیا میں آنکھیں کھولیں اور 5 مارچ 2020 عیسوی کو اپنے مولائے حقیقی سے جاملے۔ آپ بیک وقت مفسر قرآن وسیرت نگار، محقق و مصنف، مترجم و ادیب اور ماہر تعلیم تھے، آپ نےمثالی طرز تحریر، منفرد انداز بیان، جادو اثر خطابت اور معاملہ فہمی ودانشوری میں ایسا کمال حاصل کیا کہ علماء وفضلاء اور طللباء وعوام کے لیے بہترین آئیڈیل بن گئے ، آپ نے جامعہ امام ابن تیمیہ کے نام سے ایسی اسلامی درسگاہ اور تعلیمی ودعوتی قلعہ قائم کیا جو بہت مختصر عرصہ میں ہندو بيرون ہند میں اپنی معیاری تعلیم وتربیت كی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جانےلگا اور جس کے تحت کلیۃ سید نذیر حسین محدث دہلوی ،کلیۃ خدیجۃ الکبری لتعليم البنات ،معھد زید بن ثابت لتحفیط القرآن الکریم، ڈاکٹر محمد لقمان پبلک اسکول، بی ایڈ کالج ، سمیت متعدد شعبے سرگرم عمل ہیں اور اسی طرح جامعہ کی پچاسوں شاخیں ہندوستان کے طول وعرض میں کام کررہی ہیں۔


علامہ ڈاکٹر محمد لقمان سلفی کے جد امجد بالاکوٹ کے میدان میں لڑی جانے والی ہندوستان کی سب سے پہلی جنگ آزادی كے مجاہدین میں سے تھے۔ آپ کی ابتدائی تعلیم روایتی طور پر آبائی گاؤں چندن بارہ مشرقی چمپارن بہار کے مکتب میں ہوئی، پھرآپ نے پورنیہ کے ایک مکتب میں تعلیم حاصل کی, اس کے بعد آپ نے آزاد مدرسہ ڈھاکہ میں اپنی علمی تشنگی بجھائی, علم کے شوق میں آپ نے اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھتے ہوئےشمالی ہند کی قدیم ترین دینی درسگاہ دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ،بہار میں داخلہ جہاں آپ كو نابغہ روزگار علماء وفضلاء سے کسب فیض کا شرف حاصل ہوا، وہاں آپ کی شخصیت نکھرتی چلی گئی اور آپ مثالی وممتاز طلباء میں شمار کیے جانے لگے، کہتے ہیں کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات، ذمہ داران دارالعلوم نے آپ کی غیرمعمولی ذہانت و استعداد کو دیکھتے ہوئے فراغت سے پہلے ہی عالم اسلام کی مشہور اسلامی یونیورسیٹی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ کے لیے آپ کا نام پیش کیا اور وہاں کے اولین طلباء میں آپ کا داخلہ ہوگیا، وہاں آپ نے اپنے وقت کے اکابر علماء علامہ عبدالعزيز ابن باز ، علامہ ناصر الدين البانی اور علامہ عبدالقادر شیبہ الحمد رحمہم اللہ وغیرہم سے اکتساب فیض کیا اور ممتاز نمبرات کے ساتھ وہاں سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس كے بعد آپ نے المعہد العالی للقضاءریاض سے ایم اے کیا۔آپ نے 1984ء میں جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ ،ریاض سے حدیث نبوی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
آپ 1968ء میں مملكت سعودی عرب کے دارالافتاء میں مترجم کی حیثیت سے متعين كيے گئے۔وہاں مفتی عام محمد بن ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ کی زیر سرپرستی کام کرنے کا موقع ملا, جب فقیہ دوراں علامہ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ مفتی عام بن کر دارالافتاء تشریف لائے , تو آپ کے تعلقات مفتی عام سے مزید استوار ہوتے چلے گئے, اور دھیرے دھیرے آپ ان کے معتمد خاص میں شمار ہونے لگے۔ ایں سعادت بزور بازو نیست - تا نبخشد خدائے بخشندہ


آپ نے شاہ فیصل رحمہ اللہ کے حکم سے مسلم دنیا کا سفر کیا۔آپ نے امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، برطانیہ، کویت اور قطر کے دعوتی اسفار بھی کئے۔جو آپ کی علمی وعملی اور قومی وملی زندگی میں سنگ میل ثابت ہوئے۔
آپ کی دور رس نگاہوں نے 1964 میں اپنے گاؤں میں المعہد الاسلامی کے نام سے دینی و تعلیمی ادارہ قائم کیا جو 1988ء میں ترقی کرکے مرکز العلوم الاسلامیہ ہوگیا۔وہی ادارہ ترقی کرتا ہوا 1990ء میں جامعہ امام ابن تیمیہ جیسا تعلیمی قلعہ بن گیا۔ آپ نے 1996 میں جامعہ کے احاطہ میں علمی و تحقیقی ادارہ مرکز علامہ ابن باز برائے دراسات اسلامیہ قائم کیا جہاں سے اب تک سو سے زائد کتابیں زیور طباعت سے آراستہ ہوکر علمی دنیا سے داد تحسین حاصل کرچکی ہیں۔


آپ نےجامعہ کی چہاردیوار میں ایک وسیع و عریض دو منزلہ مولانا آزاد سنٹرل لائبریری قائم کی جس میں ایک اندازے کے مطابق عربی، اردو، ہندی اور انگریزی کی ايك لاكھ سے زائد کتابیں موجود ہیں۔ آپ چمپارن رتن ایوارڈ سے بھی نوازے گئے۔ اپ کی چند اہم تصنیفات میں "تیسیر الرحمن لبیان القرآن،ا لصادق الأمین, سیرۃ سید المرسلین, السعی الحیثیث إلى فقہ أہل الحدیث، اہتمام المحدیثن بنقد الحدیث, مکانۃ السنۃ,القراءۃ العربیۃ , رش البرد, رحلۃ مریم جمیلہ أمریکیہ من الکفر إلى الإسلام اور کاروان حیات نے بطور خاص علمی وتحقیقی حلقوں میں خوب داد تحسین حاصل کی۔اسی معیار کی آپ نے درجنوں دوسری اہم تالیفیات سے علمی دنیا کو مالامال کیا جو انشاء اللہ رہتی دنیا تک علمی وفکری خوشبو بکھیرتی رہیں گی۔
آپ نے عربی میں الفرقان اور اردو میں طوبی نامی دو ایسے مجلات کا اجراء کیا جو آغاز سے لے کر آج تک معاشرہ کی اصلاح وتربیت کا کام انجام دے رہے ہیں. ان دونوں مجلات کی تحریریں علمی حلقوں میں قدر کی نگا ہ سے دیکھی اور خوب سراہی جاتی ہیں۔


جامعہ کے ہزاروں فارغین و فارغات نہ صرف بہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال،ہریانہ اور پڑوسی ملک نیپال میں علم و نور کی کرنیں بکھیر رہے ہیں بلکہ وطن عزیز کے گوشے گوشے کے علاوہ بیرون ملک بلاد حرمین شریفین اور دیگر مختلف ملکوں میں بھی علم و شریعت اور انسانیت کی خدمت انجام دے رہے ہیں، الحمد لله يہاں کے فارغین دعوت و اصلاح،درس وتدریس اور تعلیم وتربيت کے ساتھ ساتھ ملک کی صحافت، سیاست ، اقتصادیات، معاشرت، عدلیہ، مقننہ،، ادب اور فنون لطیفہ گویا کہ ہر شعبہ حیات میں اپنا جھنڈا گاڑے ہوئے ہیں اور زندگی کے ہررزم وبزم میں پورے آب و تاب اور توانائی کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔
علامہ کی حیات تابندہ اور خدمات درخشندہ قوم وملت کے لیے مشعل راہ ہیں ۔اور ان کے معارف اور قائم کردہ ادارے قوم وملت کی امانت اور گراں قدر اثاثہ ہیں۔ااور ان کا وسیع پیمانے پر تعارف اوران کی حفاظت قوم وملت کی ذمہ داری ہے۔تاکہ چراغ سے چراح جلانے کا انبیائی عمل جاری وساری رہے۔ علامہ کی حیات وخدمات سے معنون یہ کانفرنس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔