الاثنين، سبتمبر 11، 2017

ڈر کے ماحول میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی
ثناءاللہ صادق تیمی
   اللہ پاک نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسوہ بناکر مبعوث کیا اور زندگی کے تمام مرحلوں کے لیے آپ کی زندگی میں ایسے نمونے رکھ دیے کہ رہتی دنیا تک ایمان والوں کو روشنی ملتی رہے گی ۔ ہمیں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ جہاں عقیدت و محبت کی نظر سے کرنا چاہیے وہیں آپ کی زندگی کو مسائل کے حل کے طور پر بھی دیکھنا چاہیے ۔ انفرادی اور اجتماعی ہر دو زندگی کے لیے آپ کی سیرت میں ایسے روشن نمونے موجود ہیں جو ہماری رہنمائی کرتے ہیں اور ہمیں مسائل کا حل دیتے ہیں ۔
    عالمی سطح پر بطور عام اور اپنے ملک کی سطح پر بطور خاص بظاہر حالات ہمارے حق میں نہیں ہیں ، ہم بحیثیت امت کے ہر جگہ پریشان ہیں ، مختلف سطحوں پر ہمارے خلاف پالیسیاں بنائی جارہی ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے دشمنوں نے پوری تیاری کررکھی ہو ، میانمار ، لیبیا ، یمن ، شام ، کشمیر اور افغانستان کہیں بھی ہمارے حق میں کچھ اچھا نہيں ہورہا ہے ۔ پچھلی کئی صدیوں سے ہم بحیثيت امت لگاتار مصائب سے جوجھ رہے ہیں، مختلف سمتوں سے ظلمت کی بدلیاں اٹھتی ہیں اور چھاتی چلی جاتی ہیں ۔ اس صورت حال کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے سوچنے سمجھنے کا انداز بھیActive  ہونے کی بجائے Passive  ہوگيا ہے ، ہمارے نونہالان بھی عنفوان شباب سے یہ سمجھنے لگ رہے ہیں کہ وہ نبسۃ ایک زوال پذیر قوم کا حصہ ہیں ، پچھلے چند سالوں میں جتنی تحریرں زوال امت پر لکھی گئی ہیں ان کا مثبت نتیجہ کیا برآمد ہوا وہ تو بعد کی بحث ہے ، منفی نتیجہ یہ ضرور برآمد ہوا ہے کہ ہم نے بحیثيت امت کہ اپنے زوال کو بطور خود تسلیم کرلیا ہے ، بسا اوقات اس کا اظہار بھی ہم اس طرح کرتے ہیں جیسے کمزور اور نادار ہونا کوئی خاصے کی چيز ہو !!
  بہرحال حالات کی سنگينی سے قطع نظر ایک چيز اور بھی ہے اور وہ ہے کسی قوم کا اپنے عقائد و ایمان اور اصول و مبادی میں مستحکم اور غیر متزلزل ہونا ، اس کا یہ اعتقاد رکھنا کہ اس کا مستقبل تاریک نہیں روشن ہے اور ظلمت کی بدلیاں اب تب چھٹنے ہی والی ہیں ۔ زوال کی اس نفسیات کا ایک منفی اثر بہر حال یہ رہا ہے کہ امکانات سے متعلق گفتگو عموما یا تو نظر انداز ہوئی ہے یا پھر رد عمل کی نفسیات کے تحت ہوئي ہے ۔ امکانات پر ہم نے بحیثيت امت کے سنجیدگی اور مثبت رویے کے ساتھ کم کم ہی توجہ مبذول کی ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ زوال پر لاکھ آنسو بہانے کے باوجود وہ زوال اب بھی سینہ ٹھونکے کھڑا ہے !!
 اس خاص تناظر میں اگر ہم قران حکیم کا مطالعہ کریں تو ہمیں جو ہدایتیں ملتی ہیں ان میں روشنی اور امید کی کرنیں بہت نمایاں ہیں ۔ قرآن بہت صاف انداز میں ہمیں بتاتا ہے کہ اجتماعی یا انفرادی زندگی میں کسی بھی ناکامی یا پریشانی کے بعد گھبرانے یا ڈر کی نفسیات میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ، اللہ کی زمین بہت وسیع ہے اور نجات اور کامرانی کے امکانات اللہ نے بہت رکھے ہیں ۔ ان مع العسر یسرا کا پیغام یہ ہے کہ پریشانی کے ساتھ آسانی کا بھی کوئی نہ کوئی راستہ ضرور ہے ! ان مسکم قرح فقد مس القوم قرح مثلہ  کا واضح مطلب ہے کہ دشمن سے مرعوب ہونے کی بجائے یہ سمجھو کہ دشمن کو بھی تو نقصان پہنچا ہے اور ان سب کے ساتھ لا تقنطوا من رحمۃ اللہ کی صدائے الہی اس بات کا تاکیدی اشاریہ ہے کہ ابھی راہیں بند نہیں ہوئیں لیکن ابھی ٹھہریے ! اس سے بھی آگے اللہ پاک کی نشاندہی یہ ہے کہ جہاں بظاہر تمہیں خسارہ نظر آتا ہے اور ہزیمت کی ذلت محسوس ہوتی ہے وہاں بھی خیر کا کوئی پہلو پوشیدہ ہوسکتا ہے عسی ان تکرھوا شیئا و ھو خیر لکم ! قرآن اپنی ہدایت میں کسی پس و پیش کا شکار نہیں ، پیغام بہت واضح ہے کہ اجتماعی یا انفرادی زندگی میں یہ مرحلے آسکتے ہیں اور وہ قوموں کی زندگی میں آتے بھی رہے ہیں لیکن بحیثيت ایک ایمان والی قوم کے ہمت نہ ہارنا اور امکانات کی تلاش کرتے رہنا ہی ہماری کامیابی ہے اور ان شاءاللہ اس تلاش کے نتیجے میں وہ راہ ملے گی بھی ضرور و العاقبۃ للمتقین ، و ان جندنا لھم الغالبون ، کان حقا علینا نصر المومنین !!!
   رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ان مرحلوں کے نمونے دیکھیے تو ہمیں کیا کیا روشنی نظر آتی ہے ۔ ہجرت کے سفر میں قدم قدم پر اس کی مثالیں سامنے آتی ہیں ۔ دشمنوں نے جب ننگی تلواریں سونتی ہوئی ہیں اور بانکے نوجوان گردن اڑانے کو گھر کا محاصرہ کیے ہوے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآنی آيات پڑھتے ہوئے ان کے پاس سے گزررہے ہیں ۔ غار ثور کے منہہ پر جب دشمن آگئے ہیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ سے متعلق گھبرا رہے ہیں تو انہیں کیا ایمان افروز تسلی دے رہے ہیں " یا اباکر ما ظنک باثنین اللہ ثالثھما ، لا تحزن ان اللہ معنا " ابوبکر ان دو لوگوں کے بارے میں کیا سوچتے ہو جس کا تیسرا اللہ ہے ! گھبراؤ نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے !!
ہجرت کے اسی سفر میں جب سراقہ بن مالک بن جعشم آپ کا پیچھا کرتے ہیں تو آپ اس بے سروسامانی کے عالم میں کس درجے کے اعتماد ، اپنے مشن کی کامیابی پر یقین سے لبریز ہیں کہ انہیں قیصر وکسری کے کنگن کی بشارت دے رہے ہیں !!
   دشمن نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے ، مکہ سے لے کر اطراف کے یہود تک ایک ہوکر مدینہ پر چڑھائی کرچکے ہیں ، مسلمان بچاؤ کے لیے خندک کھود رہے ہیں ، اس کھودائی کے بیچ جب کہ اپنی حفاظت بظاہر آسان نظر نہیں آرہی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کھودائی بھی کررہے ہیں اور اپنے ساتھیوں کو قیصر و کسری کی فتح کی خوشخبریاں بھی دے رہے ہیں ۔ دنیا کے خزانے مسلمانوں کو ہاتھ لگنے والے ہیں یہ بھی بتارہے ہیں ۔ حالات کی نزاکت نے مشن کی بلندی اور نظر کی وسعت کو محدود نہیں کیا ہے ۔ سامنے کی ظاہری ظلمت نے ایمان و یقین کے اجالے کو مدھم نہیں ہونے دیا ہے ۔
   سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمارے لیے روشن نمونے ہیں ۔ جنگ احد میں جب دشمنوں نے جنگ پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے ، جب مسلمان تتر بتر ہوگئے ہیں اور پسپائی اختیار کرنے لگے ہیں  اس وقت آپ نے آواز لگائی ہے حالانکہ معلوم ہے کہ آپ کو نشانہ بنایا جائے گا ، جنگ حنین میں یہی کیفیت عود کرآئی ہے اور آپ نے انا النبی لا کذب انا عبد المطلب پڑھا ہے اور اپنے اوپر کسی بھی قسم کی منفی نفسیات کو حاوی ہونے نہیں دیا ہے ۔ مشن کی کامیابی اور پریشانی کے بیچ سے نکل کر کامران و کامیاب ہونے کا یقین آپ کی زندگی کا بہت روشن پیغام ہے اور آپ کی سیرت ہمیں بتاتی ہے کہ اس مثبت اور مستحکم عقیدے کے ساتھ جینے کا نتیجہ کامرانی اور کامیابی ہی ہے ۔ ہمیں اس پر آشوب دور میں رسول پا ک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے ان پہلوؤں پر بطور خاص تو جہ دینے کی ضرورت ہے ۔ فتح ہمارا ہی مقدر ہے ، کامیابی ہمارے ہی حصے میں ہے لیکن اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ رویہ مثبت اپنایا جائے ، ایمان کا رشتہ کمزور نہ ہونے دیا جائے اور اللہ کے وعدے پر لازوال اور غیر متزلزل یقین رکھا جائے اور نچلے بیٹھنے کی بجائے اپنے حصے کا کام کرتے رہا جائے ۔

اللہ ہمیں بہتر توفیق ارزانی کرے ۔