الاثنين، مارس 04، 2013


غزل
ساگر تیمی
عشق محبت کرنے والے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
یعنی اندھیروں میں اجالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
میری بات در عالی تک پہنچے بھی تو کیسے پہنچے
حضرت جی کے پیارے سالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
بات اگر ٹھکرائی جائے روح تڑپ کر رہ جائیگی
اس میں کلام اللہ کے حوالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
کیسے دعائیں سن لی جائیں بات فقط اتنی تو نہیں ہے
ان سے جڑے ناپاک نوالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
تیری زمیں دولت جائے گی اتنا تو اب طے ہی جانو
صاحب جی کے پاس قوالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
مجھکو دریا سے کیا مطلب اور سمندر سے کیا لینا
میری راہ میں ٹھوکر نالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
رنگ، وفا ، تسکین ، محبت،    عشق،  دعا ، معصوم ادائیں
اس کی رفاقت ، اس کے حوالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
کیسی راہ پہ چلتا رہا ہے  تونے بھی کیا عشق کیا ہے
ساگر تیرے پاؤں میں چھالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی 

ليست هناك تعليقات: