غزل
ساگر تیمی
عشق محبت کرنے والے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
یعنی اندھیروں میں اجالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
میری بات در عالی تک پہنچے بھی تو کیسے پہنچے
حضرت جی کے پیارے سالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
بات اگر ٹھکرائی جائے روح تڑپ کر رہ جائیگی
اس میں کلام اللہ کے حوالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
کیسے دعائیں سن لی جائیں بات فقط اتنی تو نہیں ہے
ان سے جڑے ناپاک نوالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
تیری زمیں دولت جائے گی اتنا تو اب طے ہی جانو
صاحب جی کے پاس قوالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
مجھکو دریا سے کیا مطلب اور سمندر سے کیا لینا
میری راہ میں ٹھوکر نالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
رنگ، وفا ، تسکین ، محبت، عشق،
دعا ، معصوم ادائیں
اس کی رفاقت ، اس کے حوالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
کیسی راہ پہ چلتا رہا ہے تونے بھی کیا عشق کیا ہے
ساگر تیرے پاؤں میں چھالے آگے بھی ہیں پیچھے بھی
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق