الأحد، مارس 31، 2013

ساگر تیمی 
غزل 
میں پھر سے اپنے خواب کی تعبیر نکالوں 
تو مسکرا ذرا تیری تصویر نکالو ں 
باہر بھی جتنے ہیں سبھی اندر سے بند ہیں 
اییسیے میں کیا میں پاؤں کی زنجیر نکالوں
نرمی، وفا، دعا کو سمجھتا ہے بزدلی
غیرت کو کیسے بیچ دوں شمشیر نکالوں
سارے امیر اور میں تنہا فقیر ہوں
کس کس کے دل کے روگ کی تدبیر نکالوں
میں کیا کروں کہ ظلم کا قصہ تمام ہو
رحمت کو جوش آئے وہ تحریر نکالوں
پھر تیرے سامنے سے گزرنے کا شوق ہے
پھر اک نئے رقیب کی تقدیر نکالوں
ساگر میں رات بھی اسی اک سوچ میں گم تھا
سچ کہ دوں یا پھر جھوٹ کی تبریر نکالوں

ليست هناك تعليقات: