الأربعاء، مارس 11، 2020

اچھا مسلمان انتقال کرچکے مسلمان کے محاسن ہی ذکرکرتا ہے

ثناءاللہ صادق تیمی 

مرنے والا مرجاتا ہے اور اپنے ساتھ اپنے اچھے اور برے اعمال لے جاتا ہے ۔کسی ایسے بڑے آدمی کی موت جس نے زندگی میں بہت کچھ کرکے دکھایا ہو ، بہت سے لوگوں کو تکلیف سے دوچار کرتی ہے خاص طور سے وہ لوگ جو اس سے براہ راست  استفادہ کرنےو الے رہے ہیں ۔جذبات میں شدت ہوتی ہے اور انسان کبھی کبھار شدت محبت میں وہ کچھ بھی کہ جاتا ہےجو نہیں کہنا چاہیے اور جسے حقیقت نہیں کہا جاسکتا ۔ محبوب کی موت واقعی ہوتی ہی ایسی ہے ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی موت پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کا حال معلوم ہے ۔
علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ کی موت ہوئی اور یہ تو کوئی آدمی بہ آسانی کہ سکتا ہے کہ ان کی موت ایک عام آدمی کی موت نہیں تھی ۔ جامعہ امام ابن تیمیہ کے کلیۃ خدیجۃ الکبری لتعلیم البنات سے فارغ ہونے والی تیمیات کی تعداد ڈھائی سو سے زیادہ ہے ۔جامعہ امام ابن تیمیہ سے فارغ ہونے والے تیمی نہیں بھی تو ساڑھے چار سو پانچ سو ہوں گے اور ان دونوں اداروں سے نامکمل تعلیم کے ساتھ نکلنے والے تو اور بھی زيادہ ہوں گے ۔ معھد زین بن ثابت لتحفیظ القرآن  الکریم سے سینکڑوں لوگوں نے حفظ مکمل کیا ہوگا ، ابھی جامعہ کے تمام شعبوں میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات نہیں بھی تو دو ہزار سے زیادہ  ہوں گے  اور ان تمام کے پیچھے بلا شبہ اللہ کے فضل وکرم کے بعد  اگر کسی فرد کی محنت تھی تو وہ علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ تھے ۔
کچھ  لوگوں کو تکلیف ہےکہ ان پر اتنا کیوں لکھا جارہا ہے ؟ تیمی اخوان لکھنے میں اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں ، اگر صرف تیمی اخوان ہی لکھیں تو مضامین کا ڈھیر لگ جائے ۔
پھر یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے ادارہ کھول کر نہ صرف یہ کہ  اسے کامیابی سے چلایا بلکہ اسے معیاری ادارہ بناکر دکھایا لیکن اور بہت سے دوسرے بانیان مدارس کی طرح ان کی ساری شہرت ان کے ادارے کی مرہون منت نہیں رہی بلکہ انہوں نے علم وادب کے میدان میں بھی لازوال نقوش چھوڑے ۔ جن لوگوں کو تعصب نے اندھا کردیا ہے ، وہ کبھی اکیلے میں بیٹھ کر سوچیں کہ کتنے لوگ ہوں گے جن کو " تیسیر الرحمن لبیان القرآن " جیسی تفسیر لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی ؟ کتنے ہوں گے جنہوں نے " اھتمام المحدثین بنقد الحدیث سنداومتنا " جیسی اہم کتاب تصنیف کی ہوگی ؟ کتنے ہوں گے جنہوں نے " الصادق الامین " جیسی سیرت کی کتاب لکھی ہوگی ؟ کتنے ہوں گے جنہوں نے " السعی الحثیث الی فقہ اھل الحدیث " جیسا کوئی کام کیا ہوگا ؟ کتنے ہیں جنہوں نے السلسلۃ الذھبیۃ للقرائۃ العربیۃ جیسا سیٹ تیار کیا ہوگا ؟  رحلۃ مریم جمیلہ من الکفر الی الا سلام  کی شکل میں معیاری ترجمہ پیش کیا ہوگا ؟ حدیث  کی کسی کتاب کی کوئی اچھی سی شرح لکھی ہوگی ؟ اسلاف کے مفید سرمایوں کو نئے انداز میں زیور طباعت سے آراستہ کرکے عام کرنے کی کوشش کی ہوگی ؟ اردو عربی میں کامیاب رسالے نکالے ہوں گے ؟
آپ کو ان کے " علامہ " ہونے پر اعتراض ہے لیکن ذرا ارد گرد نظر دوڑا کر دیکھیے کہ کتنے لوگ ان کی طرح ہمہ جہت کام کے آپ کو ملتے ہیں ؟ کبھی ان کی کتاب " کاروان حیات " کے صفحات پلٹ کر دیکھیے اور پھر آپ کو احساس ہوگا کہ وہ صرف خود کو علامہ نہیں سمجھتے بلکہ ان بہت سے  علماء کے لیے وہ " علامہ " ہی لکھتے ہیں جن کو عام طور سے علامہ نہیں کہا جاتا ۔ آپ کو زندگی میں ان سے کوئی اختلاف ہوسکتا تھا ، ہوا ہوگا ، ان کی کوئی چيز آپ کو اچھی نہیں لگی ہوگی ، وہ انسان تھے ، فرشتہ نہیں تھے ، غلطیوں سے مبرا نہيں تھے لیکن مسلمان تھے ، انتقال کرگئے تو آپ کو افسوس ہونا چاہیے تھا ، یہ آپ کے لیے بھی آزمائش تھی کہ کہیں تعصب و تنگ نظری اتنی بھی تو گہری نہیں کہ آپ ایک عالم دین کی موت پر افسوس کرنے کی بجائے اس کی خامیوں کا پٹارہ لے کر بیٹھ گئے اور اس کے محبین کی محبت کو کچھ اور زاویے سے پیش کرنے لگے ۔ 
وہ تو مر گئے ، اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں ہیں ، ہم ان کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں ، لیکن آپ نے تو اپنا اخلاق دکھلادیا ۔ عام مسلمان کی موت بھی ہو جائے تو اس کے محاسن ہی ذکر کرنے چاہیے اور ہمارے شیخ تو بہرحال عام نہیں تھے اور یہ سچائی اگر آپ قبول نہ بھی کریں تو سچائی ہے ۔
ان کی زندگی میں خود خاکسار کا یہ حال رہا کہ بہت سی علمی فکری باتوں میں ان سے اختلاف کیا ، ان کی تالیف کردہ کتابوں پر تبصرہ کیا تو بے لاگ تبصرہ کیا ، محاسن کے ساتھ ان کی خامیوں کو بھی اجاگر کیا ، بعض معاملات میں بات آگے بڑھی تو وہ تھوڑے ناراض بھی ہوئے اور پھرخوش بھی ہوئے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان چيزوں نے ان کی اصل اہمیت کو کم کردیا ہو، ان کے مقام سے غافل کردیا ہو اور ہم خود کو کچھ اور سمجھنے لگے ہوں ۔
میں بڑے بڑے لوگوں کو جانتا ہوں جو ان کی کتابوں کی تعریف کرتے ہیں ، حدیث و تفسیر اور فقہ و ادب کے ماہرین کو جانتا ہوں جو ان کو سراہتے ہیں ایسے میں کسی جیسے تیسے کی باتوں کا کیا اعتبار لیکن اخلاق کی اس گراوٹ پر افسوس ضرور ہوتا ہے ۔ واضح رہے کہ علمی انداز میں کسی علمی کاوش کا جائزہ لینا اور بات ہے اور کسی کی تنقیص اور بات ۔
آپ کی موت پر بعض ان علماء نے بھی اپنے گہرے دکھ درد کا اظہار کیا ، ان کی خدمات کو سراہا اور ان کے حسب حال القاب وآداب استعمال کیے جنہیں زندگی میں بعض معاملات میں ان سے اختلاف رہا لیکن یہی چیز در اصل ذی علم علماء اور چھٹ بھیوں میں تفریق کرتی ہے ۔اس سے خود انہوں نے اپنی عظمت فکر ونظر کا احساس دلادیا ۔ فجزاھم اللہ خیرا ۔
اللہ پاک ہم سب کو صحیح سمجھ دے اور کتاب وسنت کے مطابق چلنے کی توفیق دے اور ہمارے مربی علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ۔ آمین

ليست هناك تعليقات: