الأربعاء، مارس 11، 2020

تعزیتی نشست بروفات مفسر قرآن علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ۔ زیر اہتمام مدرسہ فلاح المسلمین السلفیہ جنگڑوا روتہٹ نیپال۔

 تحریر:- محمد علی السلفی
ناظم مدرسہ فلاح المسلمین السلفیہ جنگڑوا 

یہ بات ہے اکتوبر 1998 کی کہ دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کے اندر جمعیت ابنائے سلفیہ کی سہ روزہ دعوتی واصلاحی اور ابناء کی احتسابی میٹنگ تھی چونکہ ابناء کی حیثیت سے میں بھی اس مجلس میں شریک تھا سامعین ابناءکی پہلی صف میں ایک شخص پر میری نظر پڑی جو بہت متانت وسنجیدگی سے بیٹھے ہوئے تھے اور بغور میٹنگ کی کاروائی کو سن رہے تھے گورا چہرہ چوڑی پیشانی گہری اور متوازن سیاہی مائل آنکھیں قدوقامت ایسا کہ پستہ قد بھی نہیں کہا جاسکتا  بھرا ہوا جسم جسکو موٹاپا کا بھی گمان نہ ہو بلکہ یوں کہا جائے کہ نہ نحیف ولاغر اور نہ ہی لحیم وشحیم پوری مجلس میں الگ ہی نمایا شخصیت کا مالک میرے انجان اور غیر شناسا میں میں نے اپنے ہم نشین سلفی اخوان سے استفسار کیا کہ وہ صاحب کون ہیں تو انہوں نے جوابا عرض کیا کہ انکو نہیں پہچانتے ہیں دارالعلوم احمدیہ سلفیہ کو پورے عالم اسلام میں ان پر فخر حاصل ہے کہ انہوں نے ہی عرب وعجم میں دارالعلوم کا نام روشن کیا ہے وہ مشرقی چمپارن چندنبارہ کے ڈاکٹر محمد لقمان  صاحب سلفی ہیں ۔
ان کا یہ جملہ سننے کے بعد مجھے مزید کسی تعارف کی ضرورت نہیں تھی ظاھر سی بات ہے ان کے بارے میں بہت سنا اور جان رکھا تھا بس کبھی دیکھا نہیں تھا بلکہ دیدار کی تمنا اس دن پوری ہوئی، یہ پہلا موقع تھا جب میں نے ان کو دیکھا اور اسکے بعد پھر دو تین بار ملاقات ہوئی لیکن تفصیل سے بات کرنے موقع اس وقت ملا جب 2013 عیسوی میں مدرسہ فلاح المسلمین السلفیہ جنگڑوا کے زیر اہتمام دوروزہ بنام " پیام انسانیت " کانفرنس منعقد کر رہا تھا اور مجلس استقبالیہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ڈاکٹر محمد لقمان صاحب سلفی کو بھی بحیثت مقرر مدعوکیا جائے اسی مناسبت سے بغرض صلاح ومشورہ جامعہ ابن تیمیہ میں پہونچا اور ڈاکٹر ارشد فہیم الدین صاحب مدنی کو دعوت نامہ پیش کرنے کے بعد مفسر قرآن علامہ موصوف رحمہ اللہ کے بارے میں پوچھا کہ وہاں تک میرا دعوت نامہ کیسے پہونچے گا اور ان سے بات کیسے ہوگی ، شیخ ارشد مدنی صاحب کو اللہ اجر جزیل سے نوازے انہوں نے اچھا مشورہ دیا اور کہاکہ ڈاکٹر صاحب  email I'd  آپ لے لیجئے اور اسی پتے پر آپ دعوت نامہ ارسال کر دیجئے اور ایک روز کے بعد ان سے بات کر لیجئے آپ کو جواب مل جائیگا میں ایسا ہی کیا دعوت بھیج دیا اور اسکے بعد مجھے کسی ایسے آدمی کی جستجو تھی کہ کوئی ایسا آدمی ملے جو ڈاکٹر صاحب سے میری بات کر دے کیونکہ میں سوچ رہا تھا کہ ڈاکٹر محمد لقمان صاحب ایک عظیم شخصیت کے مالک ہیں نا معلوم وہ بات بھی کرینگے یا نہیں پھر ہمت کر کے میں نے ان کو سعودیہ والےنمبر پر فون کیا پھر ان سے جو بات ہوئی وہ میرے تصور سے پرے تھی میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک عالمی شہرت یافتہ شخصیت کا حامل شخص مجھ سے اتنی اخلاق مندی اور خندہ پیشانی سے سنجیدہ گفتگو کرینگے انکی گفتگو سے انکی اعلی ظرفی اور ذھنی بالیدگی کا اندازہ ہوا کسی نے سچ کہا ہے! 
جو اعلی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں 
صراحی سر نگوں ہوکر بھرا کرتی پیمانہ 
جب میں نے کہا کہ جنگڑوا میں جلسہ کر رہا ہوں جس میں آپ کی آمد ھمارے لئے باعث صد افتخار اور جلسے کی کامیابی کی ضمانت ہوگی اسکے بعد انہوں نے جنگڑوا کے اپنے پرانے ساتھیوں کے ایک ایک کر کے حال احوال دریافت کرنے لگے اور میں نے سب کے بارے میں انکو تفصیل سے بتا یا پھر انہوں نے ھماری بستی جنگڑوا اور یہاں پر قائم اس ضلع کی سب سے پرانی سلفی دانشگاہ مدرسہ فلاح المسلمیں السلفیہ سے اپنی محبت اور دلی جذبات اظہار کیا اور مجھ سمیت ادارہ کی ترقی اور جلسے کی کامیابی کے لئے دعائیں بھی دیں اور صحت کی ناسازی کے باوجود کہا کہ میں پہونچنے کی پوری کوشش کرونگا لیکن فون کرتے رہئے گا اور میں نے کئی بار فون بھی کیا لیکن شاید اللہ کو منظور نہیں تھا ان دنوں انکی طبیعت ناساز تھی اسلئے شریک جلسہ نہ ہو سکے نیز یہ بھی عرض کردوں کہ 1992 عیسوی میں مرکزی جمعیت کے زیر اہتمام منعقدہ ایک روزہ جلسہ میں وہ وہ جنگڑوا تشریف لا چکے تھے 
علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ گوناں گوں خوبیوں کے مالک تھے انکج خوبیوں اور خدمات کا یہاں پر احاطہ ممکن نہیں وہ تنہا ایک جہا ں کی حیثیت رکھتے تھے نیپال کی سرحد سے متصل اپنے آبائی وطن وطن چندنبارہ میں ایک چھوٹا سا مدرسہ قائم کیا تھا لیکن ادارہ کی تعمیر وترقی متعلق انکے مخلصانہ جذبوں کو اللہ رب العالمین نے شرف قبولیت بخشا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک قلیل سی مدت میں باری تعالی نے معھد التعلیم کو مرکز العلوم اور جامعۃ الامام ابن تیمیہ بنا دیا جس ایک جہاں نے کسب فیض حاصل کیا اور کر رہا ہے اور ان شاءاللہ کرتا رہے گا اسکے ساتھ تعلیم نسواں کےلئے آپ نے مدرسہ خدیجۃالکبری بھی قائم کیا،  یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان دونوں اداروں نے اپنی تعلیمی تربیتی ودعوتی کوششوں سے بہار کے اکثر حصوں سے تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ شرک وبدعت ضلالت وجہالت گمراہی بے جا رسم ورواج اور معاشرے میں پائے جانے والے بہت سارے واہیات و خرافات کاخاتمہ کر کے ایک صالح پاکیزہ معاشرہ عطا کیا ہے یقینا یہ علامہ رحمہ اللہ کی کوششوں کا ثمرہ ونتیجہ ہے ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کا سانحہُ ارتحال عالم اسلام کا منجملہ علمی خسارہ ہے آپ کے بعد یہ علاقہ علمی اعتبار سے یتیم ہوچکا ہے اور ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا بلکہ یوں کہا جائے کہ آپ بعد یہ تاریکی چھا گئی ہے تو بےجا نہ ہوگا
بچھڑا وہ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی 
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا 
رب العالمین علامہ موصوف کی بشری لغزشوں کو در گزر فرمائے،  ان خدمات ذخیرہُ آخرت بنائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کر لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے جامعہ کو انکا نعم البدل عطا فرمائے
آمین 
                   محمد علی سلفی 
                   11مارچ 2020 

ليست هناك تعليقات: