الخميس، مارس 12، 2020

شیخ محمد لقمان سلفی اور اصلاح امت کی فکر (اپریل 1943م _مارچ 2020م)

 
تحریر :عبد المالک محی الدین رحمانی 
متعلم جامعہ اسلامیہ مدینہ نبویہ 
کلیۃ الحدیث والدراسات الاسلامیہ 
_________________________

قارئین کرام! 
گزشتہ کئی مہینوں بلکہ سالوں سے بیمار چل رہے تھے، صحت میں مسلسل گرانی کی شکایت تھی اور بروز جمعرات 05/مارچ 2020 م کو بھی صبح ہی شیخ کی صحت یابی کا خیال آیا اور ان کی صحت یابی کی دعا کی اور پھر کھانا وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد تھوڑا قیلولہ کرنے لگا، اور عصر کی نماز کے لیے جیسے ہی مسجد میں داخل ہوا ایک ساتھی نے خبر دی کہ مفسر قرآن، شارح حدیث، باکمال ادیب، گوناگوں صفات کے حامل، بانی جامعہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ شیخ محمد لقمان سلفی صاحب راہ اجل کے مسافر بن گئے یہ سننا تھا کہ اچانک جسم میں سناٹا چھا گیا اور زبان گنگ ہو گئی انا للہ وانا الیہ راجعون اللہ پڑھا اور پھر یک لخت ان کے ساتھ جو حسن سلوک اور بہتر مشاہد و مناظر جو ہم نے جامعہ امام ابن تیمیہ میں رہ کر کیے تھے وہ سب نظروں کے سامنے گردش کرنے لگے اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ ابھی تو ان کے ساتھ تھا اور ابھی وہ ہمارے درمیان نہ رہے. 
ان کی زندگی کے بہت سے گوشے ہوں گے اور ان پر تحریریں بھی ہوگی میں ان کی زندگی کا ایک پہلو *" امت کے تئیں ان کی فکرمندی"* اس پر کچھ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں اس سے قبل عوام کے ساتھ ان کیا سلوک اور رابطہ تھا؟ ملاحظہ فرمائیں. 
 *شیخ علیہ الرحمہ اور عوام کے ساتھ روابط* :
شیخ علیہ الرحمہ اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز تھے، ان کی زندگی جس طرح علما و طلبا کے لیے کھلی ہوئی کتاب کی مانند تھی اسی طرح عوام الناس کے لیے بھی تھی، یقیناً جس طرح علما و طلبا ان سے کسب فیض کرتے تھے اسی طرح عوام سے بھی قربت کی وجہ سے لوگ اپنے مسائل بلا کسی جھجھک اور تردد کے آپ کے سامنے پیش کرتے اور چونکہ عوام الناس میں ان کی فکر کرنا اور ان کی اصلاح کے لیے ان کے ساتھ روابط کا مضبوط و مستحکم اور تعلق کا اچھا تال میل رہنا بے حد ضروری ہے ورنہ عوام اجنبیت محسوس کرے گی اور پھر ان سے علاحدہ ہو کر ان کی اصلاح اور فلاح کا خواب دیکھنا محال ہے، چونکہ آپ بیک وقت مفسر قرآن بھی تھے اور ایک بہترین سیرت نگار وغیرہ علوم پر فائز تھے اس وجہ سے انبیا کو ان کی اپنی قوم میں بھیجنے کے جو مقاصد اللہ تعالیٰ نے ذکر کیے ہیں ان میں سے ایک بھی ہے رسالت کا حامل ان کا اپنا اور معروف ہو تاکہ اجنبیت کا احساس نہ ہو اسی وجہ سے عوام کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہترین اور خوبصورت شکل دی تاکہ بعد میں جو اصلاح کا خیال ہے اس میں معاون ثابت ہو. 
 *شیخ اور اصلاح امت کی فکر* :
دن رات ایک کر دیتے، جب سوچتے قوم اور عوام کی صلاح و فلاح کی سوچتے، جب بات کرتے تو ان کی باتوں کا محور یہی ہوتا کہ کس طرح قوم کے لیے دینی و دنیوی فلاح و بہبودی کی راہیں ہموار کی جائیں، کس طرح معاشرے سے شرک و بدعات کا مکمل صفایا کیا جا سکے، کس طرح ہر طرف علم و معرفت کا بول بالا ہو، کس طرح قوم کے ایک ایک بچے کو اس دینی حق دینی علم سے بہر ور کیا جا سکے، کس طرح اس پر فتن دور میں قوم کی ڈوبتی کشتی کو کنارے لایا جا سکے اور بھنور سے بچایا جا سکے، کس طرح معاشرے میں دینی معرفت سے دین کی صحیح پہچان اور روشن تعلیمات سے منور معاشرہ بن سکے وغیرہ ہر وقت اسی فکر میں لگے رہتے اور یہ صرف خیال یا تصور یا صرف آرزو نہیں تھے بلکہ انہوں نے ان خوابوں کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا اور اس لیے ہر جائز وسیلہ اختیار کیا اور ہر ممکن طریقہ استعمال میں لایا ان ہی کوششوں میں سے ایک سمت جامعہ امام ابن تیمیہ کا قیام بھی ہے. 
جب تک صحت نے ساتھ دیا تب تک شیخ اکثر جامعہ امام ابن تیمیہ کا دورہ کرتے اور بالخصوص طلبہ سے ایک خاص ملاقات کرتے، کچھ باہم گفتگو ہوتی اور شیخ نصیحت کرتے اور امت کے تئیں اپنے جذبات کا اظہار کرتے، میں خود 2010 سے 2013 تک جامعہ میں بحیثیت طالب علم رہا اور ان کو قریب سے جاننے کا موقع ملا یقین مانیں شیخ نے اپنے بچوں اور جامعہ کے بچوں میں کوئی تفریق نہیں کی ہمیشہ بچوں کی فکر اور ان کی بہتر تعلیم کی فکر، سہولیات کی فراہمی اور سب خدمات اور سہولیات یا ان بچوں پر محنت، جد و جہد محض اپنے ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ یہ بچے کل کو عوام الناس کی اصلاح اور ان کی تعلیم کا ذریعہ ہوں گے اس لیے . 
 *جامعہ امام ابن تیمیہ کا قیام* :
شیخ رحمہ اللہ کی اس اصلاحی فکر کی ایک جیتی جاگتی اور منہ بولتی تصویر جامعہ امام ابن تیمیہ کا قیام بھی ہے، شیخ کو امت کی فکر کس قدر تھی اس سے اندازہ لگائیں کہ اپنا سب کچھ وار دیا، اس فکر کو منزل تک پہنچانے کے لیے، اپنے اس خواب کو حقیقت کی شکل دینے کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا، اس سنہرے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنی پوری زندگی جانثار کر دی، ان کی نیک نیتی و خلوص اور امت کے تئیں فکر مندی کا ہی کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے بعد شیخ کی جد و جہد اور آپ کی سعی مشکور ہے کہ ہند کیا دنیا کے کئی مقامات پر جامعہ کے فارغین اپنی بہترین کارکردگی اور نشاطات سے اپنا لوہا منوا رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں اب تک فراغت حاصل کر چکے ہیں اور مختلف شعبوں میں میں اپنا نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں، کوئی صحافت میں تو کوئی کتابت میں، کوئی تدریس میں تو کوئی تحریر میں، کوئی خطابت میں تو کوئی کتابوں کی تالیف و ترتیب میں الغرض بہت سے میدانوں میں ان کے لگائے ہوئے اس درخت کے پھل اپنا تعارف کروا رہے ہیں، اور شیخ نے جس نیک نیتی سے جامعہ کا خواب دیکھا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی ہی میں انہیں یہ سارے اعزاز سے سرفراز فرمایا اور ان کا خواب مکمل ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں دیکھنے کا موقع دیا. 
 *کلیہ خدیجۃ الکبریٰ للبنات* :
اسی کی ایک شاخ کہیں یا ایک نوعیت کہیں کہ شیخ نے جہاں قوم کے بچوں کی بہتر تعلیم اور تربیت کا انتظام کیا تو پھر خیال آیا کہ پھر قوم کی بچیاں کیوں اس نعمت سے محروم رہیں اس لیے قوم کی بچیوں کو بہتر زندگی کی تعلیم دینے اور امت کی رہنمائی کے لیے کلیہ خدیجۃ الکبریٰ للبنات کے نام سے خالص بچیوں کا ایک ادارہ قائم کیا اور اس کا بھی مقصد اور مرکزی تصور یہی کہ کسی طرح قوم کی اصلاح کی جائے خواہ بچوں کی رہنمائی میں ہو یا پھر بچیوں کی زیر تربیت.-اللہ تعالیٰ شیخ کو جزائے خیر سے نوازے آمین. 
مختصر یہ کہ شیخ رحمہ اللہ ہمیشہ سادہ زندگی اور بلند سوچ کے حامل رہے اور اسی فکر کے ساتھ اپنا سب کچھ حتی کہ پوری زندگی اسی خواب کو سنوارنے اور اسی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تگ و دو کرتے رہے اور بالآخر بروز جمعرات 05 مارچ 2020م کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے. (انا للہ وانا الیہ راجعون) - اللہ تعالیٰ شیخ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین. 
یا رب العالمین تو ان کی لغزشیں معاف فرما ، ان کی دینی خدمات کو شرف قبولیت عطا فرما ،ان کی اخروی زندگی کے مراحل آسان فرما ، ان کی محنتوں کو حسنات میں شامل کرتے ہوئے ان کے لیے ذریعہ نجات بنا اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما . آمین

ليست هناك تعليقات: