الأربعاء، مارس 11، 2020

آسمانِ علم وادب کا ماہتاب غروب ہوگیا




عزم وہمت کے کوہ گراں اور عہد ساز شخصیت ،ڈاکٹر محمد لقمان سلفی رحمہ اللہ کی حیات وخدمات  کامختصر سوانحی خاکہ



آسمانِ علم وادب  کا  ماہتاب غروب ہوگیا

 
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم ،اما بعد
اللہ  تعالی کے فرمان{کل نفس ذائقۃ الموت} کی روشنی میں ہرذی روح کو اس فانی دنیاسے کوچ کرنا ہے۔اللہ سبحانہ وتعالی کی  لازوال و لافانی ذات کے سوا کسی کو بقا ء ودوام نہیں۔اور کائنات کے اسی ثابت اور غیر متغیر  اصول کی پابند یہ حیات ہے ،جو روح کی شکل میں انسانی جسم سے پرواز کرنے کے بعد دنیوی زندگی کے لیے  لوٹائی نہیں جاتی ۔اب  انسانی ا رواح کے لواحقین و اولیاء  کے لیے اس کے علاوہ کوئی  چارہ کار نہیں کہ وہ  فوت شدگان   پر صبر واستقامت کا مظاہرہ کرے اور دعائے مغفرت فرمائے۔
یہ خبر۵ مارچ،۲۰۲۰ ،برز جمعرات ،شام کے ۴:۵۷ کی ہے ،جب بڑےبھائی شیخ رفیع اللہ مسعود تیمی صاحب کی کال آتی ہے، اور یہ خبر جانکاہ سماعت سے ٹکراتی ہے کہ ہم سب کے مربی ،جامعہ امام ابن تیمیہ کے رئیس وموسس ڈاکٹر لقمان سلفی نہ رہے۔یہ خبر ایسی تھی کہ تھوڑی کے لیے اپنی کانوں پر یقین نہ آیاکہ ابھی خبر ملنے سے  دو سے ڈھائی گھنٹے قبل کی بات ہے ،ہم تیمی اخوان جامعہ الہدی  الاسلامیہ کے کیمپس میں دکتور رحمہ اللہ کی ناسازی طبیعت پر  باتیں کررہے تھے اور طبیعت کی بحالی  کی دعا بھی۔لیکن اللہ تعالی کو کچھ اور ہی منظور تھا ،جس کی خبر قبل از وقت انسان کو نہیں ہوسکتی۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔اللہ تعالی آپ کی مغفرت فرمائے،اور آپ کے لواحقین کو صبر جمیل دے۔موصوف رحمہ اللہ کے حسنات اس قدر ہیں کہ اس کا احاطہ بمشکل ہوپائے۔ذیل کے سطور خلاصہ ہیں آپ کی زندگی کا۔


نسب نامہ:محمد لقمان سلفی بن محمد بارک اللہ بن محمد یاسین بن محمد سلامت اللہ بن عبد العلیم صدیقی [رحمہم اللہ ]
ولادت:آپ کی سوانح عمری کے مطابق آپ کی پیدا ئش تقریبا ۲۳ اپریل ۱۹۴۳ میں ہوئی۔"چندن بارہ"صوبہ بہار،مشرقی چمپارن کا وہ مردم خیز علاقہ ہے جہاں ہندوستان کے اس عظیم اسکالر نے آنکھیں کھولیں ،جنہیں دنیا ئے عرب وعجم ڈاکٹر محمد لقمان سلفی کے نام سے جانتی ہے ۔
ابتدائی تعلیم:جیسا کہ گاوں  اور دیہاتوں کا چلن ہے کہ بچوں کی ابتدائی تعلیم ان کے گاوں میں ہوتی ہے۔ڈاکٹر موصوف نے بھی گاوں کے مکتب سے کسب فیض کیا۔اس کے بعد ضلع پورنیہ میں مولوی محمد الیاس صاحب کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی۔

سند فراغت:تکمیل تعلیم اور سند فراغت کے لیےآپ کا داخلہ   ،ضلع دربھنگہ میں واقع صوبہ بہار کے معروف ومشہور ادارہ "دارلعلوم احمدیہ سلفیہ" میں ہوا۔یہاں آپ نے ۱۹۵۶ تا تکمیل  تعلیم وقت گزارا اور ۶ سال  یہاں زیر تعلیم رہے ،اورممتاز وجید علمائے کرا م ،جیسے:مولانا ظہور احمد رحمانی،مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی،مولانا عین الحق سلفی  وغیرہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔

مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ:دینی وشرعی تعلیم وتعلم  سے شغف رکھنے والا ،ہر فرد یہ تمنا رکھتا ہے کہ اللہ تعالی اسے  اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک شہر میں واقع "جامعہ اسلامیہ" میں داخلہ ملوا دے۔اللہ تعالی نے  آپ  کو یہ زریں ،حسین اور مبارک موقع بھی عطا کیا  اور آپ ۱۴ رمضان المبارک ۱۳۸۲ ھ میں "ابنائے جامعہ اسلامیہ "کا حصہ بن گئے، اور عرب علمائے کرام سے خوب استفادہ کیا،جن میں چند قابل ذکر نام یہ ہیں:سابق مفتی عام  مملکت سعودی عرب  علامہ عبدالعزیز بن باز ،محدث عصر علامہ محمد ناصرالدین البانی،مفسر،فقیہ  علامہ محمد امین شنقیطی رحمہم اللہ اور محدث مدینہ  شیخ محترم علامہ عبدالمحسن عباد حفظہ اللہ ۔موصوف رحمہ اللہ نے ۱۹۶۴ میں"مدینہ یونیورسٹی " سے گریجویشن کیا  ،۱۹۷۰ میں"المعھد العالی للقضاء"سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ۔"السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی"یہ آپ کا ایم اے کارسالہ ہے۔اسی طرح آپ کا علمی  سفر جاری رہا کہ "جامعۃ الامام محمد بن سعود" نے مقالہ "اہتمام المحدثین بنقد الحدیث سندا ومتنا " پر آپ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی ۔

مقر عمل:جامعہ  اسلامیہ سے فراغت کے بعد اللہ تعالی نے آپ کا مقر عمل بھی سعودی عرب  ہی منتخب کیا۔اور مفتی عام مملکت سعودی عرب،علامہ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ کے  مترجم اور باحث  کے بطور آپ کی تقرری ہوئی،جس فرض منصبی کو آپ نے بحسن وخوبی انجام دیا۔سعودی حکومت سے شہریت ملنے کے بعد آپ تاحیات یہیں رہے،لیکن لمحہ بھر کے لیے بھی اپنے وطن سے غافل نہ ہوئے۔سال میں ایک یا دوبار  اپنے ملک ہندوستان ،آپ کا آنا ضرور ہوتا،جس  کی  اہم بڑی وجہ  یہ تھی کہ آپ کے خوابوں کی تعبیر  "جامعہ امام ابن تیمیہ " یہیں واقع  ہے۔

جامعہ امام ابن تیمیہ کی تاسیس:"چندن بارہ"موتیہاری  اور ڈھاکہ  سے متصل مشرقی چمپارن  ،صوبہ بہار کا وہ علاقہ ہے جو کہ علامہ  موصوف کی جائے پیدائش  ہے ،اور جہاں آپ کے حسین خوابوں کی بستی "مدینۃ السلام "واقع ہے۔ سن۱۹۶۵میں اس ادارہ کی بنیاد   "معہد اسلامی "  کے نام سے ڈالی گئی تھی،جسے اللہ تعالی نے  دعوت توحید کی نشرواشاعت کے لیے منتخب کرلیا اور آج یہ تنہ آور درخت  بنام"جامعہ امام ابن تیمیہ" کے  اپنی  منفرد اور امتیازی  پہچان رکھتا ہے۔
اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ بار الہ تو بانی جامعہ کے  اس گہوارہ علم وعمل کو قبول فرما لے اور آخرت میں ان کی نجات کا ذریعہ بنا دے۔

عہد سازشخصیت:اپنی گوناگوں صلاحیتوں کی وجہ سے آپ اپنی ذات میں انجمن تھے۔بقول شیخ اشفاق سلفی حفظہ اللہ :"موصوف کی قد آور اور عہد سازشخصیت  عرب وعجم میں یکساں معروف ومشہور تھی۔زمانہ ان کی گوناگوں خصوصیات سے واقف ہے۔ ماشاء اللہ۔زبان وقلم کی دولت سے مالا مال تھے۔مختلف علوم وفنون میں مہارت حاصل تھی۔ان کی تالیفات  اور تراجم سے ایک عالم فیضیاب ہو رہا ہے۔عزم وہمت کے کوہ گراں تھے۔چنانچہ اپنی جائے پیدائش چندنبارہ،مشرقی چمپارن میں جامعہ امام ابن تیمیہ نام سے ایک  عربی درس گاہ قائم کی اور محض چند سالوں میں اسے ملک کی قدیم اور عظیم درس گاہوں کے صف میں لاکھڑا کیا۔ان کی وفات سے دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ[بہار] اپنے ایک عظیم  اور عالمی شہرت یافتہ فارغ التحصیل سے محروم ہوگیا"۔[ آپ کے سانحہ ارتحال پر شیخ  محترم محمد اشفاق سلفی    حفظہ اللہ   کی تحریر  کا اقتباس]

تالیفات:تالیف وتصنیف کے باب میں علمی ذخائر کا گراں قدر سرمایہ آپ کے نام ہے،جس سے امت تا قیامت مستفید ہوتی  رہے گی۔آپ کی  وہ تالیفات جنہیں عرب وعجم میں یکساں مقبولیت ملی،ان میں چند قابل ذکر یہ ہیں:السنۃ ومکانتھا فی التشریع الاسلامی،اھتمام المحدثین بنقد الحدیث،سندا ومتنا ودحض مزاعم المستشرقین واتباعھم،السعی الحثیث الی فقہ اھل الحدیث،رش البرد شرح الادب المفرد ،تحفۃ الکرام لشرح بلوغ المرام،الرحمۃ المھداۃ فی سیرۃ سیدالمرسلین الھداۃ۔آپ کی مشہور زمانہ تالیفات میں "تیسیر الرحمن لبیان القرآن"  اردو داں طبقہ کے ہر خاص وعام میں یکساں مقبول ہے۔اس کے علاوہ  موصوف نے عربی  درسیات میں تفسیر،حدیث،سیرت اورعربی ادب پر"فیوض العلام تفسیر آیات الاحکام ،ھدی الثقلین،الصادق الامین ،السلسلۃ الذھبیۃ للقراءۃ العربیۃ " کے نام سے  کافی مفید کام کیا ،جو اہل مدارس وطلبہ کے لیے  علمی تراث کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

 ابنائے جامعہ کےساتھ رشتہ:
ڈاکٹر موصوف اپنے ابنا  پر نہایت شفیق ومہربان تھے۔ان کی راحت  کا خیال فرماتے تھے۔جب بھی جامعہ میں ان کی تشریف آوری ہوتی ،تو موصوف اپنے بچوں کو ضرور وقت دیتےاور ان کی باتوں کو سنتے۔مجھے یاد ہے ۲۰۰۸میں جب آپ جامعہ تشریف لائے اور طلبہ نے خاص نشست کی درخواست کی تو ضعیف العمری کے باوجود ہاسٹل تشریف لائے۔آپ کو تعجب ہوگا کہ موصوف کے لیے جہاں پر نشست کا اہتما کیا گیا تھا وہ جگہ“دارالاخبار”کی تھی جو کہ ہاسٹل کی تیسری منزل پر ہے۔چنانچہ آپ نے طلبہ کی محبت میں اس صبر آزما صعود کو بڑے عزم وحوصلہ کے ساتھ قبول کرلیا۔
دوسرا واقعہ ۲۰۰۹ کا ہے،جب میری فراغت ہوئی اور حصول شہادہ کے لیے جامعہ جانا ہوا۔عام طور پر جامعات میں ہوتا یہ ہے کہ قدیم طلبہ جب کسی غرض سے اپنے مادر علمی جاتے ہیں تو انہیں بعض موقع سے کچھ دشواریاں پیش آتی ہیں۔اسی قسم کی دقت کا مجھے بھی سامنا ہوا،جس سے طبیعت تھوڑی کبیدہ ہوگئی۔اتفاق سے میرے پاس بانی جامعہ کا نمبر تھا،میں نے فون ملادیا۔آپ نے دیگر ذمہ داران ،یا ارباب جامعات کی طرح یہ کہہ کر فون نہیں کاٹ دیا کہ اچھا دیکھتا ہوں!یا ابھی رکھو!مشغول ہوں،بعد میں فون کرو۔ان سب سے الگ بڑے ہی متانت وسنجیدگی اور محبت سے میری پریشانیوں کو سنا اور مسئلہ کے حل کی یقین دہانی کرائی۔تھوڑی ہی دیر میں استاذ محترم،نائب رئیس جامعہ ڈاکٹر محمد ارشد مدنی حفظہ اللہ  کے ذریعے قضیہ حل ہوگیا۔

صاحب تیسریر الرحمن لبیان القرآن علامہ ڈاکٹر محمد لقمان  سلفی رحمہ اللہ!آپ بلاشبہ زندہ نہ ہوں، مگر آپ کی دعوتی وسماجی خدمات آپ کو زندہ وجاوید رکھیں گی۔جامعہ امام ابن تیمیہ آپ کا لگایا ہوا وہ پودا ہے جو ہمیشہ بارآور ہوتا رہے گا اور آپ کے میزان حسنات کو بڑھاتا رہے گا۔تا قیامت آپ کو صدقہ جاریوں اور دعاؤں کی کمی نہ ہوگی۔
اللہ  تعالی آپ کی لغزشوں کو درگزر فرمائے اورجنت الفردوس میں  جگہ دے ۔ آپ کے جملہ لواحقین ومنسوبین جامعہ کو صبر  اور جامعہ کو آپ کابہتر بدیل عطاکرے۔

شاکرعادل عباس تیمی

ليست هناك تعليقات: