الأربعاء، مارس 11، 2020

ڈاکٹر محمد لقمان سلفی : بحیثیت عربی ادیب

صادق جمیل تیمی 
    
اس بوقلمونی دنیا میں بہت سے لوگ آتے ہیں، اپنی زندگی بسر کرتے ہیں اور پھر وقت موعود پر لوٹ جاتے ہیں لیکن انہیں میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے جو دنیا میں اپنی مستعار حیات کو اپنی شخصیت سازی، اپنی ایک الگ شناخت و تشخص قائم کرنے میں صرف کرتے ہیں اور اپنے پیچھے امت کے لیے لازوال خدمات اور عظیم کارنامے چھوڑ جاتے ہیں - انہیں میں سے ایک بڑی شخصیت مفسر قرآن، مایہ ناز سیرت نگار، درجنوں کتاب کے مصنف و مولف،جامعہ ابن تیمیہ کے موسس ڈاکٹر لقمان سلفی کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب جہاں رفاہی و دینی خدمات انجام دیے وہیں پر تصنیفی و تالیفی میدان میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جو آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا ایک اہم پہلو بحیثیت عربی ادیب آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
 اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عربی زبان و ادب دنیا کی ان زندہ زبانوں میں سے ہے جس کے پڑھنے و بولنے اور اس کی وراثت کی حفاظت کرنے والوں کی تعداد شروع ہی سے بہت زیادہ رہی ہے، چوں کہ یہ قرآن کی زبان ہے اور قرآن تاقیامت محفوظ رہے گا تو لامحالہ عربی زبان و ادب بھی تاقیامت محفوظ رہے گی - بلاد عربیہ کے ادبی شخصیات نے جس طرح عربی زبان و ادب کے گیسوں کو سنوارا اور اس کے نوک وپلک کو درست کیا اور اس میں عظیم کارنامہ انجام دیا وہیں پر عرب سے دور سمندر پار برصغیر ہند و پاک کا ادب نواز طبقہ اس میں پیچھے نہیں رہابلکہ اس میں کسی قسم کی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ مولانا ابو الحسن ندوی، ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی، عبد العزیز میمنی، یوسف سورتی اور خلیل عرب وغیرہ نے اپنی عربی تحریر کے ذریعہ سے ایک دنیا کو اسیر کیا - اسی سلسلہ کی اہم کڑی ڈاکٹر لقمان سلفی ہیں جن کی عربی دانی کا معترف عرب بھی ہے خصوصا ادب نواز طبقہ بھی ہے۔

 عربی زبان و ادب میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ رہا کہ انہوں نے حالات حاضرہ کے موافق مدارس اسلامیہ کے عربی زبان و ادب کی تدریس کے لیے ایک اہم سلسلہ '' السلسلۃ الذھبیۃ للقرأۃ العربیۃ '' تیار کیا - یہ خوبصورت سرورق کے ساتھ کتابی شکل میں موجود ہے جس میں ابتدائیہ تا فضیلت کے لیے بارہ جلدیں ہیں - یہ سلسلہ قدیم و جدید کا امتزاج، ادبی شہ پارے، زبان و ادب کی تاریخ و تہذیب، گردش زمانے کے ساتھ زبان و بیان کی تغیرات، قرآن و سنت کے ادبی متون پر مشتمل ایک عمدہ و مفید سلسلہ ہے  - مرحلہ وار اس کی ترتیب و تنسیق قابل ستائش و لائق تعریف  ہے - پاکستان کے بعض ادارے میں بھی یہ کتاب شامل نصاب ہے۔

 اس کے علاوہ بقول استاد محترم شیخ اسد الرحمن تیمی ڈاکٹر صاحب ادب کے کثیر المطالعہ شخص تھے اور عربی زبان و ادب کے اسرار و رموز پر مضبوط گرفت تھی - اس کی عربی دانی اور اس میں مہارت و براعت کا اندازہ سے اسی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک زمانہ میں سعودی عرب سے ایک مجلہ '' الادیب '' شائع ہوتا تھا اور اس میں انہیں اشخاص کی نگارشات شائع ہوتی تھیں جو ادب کے اعلی چوٹی پر فائز تھے اس میں ڈاکٹر لقمان سلفی کے مضامین شائع ہوتے تھے اور آپ اس کے ایک خصوصی کالم نگار تھے۔ایک مستقل کالم آپ کے نام سے شائع ہوتا تھا، بعد میں اس مجلہ کی اشاعت بند ہو گئی - اس کے علاوہ عربی زبان میں ''اہتمام المحدثین بنقد الحدیث سندا و متنا '' اور  مکانۃ السنۃ و حجیتہا فی التشریع الاسلامی،،اور ”الرحمۃ المہداۃ،،جیسی اہم و تحقیقی کتب اپنے اشہب قلم سے لکھ کر دنیا کو یہ بتا دیا کہ عجم محض اپنی زبان کو نہ صرف جانتا ہے بلکہ دنیاکی دوسری زندہ زبان پر بھی عبور رکھتا ہے اور اس میں اپنے اظہار خیال کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

 ڈاکٹر علامہ کی عربی دانی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ شیر اہل حدیث پاکستان علامہ احسان الہی ظہیر کو جب عربی زبان و ادب کی کسی عبارت میں کوئی دقت محسوس ہوتی تو وہ اور کسی کے پاس نہیں بلکہ عرب کو چھوڑ کر تنہا اپنے ساتھیوں سے چھپ کر ڈاکٹر صاحب کے پاس آتے تھے اور زبان کی گتھیوں کو حل کرتے تھے۔اس واقعہ کو ڈاکٹر صاحب نے اپنی خود نوشت سوانح ”کاروان حیات،،کے اندر بیان کیا ہے۔مفتی عام علامہ ابن باز بھی آپ کی علمی شخصیت کا معترف تھے اور انہوں نے کہا کہ اس شخص (ڈاکٹر لقمان سلفی) میں جو علمی جوہر ہے اس کی وجہ سے میں انہیں پر اعتماد سمجھتا ہوں۔

 بحیثیت مجموعی یہ بات سامنے آئی کہ ڈاکٹر صاحب نہ صرف حدیث و تفسیر میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑے بلکہ زبان و ادب خصوصا عربی زبان و ادب کے نوک و پلک  کی درستگی میں اہم رول ادا کیے اور آئندہ آنے والی نسل کے لیے بھی اس میدان میں اپنی قیمتی نگارشات پر مشتمل عمدہ سلسلہ '' القراءۃ العربیۃ '' چھوڑ گئے - یعنی اس میدان اپنی جگر کاوی و جگر سوزی سے عالم عربی کو متاثر کیا اور اس مصرعہ کے مصداق ٹھہرے کہ  ؎

     مجھے مقام نہ دو میں خود مقام لے لوں گا

ليست هناك تعليقات: