الثلاثاء، مارس 10، 2020

بڑی خوبی تھی مرنے والے میں!



 وسیم اکرم اسماعیل تیمی
 جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ
       یقیناً١٠/رجب المرجب ١٤٤١ھ بروز جمعرات موافق ٥/مارچ ٢٠٢٠م ہمارے لیے نہایت ہی افسوسناک اور کربناک دن تھا۔ کلاس سے نکلا اور کھانے سے فارغ ہوکر بستر کی طرف جیسے ہی لیٹنے کے لیے جارہاتھا کہ اچانک نظر موبائل کی اسکرین پر پڑی"تیمی گھر"نامی گروپ پر ہمارے مربی اور مؤسس جامعہ امام ابن تیمیہ کی وفات کی خبر گردش کرنے لگی, کسی کو یقین نہیں ہورہا تھا کہ یہ خبر صحیح ہے یا افواہ, تمام لوگ اس کی تحقیق میں لگےہوئےتھے۔میں نے فوراً رئیس جامعہ عبداللہ محمد السلفی حفظہ اللہ سے اس خبر کی تصدیق کے لیے ان کے واٹساپ میں میسیج کیا تو انہوں نے اس خبر کو صحیح ٹھہرایا،چشم زدن میں یہ خبر بجلی کی طرح پھیل گیی۔اس کے بعد ایسی بےچینی ہونےلگی جس کو بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ہم جامعہ اسلامیہ آنے کے بعد شیخ رحمہ اللہ سے سے ملاقات کرنے کے خواہاں تھے لیکن شیخ کی خرابی صحت کی وجہ سے یہ ارمان پورا نہ ہوسکا!
    اپنی سات سالہ جامعہ کی زندگی میں اپنے مربی کو جو دیکھا تھا وہ بالکل میری نظروں کے سامنے ہویدا ہوگیی۔یقینااس طرح کی شخصیت خال خال ہی نظر آتی ہے!
    بانى جامعہ رحمہ اللہ گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے۔بیک وقت مفسر،ادیب ،سیرت نگار،شارح حدیث فقیہ،اورعلمی دنیا کے ایک روشن چراغ تھے۔اخلاق مند،خدمت خلق کے داعی،مونس وغمخوار،بچوں سے محبت کرنے والے،کتاب وسنت کے علمبردار،ماحی سنت ،قاطع بدعت اور تواضع وخاکساری کے پیکر تھے۔ان کی تحریریں مذکورہ صفات کے غماز ہیں۔
      ان کارہہن سہن اور لباس بالکل سادہ ہواکرتاتھا، سعودی عرب میں ایک لمبی مدت سے مقیم تھے،باوجود اس کےانہوں نے اپنی عام زندگی کو کبھی نہیں چھوڑا۔شروع میں جب میں جامعہ گیا تھا تو شیخ کا نام سناکرتا تھا اور بہت ساری باتیں سوچا کرتا تھا لیکن جب ان کو بالکل قریب سے سادہ اور عام حالت میں یعنی کرتاپاجامہ اور ٹوپی میں  دیکھا تو کافی حیرت ہوئی! 
      اتنی بڑی شخصیت ہونے کے باوجود کبھی ہمیں ایسا محسوس نہیں ہوتا تھا کہ شیخ رحمہ اللہ کے اندر کبرو غرور نام کی کوئی چیز ہے۔
     آپ کی آمد پر ایک مرتبہ شعبہ تحفیظ میں صرف طلبہ کے ساتھ ایک پروگرام رکھاگیا جس میں کوئی استاد نہیں تھے (غالباً میں ثانیہ ثانویہ میں تھا)جس میں انہوں نے ہم طلبہ کو تعلیم و تعلم پر دھیان دینے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ :"اپنے آپ کو کبھی بھی کسی کے سامنے حقیر نہ سمجھنا،خوب پڑھنا،خوب آگے بڑھنا لیکن اپنی شناخت اور تشخص برقرار رکھنا تاکہ کسی کی انگلی تم پر نہ اٹھ سکے"واقعی یہ بہت بڑی بات تھی!!
   شیخ رحمہ اللہ کبھی بھی ہمیں کالیجیز اور بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکتے تھے بلکہ جب ان کے سامنے جے این یو یونیورسٹی وغیرہ میں تعلیم حاصل کرنے والے تیمی اخوان کا تذکرہ کیا جاتا ،بہت خوش ہوتے تھےلیکن وہ ہمیشہ اس طرح کہ موقع پر نظیر اکبر الہ آبادی کے یہ دو اشعار پڑھتے:
تم شوق سے کالج میں پڑھو ،پارک میں کھیلو
جائز ہے غباروں میں اڑو ،چرخ پہ جھولو
پر ایک سخن بندہ عاجز کی رہےیاد  
 اللہ کو اور اپنی کی حقیقت کو نہ بھولو
      یہ سوچ ہمارے مربی رحمہ اللہ کی تھی ۔ڈی ایم ایل پبلک اسکول کی افتتاح کے موقع پر ان اشعار  کو باربار دہرا رہے تھے،دراصل وہ یہ باور کرانا چاہ رہے تھے کہ ہم دنیا حاصل کرنے کی خاطر اپنے دین کا سودا ہرگز نہ کریں۔
     جامعہ امام ابن تیمیہ کی شکل میں انہوں نے  ایک ایسا گلشن آباد کیا جو ان کی سوچ اور اور فکر کی غماز ہے۔انہوں نے وہاں بودوباش اور رہن سہن کا انتظام کافی نرالا رکھا ہے۔ہم جامعہ جانے سے پہلے جن اداروں میں تعلیم حاصل کررہے تھے وہاں ہمیشہ ڈپریشن میں مبتلا رہتے۔پڑھنے کے بعد کیا ہوگا!! وہی چھوٹا مدرسہ میں پڑھا کر اپنی زندگی بسر کرنا پڑے گا وغیرہ وغیرہ۔لیکن جامعہ جاتے ہی وہاں کی دنیا بالکل الگ پایا،ذہن کے تنگ دریچے وسیع ہوگیے۔یہ کمال ہمارے گلشن کے مالی کا تھا۔ جس کا پرتو وہاں کے ہمارےاساتذہ کرام حفظہم اللہ میں پائے جاتے ہیں۔ غفر اللہ لہ وادخلہ فسیح جناتہ!!!
   شیخ رحمہ اللہ ہمہ وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ میرے بچوں کی علمی لیاقت وقابلیت کیسے بلند ہو،ان کے اندر خوداعتمادی بحال کیسے ہو؟اس کے لیے ایک بہت بڑی مرکزی لائبریری مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کے نام سے موسوم قائم کیا،جو مختلف علوم و فنون پرمشتمل ہے۔جہاں پرمتلاشیان علم اپنی علمی تشنگی بجھاتے ہیں۔مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ ان کے آئیڈیل اور ہیرو تھے۔ ((یہاں پر ضمنا ایک بات عرض کردوں کہ شیخ رحمہ اللہ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کے عاشق تھے،ان کی شان میں ادنی تقصیر برداشت نہیں کرتے تھے۔اس کو میں نے جامعہ کی ایک سیمینار (تحریک آزادی ہند میں مسلمانوں کا کردار) میں مشاہدہ کیا،اس میں تمام مقالہ نگاران ہمارے تیمی اخوان تھے۔ایک مقالہ نگار نے فقط مولانا ابوالکلام آزاد پڑھا،اسی وقت شیخ اسٹیج پر بولے عزیزم"امام الہند"کا اضافہ کریں))اس قدر ان کے مداح اور محب تھے۔
     شیخ رحمہ اللہ ہم طلبہ سے ہمیشہ میرے بچو،میرے بیٹواور تیمی اخوان سےعزیزم جیسے الفاظ سے مخاطب ہوتے تھے ۔یہ ان کی ہم سے محبت کی دلیل تھی۔ 
   شیخ رحمہ اللہ کی ایک ممتاز صفت یہ تھی کہ اپنے فارغین کی بہت زیادہ قدر کرتے تھے،یہی وجہ ہے کہ جامعہ کے فارغین کی ایک بڑی ٹیم جامعہ میں تدریس کافریضہ انجام دے رہے ہے۔شیخ رحمہ اللہ ہمیشہ اپنے فارغین پر نازکرتے تھےاور کہا کرتے تھے، میرے بچے کسی بھی میدان میں بڑے سے بڑےکارنامےانجام دے سکتے ہیں۔حقیقت بھی ہے، پوری دنیا میں ان کے ابناء علمی،تحقیقی،تصنیفی وتالیفی اور دیگر میدانوں میں نمایاں کارنامے انجام دے رہے ہیں۔یہ ان کی دعا،بےلوث محبت اور سعی مسلسل کا نتیجہ ہے۔
       اللہ تعالیٰ شیخ رحمہ اللہ کی لغزشوں سے درگزر فرمائے اور ان کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں انبیاء کرام علیہم السلام،صالحین اور شہداء کے ساتھ اعلی مقام عطا کرے۔آمین یارب العالمین

ليست هناك تعليقات: