السبت، يناير 31، 2015

ماں کا پژمردہ چہرہ

محمد شاکر عادل محمد عباس تیمی
جامعہ اسلامیہ،مدینہ منورہ



 ماں تو خوشی سے آج پاگل ہوئی جاتی ہے. پڑوسن پوچھتی ہے کیا بات ہے رحیمن آپا "لگتا ہے کوئی" سونے کا ٹکڑا"ہاتھ لگ گیا ہے! ماں جواب میں کہتی ہے.ان کا چہرہ لائق دید ہے."میرا لعل دسویں کتھا میں اول نمبر لایاہے" زندگی کس مپرسی میں ہے.اور قرض لے کر شیرینی تقسیم ہورہی ہے کہ "میرا بابو"ثانویہ میں فرسٹ پوزیشن لایا ہے. اب جامعہ کے لئے فیس کا بندوبست.نیا ڈریس بھی تو ہونا چاہئے.کتابیں بھی خریدنی ہوں گی.پرانی کتابیں بھی اسٹالوں سے خریدی جاسکتی ہیں.مگر نہیں. ان کا بیٹا کیسے پرانی کتابوں میں پڑھے گا. جب کہ دوسروں کے پاس نئی کتابیں ہوں گی.بیٹا کہتاہے"ماں!ایک جوتا چمڑے کا ہوتا تو..."ابھی الفاظ پورے بھی نہیں ہوئے کہ اپنی مسکنت کے کرب کومسکراہٹ میں چھپا کر کہتی ہے"کوئی بات نہیں میرے لعل میں لادوں گی". گھر سے کالج روانگی کا وقت آن پڑا. ماں نہیں چاہتی کہ اس کے جگر کا ٹکڑا اس سے جدا ہو.مگر کیا کرے! یہ تعلیم و تعلم ضروریات ہیں.واجبات ہیں. زندگی کے تجربات ہیں. جنہیں گھر بیٹھے حاصل نہیں کیا جاسکتا.اس لئے وہ اپنے لاڈلے کی دوری کے الم کو برداشت کرنے پر مجبور ہے. وہ صبر کرتی ہے.سلامتی کی دعائیں کرتی ہے. اور اس وقت کا انتظار کرتی ہے جب وہ اس کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگا.اس کے کمزور بازؤوں کو سہارا دے گا.اس کے لاغر جسم کو قوت بخشے گا.اس کی کمزور بینائی کا بینا بنے گا.اس کاسکھ بنے گا،سکون بنے گا.مشفق ہوگا. لطیف ہوگا.مہربان ہوگا. آج ماں کا حال یہ ہے کہ وہ خوشی سے دوہری ہوئی جاتی ہے کہ اس کی محنت بے رنگ نہ ہوئی. ان کا بیٹا اب پڑھائی مکمل کرچکا ہے. ماشاءاللہ قسمت سے اچھی ملازمت بھی پائی ہے.اور اب ساری فکر اسی بات پر آ ٹکی ہے کہ کوئی پری پیکر اس کے گھر آنگن کی تقدیر بن جائے.رشتوں کا تانتا ہے.اور یہ تو ہونا ہی ہے جب لڑکا ہونہار ہو.وجیہ شخصیت کا مالک ہو. اور سونے پر سہاگہ اس وقت جب کسی اچھی فرم میں ملازم ہو تو ہر لڑکی والا چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی کا رشتہ قبول کیا جائے جس کے لئے وہ دعائیں بھی کرتا ہے.سفارشیں بھی لگتی ہیں.ایسا ہی کچھ آج ماں کے اس فرزند کا بھی ہے.  خیر سے رشتہ ہو چکا. اب چند روز میں شادی کی ساری رسمیں ادا ہو جائیں گی.تیاریاں جاری ہیں.آج دعوت نامے تو کل کپڑے کی خریداری. حلوائی کوگلاب جامن اور بالو شاہی کا آرڈر. ماں کے مائکہ والے بھی آئے ہیں.لڑکا کے ماموں زادوں اور خالہ زادوں کی بھیڑ ہے. سبھوں پر ذمہ داریاں تقسیم ہیں جسے وہ اچھے انداز میں نباہنے میں مصروف ہیں.شادی کو مثالی بنادینا چاہتے ہیں.ادھر ماں خوش تو ہے پر تھوڑا کھوئی-کھوئی سی ہے.رہ رہ کر بسااوقات وہ کسی انجانے خوف سے ڈر بھی جاتی ہے.مگر کسی کو اس کا احساس نہیں ہونے دیتی.بلکہ مستعدی سے سارے کام انجام دے رہی ہے.جملہ ذمہ داریوں کی نگراں بھی ہے.اور آج چوں کہ بارات کی روانگی ہے.اس لئے لمحہ بھر کو ان کے جسم میں سکون نہیں. کھانا تو دور کی بات شاید چائے پانی بھی پیا ہو.بس وہ لاڈلا کو سہرا میں سجا دیکھنا چاہتی ہے. ادھر لڑکی والوں نے بھی کسی اچھے ہوٹل کا انتظام کیا ہے جہاں نکاح کے بعد کھانے کی رسم ادا ہوگی اور لڑکی وہیں سے رخصت کردی جائے گی. اور یہ شادی کی رسمیں بھی عجیب ہیں.ابتداء تا انتہا خرافات ہی خرافات.بہت سے افراد اسے اچھا نہیں مانتے تاہم وہ ان رسوم سے آزاد بھی نہیں ہونا چاہتے.نتیجہ سامنے ہے.یہ بارات.یہ لاکھوں کا جہیز.کھانے میں فضول خرچیاں تو اس قدر کے کسی غریب کے گھر اس اخراجات سے مہینوں کا راشن پانی ہو جائے. بہر کیف!اب دلہن گھر آچکی ہے.گاؤں سماج سے دیکھنے والیوں کا تانتا ہے.کچھ تبصرے جہیز پر ہیں تو کچھ لڑکی والوں کے انتظام وانصرام پر.کوئی تعریف کے کلمے پڑھ رہا ہے تو کسی کی عادت ہی صرف نقص نکالنا ہے.اور ابھی یہ سارے ہنگامے ہفتہ دن تو چلیں گے ہی.پھر سارا کچھ معمول پر ہوگا. ماں کی طبیعت آج ناساز ہے مگر وہ اس کا اظہار نہیں کرتی.کہیں دور  سوچوں.میں گم ہے. خود سے باتیں کر  رہی ہیں: " میں دیکھ رہی ہوں جب سے  دلہن گھر میں آئی ہے بیٹا آفس بہت زیادہ ناغہ کرنے لگا ہے.ایسا ہوا تو ملازمت سے بھی ہاتھ دھونی پڑے گی...اور ہاں!پہلے سے رویے میں بھی بہت تبدیلی آئی ہے.پہلے آفس کے لئے گھر چھوڑتا تو سلام اور دعائیں لیتا..آتا تو ماں!ماں!کی پکار لگاتا گھر میں داخل ہوتا.اب تو جیسے ہفتوں کانیں "ماں"جیسے میٹھے اور انمول شَبد (بول)سننے کو ترس جاتی ہیں..مجھے تو کچھ اچھا نہیں لگتا.بس کبھی کبھار اگر اس کے من میں آیا تو رسمی مسکراہٹ لئے سامنے آجاتا ہے اور پھر چلاجاتا ہے.یہی تقریبا 6 ماہ سے شب و روز کا معمول ہے.میں کچھ کہہ بھی نہیں سکتی.ایک دن تو اس وقت حد ہوگئی جب آفس سے گھر پہنچتے ہی بَرَس پڑا.اور نہ جانے کن باتوں کو لے کر پورے گھر کو سر پر اٹھا لیا.میں خاموش رہی.چوں کہ میں جانتی ہوں. بچپن سے یہ تھوڑا سخت مزاج ہے اور کچھ میرے لاڈ نے بھی اسے بگاڑ دیا. اس لئے وہ جب اپنی ننھی زندگی میں بھی کسی ضد اور غصہ کا اظہار کرتا تو میں پیار سے سن لیتی. مگر وہ تو اس کا بچپنا تھا .اب تو وہ شعور والا ہے.کم سنی میں باتوں کی گرفت نہیں ہوتی. بڑا ہونے کے بعد تو ایک-ایک نقل وحرکت کی  نگرانی ہوتی ہے.اللہ بھی انسان کی طفولت کا خیال کرتے ہوئے اسے مرفوع القلم (یعنی اس کی غلطیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھی نہیں جاتیں)سمجھتا ہے.لیکن اب اس کے لفظ پر پہرہ ہے.اللہ کا رقیب مقرر ہے.وہ لکھتاہے.پھر کیوں اس نے ایسا کیا.خیر کیا کروں.اب تو صبر کے علاوہ کوئی دوسری راہ نہیں.اللہ سے اس کی سلامتی کی دعاء کرتی ہوں". اس کے علاوہ بیچاری ماں کربھی کیا سکتی ہے.رو رہی ہے ،بلک رہی ہے،آنکھیں پتھرائی ہوئی ہیں.چہرہ پژمردہ ہے. تنہا سسکیوں میں زندگی کے بچے ایام گزر رہے ہیں.اور لاڈلے صاحب ہیں کہ ان کو فرصت ہی نہیں.طبیعت کی ناسازی کا حال کون دریافت کرے.بہت ہوا تو سامنے سے مسکرا کر گزر گئے جیسے ماں کے احسان کا بوجھ اتار رہے ہوں.صبح ہوئی تو آفس چل دئے.شام گھر لوٹے تو بیوی بچوں میں مصروف ہیں.ہفتے کو چھٹی ملی تو دوست احباب کی آمد یا ان سے ملاقات کی رسم ادائیگی یا شادی بیاہ کی بناؤٹی رسمیں.ماں کی کون خیریت لیتا ہے.کھایا نہیں کھایا.عید کو ایک "ساٹن" کی ساری بابو صاحب نے لاکر دی تھی وہ سال بھر سے چل رہی ہے.بیوی بچوں کے پوشاک جیسے کپڑوں کا گودام ہو.شاید سال میں ایک بار بھی کسی کپڑے کی دوبارہ باری آتی ہوگی.موسم کافی سرد ہے.یوں بھی اس جاڑے میں اچھے اچھوں کی گرمی غبارہ ہوجاتی ہے اور وہ تو بوڑھی ہڈی ہے ٹھنڈک کا کپکپی والا احساس تو اسے اور بھی پریشان کرتا ہوگا.مگر کیا کرے! بس کسی طرح زندگی کاٹ لینا چاہتی ہے.وہی ایک 10 سال پرانی شال ہے جو شوہر صاحب نے اپنی حیات میں لاکر دی تھی اب تو ان کی وفات کو 2 سال گزر چکے ہیں.اور ایک سویٹر جو ان کا لاڈلا والد کی وفات کے بعد لایا تھا. بس!گُدریوں کا اوڑھنا ہے اور چارپائی پر پُوال ڈال کر اناج کی بوریاں بچھا لیتی ہیں.کھانے میں کبھی شاید ہی پہلے کھا لیا ہو.بھوک بھی لگی ہو تو مَن مارے بیٹھی ہیں کہ سب کھالے اور رُوکھا سُوکھا کچھ بچے تو ماں بھی کھالے. وہ اس دن کے بعد سے اور بھی ڈرنے لگی کہ ایک دن بہو کے مائیکہ سے کچھ مہمان آنے والے تھے اور اس موقع پر بہت سے پکوان کے ساتھ "شامی کباب" بھی تیار ہوا تھا.بہو نے اپنے ہاتھوں سے پکایا تھا.یوں عام دنوں میں وہ بہت کم ہی کھانا بنانے کا جوکھم اٹھاتی تھی.مگر آج اس نے بھائی اور بھابھی کی آمد پر کھانا تیار کیا تھا.شوہر نام دار کو سامان کی لمبی چوڑی فہرست تھمائی کے وہ نوکر کے معرفت یہ سامان بھیجوادیں.شوہر تابع دار نے بھی ویسا ہی کیا.اب لذیذ اور مُرَغَّن کھانا تیار تھا.اماں بیچاری کو کیا سوجھی.حالاں کہ اس سے قبل انہوں نے بہو کی آمد کے بعد ایسی جرأت نہیں دکھلائی تھی.تو ہو یوں کہ اماں نے شامی کباب میں سے تھوڑا چَکھ لیا کہ دیکھوں بہو نے کیسا بنایا ہے اور مہمان کی بھی آمد ہے.اب کیا تھا! ایک پوتا کی نظر اس چکھنے پر پڑ گئی .وہ بچہ ذات اسے کیا معلوم کہ نتیجہ کیا ہوگا.وہ ممی سے کہتا ہے:"مَمّی!مَمّی!میں نے ڈیکھا ڈاڈی ڈان ماموں ڈان کا کپاپ کھا لہی تھیں".ان باتوں کا سننا تھا کہ بہو پھٹ پڑیں: "کیا؟ان کو ذرا بھی صبر نہیں ہوتا.انہیں معلوم ہے کہ آج مائکے سے مہمان آنے والے ہیں.ایک تو پہلے ہی سے تھوڑا تھا.اور چھوٹا "احمد"بھی بہت پسند کرتا ہے.اور اس پر سے انہوں نے کھالیا.اب کتنا بچا ہی ہوگا.سارا کام بگاڑ دیا.اس عمر میں آکر لوگ نہ جانے کیوں بے صبر ہوجاتے ہیں". سو اب ماں اسی وقت کھاتی ہے جب سارے لوگ کھالئے ہوں.پھر ماں برتن دھل کر رکھ دیتی ہے. اور بستر پر کروٹیں بدلتے ان کے شب وروز کٹ جاتے ہیں.یہی روزانہ کا معمول ہے.نماز کا وقت ہوا نماز ادا کی. بہو کو تو ڈر سے جگاتی ہی نہیں کہ ان پر برس پڑے گی.صبح اٹھیں. نماز کی ادائیگی کے بعد تلاوت کیا.اور یہ بھی کھٹکا لگا ہے کہ بہو کے بیدار ہونے سے پہلے بچوں کے اسکول کا ٹفن تیار کرنا ہے.ورنہ بہو کی روز روز کی بڑبڑاہٹ:"ایک تو سارے دن بستر پر پڑے رہنا ہے. اتنا بھی نہیں ہوتا کہ بچوں کو اسکول کے لئے تیار کر دوں". اس طرح گھر کی "مالکن" ماں اپنے ہی گھر میں اب بہو کی"نوکرانی" ہے. اور ماں کا لاڈلا جیسے اس کو سانپ سونگھ گیا ہو.اطاعت و فرماں برداری کے سارے جذبے اب کتابوں کی لکھاوٹ ہیں.ماں کو ماضی کی یادیں ڈستی ہیں کہ بیٹا کے بڑے بڑے دعوے تھے:"ماں میں پڑھ لکھ کر جب بڑا ہو جاؤں گا تو یہ کروں گا اور وہ کروں گا".اب جب کہ وہ اچھی تنخواہ دار ہے تو ماں کا کچھ بھی خیال نہیں.وہ  ساری صعوبتوں کو بھول چکا جو اس کی ماں نے اس کی پرورش اور تعلیم وتربیت میں اٹھائیں.اب بس ایک ہی دھن ہے.دولت جمع کرنی ہے ،بچوں کی تعلیم ہے اور بیوی کی نازبرداریاں. یہ تعلیم یافتہ،اشراف اور مہذب ومثقف لوگوں کے سماج کا نقشہ ہے.جن کی اونچی دیواریں بظاہر بلند ہونے کا پتا دیتی ہیں مگر وہ حقیقت میں پست ہیں. رہی بات پچھڑے سماج کی تو وہ اس بات کو قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہیں کہ ماں کے حق میں ان کی کوتاہیاں کوتاہیاں بھی ہیں.ان کا کہنا یہ ہے کہ میرا تو اپنا ہی تن کھلا رہتا ہے.خود کا اور بچوں کا پیٹ بھی نہیں بھر سکتا تو ماں کو کہاں سے دوں.کیا ان کے جواب سے اتفاق کیا جاسکتا ہے؟؟؟ان کے یہاں بیوی اور بچوں کے حقوق وجوبی ہیں.اورماں کے لئے ان کی زیارت ہی کرلینا کافی ہے.یعنی:خالی ہاتھ مسکرا کر بے شرمی سے چلے جائیں،ان کا راشن پانی کھالیں اور ہاتھ سُکھا کر چلے آئیں.یہ ان لوگوں کا رویہ ہے جن کی مائیں اپنے اجداد کی زمین پر ہوتی ہیں اور اولاد ملازمت کے لئے اپنے گاؤں یا وطن سے دور اہل خانہ کے ساتھ. بہت ہوا یا کسی نے عار دلائی تو دو چار ماہ پر ہزار دو ہزار کسی کے معرفت بھیج دیا.یا وہ بھی ضروری نہیں سمجھا. کہاں ہے یہ طبقہ؟؟؟ کوئی ان سے اس کا جواز طلب کرے. یہ بات بالکل درست ہے کہ گھر بیٹھے کچھ بھی نہیں ہوتا. روزگار کے لئے ہاتھ پاؤں مارنا ہوگا.گھر کی دہلیز سے باہر نکلنا ہوگا.لیکن روزگار کا بہانہ بناکر کیا ماں کے حقوق سے چشم پوشی کی جاسکتی ہے؟کیا ماں کے حقوق یہی ہیں کہ کچھ بندھی رقمیں ماہانہ ڈاک سے لگا دی جائیں ؟ یہ میں نے کچھ زیادہ کہہ دیا. بلکہ دو چار ماہ پر کچھ رقمیں ارسال کردیں اور اپنی ذمہ داریوں سے مطمئن ہوگئے. کہاں گیا احسان؟ماں کے ساتھ حسن سلوک کیا اسی کا نام ہے؟ان کے لئے اپنے بازؤوں کو بچھادویہ اللہ کا حکم ہے.بہت ہی نادر ہے ایسی مثال ہمارے معاشرے میں جو اللہ کے فرمان کی عملی تفسیر پیش کرتی ہو.اس کے برعکس ماں کے ساتھ بدسلوکی سماج کی شناخت بن چکی ہے .ماں سے اونچی آواز میں کلام،بات-بات پر جِھڑکی، طعنے دینا اور برا بھلا کہنا یہ بہت ہی معمولی بات ہے.بلکہ نوبت تو یہ ہے کہ ہاتھ بھی اٹھانے میں تامل نہیں ہوتا اور مار پیٹ کرتے ہیں.یہ ہے ہمارا سماج جس میں ماں کی حالت یتیم ونادار اور بیواؤوں سے بھی بدتر ہے. استغفراللہ! جب کہ اللہ کا حکم ہے: "جب والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو". لعن طعن تو بڑے جرات کی بات ہے. معاشرہ میں ایک طبقہ ایسا بھی پایا گیا جو اپنی وسعت بھر ماں کے حق سے ادا ہوتے ہیں مگر ساتھ ہی وہ جتلانے سے بھی باز نہیں آتے.اور یہ عموما اس وقت دیکھا جاتا ہے جب کسی کو اللہ نے اولاد سے نوازا ہو.چناں چہ بھائی آپس میں ایک دوسرے کا منھ تکتے ہیں کہ ان کا بوجھ کون اٹھائے.بوجھ اس لئے کہ اولاد ماں کی دیکھ ریکھ اس نیت سے نہیں کرتی کہ اس پر ان کے اللہ کی جانب سے فرض حقوق ہیں.بلکہ سماج کا عار اور اس کا طعن اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ اس بوجھ سے بری ہوجائیں.کیا امید رکھی جائے ایسی خدمت سے. کیا یہی احسان ہے جس کا ذکر اللہ رب العالمین نے بطور وصیت کیا: "ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ سے متعلق نصیحت کی ہے،اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا،اور اس کی دودھ چھڑائی برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے والدین کی شکر گزاری کر،تم سب کو میری طرف لوٹ کر آناہے". (لقمان/14) اور صحیح بخاری اور مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا:لوگوں میں کون سب سے زیادہ میرے حسن سلوک کا مستحق ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تمہاری ماں".پھر پوچھا:پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"پھر تمہاری ماں".پھر پوچھا:پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پھرتمہاری ماں".پھر پوچھا:پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تمہارا باپ ". بلکہ بسااوقات ماں کی نافرمانی موت کے وقت کلمہ توحید کے اقرار سے روک دیتی ہے.جیسا کہ عبداللہ بن ابی اوفی کی مشہور روایت ہے کہ ایک شخص موت کے وقت کلمہ توحيد کا اقرار صرف اس وجہ سے نہیں کرپارہا تھا اور تکلیف میں تھا کہ وہ اپنی ماں کا نافرمان تھا،گرچہ وہ نمازی تھا.پھر جب اس کی ماں نے رضامندی ظاہر کی تو اسے کلمہ کی توفیق ملی. اللہ رب العزت کی اس وصیت اور نافرمانی کے انجام کو معلوم کرنے کے بعد بھی اگر کوئی معاشرہ اپنی ماؤوں کے حق میں بے حس ہوگا تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں کہ وہ اللہ تعالی کے حضور جواب دہ ہے.اور عجب نہیں کہ وہ دنیا ہی میں آلام ومصائب سے دوچار کیا جائے جیسا کہ عبداللہ بن ابو اوفی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں گزرا کہ وہ شخص کلمہ توحید کی ادائیگی سے محروم تھا جس نے ماں کی حکم عدولی کی. اخیر میں یہی کہ ماں کی عظیم ممتا کا کوئی مول نہیں.ماں کی بے پناہ محبت،9 ماہ شکم میں برداشت کرنے کی صعوبت اور پھر بعد ولادت رضاعت وطفولت سے سن شعور کا مرحلہ.اگر ایک ذی شعور اور زندہ شخص ان کی بے لوث قربانیوں پر غور کرے تو وہ تاحیات ان کا ایک وفادار اور متواضع غلام بن کر زندگی گزارے گا. اللہ ہماری ماؤوں کے درجات بلند کرے.ان کے سیئات مٹائے اور اس کا نعم البدل جنت الفردوس دے. ■■■■■■■■■■■■■■■■■ ملاحظہ:اس تحریر میں جملہ باتیں ماں کو سامنے رکھ کر کی گئی ہیں.اس لئے کہ ماں کا چہرہ اور اس کا مقام وفضل سماج میں سب سے بڑھا ہواہے.اور اللہ تعالی کے یہاں بھی ماں کا باپ کی نسبت کچھ الگ اور خاص مقام ہے. پھر یہ کہ باپ کے اندر بحیثیت مرد مشکلات کے مقابلہ کی قوت زیادہ ہوتی ہے اور وہ اولاد کی نافرمانی کے قلق کو بہت حد تک برداشت کرلیتا ہے.جب کہ ماں کے لئے یہ بات بڑی شاق ہوگی کہ اس کا وہ لاڈلا جسے اس نے اپنے بطن میں 9 ماہ رکھا،زچگی کی سخت تکلیف کو جھیلا،دودھ پلایا،اس کی ٹھنڈی گرمی کا خیال کیا اور پھر وہ نافرمان ہوگیا.

ليست هناك تعليقات: