الاثنين، يناير 26، 2015

جامعة امام ابن تيمية میں یوم جمہوریہ کی مناسبت سے مشاعرہ کا انعقاد



                                                               آصف تنویر تیمی

جامعہ امام ابن تیمیہ ہندوستان کا وہ دینی ادارہ ہے جس کی شہرت دنیا میں اس کے باکمال اساتذہ اور طلبہ سے ہے. یہاں کے طلبہ میں بیک وقت گونا گوں خوبیاں اور صلاحیتیں پائی جاتی ہیں.وہ عربی، اردو اور انگریزی زبانوں میں تقریر وتحریر کی مہارت رکہتے ہیں.زبان کی دونوں قسموں نثر ونظم پر انہیں عبور ہوتا ہے.ان کی تحریر میں آزاد کا عکس اور نظم میں غالب ومیر کی جہلک ہوتی ہے.وہ ابتدائی درجات سے ہی مثر ونظم گوئی کی مشاقی کرتے ہیں، انہیں اسٹیج فراہم کیا جاتا ہے، ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، ان کے بال وپر کو سنبہالا جاتا ہے.جامعہ میں "حلقہ ادب" اور مشاعرے کی تاریخ بڑی پرانی ہے، يہ "کیفی" کی یاد، "شکیل" کی کوشش اور "شیدا" کے شدت ذوق کی امین ہے.یہ حسین ماضی کی داستان اور صبح نو کی کرن ہے.ماضی کی تاریخ کو دہراتے ہوئے آج 26/جنوری 2015 ء کو جامعہ میں ایک شاندار مشاعرے کا انعقاد عمل میں آیا، جس کے محرک دو کہنہ مشق شاعر ایک استاذ اور دوسرے ان کے شاگر اس سے میری مراد جناب ماسٹر مشتاق احمد شیدا اور جناب ابراہیم سجاد تیمی ہیں، دونوں کی کوششوں سے آج کی رات سہانی ہوگئی. بہائی ذبیح اللہ تیمی نے بہی مشاعرہ میں خوب رنگ بہرا، اپنی خوبصورت نظامت کے ذریعہ سامعین کے ذہن ودماغ پر حاوی رہے.ابہرتے شعراء میں بہائی نسیم وسہیل نے بہی اپنے کلام سے سامعین کو خوب محظوظ کیا، غزل کی گہرائی میں جہانکتے دکہے، اس کے نشیب وفراز کا جائزہ لیا، خوب واہ واہی سے ان حضرات کے اشعار کا استقبال کیا گیا، اس کے علاوہ محفل مشاعرہ میں بعض دیگر حضرات بہی تہے، مولانا اشفاق سجاد سلفی(حفظہ اللہ) اور مولانا شجاعت حسین رحمانی نے بہی عربی واردو کے بعض اشعار پیش کیے. مجلس کی صدارت کی ذمہ داری بزرگ استاذ جناب ماسٹر مشتاق احمد شیدا نے انجام دی.کل ملا کر آج کی یہ ادبی نششت اپنے مقصد میں کامیاب رہی،واضح رہے کہ بعض طلبہ نے بہی اپنے کلام کے ساتہہ اس پروگرام میں شرکت کی.سچ بتاوں تو مزہ آگیا اپنے "سر" کے اشعار سن کر، ابراہیم بہائی کے اشعار کے بارے میں کیا کہنا تعلیق سے خالی ہیں،نام ہی کافی ہے.اللہ ہم سب کو حسن عمل کی توفیق بخشے. (آمین)

ليست هناك تعليقات: