الجمعة، يناير 30، 2015

ثبوت اور حجت کے بغیر کسی مسلمان کو کافر قرا دینے سے گریز کریں!


اردو قالب: شفاء اللہ الیاس
جامعہ امام ابن تیمیہ

۱-کسی فرد مسلم کو کا فرٹھرانے سے احتراز برتنا ضروری ہے, کیونکہ کسی ایسے مسلمان کو کافر کے زمرے میں شامل کرنا جس کے اندر کفر کا کوئی شائبہ نہ ہو, گناہ عظیم ہے, اس سلسلے میں امام بخاری اور مسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ سے ایک روایت نقل کیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس فرد بشر نے بھی اپنے بھائی کو کافر کہا, تو دونوں میں سے کسی کے ساتھ یہ تکفیر ثابت ہوجاتی ہے, اگر یہ صفت دوسرے کے اندر نہیں پائی جاتی تو قائل اس صفت سے ضرور متصف ہوجاتا ہے"
 امام ابن حبان نے اپنے صحیح اور امام بخاری نے " التاریخ الکبیر" میں ایک دوسری حدیث حضرت حذیفہ سے روایت کیا ہے جس کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں پر مجھے اس شخص کا زیادہ خوف ہے جو تلاوت قرآن کا اتنا خوگر ہو کہ اس کا جمال اس کے اوپر عیاں ہو, لیکن وہ اسلام کو سمجھنے میں غلط فہمی کا شکار ہواور اس کے  درست مفہوم سے بہت دور بھٹک رہا ہو,نتیجتا اسلام سے بھی دور ہوجائے اور اسلام کے سچی تعلیمات کو پس پشت ڈالکر اپنے پڑوسی کو شرک کا مرتکب قراردیدے اور اس کے خلاف تلوار سونت لے, حضرت حذیفہ کہتے ہیں :میں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول ! ان میں سے کون زیادہ شرک کے قریب ہوگا؟ وہ شخص جس کے اوپر شرک کا الزام لگایا گیا, یا وہ شخص جس نے شرک کا الزام لگایا؟  جواب عرض ہوا : الزام تراشنے والا ہی سب سے زیادہ شرک کا حقدرا ٹھریگا"(بہ تحسین علامہ البانی)
۲-یہ شدت وسختی ایسے شخص کے باے میں ہے جو اپنے مسلم بھائی کے حق میں صفت کفرکو ثابت کرے جبکہ وہ اس سے بالکل ہی پاک صاف ہو, اور جرأت تکفیر کے لئے اس کے پاس شرعی دلیل اور بین ثبوت بھی نہ ہو, لیکن اگر کوئی مسلمان ایسے شخص پر کفر وشرک کا حکم لگاتا ہے جو واقعی کافر اورمشرک ہے, اور اسکا کفر واضح بھی ہے, تو اس کے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے, کیونکہ اس نے مشرک شخص کو ایسی صفت سے متصف کیا ہے جس کا وہ حقدار ہے,حدیث رسول کے الفاظ بھی یہی بتاتے ہیں" فإن کان کما قال وإلا رجعت علیہ" جس سے یہ مطلب واضح طور پر سمجھ میـں آتا ہے کہ اہل شرک وکفر کو کافر اور مشرک ٹھرانے میں کوئی قباحت اور شرعی ممانعت نہیں ہے,کیونکہ کفر کو واجب ٹھرانے والی جو صفات اسلام میں بتائی گئی ہیں, وہ ایسے لوگوں میں بدرجئہ اتم پائی جاتی ہیں,جن کے سبب انہیں کافر اور مشرک کہنے والے شخص پر کسی قسم کی شرعی گرفت کا جواز نہیں بنتا,شیخ ابن باز رقم طراز ہیں: جس شخص کے اندر کفریہ یا شرکیہ اعمال موجود نہیں, اس کے اوپر تکفیر کا حکم لگانا شرعی زاوئے سے درست اور جائز نہیں, ہاں اگرکفریہ یا شرکیہ صفات اس کے اندر پائی جائیں تو کفر وشرک سے اسے موصوف کرنا قابل اعتراض نہیں, اور نہ ایسا کہنے کرنے والے کے اوپر کو ئی سرزنش ہے(فتاوی نور علی الدرب)
مذکورہ حدیث کے اندر  "خوارج" کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جنہوں نے مسلمانوں کو کافر ٹھرانے کی بدعت ایجاد کرکے امت میں تکفیر کا دروازہ کھولا, ان کا ماننا ہے کہ جو کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہیں,اور جو معاصی میں مبتلا ہیں,وہ در اصل کفر کر رہے ہیں, اسی غلط فکر اور بے بنیاد عقیدہ کی وجہ سے ایسے گنہگار لوگوں کا قتل تک ان کے نزدیک مباح ہے, ان کے اس باطل عقیدہ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ صنم پرست کو چھوڑ کر اللہ اور رسول اللہ کے اقراری گنہگاروں سے قتال وجدال جائز اور روا ہے_
۳-شرعی دلیل پائے جانے سے پہلے ہی کسی مسلمان کو اس کے ظاہری عمل کی بنیاد پر کافر کے صف میں شمار کرنا شرعی تعلیمات کی روشنی میں جائز نہیں, اس سلسلے میں شیخ ابن عثیمین لکھتے ہیں کہ بغیر حجت قائم  کئے کسی انسان پرکفر کا حکم ثبت کرنا اسلام کی نگاہ میں درست نہیں, کونکہ اللہ کا فرمان ہے" وأوحی إلی ھذا القرآن لأنذرکم بہ ومن بلغ" نیز اللہ کا ارشاد ہے "وما كان ربك مهلك القرى حتى يبعث في أمها رسولا يتلو عليهم آياتنا وما كنا مهلكي القرى إلا وأهلها ظالمون " مطلب یہ کہ انبیاء ورسل اور آسمانی کتابوں کے نزول کا اصل مقصد انسانوں پر حجت قائم کرنا اور انہیں حقیقی علم سے روشناس کرانا ہی تھا, تاکہ بغیر دلیل اور ثبوت وحجت کے کسی کو کافر ٹہرانے اور اسے عذاب میں مبتلا کرنے کا جواز باقی نہ رہے_
شیخ مزید لکھتے ہیں : کفریہ اعمال کے صدور اور اس سلسلے میں دلیل اور حجت ثابت ہونے سے قبل کسی شخص معین کو کافر ٹھرانا روا اور جائز نہیں_(فتاوی نور علی الدرب)
کسی فرد مسلم پر کفر وفسق کا حکم لگانے سے قبل دو چیزوں کالحاظ رکھنا ضروری ہے:
۱-جو فعل انجام دیا جارہا اور جو بات کہی جارہی ہے,دونوں شرعی دلیل کی روشنی میں کفر اور فسق کو واجب قرار دینے والے اعمال میں سے ہیں یا نہیں_
۲-تکفیر کا حکم اسی حالت میں جائز ہو سکتا ہے جبکہ کفر اور فسق کو واجب قرار جینے والی تما شرطیں اس کےحق میں ثابت ہورہی ہوں  اور کفر وفسق کی نفی کرنے والی ہر قسم کی ممانعت مفقود اور غیر موجود ہوں_
تکفیر کے اہم شروط:
۱-وہ شخص اس شریعت مخالف قول وعمل سے باخبر ہو جس کے سبب اس کا فسق اور کفر ثابت ہورہا ہے
۲-بغیر کسی قصد وارادہ کے اگر وہ کسی ایسے عمل کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے جس سے کفر ثابت ہوتا ہے,  تو اسے کافر نہیں قرار دیا جاسکتا, کیونکہ یہ تکفیر کے موانع(روکنے والی چیزوں) میں سے ہے_
۳-تکفیر کے موانع میں یہ بھی ہے کہ انسان کے اندر درست تاویل کرنے کی قابلیت ہو, اس کے اندر بعض ایسے شبہات پائے جاتے ہوں جو شریعت کی حقیقی دلیل کو سمجھنے اور شرعی حجت کے صحیح مفہوم تک پھنچنے کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہوں_
ایسے مقام پر یہ بات زیادہ اہم اور سنگین بات یہ ہے کہ شخص معین جو کسی غلطی,نادانی, جہالت, تاویل مباح  یا ان جیسی دوسری عذر کے سبب معذوربھی ہو سکتا ہے,کی تکفیر سے بچنے کا مطلب یہ ہے گز نہیں کہ  اس طرح کے قول وعمل ہی کو بنفس نفیس کفر وشرک کی صفت سے پاک صاف مان لیا جائے, بلکہ ایسے اعمال کا شرک قرارپانا حکم الہی سے ثابت ہو چکا ہے, یہی اس سلسلے میں زیادہ اہم ہے او راس باب میں یہی مطلوب بھی, بطور خاص ایسے وقت میں جب جہالت ونادانی سرچڑھ کر بول رہی ہو, اعتقادی کمزوریاں رواج پارہی ہوں, اور اس سلسے میں ثبوت و حجت کی ضرورت تک محسوس نہ کی جاتی ہو اور بسا اوقات ایسے افعال واقوال کے مرتکبین کى حالات کو حقیقت سے زیادہ نظریاتی طور پر لیاجارہا ہو_

زمان ومکان کی تفریق سے اوپر اٹھ کر دعوت کی راہ میں سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت کے خلاف جو بھی اعمال ہیں, انکی تفصیل اور توضیح پیش کی جائے اورشریعت کو ہی اعمال واقوال کو پرکھنے کا میزان مانا جائے تاکہ کوئی بھی انسان اس قسم کا کوئی بھی کام انجام دینے کی جسارت نہ کرسکے اور ان سے گریزاں رہے_

ليست هناك تعليقات: